پاکستان کی بڑی کار مینوفیکچرنگ کمپنیز نے گاڑیوں کی بکنگ بند کر دی،وجہ کیا؟

Doorstep-Vehicle-Registration.jpg


پاکستان کی 2 بڑی کار ساز کمپنیوں نے اپنی متعدد آٹومیٹک ٹرانسمیشن گاڑیوں کی بکنگ بند کردی۔ پاک سوزوکی نے کلٹس آٹو میٹک ویرینٹ اور آلٹو وی ایکس ایل جبکہ کیا لکی موٹرز نے پکانٹو کے آٹومیٹک ویرینٹ کی بکنگ بند کر دی ہے۔ اس کی وجہ سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی کو قرار دیا جارہا ہے۔

گاڑیوں کی صنعت سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال اس فہرست میں "سوزوکی" اور "کیا" ہیں تاہم آنے والے مہینوں میں تمام کمپنیوں کو اس مسئلے کا سامنا ہوگا، سیمی کنڈکٹر چپ کی کمی عالمی مسئلہ ہے، پاکستان تک اس کے اثرات کچھ دیر سے پہنچے ہیں۔ کمپنیاں چاہے وہ جاپانی ہوں، کورین یا چینی نے تسلیم کیا ہے کہ وہ دیگر سامان کی سپلائی کے علاوہ سیمی کنڈکٹر کی کمی کا سامنا کر رہی ہیں۔

2-10.jpg


نجی خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں کمپنیز نے تصدیق کی ہے کہ کمپنی کی پروڈکشن سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی سے متاثر ہو رہی ہے اور وہ اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کے باعث کاروں کی اوون منی میں اس حد تک اضافہ ہوگیا کہ کچھ کاریں اپنی اصل قیمت سے 10 لاکھ روپے زیادہ میں فروخت ہو رہی ہیں۔

آٹو سیکٹر سے منسلک کاروباری شخصیت شکیب خان کا کہنا ہے کہ اگر سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی کا مسئلہ برقرار رہا تو تمام کمپنیاں متاثر ہوں گی، تمام کاروں میں اب ای ایف آئی انجن اور اے بی ایس بریک ہیں اور اس لئے تمام کاریں سیمی کنڈکٹر چپس پر انحصار کرتی تھیں۔ ایک مینوئل گاڑی کو ان میں استعمال ہونیوالی چپس کی کم تعداد کی ضرورت پڑسکتی ہے جبکہ خودکار اقسام کی گاڑیوں کو زیادہ چپس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آٹو میٹک کاروں کی بکنگ معطل کردی گئی ہے۔

سیمی کنڈکٹر چپس کی کمی کی وجہ کورونا وائرس کی وجہ بدلتا ہوا کاروباری رجحان بنا کیونکہ چپس تیار کرنیوالی کمپنیوں نے ٹیک انڈسٹری سے آنیوالی طلب کو پورا کرنے کیلئے اپنی توانائیاں اس جانب موڑ دیں، خاص طور پر لیپ ٹاپ، موبائل فون اور ویب کیم بنانے کے شعبے کی طرف، کیونکہ لوگوں کو کام کیلئے گھروں تک محدود کردیا گیا تھا۔
 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
پاکستان ٹیکس فری ملک ہے یہاں کوی تاجر ٹیکس نہیں دیتا اور ٹیکس چوری کرنے کیلئے اپنی رقوم گھروں میں، گدوں میں اور شاپروں میں جمع کی ہوتی ہیں، اسی لئے دس لاکھ کی کار پاکستان میں پچیس لاکھ کی بک رہی ہے مگر انہیں کوی پرواہ نہیں شاپر سے پیسے نکالتے ہین اور کار خرید لیتے ہیں بلکہ خوش ہوتے ہیں کہ نوٹ رکھنا رسکی ہوتا ہے اس کے بدلے کچھ خرید لیا اگلے تین ماہ میں پھر اتنی ہی رقم جمع ہوچکی ہوگی
پاکستان میں اگر صارف تین گنا قیمت پر کاریں خرید کر زرمبادلہ کار کمپنیز کو دے رہے ہیں تو یہ چوری کا پیسہ پئ کوی ٹیکسی تو اتنی مہنگی چلانے سے رہا؟ مگر اس سارے پراسیس سے ملکی خزانے کو کوی فائدہ نہیں ہورہا ہاں دولت باہر جارہی ہے