پی ٹی آئی لانگ مارچ، سپریم کورٹ کا جلسے کیلئے متبادل جگہ دینے کا حکم

supreme-corut-imran-khan-sppp.jpg


سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے باعث راستوں کی بندش اور چھاپوں کیخلاف کیس میں چیف کمشنر کو پی ٹی آئی جلسے کے لیے متبادل جگہ فراہم کر کے رپورٹ کرنے کا کہہ دیا۔

جیو نیوز کے مطابق جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سپریم کورٹ میں عمران خان کے لانگ مارچ کے باعث راستوں کی بندش اور چھاپوں کیخلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے ریمارکس میں چیف کمشنر کو حکم دیا کہ پلان ترتیب کرکے لائیں کہ جلسہ کہاں ہوگا اور ٹریفک پلان کیا ہوگا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پی ٹی آئی کو متبادل جگہ کی پیش کش کریں اور اس پر مذاکرات کے بعد عدالت کو آگاہ کریں۔ کیس کی سماعت میں طلبی کے بعد آئی جی اسلام آباد بھی سپریم کورٹ میں پیش ہوئے، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ سیکریٹری داخلہ اور آئی جی اسلام آباد اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کیا کہ آئی جی صاحب آپ 4 دن پہلے تعینات ہوئے، آپ پر پہلے ہی بہت کیسز اور الزامات کا بوجھ ہے، اپنے آپ میں رہیں، اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور پوری کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سب کا تحفظ کرنا ہے، کوئی کہیں بھی ہو، پاکستان ادھر ہی ہے، اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خطرہ ہے تو ہمیں نام بتائیں،حفاظتی حکم دیں گے۔ ملک ہے تو ہم ہیں، آپس کی لڑائیوں میں شہریوں کو مشکل میں مت ڈالیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے سے کیا ہوتا ہے؟ حکومت کو سری نگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟

سماعت کے دوران صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار نے کہا کہ ایک سڑک بند ہونے سے بچانے کیلئے پورا ملک بند کر دیا گیا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔

جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا تھا کہ سیکریٹری داخلہ صاحب جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اسکی ذمہ داری لیتے ہیں؟ کیا وزارت داخلہ صرف ڈاکخانے کا کام کرتی ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا وزارت داخلہ نے کوئی پالیسی ہدایات جاری کی ہیں؟

سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ لا اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے۔ وفاقی سیکریٹری داخلہ نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا، جسٹس اعجازالاحسن کا سوال کیا کہ سیکیورٹی تھریٹ کی رپورٹ کس نے دی ہے؟ سیکرٹری داخلہ نے بتایا کہ دو انٹیلیجنس ایجنسیوں اور نیکٹا نے سیکیورٹی تھریٹ رپورٹ دی ہے۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ ایسا پلان دیں کہ مظاہرین پرامن طریقے سے آئیں اور احتجاج کے بعد گھروں کو لوٹ جائیں، عدالت کو یقین دہانی کرائیں کہ تشدد نہیں ہو گا اور راستے بھی بند نہیں ہوں گے، سب بہاریں پاکستان کی وجہ سے ہیں۔

سماعت میں 2:30 بجے تک کا وقفہ ہوا۔ سماعت میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کو حکومت سے ہدایت لینے کی اجازت دی، سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کرلیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟ اسلام اباد میں تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ، اسکول اور ٹرانسپورٹ بند ہے، معاشی لحاظ سے ملک نازک دور اور دیوالیہ ہونے کے درپے ہے۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا، اسکولوں کی بندش اور امتحانات ملتوی ہونے کے سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہوئے ہیں۔ عدالت نے سیکریٹری داخلہ، چیف کمشنر، کمشنر اور آئی جی اسلام آباد، وفاقی اور صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی بلالیا۔
 

umer amin

Minister (2k+ posts)
batain chudwa lo jitni marzi in judges say.....kehtay hain raaat ko chapay marnsay say kya hota hay or adalat band....bhosri walay.