انسانی تاریخ کے وہ بھی کیسے حسین لمحات ہونگے جب پاکستان آہستہ آہستہ خواب سے حقیقت کا روب دھارنے جارہا ہوگا. اس خواب کو تعبیر ملنے کے دن جیسے جیسے قریب آرہے ہونگے دلوں کی کیفیت بھی ناقابل بیان ہوگی۔ آزادی کی یہ ناقابل فراموش. تاریخ اپنے پیچھے قربانی کی ایسی ایسی لازوال داستانیں رقم کر کے آگے بڑھ رہی تھی جن کو سنکر سننے والوں کے اوپر لرزہ طاری ہوجائے انکے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ . سنانے والے کی زبان اسکا ساتھ نہ دے تو سننے والے کا دل پے سکتہ طاری ہوجاے۔ ان تکلیف دہ اور صبر آزما واقعات کو سنکر دل پھٹ نہ جاتا ہو، جنکو سنانے والا بھی شدت غم سے رورہا ہو تو سننے والے کو بھی اپنے دل پر قابو نہیں اسکی آنکھوں سے بھی لڑیاں جاری ہیں.. سوچتا ہوں کے ان سب مصیبتوں اور آزمائشوں کے بعد وہ مسکراہٹ کتنی حقیقی ، کتنی مطمئن اور حسین ہوگی، خوشی کے وہ پرتشکر آنسو کتنے قیمتی ہونگے. کاش کے میں ان خوبصورت ان بیش بہا قیمتی موتیوں کو کہیں محفوظ کرلیتا، شکر کے ان احساسات کو کہیں قید کر لیتا. دیر تک بیٹھا ان لوگوں سے باتیں کرتا، انکے چہروں سے گرد صاف کرتا، انکے ہاتھ، پیر دھوتا، انکو بوسہ دیتا ان کو گلے سے لگاتا. ان سب خوبصورت لوگوں کو ان کی محبتوں کو .ان کی قربانیوں کو میں نے، آپ نے ہم سب نے اپنے دلوں میں محفوظ کرلیا ہے. وہ آج بھی ہماری دعاؤں میں شامل ہیں اور کل بھی ہماری دعاؤں کا حصہ ہونگے.
وہ وقت جب مشرق میں پاکستان کا سورج طلوع ہورہا تھا تو انگلستان کا مشرق میں غروب. وہ بھی مشرق سے ابھرتے ہوۓ سورج کو دیکھ رہا تھا. دنیا کے نقشہ پر ایک نیا ملک نمودار ہورہا تھا جسکا نام پاکستان ہے۔ وہ چودہ اگست جو ہماری تاریخ کاسب سے بہترین دن، جو سب سے خوبصورت تو سب سے سنہرا دن ہے۔ یہ وہ دن جب سورج پوری آب و تاب کے ساتھ طلوع ہورہا تھا. جس کی چمک سے چہرے روشن تو دل شاد ہیں تو. جو آج بھی اسکی محبت سے سر شار ہیں تو انشااللہ کل بھی اسکی محبت میں گرفتار یہ دل دھڑکتے رہیں گے. چودہ اگست وہ یاد گار تاریخ جس دن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ میں سوچتا ہوں کے پاکستان کا قیام کیوں ظہور پذیر نہ ہوتا؟ اسکو بنانے والے، اسکا خواب دیکھنے والے اور اسکو تعبیر دینے والے کوئی عام لوگ نہیں بلکہ یہ الله کے وہ خاص بندے تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں. یہ وہ عظیم نڈر قیادت تھی جو نہ بک سکتے تھے نہ خریدے جاسکتے تھے. یہ وہ لوگ تھے جو منزل کے حصول کے لئے سر تو کٹا سکتے تھے لیکن سر جھکا نہی سکتے تھے. آزادی کی تحریک میں ایسے بیشمار گمنام ہیروز بھی پاکستان بننے کی جدوجہد میں شامل تھے. جو تاریخ کی کتابوں میں تو شاید جگہ نہ پا سکے. لیکن جب کبھی بھی ایسے گمنام ہیروز کی داستان سننے کو ملتی ہے تو دل پسیج جاتا ہے اور آنکھوں سے پانی روکنا مشکل ہوجاتا ہے.
آزاد سانسیں کیا ہیں؟ آزادی اس احساس کا نام ہے جو آپکو آپکے وجود کو کسی بھی قسم کی غلامی سے آزادی کا احساس دلاتا ہے. آپکو احساس دلاتا ہیکہ آپ بیخوفی سے اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا سکتے ہیں. رات کے اندھیرے میں بھی روشنی کا احساس ہونا بھی دراصل آزاد فضا میں سانسیں لینے کی ہی وجہ سے ممکن ہے. یہ آزاد سانسیں ہی ہیں جو آپ کو نڈر، بیخوف اور آپ کے یقین کو پختہ کرتی ہیں کے آپ آزاد ہیں. کچھ لوگ ہیں جو سرحدوں پر ڈیوٹی دیکرمیری اور آپکی آزادی کو میری اور آپکی آزاد سانسوں کو یقینی بناتے ہیں. ہم خوش قسمت ہیں کے ایک آزاد وطن میں آزاد سانسیں لے رہے ہیں. دنیا میں لاکھوں لوگ آج بھی آزاد فضاؤں میں آزادی سے سانس لینے کے محتاج ہیں. جن لوگوں نے ابھی کچھ عرصہ پہلے ہیں اپنی آزادی کھوئی ہے وہ جانتے ہیں کے آزاد سانسیں کیا ہوتی ہیں. جو اپنی فوج کو کمزور کرتے ہیں وہ دراصل اپنی سانسوں کو غلام اور ہماری سانسوں کو کمزور کرتے ہیں.
آج ہم بہت پرجوش ہیں تو پرزور بھی تو بہت خوش بھی ہیں اور خوشی کی یہ ایسی کیفیت ہے جسکو آپ اپنے پورے وجود میں محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتے جو آپکو اپنے پورے وجود میں تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جو آپ کے چہرے پر بخوبی دیکھی بھی جاسکتی ہے اور پڑھی بھی جاسکتی ہے. جو کے بچوں کے چہروں پر دیدنی ہے تو جوانوں کے چہروں پر جوشیلی اور بڑوں کے چہروں پر قابل دید ہے تو پرتشکر بھی۔ آج جب آپ پاکستان سے اپنی والہانہ محبت کے اظہار کے لئے نکلیں پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعروں سے اپنے اور اپنے پیاروں کے خون کو گرمائیں. تو شور ضرور مچائیگا لیکن خیال رکھئیےگا کے اس شور کی آواز میں شکر کی آواز نہ دب جائے. بلکہ آپ کے شور میں شکر کا پہلو بھی نمایاں ہونا چاہئے کے آزادی کی یہ سانسیں ہمیشہ شکر کی محتاج ہیں جشن بھی منائیے بلکہ دل کھول کر بناییں لیکن اس جشن میں پاکستان کے مشن کو بھی آگے بڑھایئے. جشن میں ہمارا مشن سب سے اور سب سے پہلے پاکستان. آزادی کی ان سانسوں کے لئے شکریہ افواج پاکستان اور شکریہ پاکستان مت بھولیے گا.
پاکستان پائندہ باد
تحریر
محمد عارف انصاری.