آگے آتی تھی حال دل پر ہنسی
-----------------------------
شاید بہت سوں کو یہ خبر عام لگے مگر ہے غیرمعمولی
شمالی یورپ کے ایک ملک فن لینڈ میں پولیس اس بات کی تفتیش کرے گی کہ 35 سالہ خاتون وزیراعظم ثنا مارین نے اپنی صرف شدہ رقم واپسی کا تقاضا کرکے قانونی اختیارات سے تجاوز تو نہیں کیا
عیاشی نما روداد سن لیجیۓ جس کا وزیراعظم پر الزام ہے
احوال کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری رہائش گاہ پر ناشتے کا اہتمام اپنی جیب سے کیا جس کی کل ماہانہ رقم 300 یورو بنتی ہے (جو فن لینڈ میں ایک سرکاری سکول کے استاد کی اوسط ماہانہ تنخواہ کا قریب 10 فیصد ہے)- وزیراعظم نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوۓ اس رقم کی وصولی کے لیے درخواست لکھی تو اپوزیشن نے ان پر مالی فوائد سمیٹنے کا الزام دھر دیا- میڈیا میں خبر چپھی تو پولیس حرکت میں آئی اور باقاعدہ تحقیقات کا اعلان کردیا
حکومت واپوزیشن دونوں جانتے ہیں کہ بات 300 یورو کی نہیں، اخلاقی اصولوں، قانونی ضابطوں، اور گڈ گورننس کی ہے- جمہوری نظام کی بنیاد ہی خود احتسابی اور آئین وقانون پر سختی سے عمل کرنے میں ہے- اگر خود احتسابی اور قانون کی حکمرانی جمہوری معاشرے سے نکل جاۓ تو پھر وہ جمہوریت تو نہیں مگر اس کی کوئی مسخ شدہ شکل ہی رہ جاتی ہوگی
آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے ہاں ایک تین بار کے منتخب وزیراعظم کو جب عہدے سے الگ کیا گیا تو موصوف نے اپنے درباریوں میں بیٹھ کر کیا ارشاد فرمایا تھا
-" میرے اثاثے اگر میری آمدن سے زائد ہیں تو تمہیں کیا؟"!
جس شخص کی پہچان ہی اس کے ووٹروں اور چاہنے والوں میں یہ ہو کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے تو ایسے (حکمران) کردار سے احتساب اور عوامی ٹیکس کے پیسوں میں شفافیت کی امید رکھنا نری بےوقوفی ہی ہوگی
خیر، ان بحثوں کی اتنی بار تکرار ہوچکی ہے کہ اب یہ اپنا اثر بھی کھونے لگی ہیں- بقول غالب کے
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
-----------------------------
شاید بہت سوں کو یہ خبر عام لگے مگر ہے غیرمعمولی
شمالی یورپ کے ایک ملک فن لینڈ میں پولیس اس بات کی تفتیش کرے گی کہ 35 سالہ خاتون وزیراعظم ثنا مارین نے اپنی صرف شدہ رقم واپسی کا تقاضا کرکے قانونی اختیارات سے تجاوز تو نہیں کیا
عیاشی نما روداد سن لیجیۓ جس کا وزیراعظم پر الزام ہے
احوال کچھ یوں ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری رہائش گاہ پر ناشتے کا اہتمام اپنی جیب سے کیا جس کی کل ماہانہ رقم 300 یورو بنتی ہے (جو فن لینڈ میں ایک سرکاری سکول کے استاد کی اوسط ماہانہ تنخواہ کا قریب 10 فیصد ہے)- وزیراعظم نے اپنا قانونی حق استعمال کرتے ہوۓ اس رقم کی وصولی کے لیے درخواست لکھی تو اپوزیشن نے ان پر مالی فوائد سمیٹنے کا الزام دھر دیا- میڈیا میں خبر چپھی تو پولیس حرکت میں آئی اور باقاعدہ تحقیقات کا اعلان کردیا
حکومت واپوزیشن دونوں جانتے ہیں کہ بات 300 یورو کی نہیں، اخلاقی اصولوں، قانونی ضابطوں، اور گڈ گورننس کی ہے- جمہوری نظام کی بنیاد ہی خود احتسابی اور آئین وقانون پر سختی سے عمل کرنے میں ہے- اگر خود احتسابی اور قانون کی حکمرانی جمہوری معاشرے سے نکل جاۓ تو پھر وہ جمہوریت تو نہیں مگر اس کی کوئی مسخ شدہ شکل ہی رہ جاتی ہوگی
آپ کو یاد ہوگا کہ ہمارے ہاں ایک تین بار کے منتخب وزیراعظم کو جب عہدے سے الگ کیا گیا تو موصوف نے اپنے درباریوں میں بیٹھ کر کیا ارشاد فرمایا تھا
-" میرے اثاثے اگر میری آمدن سے زائد ہیں تو تمہیں کیا؟"!
جس شخص کی پہچان ہی اس کے ووٹروں اور چاہنے والوں میں یہ ہو کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے تو ایسے (حکمران) کردار سے احتساب اور عوامی ٹیکس کے پیسوں میں شفافیت کی امید رکھنا نری بےوقوفی ہی ہوگی
خیر، ان بحثوں کی اتنی بار تکرار ہوچکی ہے کہ اب یہ اپنا اثر بھی کھونے لگی ہیں- بقول غالب کے
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی