اب شرمائیں بھی تو کس سے کس سے پردہ کریں
مرد کا لباس ، اسکا لہجہ، انداز تکلم ، چال ڈھال اور رعب ہی اسکی پہچان ہوا کرتا تھا ، بولے تو بادل کے گرجنے کا گمان ہو، چلے تو گھڑ سوار لگے، جسم کہ فولاد کا پہاڑ، غیرت، شرم اور حیاء کا پیکر.
ناصر علی، گاما پہلوان، بادشاہ پہلوان، بھولا پہلوان ، اسلم پہلوان یہی تھے مردوں کی پہچان
ایک زمانہ تھا جب عورت کا دوپٹہ اسکی پہچان تھا، ننگا سر بیشرمی کی علامت سمجا جاتا تھا اور مرد ہمشہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا اپنی توہین سمجتا تھا ، یا یوں کہ لیں اپنے آپ کو بیشرم سمجتا تھا
عورتیں اگر کسی اجنبی کو دیکھتی حتہ کہ کسی چلتی گاڑی کو دیکھتی تو اپنا منہ پھیر لیتی تھیں
پھر کیا ہوا ، تہذیب کی جگہ فیشن نے لے لی، لڑکیوں نے جینز اور ٹائٹ پہننا شرع کیا ، دوپٹہ سر سے اتر کے گلے میں آیا اور اب آہستہ آہستہ قمر تک جا پہنچا ہے ، میرا جسم میری مرضی ....
خیر فیشن تو عورت کی مجبوری تھی، ہے اور شاید رہے گی ، میرے اقبال کے شاہین وا جی وا
ایک نئے دور کا آغاز ہوا، کیٹ واک شروع ہوئی ، لڑکے نے قالین اور عورت نے پردہ پہن کے واک کی ، اسکے بھائی خان بہادر نے تالیاں بجا کر اسے داد کی، بلکہ اسکے دوستوں نے بھی، پوری دنیا نے
قصہ مختصر ، اصل مسلہ..
آج کل ایک نیا ٹرینٹ ہے، لڑکے بیہودہ سی کٹنگ کروائیں گے، پھٹی جینز، گلے میں ہار، پاؤں میں پائل اور لہجہ ہاے میں مر جاؤں... میرا شونا....
اگر کسی یونیورسٹی میں اتفاق سے چلے جائیں لڑکیوں میں کھڑا اکیلا خان بہادر اپ پہچان نہیں سکیں گے کہ لڑکی کون ہے اور لڑکا ......
اب لڑکیاں بیچاری شرمائیں بھی تو کس سے ، کوئی چیز بچی نہیں شرمانے کے لیے ، خوب جپھی ڈالتی ہے، اٹلیسٹ یو آر مائی فرینڈ ....
شکل سے لے کر ہر چیز تو ایک جیسی ہے ، شرمانا بنتا بھی تو نہیں ہے اوپر سے وقت کی ضرورت بھی ہے
الله اس محاشرے پر رحم کرے
مرد کا لباس ، اسکا لہجہ، انداز تکلم ، چال ڈھال اور رعب ہی اسکی پہچان ہوا کرتا تھا ، بولے تو بادل کے گرجنے کا گمان ہو، چلے تو گھڑ سوار لگے، جسم کہ فولاد کا پہاڑ، غیرت، شرم اور حیاء کا پیکر.
ناصر علی، گاما پہلوان، بادشاہ پہلوان، بھولا پہلوان ، اسلم پہلوان یہی تھے مردوں کی پہچان
ایک زمانہ تھا جب عورت کا دوپٹہ اسکی پہچان تھا، ننگا سر بیشرمی کی علامت سمجا جاتا تھا اور مرد ہمشہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا اپنی توہین سمجتا تھا ، یا یوں کہ لیں اپنے آپ کو بیشرم سمجتا تھا
عورتیں اگر کسی اجنبی کو دیکھتی حتہ کہ کسی چلتی گاڑی کو دیکھتی تو اپنا منہ پھیر لیتی تھیں
پھر کیا ہوا ، تہذیب کی جگہ فیشن نے لے لی، لڑکیوں نے جینز اور ٹائٹ پہننا شرع کیا ، دوپٹہ سر سے اتر کے گلے میں آیا اور اب آہستہ آہستہ قمر تک جا پہنچا ہے ، میرا جسم میری مرضی ....
خیر فیشن تو عورت کی مجبوری تھی، ہے اور شاید رہے گی ، میرے اقبال کے شاہین وا جی وا
ایک نئے دور کا آغاز ہوا، کیٹ واک شروع ہوئی ، لڑکے نے قالین اور عورت نے پردہ پہن کے واک کی ، اسکے بھائی خان بہادر نے تالیاں بجا کر اسے داد کی، بلکہ اسکے دوستوں نے بھی، پوری دنیا نے
قصہ مختصر ، اصل مسلہ..
آج کل ایک نیا ٹرینٹ ہے، لڑکے بیہودہ سی کٹنگ کروائیں گے، پھٹی جینز، گلے میں ہار، پاؤں میں پائل اور لہجہ ہاے میں مر جاؤں... میرا شونا....
اگر کسی یونیورسٹی میں اتفاق سے چلے جائیں لڑکیوں میں کھڑا اکیلا خان بہادر اپ پہچان نہیں سکیں گے کہ لڑکی کون ہے اور لڑکا ......
اب لڑکیاں بیچاری شرمائیں بھی تو کس سے ، کوئی چیز بچی نہیں شرمانے کے لیے ، خوب جپھی ڈالتی ہے، اٹلیسٹ یو آر مائی فرینڈ ....
شکل سے لے کر ہر چیز تو ایک جیسی ہے ، شرمانا بنتا بھی تو نہیں ہے اوپر سے وقت کی ضرورت بھی ہے
الله اس محاشرے پر رحم کرے