پاکستان کی اپوزیشن نے تاریخ میں پہلی دفعہ حکومت وقت یا ڈکٹیٹر شپ کی بجاۓ سیکورٹی ادارے کے خلاف تحریک کا آغاز کر دیا ہے . یہ تحریک سیکورٹی ادارے کی سیاست میں مداخلت اور سیاسی کردار کے خلاف ہے . اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ملک کے سیاہ و سفید پر ستر سال سے قابض سیکورٹی ادارہ اپنے اختیارات جو اسے ملکی وسائل اور سیاست پر حاصل ہیں انہیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں . اس وقت ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ سیکورٹی ادارے اور اپوزیشن میں تصادم لازم و ملزوم ہے . درحقیقت سیکورٹی ادارے کی سیاست جس میں وہ اپوزیشن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر کرنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہی تھا کہ اس کھیل کا اختتام مرو یا مار جاؤ پر ہونا ہے . یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ بندوق کا مقابلہ دلیل یا دھرنے سے نہیں ہو سکتا . سیکورٹی ادارہ جج کے سر پر بندوق رکھ کر مرضی کا فیصلہ الیکشن کمیشن سے مرضی کا نتائج حاصل کرتا ہے . جیسا کہ شام اور مصر کے حالات سے واضح ہے کہ ایک مطلق العنان فوجی جرنیل کس طرح پورا ملک خاک و خون میں نہلا دیتا ہے لیکن اقتدار نہیں چھوڑتا . ایسا ہی منظر نام پاکستان میں ہے جہاں دو مطلق العنان جرنیل پوری قوم کو یرغمال بناۓ ہوے ہیں .
اگر کسی سیاسی حل یا ہار جیت کو مد نظر رکھا جاۓ تو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ریاست اس حد تک کمزور یا تباہ ہو جاۓ گی جہاں ایک ڈکٹیٹر جمہوری طاقتوں کے آگے سرنڈر کر گیا تھا . کیا ملکی حالات مشرف کے اختتام والی صورتحال اختیار کر جائیں گے جہاں طالع آزما جرنیلوں کو عوام کے سامنے سرنڈر کرنا پڑ جاۓ گا ؟ یہ صرف ایک پیشنگوئی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دو سال میں جو بربادی کے ریکارڈ بنے ہیں وہ ستر سالہ تاریخ میں نہیں بنے اور آنے والے حالات بھی کوئی بہتری نہیں لا سکیں گے الٹا خوراک ،گیس ، بجلی ،قرضوں اور ایف اے ٹی ایف کا بحران سر پر کھڑے ہوں گے . اپوزیشن مستقبل سے واقف ہے ایسے میں جب عوام ذلیل و خوار ہو رہی ہو اپوزیشن کا سڑکوں پر آنا لازمی ہے . اس سے قبل بھی اپوزیشن کے رہنما پانچ پانچ سال جیل کاٹ چکے ہیں جیل کی حکمت عملی سے حکومت وقت کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا . سنگین معاشی بحران کی صورت اپوزیشن کی تحریک کامیابی کی انتہا کو پہنچ جاۓ گی اور ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو گا . اگر ملک میں معاشی بحران سے افرا تفری اور خانہ جنگی پیدا ہوئی تو سیکورٹی ادارے کو ایک اور بنگلہ دیش کا سامنا ہو گا . حکومت وقت اس وقت ملک کو مکمل تباہی کی طرف لے جا رہی ہے . بجلی و گیس کا بحران سنگین ہو رہا جب کہ آٹے کا بحران بھی سر پر کھڑا ہے . یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ملکی مسائل حل کرنا اس کے بس کی بات نہیں . جہاں قرضوں کے ریکارڈ ٹوٹ گۓ وہیں مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گۓ . بربادی اسی رفتار سے جاری رہی تو عوامی رد عمل کو کوئی نہ روک سکے گا جس کی سونامی میں سلیکٹڈ اور سلیکٹر دونو ہی بہ جائیں گے
اگر کسی سیاسی حل یا ہار جیت کو مد نظر رکھا جاۓ تو یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ریاست اس حد تک کمزور یا تباہ ہو جاۓ گی جہاں ایک ڈکٹیٹر جمہوری طاقتوں کے آگے سرنڈر کر گیا تھا . کیا ملکی حالات مشرف کے اختتام والی صورتحال اختیار کر جائیں گے جہاں طالع آزما جرنیلوں کو عوام کے سامنے سرنڈر کرنا پڑ جاۓ گا ؟ یہ صرف ایک پیشنگوئی نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دو سال میں جو بربادی کے ریکارڈ بنے ہیں وہ ستر سالہ تاریخ میں نہیں بنے اور آنے والے حالات بھی کوئی بہتری نہیں لا سکیں گے الٹا خوراک ،گیس ، بجلی ،قرضوں اور ایف اے ٹی ایف کا بحران سر پر کھڑے ہوں گے . اپوزیشن مستقبل سے واقف ہے ایسے میں جب عوام ذلیل و خوار ہو رہی ہو اپوزیشن کا سڑکوں پر آنا لازمی ہے . اس سے قبل بھی اپوزیشن کے رہنما پانچ پانچ سال جیل کاٹ چکے ہیں جیل کی حکمت عملی سے حکومت وقت کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا . سنگین معاشی بحران کی صورت اپوزیشن کی تحریک کامیابی کی انتہا کو پہنچ جاۓ گی اور ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہونے کے خدشات میں اضافہ ہو گا . اگر ملک میں معاشی بحران سے افرا تفری اور خانہ جنگی پیدا ہوئی تو سیکورٹی ادارے کو ایک اور بنگلہ دیش کا سامنا ہو گا . حکومت وقت اس وقت ملک کو مکمل تباہی کی طرف لے جا رہی ہے . بجلی و گیس کا بحران سنگین ہو رہا جب کہ آٹے کا بحران بھی سر پر کھڑا ہے . یہ حکومت مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے ملکی مسائل حل کرنا اس کے بس کی بات نہیں . جہاں قرضوں کے ریکارڈ ٹوٹ گۓ وہیں مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گۓ . بربادی اسی رفتار سے جاری رہی تو عوامی رد عمل کو کوئی نہ روک سکے گا جس کی سونامی میں سلیکٹڈ اور سلیکٹر دونو ہی بہ جائیں گے