اس کی کہانی جان کر ہر پاکستانی کا سر شرم سے جھک جائے گا

Mocha7

Minister (2k+ posts)
سارے بے شرم عمرانی جب عمران خان نے ریپ کیسز میں عورت کے لباس کا ذکر کیا تو سب واہ واہ کر رہے تھے درحالانکہ ریپ کا لبا س سے تعلق نہیں ریپ کا شکار خواتیں عام پاکستانی لباس میں ملبوس ہوتی ہیں ۔ ریپ کا تعلق سماجی روئیوں سے نہیں ۔ اب جب
Socrates Khan

نے ہمارے معاشرے کی مخصوص ہئیت کے سبب خاتون ٹک ٹاکر کے نادان روئیے (پبلک جگہ پہ وڈیو بنانا )کے نتیجے میں ہونے والی ہراسانی کا شکار عورت کی نادانی کا ذکر کر دیا تو سب باولے ہو گئے ۔
 
Last edited:

Mocha7

Minister (2k+ posts)
سر جی! اگراس واقعہ کے پس منظر کی حد تک بات کریں تو اور آپ ہمارے معاشرے کی طبقاتی، سماجی اور مختلف العمری کا
باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو کچھ حقیقتیں بالکل واضع نظر آنے لگتی ہیں۔۔خصوصا نوجوان نسل کی سوچوں میں پلنے والے انتشار اور جنسی عزائم کے خلفشار کا سارا کچا چٹھا انکےموبائل فونز میں چھپا ہوا ملے گا۔۔۔ ٹک ٹاک سٹارزکی بھڑکیلی کھال، وی لاگرز کی چمکیلی چال،باہمی کیمونیکیشن کیلئے سستی کال، اور اپنی جوانی کے لشکارے دکھاکر شہرت و مال کمانے کی آس نےاس قوم کے سہانے مستقبل کو دھیمک زدہ بنا دیا ہے

اب اگر طبقاتی تقسیم کا تنقیدی جائزہ لیں تو۔۔ایک اشرافیہ کا خرانٹ طبقہ ہے جس نے عمومی طور پر آہستہ آہستہ ڈیٹنگ، لِیو اِن ریلیشن شِپ اور باہمی چُما چاٹی کیلئے کمپرومائزڈ حصار بنا کر اپنی پریم کہانیوں کو قابل قبول بنا لیا ہے( نور مقدم اور جعفرکے باہمی تعلقات)۔۔۔

اس کے بعد مڈل کلاسیئے ہیں جن کے سپنوں میں کبھی حلیمہ خاتون کی شرم وحیا کے جلوے نظر آئیں گے اور کبھی مئیا خلیفہ کے ہوشربا بلوے نظر آئیں گے۔۔لیکن یہ طبقہ بیچارہ اپنا جذباتی سئیم برقرار رکھتے ہوئے جلتا کُڑھتا ہوا زندگی کو دھکا دئیے جا رہا ہے۔۔۔اس تھریڈ پر بھی زیادہ تراسی طبقے کی نمائندگی کرنے والے مجبورمسکینوں کے ججباتی اظہار ملیں گے۔۔


اب آپ آتے ہیں کثیر النفوس طبقے کی طرف۔۔ یعنی لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقہ جن کی جوانی فرسٹریشن، غصے اور بدحالی کے وبال کی جکڑن سےبندھی ہوئی ہے اور یہی لوگ عموما وحشی ہجوم بن کر ہر اخلاقی تقاضے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔۔۔اوراپنے نفس اور شہوت کو انسانی زنجیروں سے آزاد کرکے وقتی طور پر حیوان بن جاتے ہیں۔

ایک حکمران ہیں جو انتظامی بدحالی سے بے نیاز اپنےعشرت کدوں میں چرس کے سُوٹے لگا کر تمثیلی ٹائیگرز بنے بیٹھے ہیں۔۔ کسی بریکنگ نیوز یا سوشل میڈیا پر چلنے والے چپت سے جُزوی بیداری ہوتی ہے اور پھر نیرو کی بانسری بجاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔۔۔
یہ حکومتی نظام اور معاشرتی کارِحیات ۔۔ ایک انقلابی سرجری کے بغیر اخلاقی و رفاحی پٹڑی پر نہیں چڑھ پائے گا۔۔۔بے حسی اوربد حالی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسی شرعی، سیاسی، اور واعظی بھاشن سے اس ناسور کا علاج ممکن نہیں۔۔

....بہت خوبصورت و متوازن
 

socrates khan

Councller (250+ posts)
Teray jaisa hi loog wahan thay, jo saray din totay dekthay hain aur koi aurat nazar ajayee tu pagal hojatay hain.

Kya Pakistan sırf beghairat mardoon ka hai?
ab kay koi aurat 14 August ko bahar nikalnay ka soochay gi?

Tik Tok say loog kharab nahi hotay, tarbiat sahi nahi ho to aisay hi darinday paida hotay hain.

وڑ جانی دئیا! تو خوامخواہ جذباتی ہو کر پرسنل ہو رہا ہے۔۔ اپنی بواسیری بُوتھی پر ماسک چڑھا کر تھوڑا انتظار کرو۔۔۔ تیرے بُزدار انکل نے نوٹس لے لیا ہے وہ ان سب مشٹنڈوں کی ٹُوئی ضرور پولی کریں گے۔۔
 

Haha

Minister (2k+ posts)
جتنے بھی حرام زادے ملوث ہیں اس مو لسٹ کیس میں انکو ویڈیو کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے چہرے زوم کرکے ان کو ہر ٹی وی چینل پر دکھانا چاہئے انکو ڈھونڈھ کر ٹی وی پر براہ راست انکو سزائیں دی جائیں اور پھر دس دس سال کے لئے جیل میں ڈالا جائے یا پھر انکے ڈک کاٹ دینے کی ضرورت ہے
 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)

تجھے ہونا تھا فرشتوں سے بھی افضل تھا
لیکن ہائے انسان تُو درندوں سے بھی بدتر نکلا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
سر جی! اگراس واقعہ کے پس منظر کی حد تک بات کریں تو اور آپ ہمارے معاشرے کی طبقاتی، سماجی اور مختلف العمری کا
باریک بینی سے مشاہدہ کریں تو کچھ حقیقتیں بالکل واضع نظر آنے لگتی ہیں۔۔خصوصا نوجوان نسل کی سوچوں میں پلنے والے انتشار اور جنسی عزائم کے خلفشار کا سارا کچا چٹھا انکےموبائل فونز میں چھپا ہوا ملے گا۔۔۔ ٹک ٹاک سٹارزکی بھڑکیلی کھال، وی لاگرز کی چمکیلی چال،باہمی کیمونیکیشن کیلئے سستی کال، اور اپنی جوانی کے لشکارے دکھاکر شہرت و مال کمانے کی آس نےاس قوم کے سہانے مستقبل کو دھیمک زدہ بنا دیا ہے

اب اگر طبقاتی تقسیم کا تنقیدی جائزہ لیں تو۔۔ایک اشرافیہ کا خرانٹ طبقہ ہے جس نے عمومی طور پر آہستہ آہستہ ڈیٹنگ، لِیو اِن ریلیشن شِپ اور باہمی چُما چاٹی کیلئے کمپرومائزڈ حصار بنا کر اپنی پریم کہانیوں کو قابل قبول بنا لیا ہے( نور مقدم اور جعفرکے باہمی تعلقات)۔۔۔

اس کے بعد مڈل کلاسیئے ہیں جن کے سپنوں میں کبھی حلیمہ خاتون کی شرم وحیا کے جلوے نظر آئیں گے اور کبھی مئیا خلیفہ کے ہوشربا بلوے نظر آئیں گے۔۔لیکن یہ طبقہ بیچارہ اپنا جذباتی سئیم برقرار رکھتے ہوئے جلتا کُڑھتا ہوا زندگی کو دھکا دئیے جا رہا ہے۔۔۔اس تھریڈ پر بھی زیادہ تراسی طبقے کی نمائندگی کرنے والے مجبورمسکینوں کے ججباتی اظہار ملیں گے۔۔


اب آپ آتے ہیں کثیر النفوس طبقے کی طرف۔۔ یعنی لوئر مڈل کلاس اور غریب طبقہ جن کی جوانی فرسٹریشن، غصے اور بدحالی کے وبال کی جکڑن سےبندھی ہوئی ہے اور یہی لوگ عموما وحشی ہجوم بن کر ہر اخلاقی تقاضے سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔۔۔اوراپنے نفس اور شہوت کو انسانی زنجیروں سے آزاد کرکے وقتی طور پر حیوان بن جاتے ہیں۔

ایک حکمران ہیں جو انتظامی بدحالی سے بے نیاز اپنےعشرت کدوں میں چرس کے سُوٹے لگا کر تمثیلی ٹائیگرز بنے بیٹھے ہیں۔۔ کسی بریکنگ نیوز یا سوشل میڈیا پر چلنے والے چپت سے جُزوی بیداری ہوتی ہے اور پھر نیرو کی بانسری بجاتے ہوئے سو جاتے ہیں۔۔۔
یہ حکومتی نظام اور معاشرتی کارِحیات ۔۔ ایک انقلابی سرجری کے بغیر اخلاقی و رفاحی پٹڑی پر نہیں چڑھ پائے گا۔۔۔بے حسی اوربد حالی اتنی بڑھ چکی ہے کہ کسی شرعی، سیاسی، اور واعظی بھاشن سے اس ناسور کا علاج ممکن نہیں۔۔
طبقاتی تفریق کے عمودی احاطے سے اس ہجومی رویئے کے محرّکات پر کوئی حتمی دلیل تو واضع نہیں ہوسکتی۔ عریانی و فحاشی کب عام نہیں رہی؟ انٹرنیٹ نہیں تھا تو فلمیں تھیں، فلمیں نہیں تھیں تو رسائل تھے، رسائل نہیں تھے تو قحبہ خانے بھی تھے اور فحش نگاری بھی تھی اور مجرے بھی تھے۔ یہ سلسلے تو قرآن میں مذکورہ شہر پمپائے تک آپکو ملیں گے۔

لہٰذ بصد احترام، میں یہاں آپکے موقف سے منطقی انحراف کا مرتکب ٹھہرا۔

مگر دوسری جانب حکومتی یا انتظامی نا اہلی اور قانونی ڈھانچے کی بے فیضی یقیناً اس معاشرتی رویئے کی ذمّہ دار ہیں۔ مگر یہ خلاء اس نظام میں کوئی پچھلے چند سالوں میں نہیں، بلکہ دہائیوں سے موجود ہے اور موجودہ حکومت بشمول پچھلے تمام حکمرانوں اور قانون دانوں کے، اس مسئلے پر کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کرسکی۔

دراصل سزا کا خوف ہی اکثر حیوانی جبلّتوں کو قیودِ آدم کی فصیلوں میں محصور رکھتا ہے۔ اسکا ایک عملی نمونہ ہم نے موٹروے کی اوائل عمری میں مشاہدہ کیا۔ پہلے پہل موٹروے پولیس میں پڑھے لکھے اور مستعد افراد بھرتی کیئے گئے اور موقع پر بھاری جرمانے عائد کیئے گئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جو ڈرائیور جی ٹی روڈ پر کسی لہراتی و بل کھاتی ناگن کی طرح مستاتے تھے، وہ موٹروے پر بالکل بہ مثلِ تیر عین صراطِ مستقیم پر چلتے نظر آتے تھے۔ گو کہ موٹروے سے اترتے ساتھ ہی انکے طبعی خلفشار پھر سے امنڈھ آتے تھے۔

اس مشاہدے سے ہم نے یہ اخذ کیا کہ چور کو چوری کی سزا کا خوف ہو تو مجبوراً محنت ہی کریگا، چوری نہیں۔ لیکن اگر چوری پر کوئی بندش نہ رہے تو کوئی محنتی بھی ورغلایا جائے گا اور کہیں نہ کہیں ہاتھ مار ہی بیٹھے گا۔ جیسے کہ ہم نے بھی کئی مرتبہ جی ٹی روڈ پر ناگن ڈانس کے جوہر دکھائے، شوق سے نہیں، جھنجھلاہٹ میں۔

میں یہاں کوئی سیاسی تقابل نہیں کر رہا کہ نون لیگ بہتر ہے یا تحریک انصاف۔ بات سیدھی سی ہے اور ہیومن ریسورس مینجمنٹ میں بھی تھیوری ایکس کے نام سے موجود ہے۔ اللہ کے کلام میں جنّت و جہنّم کی مِثل موجود ہے۔

لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہوں گا کہ قانونی سزا ہمارے معاشرے کی تیسری حدِ دفاع ہے۔ سب سے پہلے گھر کی تربیت، پھر اساتذہ کی تربیت کا اسمیں بہت بڑا کردار ہے۔ دراصل آپکو ہمیشہ کسی ہجومی کاروائی میں کسی مجموعی معاشرتی سوچ کی ہی برہنگی نظر آئے گی۔ جیسے بے نظیر کے انتقال کے دن ہجومی کاروائی میں سرکاری دفاتر پر کم اور اے ٹی ایم مشینوں پر حملے زیادہ ہوئے تھے۔ اب اسی ارتباط میں دیکھ لیجیئے کہ ہمارے یہاں گلاس کو کولر سے کیوں باندھا جاتا ہے؟

یہاں اس حکومت پر تنقید بنتی ہے۔ الیکشن اصلاحات پر آرڈینینس جاری ہوچکا ہے، جبکہ اس بڑھتی ہوئی شر انگیزی پر اب تک کسی طور بھی کوئی عملی اقدام نظر نہیں آیا۔ کیا ہم جب تک کوئی خبر سوشل میڈیا پر نہ چل جائے، جب تک کسی کا استحصال نہ ہوجائے، تب تک بیٹھے رہیں گے یا ان مسائل سے بچاوٗ کو ممکن بنانے کا انتظام کریں گے؟
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
سارے بے شرم عمرانی جب عمران خان نے ریپ کیسز میں عورت کے لباس کا ذکر کیا تو سب واہ واہ کر رہے تھے درحالانکہ ریپ کا لبا س سے تعلق نہیں ریپ کا شکار خواتیں عام پاکستانی لباس میں ملبوس ہوتی ہیں ۔ ریپ کا تعلق سماجی روئیوں سے نہیں ۔ اب جب
Socrates Khan

نے ہمارے معاشرے کی مخصوص ہئیت کے سبب خاتون ٹک ٹاکر کے نادان روئیے (پبلک جگہ پہ وڈیو بنانا )کے نتیجے میں ہونے والی ہراسانی کا شکار عورت کی نادانی کا ذکر کر دیا تو سب باولے ہو گئے ۔
نہیں انکار ممکن ہے کبھی تصدیق عینی سے
تو پھر تطبیق عقلی چاہیے تحقیق عینی سے
?