افغانستان... ایک اور سپر پاور کا قبرستان

Antiam

Banned
آج سے 11 سال قبل دنیا کی نام نہاد سپر پاورامریکہ نے افغانستان پر جارحانہ طریقہ سے اپنے ہی بنائے ہوئے بے ہودہ عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے حملہ کیا اور اس کھلی دہشت گردی کو عین حق اور جائز قرار دیا۔ شاید امریکہ اس کے اتحادیوں اور بناوٹی رائے عامہ کو غیور اوربہادر افغانوں کی تاریخ معلوم نہیں تھی اور اگر معلوم تھی تو وہ شاید اسے ہوائی باتیں سمجھتے ہوں گے ۔علاوہ ازیں انہیں اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی پر بہت ہی ناز تھا۔


وہ سمجھتے تھے کہ جدید اسلحہ کے زور پر وہ طالبان مجاہدین کو چند دنوں کے اندر کچل کر رکھ دیں گے۔ اگرچہ امریکہ کی جارحیت اور درندگی کے نتیجہ میں بظاہر امیرالمومنین ملا محمد عمر مجاہد حفظہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکومت چھوڑ دی لیکن آج11 سال بعد بھی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بھرپور جدوجہد ،انسانیت سوز ظلم و ستم اور ہر قسم کے جدید سے جدید اسلحے اور ٹیکنالوجی کےاستعمال کرنے کے باوجود کا بل سے قندھار اور عزنی سے بدخشاں تک طالبان کا ہی سکہ چلتا ہے۔

افغانستان کے اندر طالبان مجاہدین جہاں چاہتے ہیں اپنی مرضی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں افغانستان کے غیور عوام کی اکثریت طالبان پر مکمل اعتماد کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ طالبان افغانستان کے کسی بھی علاقہ میں چلے جائیں تو وہاں کے عوام والہانہ طریقہ سے ان کااستقبال کرتے ہیں اور ہر طرح سے ان کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں ۔ افغانستان کے 75 فیصد سے زائد علاقوں پر آج بھی طالبان کا کنٹرول ہے اور ان علاقوں میں انہیں کا حکم چلتا ہے اس بات کو آج امریکہ اور نیٹو سمیت پوری دنیا تسلیم کر چکی ہے ۔ نیٹو اور امریکہ کی افغانستان میں موجود جنگی قیادت کے اعلیٰ افسر دبے الفاظ میں میڈیا کے سامنے اس بات کا اعتراف بھی کر رہے ہیں کہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے 33 صوبوں پر طالبان کی حکومت ہے جہاں پر ان کے گورنر باقاعدہ کام کر رہے ہیں ، موجودہ صورتحال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی افغانستان سے باقاعدہ شکست کھا کر عنقریب راہ فرار اختیار کرنے کو ہیں اور اپنی فرار کے لئے کوئی ایسا آبرو مندانہ طریقہ تلاش کر رہا ہے جس کے ذریعہ وہ افغانستان سے نکل جائیں ، لیکن دوسری طرف طالبان مجاہدین اپنے آہنی ارادوں کے ساتھ افغانستان کو غیر ملکی فوجیوں کے لئے جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہیں چنانحہ آج سے تقریباً ڈیڑھ سال قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’’ہم افغانستان کو غیر ملکی افواج کے لئے دوزخ بنا دیں گے‘‘

طالبان کا یہ بیان اور ان کے ارادے دیوانے کی بڑھک نہیں ہے ۔جو لوگ طالبان مجاہدین کے ان دعوؤں کو دیوانے کا خواب سمجھتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ غیرت مند افغانوں کی تاریخ کا ایک بار مطالعہ ضرور کر لیں ، ڈیڑھ صدی پہلے کا ایک واقعہ ہی ان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے کہ جب وقت کی سپرپاور برطانیہ جس کی دنیا کے اکثر حصوں پر باقاعدہ حکومت تھی افغانستان میں داخل ہوئی تو اس کا کیا حشر ہوا ، دنیا پر راج کرنے والا برطانیہ افغانوں سے اپنی حکومت کو تسلیم نہ کروا سکا بلکہ افغان بہادروں سے ہزاروں لاشوں کے تحفے لے کر اور ذلت و رسوائی کی گھٹری اپنے سر پر اٹھا کر بربادی کا سرٹیفکیٹ لے کر گھر کو سدھار گیا ، برطانیہ کے لئے افغانستان کے جہنم زار بننے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ:

’’13 جنوری 1842ء کی ایک شام کو جلال آباد میں برطانوی قلعہ نما چھاؤنی کے پہرے پر مامور گشتی دستے کا لیفٹیننٹ ہیولاک بے زاری سے سوچ رہا تھا کہ ''یہ افغان سرزمین تو ہمارے لئے عذاب بنتی جا رہی ہے'' ایک طرف شدید برفانی موسم کی ہولناکی اور اس پر مستزادافغانوں کی ناقابل شکست مزاحمت ، انہی خیالوں میں گم اچانک اس کی نظر کابل سے آنے والی سنسان سڑک پر پڑی جہاں ایک خچر سوار نمودار ہو چکا تھا، ہیولاک نے مستعد ہو کر اپنی بندوق سیدھی کر لی ، غورسے دیکھنے پر معلوم ہوا کہ سوار نے برطانوی فوجی وردی پہنی ہوئی ہے، خچر سوار ڈگمگاتا ہوا قلعے کی فصیل کے قریب پہنچا اور اپنی ٹوپی اتار کر اس نے بمشکل فوجی سلام کیا اور پھر دفعتاً اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی ۔

ہیولاک نے اپنے سپاہیوں کی مدد سے اسے خچر سے اتارا اچانک ایک فوجی چلایا کہ ’’یہ تو ڈاکٹر برائیڈن ہے ۔کابل چھاؤنی کا اسسٹنٹ سرجن‘‘برائیڈن جو بے ہوش تھا کیونکہ اس کا بدن زخموں سے چور تھا ، کئی گھنٹوں کے بعد ہوش میں آتے ہی برائیڈن کے منہ سے جو پہلا جملہ نکلا وہ یہ تھا ۔’’سب مر چکے ہیں جنرل! صرف میں ہی زندہ بچا ہوں ، اوہ میرے خدا! میں نے اپنی آنکھوں سے لاشیں گرتی دیکھی ہیں ۔۔۔
ہزاروں لاشیں ۔
‘‘

ڈاکٹر برائیڈن جسے مورخین نے
Sole SurviVerکا خطاب دیا ہے۔ وہ برطانوی ’’سپر پاور‘‘ کے کابل چھاؤنی میں متعین 16500 فوجو ں اور دیگر عملے میں سے بچنے والا واحد شخص تھا جسے افغان مجاہدین نے نشان عبرت کے طور پر واپس بھیجا تھا۔ افغان مسلمانوں کے ہاتھوں وقت کی سپر پاور برطانیہ کی بربادی کے ڈیڑھ سو سال بعد یہی افغانستان ایک اور سپرپاور جسے دنیا سویت یونین کے نام سے جانتی تھی کا قبرستان بناچنانچہ 14 فروری 1989ء کو 10 سال سے زائد عرصہ تک غیور افغان قوم کے ہاتھوں برطانیہ سے بھی بڑھ کر ذلتیں اور رسوائیاں سمیٹنے کے بعد سوویت جارح فوجوں کا آخری دستہ بھی سوویت یونین کی بدبو دار لاش اپنے کندھوں پر اٹھا کر رخصت ہو گیا اور اس وقت کے روس کا صدر گوربا چوف نے اس جنگ کو رستے ہوئے ناسور (Bleeding Wound) کا نام دیا تھا، سوویت یونین کی افغان مجاہدین کے ہاتھوں بربادی کے صرف 13 سال بعد ایک اور سپرپاور کو افغانستان میں مہم جوئی کا شوق ہوا چنانچہ 7 اکتوبر 2001ء کو ’’سپر پاور‘‘ امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا ، افغانستان پر حملے سے پہلے برطانیہ اور روس کی طرح امریکہ نے بھی بڑے دعوے کئے تھے، اس نے کہا تھا کہ میں چند دنوں کے اندر طالبان کو کچل کر رکھ دوں گا ، انہیں قصہ ماضی بنا دوں گا وغیرہ وغیرہ ۔لیکن 11 سال کے بعد آج کا منظرنامہ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بلند بانگ دعوے کرنے والا امریکہ آج فرار کے راستے تلاش کر رہا ہے آج پھر افغانستان ایک اور سپرپاور کے لئے جہنم بنا ہوا ہے، ماضی کی دو سپرپاوروں کے بعد آج کا نام نہاد سپرپاور امریکہ بھی آج افغان مجاہدین کے ہاتھوں تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے۔ انشاء اللہ امریکہ کا انجام برطانیہ اور روس سے بھی بھیانک ہو گا ۔

 
Last edited:

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
1000805_538763202826838_204446072_n.jpg
 

BrotherKantu

Chief Minister (5k+ posts)
بھائی مجھے تے جو سمجھ آئ ہے وہ یہ ہے کے امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے اپنا پرانا مال نکرے کگانا تھا جو انہوں نے لگا لیا ہے.اب نئے سرے سے پروڈکشن شوروع ہو جائے گی. ہر دس پندرہ سال بعد یہی گیم ہوتی ہے.
 

v r imran k

Chief Minister (5k+ posts)
na to chemical biological weapon of mass distractions kahi sy kissi ko milay....lekin iraq ko tabah ker diya gaya ..ab sham ki bari hay .. Afghanistan mian koi b kamiyab nahi ho skata even taliban b