اقبال اور جمہوریت

Username

Senator (1k+ posts)
ہم توہمیشہ سے اقبال کے ناقد رہے ہیں خاص طور اقبال کی تنقید برائے تنقید کی عادت کےایک ایسی عادت کے جو اقبال کی زبان و بیان پر کامل دسترس کی وجہ سے عوام میں بھی مقبول ہوتی چلی گئی- اقبال جو خود دوسروں سے نظریات ادھار مانگتے تھے- اور جن سے مانگتے تھے پھر انہی کو تنقید کی چکی میں بھی پیستے تھے

حقیقت حال یہ ہے کہ اقبال کا خودی کا سارا فلسفہ نطشے کا دیا ہوا ہے- نطشے نے جب اپنی مشہور تحریر "خدا مر چکا ہے " لکھی اور یہ کہا کہ اب دنیا کو مذاہب کی طرف دیکھنے کی بجائے خود اپنے لئے عظیم و شان اور بہترین اخلاقیات اور انسانی اقدار کی کھوج کرنی چاہیے کیوں کہ مذاہب نے انسانیت کو مایوس کیا ہے اور یہ کہ اب انسانیت کی بقا، خطرناک ہتھیاروں کے اس دور میں' صرف اور صرف ایسی انسانی اقدار اور اخلاقیات میں پنہاں ہے جس میں انسان پہلے آتا ہو- انسانیت پہلے آتی ہو- اور دوسرے تعصّب جیسے کہ مذہب، رنگ، اور نسل، وہ بات میں آتے ہوں- نطشے نے ایسے انسان کو جو اس درجہ اخلاقیات اور اعلی انسانی اقدار کا حامل ہو اسے بی آنڈ ہیومن " کے نام پکارا- ہالی ووڈ نے اسے سپر مین بنا دیا اور اقبال نے اسے خودی کہہ دیا"

پھر نطشے کے اس آئیڈیا کو خودی کا نام دے کے اس میں اسلام کا حسب ذائقہ تڑکا لگا دیا اور مسلمانان ہندوستان جو بے انتہا علمی خلا کا شکار تھے انہوں نے لبیک کہتے ہوئے اقبال کے ہر ہر خیال کو اپنانا شروع کر دیا- حیرت کی بات یہ ہے کہ اقبال نے اس سارے پراسیس میں کہیں بھی نطشے یا اور فیلوسفرز کو جن کا ادھر اقبال برت رہے تھے- انکی علمیت کا نہ اعتراف کیا اور نہ ہی تشکر

کبھی اقبال ایک دم سے قوم پرست بن جاتے تھے اور کہتے تھے "سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا اور کبھی ایک دم سے قوم کو پس پشت ڈالتے ہوئے مذہب و ملت کا راگ الاپنے لگتے تھے"ایک ہوں "مسلم حرم ہی پاسبانی کے لئے کبھی اقبال پچھلے طریقوں اور مسلمانوں کو رد کرتے تھے

آئین نو سے ڈرنا' طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

اور اگلی سانس میں ہی وہ "آئین نو " کا مذاق اڑا رہے ہوتے تھے- جیسے کہ جمہوریت کی تنقید کچھ ایسے بھی کمزور لمحات آتے تھے کہ بس زبان و بیان کے جوش میں ہر دہ چیزوں کو رد کر دیتے تھے- یعنی جمہوریت کو بھی اور آمری کو بھی کبھی وہ آمریت کی گناؤنی ترین شکل "خلافت " بچانے میں پیش پیش تھے- یعنی ایسی آمریت جسکو مذہب کا ٹھپا بھی مل جائے- اور کبھی وہ جناح جیسے لبرل اور انگلش طرز زندگی والے شخص کو اس بات پہ قائل کر رہے ہوتے تھے کہ انڈیا تشریف لا کر مسلمانان ہند کی رہنمائی کی جائے

پھر آخر کار اپنے جرمن پروفیسر کو خط لکھ کے یہ بھی انکار کر دیا کہ انہوں نے کبھی کسی علیحدہ وطن کی حمایت کی ہے- یعنی پھر سے پلتا کھا کے قوم پرستی کی طرف- ایک ایسی قوم جس میں اکثریت ہندوؤں کی ہونہ کوئی ربط نہ رشتہ- نہ نظریات میں نہ الفاظ میں- شاید اسی لئے انکے بیٹے نے کہا تھا کے رات کا اقبال اور ہے اور صبح کا اور

ان ساری چیزوں کے باوجود علمی داد رسی کے لئے ترسے ہوئے مسلمانان ہند نے اقبال کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور بجائے اسکے کہ اقبال کے ہر ہر نظریہ کو کسی کسوٹی میں تولتے' اندھی تقلید میں اقبال کے پریشان خیالات اور منتشر سوچوں کو بھی ایسی ہی خوش گمانی سے اپنایا جیسے کہ کچھ اچھے خیالات کو

اقبال کی جمہوریت کے بارے میں الجھن اور خود اقبال کی بالغ نظری اور جمہوری تجربے پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے مگر یہاں بس یہی بیان مقصود ہے کہ اقبال کے جمہوریت کے بارے میں خیالات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا- انہیں اقبال کے زور بیان کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے- جب اقبال جمہوریت کے خلاف بول رہے تھے تو اس وقت تک تو مکمل جمہوریت دنیا کے کسی کونے میں بھی رائج نہیں تھی خدا جانے اقبال نے جمہوریت کو کس شکل میں دیکھا' سوچا' سمجھا' اور بات کی


مغرب کے خلاف اپنی بھڑاس نکالتے ہوئے اقبال نے جمہوریت کو یکسر رد کر دیا مگر اس طرز حکومت یا نظام حکومت کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر کوئی بات نہیں کیپتا نہیں اقبال کا جمہوریت کے ارتقا اور فرد کی آزادی کی جدوجہد کی تاریخ' کا کوئی مطالعہ تھا یا نہیں مگر اتنے آرام سے جمہوریت کی پوری تاریخ' اہمیت ضرورت' اور بالیدگی کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دینا اقبال جیسے انسان کو روا نہ تھا-

حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت انسانی شعور کے ارتقا پزیر ہونے کی علامت ہے- فرد کی آزادی' حرمت اور احترام کا مظہر ہے- جمہوریت ذات اور زندگی کی نشونما کی ضما نت ہے- کب دیتے تھے مغرب کے مطلق العنان بادشاہ یہ حق عوام کو کہ وہ اپنے حکمران منتخب کر سکیں ایک ایسا یورپ جس میں پاپ ایک اور بادشاہ مل کے عوام کا استحصال کر رہے تھے اور یہ نعرہ لگا دیا گیا تھا کہ بادشاہ کا مذہب ہی عوام کا مذہب ہے اور ایک ایسا یورپ جس میں ادب تک کے سوتے بادشاہوں کی ذات سے ہی پھوٹتے تھے جس میں بادشاہ کا المیہ عوام کا المیہ ہوتا تھا اور اسی بنیاد پر سارا ادب لکھا جاتا تھا- اس یورپ میں انسانی شعور اتنا طاقتور ہونا شروع ہوا کہ اپنے حق کا مطلبہ کرنے لگا اورحق کی یہ آگہی ایک ایسی تحریک میں ظہور پزیر ہوئی جسکا نتیجہ جمہوریت کی شکل میں لوگوں کے سامنے آیا میگنا کارٹا سے لیکر موجودہ جمہوری ڈھانچے تک دنیا کو آٹھ سو سال لگے- جسےاقبال پل بھر میں رد کر کے ایک طرف پھینک رہے ہیں

جمہوریت انسانی شعور کی عظمت اور احترام کی ایک عظیم مثال ہے اور اس بات کی ضمانت بھی کہ اگلے انسانی ارتقائی ،مراحل نسبتا آسان ہونے

 
Last edited by a moderator:

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
?? ??? ?? ???? ???? ???? ?? ?? ????? ?? ??? ??? ?? ???? ????? ???? ?? ???? ?? ?? ????? ??. ???? ??? ????? ???? ?? ???? ?? ????? ???? ???? ??. ????? ?? ????? ??? ?? ?? ?? ?? ???? ????? ??? ?? ???? ?? ??? ????? ?? ???. ???? ???? ??

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
علامہ اقبال کے عمرانی اور سیاسی افکار کے مطالعہ سے ہم جس نتیجہ پر پہنچتے ہیں وہ ہ ہے کہ علامہ اقبال مغربی جمہوریت کو اس کے سیکولر اور مادر پدر آزاد ہونے کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے مگر جمہوری روح جس میں حریت فکر اور آزادی رائے عام ہے کو قبول کرتے تھے ۔ وہ چاھتے تھے کہ مسلمانوں میں نہ تو سیکولر جمہوریے آئے نہ لبرل ازم کے نام پر بے راہ روی پیدا ہو ۔ مگر عصرِ حاضر میں مسلمان جمہوری روح سے استفادہ کر کے خود اپنے نظام خلافت اجتہاد کے ذریعہ ایک ایسے منتخب نظام میں بدل دیں جس میں فرد سے زیادہ جماعت مقتدر ہو۔ ریاستِ اسلامی کی سیاسی ، عمرانی اور معاشی معاملات چلانے کے لئے ایک منتخب ایوان تشکیل پائے جو ہماری عظیم فقہی روایات سے اصولی رہنمائی لے کر جدید عصری تقاضوں کے مطابق خود ایک جدید فقہی نظامِ مدنیت یا نظامِ حیات متشکل کرے ۔ یہ ایک ایسا اصول ہو جس سے فرد کا روحانی استخلاص ہو سکے اور اس بنیادی اصول کی عالمگیریت سے انسانی معاشرے کا ارتقاء بھی روحانی اساس پر ہوتا رہے ۔ فرد کے روحانی استخلاص اور انسانی معاشرے کے ارتقا کے اس بنیادی اصول کا استخراج اقبال کے ہاں کائنات کی روحانی تعبیر پر ہے جو مادے کے بارے میں جدید طبیعات کے اس انکشاف کے بعد کہ مادہ قابل تحویل بھی ہے اور قابلِ فنا بھی اقبال نے قرآن کے تصورِ توحید پر ایک نئی مابعدالطبیعات کو ایقان دیتے ہوئے اپنائی۔

http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اقبال-اور-جمہوری-خلافت-کا-تصور.3973/

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا اور تقریباََ ایک سو سال پہلے سیاسی و جمہوری نظام کا تصور بھی پیش کیا۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اقبال جمہوریت کے خلاف تھے۔ یہ خیال درست نہیں ہے۔ اقبال نے مغربی جمہوریت پر تنقید ضرور کی مگر وہ جمہوری نظام کے مخالف نہیں تھے انہوں نے پاکستان کیلئے اپنے جمہوری تصور کے خدوخال پیش کیے۔ اقبال کا تصور جمہوریت آج بھی قابل عمل ہے جبکہ پاکستانی جمہوریت اقبال کے تصور کے منافی ہے۔

آزاد بن حیدر نے تحریک پاکستان قائداعظم، مسلم لیگ اور علامہ اقبال پر تاریخی علمی فکری اور تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کی کتاب علامہ اقبال یہودیت و جمہوریت کی علمی و فکری حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس کتاب کو نہایت اعلیٰ، خزینۂ معلومات اور مصدقہ گنج ہائے گرانمایہ قرار دیا ہے۔ آزاد بن حیدر علامہ اقبال کے تصور جمہوریت کے بارے میں لکھتے ہیں۔
کثرتِ تعبیر نے اقبال کے جن خوابوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے، ان میں ایک خواب دین اور سیاست کی یکجائی کا خواب بھی ہے۔ جداہودیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی کے سے مصرعوں اور اشعار کو اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کربعض طبقے یوں پیش کرتے ہیں جیسے اقبال تھیاکریسی کی وکالت کررہے ہوں۔

اقبال نے اپنی نثری تحریروں میں اس خیال کا متعدد مرتبہ مدلل اور مؤثر پیرایۂ بیان میں اظہار کررکھا ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی یعنی علماء کی حکمرانی کے خدائی حق کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ اسکے باوجود دین اور سیاست کی جدائی کو مسلسل اور متواتر غلط مفہوم میں بیان کیا جاتا ہے اور اس سلسلے میں اقبال سے وہ تصورات منسوب کیے جاتے ہیں جن کے وہ دشمن ہیں۔اقبال کے ہاں دین اور سیاست کی یکجائی کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی نظریہ اور عمل چند روحانی اصولوں اور قدروں کے تابع ہوں۔ جو سیاست اخلاقی احساسات سے عاری ہوکر سراسر مادی مفادات سے عبارت ہو کر رہ جائے وہ لا محالہ چنگیزی بن جاتی ہے۔ ایسی سیاست کو اقبال رد کرتے ہیں۔ اقبال نے اسلام کے اخلاقی اور سیاسی نصب العین کے موضوع پر اپنے انگریزی مقالے میں بڑے قطعی اور دو ٹوک انداز میں لکھا ہے کہ اسلام معاشرے میں مکمل اور غیر مشروط مساوات کا قائل ہے۔

اقبال کے نزدیک اسلام میں نہ تو اشرافیہ کا کوئی تصور ملتا ہے اور نہ ہی پاپائیت کی کوئی شکل موجود ہے۔نتیجہ یہ کہ اسلام نہ تو خاندانی بادشاہت کو جائز قراردیتا ہے اور نہ ہی علمائے حق کو حکمرانی کا کوئی خدائی اختیار دیتا ہے۔ اس بات کو جدید سیاسی اصطلاحات میں یوں کہیں گے کہ اسلام میں نہ تو تھیاکریسی ہے اور نہ ہی امپیریلزم۔
سلطانیٔ جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو!

علامہ اقبال کے اس تصور سیاست کی روشنی میں پاکستان کی سیاست و جمہوریت کا جائزہ لیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پاکستان کا سیاسی و جمہوری نظام اخلاقیات سے عاری، مادہ پرستی کا سرچشمہ اور اشرافیہ کے مفادات کا محافظ بن چکا ہے۔ اس نظام میں 98فیصد عوام کا ووٹ کی پرچی پر مہر لگانے کے علاوہ اور کوئی کردار نہیں ہے۔

علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں مغربی جمہوریت کی روح کو شاہی قراردیا تھا جو کہ بظاہر جمہوریت کی نیلم پری کا تاثر دیتا ہے۔
مغرب کا جمہوری نظام سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہے۔ درحقیقت ایک رنگین قفس ہے جو بظاہر گلستان نظر آتا ہے۔ افسوس ہم نے آزادی کے بعد بھی مغرب کے جمہوری نظام کو ردوبدل کے بغیر اپنا لیا اور آج پاکستانی جمہوریت سرمایہ داروں، تاجروں اور جاگیرداروں کیلئے گلستان اور عوام کیلئے رنگین قفس بن چکی ہے۔
اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

علامہ اقبال نے کہا تھا کہ مغربی جمہوریت میں انسانوں کو گنا جاتا ہے مگر تولا نہیں جاتا۔ پاکستانی جمہوریت میں بھی یہی اصول کارفرما ہے۔ ووٹ دینے والے عوام کی اکثریت سیاسی شعور سے عاری اور ووٹ کی اہمیت سے نا آشنا ہے لہذا ہنگامی بنیادوں پر تحریک کے ذریعے عوام کو باشعور کرنے کی ضرورت ہے جب تک عوام باشعور نہ ہوں اس وقت تک متناسب نمائندگی کے اصول پر انتخابات کرائے جائیں تاکہ اُمیدوارعوام کو سرمایے، برادری، مذہب، علاقہ اور زبان کے نام پر بیوقوف نہ بنا سکیں۔

علامہ اقبال نے 28مئی 1937ء کو قائداعظم کے نام خط میں تحریر کیا اسلام کے قانونی اصولوں کے مطابق کسی مناسب شکل میں سماجی جمہوریت کو قبول کرلینا کوئی انقلاب نہیں ہے بلکہ اسلام کی اصل روح کی جانب لوٹنا ہوگا۔ [جہانگیر عالم: اقبال کے خطوط جناح کے نام صفحہ 71]
اقبال نے اپنے خطبات میں تحریر کیا ہمیں چاہیئے کہ آج ہم اپنے مؤقف کو سمجھیں اور اپنی حیات اجتماعیہ کی از سر نو تشکیل کریں تاکہ اسکی وہ غرض و غایت جو ابھی تک جزوی طور پر ہمارے سامنے آئی ہے یعنی اس روحانی جمہوریت کی نشوونما جو اس کا مقصود و منتہا ہے تکمیل کو پہنچ سکے۔[نذیر نیازی: خطبات تشکیل جدید النہات صفحہ 277]

ایک اور تحریر میں علامہ اقبال نے لکھا دوسرا سیاسی اصول جمہوریت ہے جو انسانوں کی غیر مشروط اور کامل مساوات پر مبنی ہو۔ مسلم ملت کے تمام افراد معاشرتی اور معاشی تفاوت کے باوجود قانون کی نظر میں مساوی حقوق کے مالک ہیں۔ لطیف شیروانی اقبال کی تحریریں اور تقریریں صفحہ 101ایسی جمہوریت ہی بہترین نظام ہے جسکا مقصد فرد کی اس قدر آزادی ہو کہ اس کی فطرت کے تمام امکانات کو ترقی و نشوونما کے مواقع فراہم ہوسکیں۔ [لطیف شیروانی صفحہ 116] علامہ اقبال کا تصور ریاست و جمہوریت بڑا واضح ہے وہ مناسب اور موزوں شکل کی سماجی جمہوریت اور روحانی جمہوریت کے قائل تھے اور قانون کی مساوی حکمرانی پر مبنی سیاسی نظام کا نظریہ پیش کررہے تھے۔

اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام قائم کرنا چاہتے تھے جس میں ارکان اسمبلی کا انتخاب سرمایہ اور جاگیر کی بنیاد پر نہیں بلکہ اہلیت اور دیانت کی بنیاد پر کیا جائے۔ ایسا جمہوری نظام جس میں قانون کی حکمرانی ہو اور حاکم بھی قانون کے تابع ہو۔ عوام کو مساوی مواقع اور حقوق حاصل ہو انکے درمیان کسی قسم کا امتیاز روا نہ رکھا جائے۔ ہر فرد کو بلا امتیاز مذہب رنگ اور نسل ، ترقی اور نشوونما کا موقع مل سکے۔


http://www.nawaiwaqt.com.pk/adarate-mazameen/07-Nov-2015/427203
 

Afaq Chaudhry

Chief Minister (5k+ posts)
افسوس کے نطشے کو اسلام کو پڑھنے کی توفیق نہ ہوئے ورنہ یہ صاحب ان کو اسلام کا بڑا عالم گردانتے اور ان کو بھی بے وقوف کہ رہے ہوتے
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
افسوس کے نطشے کو اسلام کو پڑھنے کی توفیق نہ ہوئے ورنہ یہ صاحب ان کو اسلام کا بڑا عالم گردانتے اور ان کو بھی بے وقوف کہ رہے ہوتے
(clap)(clap)(clap)(clap):mash:(clap)(clap)(clap)(clap)
آپ نے نبض دیکھ کر ہی مرض دریافت کر لیا. شرمندہ اسلام
 

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
اقبال نے جو جمہوریت دیکھی تھی وہ اس زمانے کے لحاظ سے ملوکیت سے بہت بہتر تھی لیکن پھر بھی اس میں بہت نقص تھے
مزید یہ کہ اقبال حضرت عمر کے دور کا مقابلہ کر تے تھے
اب حضرت عمر کا دور تو واپس کبھی نہی آ سکتا

بلکہ یہ مغربی جمہوریت والے بھی حضرت عمر کے دور کو ہی کاپی کرنے کی کوشش کرتے ہیں

مزید یہ کہ اقبال نے آجکل کی مغربی جمہوریت نہی دیکھی تھی ، جو بہت ریفاینڈ ہو چکی ہے

اقبال نے دو عالمی جنگیں بھی دیکھیں تھیں جن میں مسلمان ہار گے تھے اور مسلم ملک ٹوٹ گیا تھا
لوگوں نے ایسا نوچا تھا جیسے محمود غرنوئی نے سومنات کے مندر کو لوٹا تھا


تیسری یہ بات کہ مذہبی اختلاف کے بعد وہ مغرب کے نظام کو کیسے پسند کر سکتے ہیں

اپنے ہاں یہ حال ہے کہ انکو پاکستان بنانے کے لئے جناح کو لندن سے لانا پڑا

حالانکہ مودودی جیسے کئی نام نہاد مسلمان ملا یھاں ہندوستان میں رل رہے تھے
 
Last edited:

Wadaich

Prime Minister (20k+ posts)
ina%2Blillah%2Be%2Bwa%2Binna%2Beleh%2Be%2Brajeun.jpg


جنہا نوں ماں جم کے چٹیا نئیں اوہ اقبال تے راۓ دین لگ پے
 
Last edited:

Raaz

(50k+ posts) بابائے فورم
ina%2Blillah%2Be%2Bwa%2Binna%2Beleh%2Be%2Brajeun.jpg


جنہا نوں ماں جم کے چٹیا نئیں اوہ اقبال تے راۓ دین لگ پے
ہر کوئی راۓ دے سکتا ہے
اقبال پر تو ہمارے دیو بندی علما نے بہت تنقید کی ہے ، انکو کافر تک کہا

اقبال اس بات سے بہت پریشان بھی ہوتے تھے
کہ عالم دن ہو کر بھی ایسی باتیں کرتے ہیں
 

Sarfraz1122

MPA (400+ posts)
اقبال اپنی ساری زندگی بہت کنفیوز رہے-لیکن وہ مسلما نوں کا درد اپنے سینے میں رکھتے تھے - جب اقبال کوئی اصلاح کی اور نئی بات کرتے تو ملائیت ان کے خلاف ہو جاتی پھر وہ اپنے آپ کو مسلم معاشرے میں ایڈجسٹ کرنے کے لئے منافقت کا شکار ہو جاتے - اقبال کا مطالعہ بھی ا علی پا ے کا نہیں تھا اور اس کے علاوہ ان کی شاعری میں اس وقت کے حالات اور واقعات کا رنگ بھی جھلکتا ہے -اقبال جو محسوس کرتے اس کو بیان کر دیتے - اقبال کا خیا لات کو عمدہ شاعری میں بدلنا ہی ان کا کمال تھا اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے یہ نیچر گفٹڈ تھا - اقبال کے بیٹے جا ید اقبال اپنے نظریات میں واضح تھے لیکن کیونکہ جاوید اقبال کے واضح خیالات ہمارے معاشرے سے میچ نہیں کرتے تھے لہذا جاوید اقبا ل کو کبھی وہ مقبولیت حاصل نہیں ہوئی جو ان کا حق بنتی تھی
 

Foreigner

Senator (1k+ posts)
قائد اعظم کے چند جملے رگڑنے کے بعد ٹھس سیکولر لبرل بندوق علامہ اقبال کے کندھے پر رکھ کر چلائی جائے گی

اوہ ابھی تک وہ چند ہی جملے برداشت نہیں ہو پا رہے؟ کوئی بات نہیں، آپ اکیلے نہیں ہیں، اور بھی بہت سوں سے بھی برداشت نہیں ہو سکے تھے، اسی لئے انہوں نے ان جملوں میں ردوبدل کر دیا.

 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
اوہ ابھی تک وہ چند ہی جملے برداشت نہیں ہو پا رہے؟ کوئی بات نہیں، آپ اکیلے نہیں ہیں، اور بھی بہت سوں سے بھی برداشت نہیں ہو سکے تھے، اسی لئے انہوں نے ان جملوں میں ردوبدل کر دیا.
تلاش جاری رکھیں کبھی نا کبھی کچھ اور بھی مل ہی جائے گا
 

Buzdar

Politcal Worker (100+ posts)
اور کبھی وہ جناح جیسے لبرل اور انگلش طرز زندگی والے شخص کو اس بات پہ قائل کر رہے ہوتے تھے کہ انڈیا تشریف لا کر مسلمانان ہند کی رہنمائی کی جائے
yeh bat bhi bhot bad mn mashhor krai gi warna Iqbal ny kbi asi ko koshesh ni ki.....
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
It's on record. Their correspondence tells the story. Jinnah himself admitted that Iqbal motivated him.

yeh bat bhi bhot bad mn mashhor krai gi warna Iqbal ny kbi asi ko koshesh ni ki.....
علامہ اقبال کو مسلمانان برصغیر کا کیس لڑنے کے لئے محمد علی جناح سے بہتر وکیل میسر نہیں تھا. سو انھے ہی راضی کیا
 

Mughal1

Chief Minister (5k+ posts)
It is not iqbal who was confused the whole human world is confused that is why we human beings are in a situation that we are. I am not against criticism of anyone or anything but those who wish to do so must try to reach a level of understanding needed for criticism of a person or an ideology.

NO human being is born with knowing all rather people start learning things after birth and carry on till their deaths. Iqbal was not any different in this respect but he reached far beyond anyone of his time from his place of birth. This in itself was a great achievement. It is not sensible thing to do to quote iqbal from different stages of his life in order to show contradictions in his ideas. Regardless he reached a conclusion that is solid as a rock and none is born yet to prove him wrong. He said islam is a deen and not a mazhab. Deen of islam is the best way of life possible for mankind and none is born yet to prove otherwise.

For getting hang of what the actual message of the quran is and what actual deen of islam is see HERE, HERE and HERE.
 

Buzdar

Politcal Worker (100+ posts)
The Return of Jinnah – 1934

By Amaar Ahmad:The history behind Jinnah’s return to Indian politics in 1934 makes for an inconvenient truth. The man whose eloquent persuasion left Jinnah no escape in returning to politics, has been forgotten in the annals of official Pakistani history. That man was not Liaqat Ali Khan and certainly not Dr. Muhammad Iqbal but Abdur Rahim Dard – an Ahmadi missionary in London.After the Round Table Conference of 1932, Muhammad Ali Jinnah had been disillusioned about Indian politics. The major reasons for this were both the hardline Hindu “attitude” and Muslims who were either “flunkeys” of the British or “campfollowers” of the Congress who impeded national unity [1, pg. 94]. After feeling “utterly helpless” he decided to quit Indian politics for good. Taking up residence at Hampstead, he began the practice of law in the more congenial British settings. Known for remaining firm in his decisions, Jinnah’s exit seemed to have have been irrevocable and final.
A. R. Dard met Jinnah in March 1933 and tried to convince him that the Indian Muslims were bereft of good leadership and desperately needed a sincere politician like him. Such was the force of Dard’s advocacy that Jinnah relented. To symbolize his return to politics, Dard arranged for a lecture on the future of India at the Mosque in Putney London in April 1933. Jinnah spoke of how “the eloquent persuasion of the Imam left me no way of escape”. Presided over by Sir Nairne Sandeman, Jinnah’s address criticized the recent White Paper on Indian Constitutional Reform and argued for self-government by Indians [2][3][4][7, pg. 203].Surprisingly, Jinnah biographers, such as Stanley Wolpert, Hector Bolitho and Jaswant Singh, have not mentioned Dard in their works. Jaswant Singh mentions Jinnah’s lecture on Indian Constitutional Reform in [7, pg 203] but he makes no reference to the latter even though the event was entirely Dard’s initiative. Instead, Wolpert and Bolitho credit Liaqat Ali Khan for the change of heart in Jinnah in returning to India. For example, Wolpert describes the meeting between Liaqat Ali Khan and his wife Begum Ranaa in the summer of 1933 [5, pg. 133]. According to Wolpert, Begum Ranaa’s passionate appeals and Liaqat Ali Khan’s “imprecations, offers of assistance and flattery” became the factor in Jinnah’s decision. Bolitho says that Jinnah asked Liaqat Ali Khan to “survey” the feelings in India and if the environment was conducive enough, he would decide to come back. Begum Ranaa confided to Bolitho that Liaqat Ali Khan then “amassed his evidence” and finally asked Jinnah to “come” [1, pg. 98-99].At any rate, in all recorded history, Dr. Muhammad Iqbal has not been mentioned even once in debating Jinnah in person about his future plans. It cannot be proved that Iqbal corresponded with Jinnah on the issue either. On the other hand, Liaqat Ali Khan seems to have facilitated the logistics of Jinnah’s return. He and Begum Ranaa met Jinnah in July 1933 and extended an invitation which can indeed be seen in the context of laying groundwork for his eventual arrival. However, Liaqat Ali Khan’s efforts – vital as they were – are only subsequent to Dard’s meeting with Jinnah (in March 1933) and Jinnah’s consequent address on India’s future (in April).In any case, in Jinnah’s own words, it was not Iqbal or Liaqat Ali Khan but A. R. Dard whose “eloquent persuasion” left Jinnah with “no way of escape.” Dard describes that the most powerful argument which he used in his long discussions with Jinnah was that Jinnah’s abandonment of politics at that juncture would make him a “traitor” for the Muslim cause [6, pg. 103][8]. Interestingly, Jinnah displayed sensitivity on the issue of loyalty even in his early life. In fact, after his legal education completed in London (circa 1896), Jinnah had resolved to be a stage actor. His father angered by this wrote a scathing letter telling him “do not be a traitor to the family” [5, pg. 14]. Jinnah’s resolve melted immediately and he proceeded to India. Perhaps hidden by Jinnah’s stoic and firm decision-making was intense loyalty to his homeland that was laid bare through Dard’s probing.Equally interesting is the fact that A. R. Dard had been deputed as the Ahmadiyya Missionary in London only weeks earlier [6, pg. 103]. Dard narrates that he had received advice from the Head of the Ahmadiyya Community, Mirza Mahmud Ahmad, to meet and convince Mr. Jinnah to return to India [8][6, pg. 103]. Therefore, the Ahmadiyya Community’s spiritual leader must duly be credited for recognizing the importance of Mr. Jinnah in serving the political cause of the Indian Muslim minority and also for using his influence to bring Jinnah back to India. The rest, as they say is history.Unfortunately, just as have other historical facts of Pakistan’s creation have been ruthlessly brushed aside, this part of our history too, has been officially ignored for political expedience. Hiding inconvenient truths such as these have only reinforced the public trend to deny facts even in the face of stark reality, to make heroes into villains and villains into heroes. The outcome of falsifying realities is that today the Pakistani state is unwilling to respond to threats to its own existence and to bitter facts on the ground. The earlier this mindset changes the better. Otherwise, to imagine that Pakistan can continue to live in its present state of denial and yet return to Jinnah’s vision will be to live in a fool’s paradise.