انرجی کا عالمی بحران: سیمنٹ انڈسٹری بری طرح متاثر

cement-industry-121.jpg


ایندھن کے عالمی بحران سے پاکستان کی سیمنٹ انڈسٹری پر برے اثرات، کوئلے کی قیمت میں مسلسل اضافے کی وجہ سے فیکٹریوں کو سیمنٹ کی تیاری پر بھاری پیداواری لاگت اٹھانی پڑ رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق ایندھن کے بحران کی وجہ سے گیس، پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے تاہم سب سے زیادہ اضافہ کوئلے کی قیمت میں ہو رہا ہے جس سے سیمنٹ کی
صنعت متاثر ہوئی ہے، اس وقت عالمی مارکیٹ میں کوئلے کی فریٹ ان بورڈ قیمت 224 ڈالر فی ٹن تک جا پہنچی ہے۔

کوئلے کی قیمت میں اضافے سے سیمنٹ کی پیداواری لاگت بھی بڑھ گئی ہے جبکہ پیداوار مہنگی ہونے سے سیمنٹ کی قیمتوں میں بھی زبردست اضافہ ہو گا۔

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سال 2004 سے سیمنٹ سیکٹر میں کوئلے کو کلنکر بنانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کیا جارہا ہے جو جنوبی افریقا، آسٹریلیا، موزمبیق اور انڈونیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے جبکہ مہنگی درآمد کے باعث پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

دوسری جانب مقامی کوئلہ اس لئے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ کوئلہ نکالنے کے لئے مناسب انفرااسٹرکچر دستیاب نہیں جبکہ مقامی کوئلے کا معیار بھی درآمد شدہ کوئلے سے کم ہے۔

سیمنٹ مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیمنٹ انڈسٹری کے لیے سالانہ 8 ملیں ٹن کوئلہ درآمد کیا جاتا ہے اور سیمنٹ کی موجودہ پیداواری صلاحیت جو کہ 70 ملین ٹن ہے، اگر سیمنٹ کی موجودہ پیداواری صلاحیت کو سال 23-2022 تک 100 ملین ٹن تک بڑھایا جائے تو اس صورت میں کوئلے کی درآمدات میں مزید 4 ملین ٹن کا اضافہ ہوگا جبکہ اس کی درآمدی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اور گزشتہ 15 ماہ کے دوران کوئلے کی قیمت میں چار گنا اضافہ ہوا جبکہ اس وقت کوئلے کی قیمت بلند ترین سطح پر ہے اور اس کی مانگ بھی مسلسل بڑھ رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق کوئلے کی ایف او بی قیمت 55 ڈالر فی ٹن سے بڑھ کر اکتوبر 2021 تک 224 ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکی ہے اور اس کی درآمدی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، جولائی 2020 سے اکتوبر 2021 کے دوران جنوبی افریقا سے پاکستان تک سمندری کرایہ 13 ڈالر سے بڑھ کر 30ڈالر فی ٹن کی سطح پر آچکا ہے جبکہ سیمنٹ انڈسٹری کی ایندھن کی لاگت سو فیصد تک بڑھ گئی ہے۔

ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ جولائی 2020 میں کوئلے کی سی اینڈ ایف قیمت 68 ڈالر فی ٹن تھی جو اب 254 ڈالر کی سطح پر آچکی ہے جس کی وجہ سے سیمنٹ کی ایک بوری پر پر 119 روپے اضافی لاگت آرہی رہی ہے، جبکہ قیمت میں مسلسل اضافے سے فروری 2022 تک کوئلے کی قیمت 300 ڈالر فی ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔

ماہرین کے مطابق بنگلہ دیش اور سری لنکا جیسے سیمنٹ اور کلنکر درآمد کرنے والے اہم ممالک نقل و حمل کی لاگت بڑھنے کی وجہ سے پاکستان سے سیمنٹ کی درآمدات 60 فیصد تک کم کرچکے ہیں،
اب سیمنٹ درآمد کرنے والے ممالک کم قیمت پر سیمنٹ ایکسپورٹ کرنے والے متبادل ملکوں سے سیمنٹ خرید رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں سیمنٹ انڈسٹریز پر فی ٹن 1500 روپے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہے جبکہ خوردہ سطح پر 17 فیصد سیلز ٹیکس بھی ادا کیا جاتا ہے، ان محصولات کا سیمنٹ کی ایک بوری میں حصہ 170 روپے بنتا ہے، سیمنٹ انڈسٹری کو حکومت کی فوری توجہ اور ریلیف کی ضرورت ہے۔ حکومت کو سیمنٹ جیسی بنیادی شے پر ایکسائز ڈیوٹی کے خاتمے کا وعدہ پورا کرنے کے ساتھ ساتھ کوئلے اور ایندھن پر سے درآمدی ڈیوٹی کا خاتمہ بھی ناگزیر ہے۔

ایندھن کے بحران کی وجہ سے پاکستان میں سب سے زیادہ سیمنٹ کی صنعت متاثر ہو گی جبکہ جس سے تعمیراتی سرگرمیوں کو دھچکا لگے گا

دوسری جانب پيٹرول کی قيمت ميں ہوشربا اضافے نے جہاں عوام کیلئے نئی مشکلات کھڑی کردیں وہیں آئل مارکيٹنگ کمپنيوں کی چاندی ہوگئی۔

پاکستان پيٹروليم ڈيلرز ايسوسی ايشن کے ترجمان کے مطابق کمپنيوں نے پہلے سے ہی 10 دن کا اسٹاک جمع کرليا تھا، قيمتيں بڑھنے سے کم سے کم 5 ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے۔
 

Resilient

Minister (2k+ posts)
ایکسائز ڈیوٹی ان اشیاء پر عائد کی جاتی ہے جن کا استعمال کم کرنا مقصود ہو جیسے سگریٹ شراب وغیرہ، سیمینٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کی کوئی وجہ نہیں ہے