انگریزی اخبار دی نیوز کے سینئر صحافی انصار عباسی نے اپنے ذاتی یوٹیوب چینل پر ایک وی لاگ میں دعویٰ کیا کہ اسحاق ڈار پر بنائے جانے والے کیسز میں کوئی جان نہیں، ملکی معیشت خراب ہے انہیں واپس بلانا چاہیے اور ان پر کیسز بنانے والوں کو ان سے معافی مانگنی چاہیے۔
انصار عباسی کے اس وی لاگ پر لوگوں نے انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس پر وزیراعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد نے کہا ہے کہ محترم آئندہ سے دینی بات مت کیجیے گا کیونکہ شریف خاندان اور اسحاق ڈار جیسے قومی مجرموں کے حق میں صرف وہی شخص بول سکتا جسکی اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہو۔
ڈاکٹر ارسلان نے مزید کہا کہ جس نے معیشت تباہ کردی اور اب بھگوڑا بن کے لندن بیٹھا ہے، اس کے تو گھر والے نہ ایسی تعریف کریں جو آپ نے کی۔
صحافی اور تجزیہ کار انور لودھی نے کہا کہ عباسی صاحب اگر اسحاق ڈار نے اکانومی اتنی ہی بہتر کر دی تھی تو انہوں نے موٹروے، ریڈیو اسٹیشن، ائیر پورٹ گروی کیوں رکھے؟ اکانومی بہتر تھی تو پی ٹی آئی حکومت کو آتے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اسی وی لاگ پر تنقید کرتے ہوئے ایک صارف نے کہا کہ ایک بار پھر ثابت ہوا سینئیر صحافیوں کو معیشت کا کچھ نہیں پتا۔
عامر مرزا نے کہا کہ انصار عباسی اسی منہ سے دین کی باتیں کرتے ہیں، یا وہ کوئی اور منہ ہے؟ اگر یہی ہے تو رتی برابر ان کی دین پسندی کا یقین کرنا عین جہالت ہوگی۔
وقار احمد نے لکھا کہ انصار عباسی بڑے بااخلاق عموماً اخلاقیات پر لیکچر دیتے دیکھائی دیتے ہیں ایسے شخص کی حمایت میں بولے جو عدالت سے اشتہاری ہے جس نے مالیاتی پالیسی سے ملک کا دیوالیہ نکالا جس نے مصنوعی طور پر ڈالر کو مستحکم رکھا۔ انصار عباسی صاحب آپ کی اخلاقیات کا درس دفن ہوا۔
اکبر نے لکھا کہ سارے پاکستانی دانشوروں کا کُل معیشی نالج یہی ہے کہ ڈالر کو نیچے رکھو اورچینی کو سستا رکھو۔
کاشف نے انصار عباسی سے متعلق کہا کہ وہ ممتاز ترین ذاتی ماہر معاشیات ہیں۔
خوشی نے طنزیہ طور پر کہا کہ انصار عباسی کہتے ہیں کہ اسحاق ڈار کی وجہ سے اکانومی بہت بہتر حالت میں تھی، پھر کیا وہ بہتر اکانومی انگلینڈ لے گئے؟