اگر مطیع اللہ جان کوئی انڈین ایجنٹ تھا، تو اسے اغوا کرنے کے بعد تفتیش کے لیے کہیں منتقل کیوں نہ کیا؟ اور ایسی کیا موت آن پڑی تھی کہ اسی دن، اسی تاریخ کو چھوڑنا پڑ گیا۔ کیا کوئی گھبراہٹ طاری ہوگئی تھی؟ بلڈ پریشر ہائی ہو رہا تھا یا بار بار باتھ روم جانے کے باوجود کوئی افاقہ نہیں ہورہا تھا اور پیشاب بار بار وردی کے اندر ہی خارج ہو رہا تھا؟
اصل میں ہوا کچھ یوں کہ مطیع اللہ جان کے مجرمانہ اغوا کے فوراً بعد نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک کی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ دنیا بھر کے آزاد اور جمہوریت پسند عوام نے نعرہ احتجاج بلند کرتے ہوئے سوشل میڈیائی غزوہ ہند شروع کر دیا۔ کل ایک بوٹ پالشی بھائی نے مجھے مشورہ دیا کہ کی بورڈ چھوڑ کر مورچہ زن ہوجاؤں، بالکل ویسے ہی جیسے جرنیل کشمیر کی آزادی کے لیے ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر مورچہ زن ہیں۔
تو میں نے ان کے مشورے کو درخور اعتنا نہیں جانا، اور اپنا احتجاج چند سطور میں ریکارڈ کرا کے چلا گیا۔ قطرہ قطرہ سمندر بنا، اور 'اغوا کاروں' کو لگا کہ اگر یہ احتجاج یوں ہی جاری رہا تو اس کے سیلاب میں کرتارپور کاریڈور، اسلام آبادی مجوزہ مندر، ابھی نندن کی رہائی، کلبھوشن کی رہائی کی کوششوں، افغانستان سے ہندوستان تجارت کی بحالی سمیت جتنے بھی پاپڑ بیلے ہیں وہ گول گپوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور پھر گلی گلی 'گول گپے والا آیا' گانا پڑ جائے گا۔
مجھے لگتا ہے جب یہ لوگ جنرل یحیٰ خان اور جنرل مشرف کمانڈو کا برانڈ بہت زیادہ چڑھا لیتے ہیں تو اس وقت دماغ کی جگہ سن ہوجاتی ہے، اور سارا بھیجا اور مغز انڈروئیر کے اندر، دونوں جانب آدھا آدھا منتقل ہوجاتا ہے۔ کل بھی یہی ہوا ہوگا۔ زیادہ پی لینے کے بعد ان لوگوں کو لگا ہوگا کہ کشمیر فتح ہوگیا، اور لال قلعے پر شوکت خانم ہسپتال اور جی ایچ کیو کا بورڈ لگ گیا۔ چناں چہ مطیع اللہ جان کو تسخیر کرنے کے لیے آ دھمکے۔
خیر یہ ایک اچھی بات ہے، کہ بندوق والوں کو بندوق کی مردانہ کمزوری کا بروقت احساس ہوگیا ہے۔ امید ہے اگلی بار اگر کسی کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے گا تو وردی والوں کے بجائے حریم شاہ، وینا ملک اور سنتھیا رچی کو وردی پہنا کر بھیجا جائے گا۔
اصل میں ہوا کچھ یوں کہ مطیع اللہ جان کے مجرمانہ اغوا کے فوراً بعد نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک کی صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ دنیا بھر کے آزاد اور جمہوریت پسند عوام نے نعرہ احتجاج بلند کرتے ہوئے سوشل میڈیائی غزوہ ہند شروع کر دیا۔ کل ایک بوٹ پالشی بھائی نے مجھے مشورہ دیا کہ کی بورڈ چھوڑ کر مورچہ زن ہوجاؤں، بالکل ویسے ہی جیسے جرنیل کشمیر کی آزادی کے لیے ٹوئیٹر اور یوٹیوب پر مورچہ زن ہیں۔
تو میں نے ان کے مشورے کو درخور اعتنا نہیں جانا، اور اپنا احتجاج چند سطور میں ریکارڈ کرا کے چلا گیا۔ قطرہ قطرہ سمندر بنا، اور 'اغوا کاروں' کو لگا کہ اگر یہ احتجاج یوں ہی جاری رہا تو اس کے سیلاب میں کرتارپور کاریڈور، اسلام آبادی مجوزہ مندر، ابھی نندن کی رہائی، کلبھوشن کی رہائی کی کوششوں، افغانستان سے ہندوستان تجارت کی بحالی سمیت جتنے بھی پاپڑ بیلے ہیں وہ گول گپوں میں تبدیل ہوجائیں گے اور پھر گلی گلی 'گول گپے والا آیا' گانا پڑ جائے گا۔
مجھے لگتا ہے جب یہ لوگ جنرل یحیٰ خان اور جنرل مشرف کمانڈو کا برانڈ بہت زیادہ چڑھا لیتے ہیں تو اس وقت دماغ کی جگہ سن ہوجاتی ہے، اور سارا بھیجا اور مغز انڈروئیر کے اندر، دونوں جانب آدھا آدھا منتقل ہوجاتا ہے۔ کل بھی یہی ہوا ہوگا۔ زیادہ پی لینے کے بعد ان لوگوں کو لگا ہوگا کہ کشمیر فتح ہوگیا، اور لال قلعے پر شوکت خانم ہسپتال اور جی ایچ کیو کا بورڈ لگ گیا۔ چناں چہ مطیع اللہ جان کو تسخیر کرنے کے لیے آ دھمکے۔
خیر یہ ایک اچھی بات ہے، کہ بندوق والوں کو بندوق کی مردانہ کمزوری کا بروقت احساس ہوگیا ہے۔ امید ہے اگلی بار اگر کسی کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنایا جائے گا تو وردی والوں کے بجائے حریم شاہ، وینا ملک اور سنتھیا رچی کو وردی پہنا کر بھیجا جائے گا۔