اور تبدیلی الٹی پڑگئی

Goldfinger

MPA (400+ posts)

Saleem-Safi2-Columnist.png

(1) اور تبدیلی الٹی پڑگئی

سلیم صافی​

”کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید عمران خان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے حالانکہ وہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں،جن سے میری شناسائی میدان صحافت میں قدم رکھنے سے قبل ہوئی تھی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد علی درانی اور عمران خان وہ تین سیاستدان ہیں،جن سے میرا تعارف دور طالب علمی میں ہوگیا تھا۔جنرل حمید گل مرحوم کے علاوہ حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر فاروق خان مرحوم اور محمد علی درانی وہ لوگ تھے جو عمران خان کو سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

ڈاکٹر فاروق خان میرے بڑے بھائی کی مانند دوست اور نظریاتی تربیت کرنے والے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور پی ٹی آئی کا دستور بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔ محمد علی درانی کے ساتھ بھی میری دور طالب علمی سے بھائی بندی ہے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے میدان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابتدائی نشستوں میں ان سے متنفر ہوگئے۔

ڈاکٹر فاروق خان سال ڈیڑھ ان کے ساتھ چلے اور پھر خاموشی کے ساتھ الگ ہوگئے۔ عمران خان سیاست کریں یا نہ کریں؟ اس سوال پر ابتدائی نشستیں لاہور میں جاوید احمد غامدی کے گھر پر ہوئی تھیں جن کو مجھے ڈاکٹر فاروق خان کی وساطت سے براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔

کئی دن پر محیط اس بحث کو ایک کونے میں بیٹھ کر میں سنتا رہا۔ جاوید احمد غامدی، عمران خان کو سیاست سے منع کررہے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ عمران خان سیاست کے لئے موزوں نہیں۔ وہ انہیں شوکت خانم کی طرح مزید پروجیکٹ شروع کرنے اور ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کہتے رہے لیکن عمران خان سیاست کی طرف مائل تھے۔

دوسری طرف جنرل حمید گل، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر فاروق خان چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ کئی روز پر محیط اس مباحثے کو سننے کے نتیجے میں ایک تو میں بھی جاوید احمد غامدی کی رائے کا قائل ہوگیا اور دوسرا عمران خان کے بارے میں میری رائے بھی یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس وقت تک میں کرکٹر اور سوشل ورکر ہونے کے ناطے عمران خان کا فین تھا اور انہیں سیدھا سادہ انسان سمجھ رہا تھا لیکن اس وقت مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ صرف کرکٹر نہیں بلکہ عملی زندگی کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔

میری یہ رائے بنی کہ وہ اسٹیٹس مین تو نہیں لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ایک ایسے انسان ہیں جن کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے سامنے مختلف روپ سامنے لاتے ہیں۔ بہ ہر حال وہ میدان سیاست میں آئے۔2011 تک میں نے ان کی سیاست کو خاص توجہ دی اور نہ خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا۔

افغانستان اور طالبان سے متعلق ان کی اپروچ سے مجھے شدید اختلاف تھا لیکن چونکہ قومی سیاست میں ان کا کردار قابل ذکر تھا اور نہ وہ حکمران تھے، اس لئے میں نے بھی ان پر خصوصی تنقید نہیں کی۔ ہاں البتہ 2011کے بعد وہ میری خصوصی تنقید کا نشانہ اس وجہ سے بننے لگے کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ انہیں نئے سیاسی گھوڑے کے طور پر تیار کرنے لگی ہے۔

عمران خان بعد میں تو جنرل پرویز مشرف کے مخالف، اس وقت بن گئے جب ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کی بجائے اقتدار مسلم لیگ(ق) کو دلوانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت عمران خان پرویز مشرف سے راتوں کی ملاقاتوں میں زور دیتے رہے کہ وہ انہیں دو تین درجن الیکٹیلبز دے دیں تو وہ الیکشن جیت سکتے ہیں لیکن پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ پچاس کو تو سو بناسکتے ہیں لیکن دس کو سو نہیں بناسکتے۔ یوں عمران خان جنرل پرویز مشرف سے ناراض ہوگئے اور ان کی مخالفت میں وزارت عظمیٰ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ دیا۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ لندن میں نواز شریف کی بلائی گئی اے پی سی میں بھی شریک ہوئے لیکن اس عرصے میں بھی عمران خان افغانستان اور طالبان سے متعلق ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ان کی مہم بھی اس سلسلے کی کڑی تھی۔ 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جب پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کرگئے اور مسلم لیگ(ن) پہلے سے مغضوب تھی تو عمران خان کی قیادت میں تیسری قوت کھڑی کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔

اس دوران لوگ ظاہری بیانات کی بنا پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن مجھے ذاتی طور پر علم تھا کہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر جیسے لوگوں کو کس طرح طاقتوروں نے عمران خان کا ہم سفر بنایا؟ پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ کس طرح ان کے لاہور اور پنڈی کے جلسے میں ان کا ہاتھ بٹایا گیا اور کس طرح ہمارے ٹی وی چینل سمیت میڈیا کو ان کا معاون اور ہم رکاب بنایا گیا۔

میں چونکہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں، اس لئے جب عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا بنایا تو اس وقت سے میری خصوصی تنقید کا رخ ان کی طرف ہونے لگا۔ دوسری طرف عمران خان چونکہ میڈیا کے لاڈلے بنائے گئے تھے اور سلیبرٹی کی زندگی گزارنے کی وجہ سےتنقید سننے کے عادی بھی نہیں تھے، اس لئے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس انہوں نے میری تنقید کو دل پر لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ حالانکہ میری خصوصی تنقید کی پہلی وجہ مذکورہ پس منظر تھا۔

ایک اور بات جس کی وجہ سے میں عمران خان پر تنقید کرنے والوں میں نمایاں ہوگیا یہ تھی کہ میں عمران خان کو اس طرح نہیں سمجھ رہا تھا، جس طرح کہ ان کے چاہنے والے یا پھر ہمارے میڈیا کے بعض دوست سمجھ رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کو صحافت میں آنے سے قبل قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا، اس لئے میں سمجھ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں ایسے نہیں کہ جیسے نظر آ رہے ہیں۔

مثلاً لوگ ان کو بڑا صاحبِ دل سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا صرف ذہن اور خواہش ہے لیکن ان کا دل نہیں ہے۔ لوگ انہیں سچا اور کھرا انسان سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ زرداری اور نواز شریف کی طرح کے ایک سیاستدان تھے۔ اب آصف زرداری جیسے ہیں، لوگ ان کو ویسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کا ہے“۔(جاری ہے)

(راقم کی نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ سے اقتباس)

اور تبدیلی الٹی پڑ گئی (2)

سلیم صافی
(گزشتہ سے پیوستہ)

یوں بطور صحافی میری کوشش تھی کہ میں عمران خان کو دیگر سیاستدانوں کی طرح اصل روپ میں عوام کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دوں ۔ میرا ارادہ تھا کہ جس دن عوام ان کو اسی طرح جان لیں گے جس طرح نواز شریف اور زرداری کو جانتے ہیں تو میں ان سے متعلق خصوصی تنقید کرناچھوڑ دوں گا لیکن افسوس کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ ہر ادارے کو ان کے حق میں ایسے استعمال کیا گیا کہ ہم جیسے چند لوگوں کی آواز نقارخانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اقتدار میں آنے کےبعد دھیرے دھیرے ان کی حقیقت بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح عوام پر واضح ہورہی ہے۔

عمران خان کو ان کے حامی تو کیا بعض مخالفین بھی سیدھا سادہ انسان سمجھ رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اب بھی سمجھ رہی ہے لیکن میں ان کے سیاست میں آنے کے دن سے انہیں نہایت ذہین اور شاطر انسان سمجھتا ہوں۔ ذہین ، دانشمند یا پھر اسٹیٹس مین کے پیرائے میں نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے ذہین۔ میں نے محسوس کیا کہ عمران خان اپنی ذات سے متعلق دل کی بجائے عقل کی بنیاد پرفیصلے کرتے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں پوری ٹیم کی جیت کو اپنی جیت بنا یا ۔ پھر ورلڈ کپ کو شوکت خانم کے لیے اور پھر شوکت خانم کو سیاسی جماعت بنانے کے لیے استعمال کیا۔ میری اس رائے کی پختگی کے پیچھے ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں لیکن وہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں اور میں ذاتی معاملات کا میڈیا میں کبھی ذکر نہیں کرتا ۔یوں میری یہ سوچ بن گئی تھی کہ اگر ایک شخص دل کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا تو وہ کیوں کر ملک کا درد دل میں سموسکتا ہے۔

یہ تو رہا عمران خان سے متعلق میری تنقید کا پس منظر لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا معاملہ میری صحافتی زندگی کا سب سے مشکل اور صبر آزما مرحلہ رہا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ عمران خان ایک سلیبرٹی اور سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر تھے۔ ملک کے لاکھوں نوجوان ان کو مسیحا سمجھ رہے تھے ۔ اب ایک میڈیا پرسن، جو ٹی وی پر بھی پروگرام کی میزبانی کرتا ہو،کے پروگرام میں اگر ملک کا سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والا لیڈر آنے سے انکاری ہو (عمران خان نے 2012میں مجھے ایک بار انٹرویو دیا اور اس کے بعد میرے سامنے بیٹھنے کا کبھی رسک نہیں لیا) تو میڈیا پرسن جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی قیمت ہے؟ دوسری طرف 2011سے میں ان کے چاہنے والوں کی گالیاں برداشت کررہا ہوں ۔ پی ٹی آئی نے برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور میں سوشل میڈیا کے مختلف سیٹ اپ بنا رکھے تھے جو مسلسل میری کردارکشی میں لگے رہے ۔ ملک کے اندر بھی اسد عمر ، عارف علوی، جہانگیر ترین، علیم خان، عثمان ڈار اور خود عمران خان کے الگ الگ سیٹ اپ تھے اور ان سب کی خصوصی نظر اس عاجز پر رہی ۔ حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد حکومتی وسائل بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگے ۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ جس طرح عمران خان کی حمایت کرنے والے میڈیا پرسنز کی سرپرستی کرتی رہی، اسی طرح ہم جیسے لوگ اس کے ناپسندیدہ تھے ۔ میرے لیے ایک اور بڑی آزمائش یہ تھی کہ ہمارے طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سیاسی دوستوں کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے تھا۔ عمران خان کے دبائو پر کئی ایک نے مجھے چھوڑ دیا اور کچھ کو مجھے الوداع کہنا پڑا کیونکہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے برعکس عمران خان ذاتی اور سیاسی تعلق کو الگ الگ رکھنے کے قائل نہیں ۔ بہر حال ہم جیسے قلم کے مزدوروں کی چیخ و پکار کے باوجود عدلیہ، میڈیا، نیب اور الیکشن کمیشن کو بری طرح استعمال کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان کے لیے بڑی آزمائش ثابت ہوئی لیکن میں عمران خان کا مشکور ہوں کہ اپنی طرز حکمرانی کے ذریعے انہوں نے مجھے سرخرو کیا ۔ تاہم سرخروئی کے باوجود میں خوش نہیں کیونکہ یہ تبدیلی کم و بیش ہر حوالے سے الٹی پڑ گئی ہے ۔

عمران خان کو اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنایا گیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر کریں گے لیکن جی ڈی پی گروتھ جو ان کے وزیراعظم بننے سے قبل پانچ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی ، ایک فی صد پر آگئی۔ 2019-20کے مالی سال کے دوران یہ شرح افغانستان سے بھی کم رہی جبکہ اس سال مہنگائی کی شرح افغانستان سے زیادہ رہی ۔ توقع یہ تھی کہ وہ پاکستان کو سنگاپور یا ملائیشیا بنا دیں گے لیکن معاشی لحاظ سے الٹا انہوں نے افغانستان بنا دیا۔امید لگائی گئی تھی کہ وہ خارجہ محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ۔ چین کو ناراض کیا لیکن امریکہ کو بھی اپنا ہمنوا نہ بناسکے ۔ سعودی عرب کو ناراض کیا لیکن ترکی و ایران کو بھی پوری طرح اپنا نہ بناسکے ۔ انہیں اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنا یا گیا تھا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے لیکن انہوں نے ان دونوں کے گناہ بخشوا دیے اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ عمران خان نے ان کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے الٹا زندہ کردی ہے۔ یہ توقع تھی کہ وہ قوم کو متحد کریں گے لیکن ان کے دور میں سیاست بدرجہ اتم نفرت اور پولرائزیشن کی شکار ہوگئی۔ توقع تھی کہ وہ میڈیا کو مضبوط بنائیں گے لیکن ان کے دور میں میڈیا کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کے ذریعے عوام کی نظروں میں بے وقعت کردیا گیا ۔ چونکہ ہر حوالے سے معاملہ الٹ ہوگیا ہے ، اس لیے اس کتاب کا نام ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ رکھا گیا ہے ۔ اس سے قبل میری جو کتاب ”اور تبدیلی لائی گئی ۔۔۔“ شائع ہوئی ہے، اس میں الیکشن سے قبل کے دور کے عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق کالم جمع کئے گئے“۔

یہ اقتباس میری نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑ گئی۔۔۔“ سے لیا گیا ہے جو تین ماہ قبل پرنٹنگ کے لیے بھجوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے یہ کتاب عین اس وقت منظر عام پر آئی جب ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا تنازعہ زوروں پر تھا۔ غریب عوام کو تو پہلے ہی احساس ہو چکا تھا کہ تبدیلی الٹی بلکہ ان کے گلے پڑ گئی لیکن نوٹیفیکیشن کے معاملے پر اس بلاجواز تنازعہ کی وجہ سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ یہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے بھی گلے پڑگئی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

سورس
سورس

 

First Strike

Chief Minister (5k+ posts)

سلیم لفافی تیرا کالم پڑھے بغیر ہی تجھ پر بے شمار لعنت

لفافی چاہے تو الٹا ہو یا الٹ پُلٹ ہو لیکن خان تجھے ہڈی نہیں ڈالے گا۔ تیرے جیسے آوارہ کتے بھونکتے ہی رہ جائیں گے
 

Zainsha

Chief Minister (5k+ posts)
oo bay*ghairat kay bacchhay.. Imran Khan ne world cup jeeta.. Shaukat Khanam banaya..

Gandu tu ne logoon ko chutiya bananay kay illwaa kya keeya hai.. ZERO achievement in life..

bhosri kay yeh tanqeed zara apnay baap nawaz sharif pe kar.. teri gaand pay aisay littar paray ga kay sarkon pe bheek maangay ga..

or haan gandu.. tu agar Imran Khan pe tanqeed na karay tou koi tujh pe thokay bhi naheen.. tu sirf Imran Khan pe tanqeed ki roti kha raha hai..

kitab bhi likhi to Imran Khan kay khilaaf.. apnay baap nawaz sharif kay khilaaf kitab likh.. Zardari kay khilaaf likh... looti mulla kay khilaaf likh.. lekin woh kitab bikay gi naheen..

teri yeh kitab bhi sirf Imran Khan kay naam ki waja se bikay gi.. randi ki aulaad..
 

Hunter_

MPA (400+ posts)

Saleem-Safi2-Columnist.png

(1) اور تبدیلی الٹی پڑگئی

سلیم صافی​

”کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید عمران خان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے حالانکہ وہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں،جن سے میری شناسائی میدان صحافت میں قدم رکھنے سے قبل ہوئی تھی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد علی درانی اور عمران خان وہ تین سیاستدان ہیں،جن سے میرا تعارف دور طالب علمی میں ہوگیا تھا۔جنرل حمید گل مرحوم کے علاوہ حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر فاروق خان مرحوم اور محمد علی درانی وہ لوگ تھے جو عمران خان کو سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

ڈاکٹر فاروق خان میرے بڑے بھائی کی مانند دوست اور نظریاتی تربیت کرنے والے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور پی ٹی آئی کا دستور بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔ محمد علی درانی کے ساتھ بھی میری دور طالب علمی سے بھائی بندی ہے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے میدان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابتدائی نشستوں میں ان سے متنفر ہوگئے۔

ڈاکٹر فاروق خان سال ڈیڑھ ان کے ساتھ چلے اور پھر خاموشی کے ساتھ الگ ہوگئے۔ عمران خان سیاست کریں یا نہ کریں؟ اس سوال پر ابتدائی نشستیں لاہور میں جاوید احمد غامدی کے گھر پر ہوئی تھیں جن کو مجھے ڈاکٹر فاروق خان کی وساطت سے براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔

کئی دن پر محیط اس بحث کو ایک کونے میں بیٹھ کر میں سنتا رہا۔ جاوید احمد غامدی، عمران خان کو سیاست سے منع کررہے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ عمران خان سیاست کے لئے موزوں نہیں۔ وہ انہیں شوکت خانم کی طرح مزید پروجیکٹ شروع کرنے اور ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کہتے رہے لیکن عمران خان سیاست کی طرف مائل تھے۔

دوسری طرف جنرل حمید گل، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر فاروق خان چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ کئی روز پر محیط اس مباحثے کو سننے کے نتیجے میں ایک تو میں بھی جاوید احمد غامدی کی رائے کا قائل ہوگیا اور دوسرا عمران خان کے بارے میں میری رائے بھی یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس وقت تک میں کرکٹر اور سوشل ورکر ہونے کے ناطے عمران خان کا فین تھا اور انہیں سیدھا سادہ انسان سمجھ رہا تھا لیکن اس وقت مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ صرف کرکٹر نہیں بلکہ عملی زندگی کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔

میری یہ رائے بنی کہ وہ اسٹیٹس مین تو نہیں لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ایک ایسے انسان ہیں جن کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے سامنے مختلف روپ سامنے لاتے ہیں۔ بہ ہر حال وہ میدان سیاست میں آئے۔2011 تک میں نے ان کی سیاست کو خاص توجہ دی اور نہ خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا۔

افغانستان اور طالبان سے متعلق ان کی اپروچ سے مجھے شدید اختلاف تھا لیکن چونکہ قومی سیاست میں ان کا کردار قابل ذکر تھا اور نہ وہ حکمران تھے، اس لئے میں نے بھی ان پر خصوصی تنقید نہیں کی۔ ہاں البتہ 2011کے بعد وہ میری خصوصی تنقید کا نشانہ اس وجہ سے بننے لگے کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ انہیں نئے سیاسی گھوڑے کے طور پر تیار کرنے لگی ہے۔

عمران خان بعد میں تو جنرل پرویز مشرف کے مخالف، اس وقت بن گئے جب ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کی بجائے اقتدار مسلم لیگ(ق) کو دلوانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت عمران خان پرویز مشرف سے راتوں کی ملاقاتوں میں زور دیتے رہے کہ وہ انہیں دو تین درجن الیکٹیلبز دے دیں تو وہ الیکشن جیت سکتے ہیں لیکن پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ پچاس کو تو سو بناسکتے ہیں لیکن دس کو سو نہیں بناسکتے۔ یوں عمران خان جنرل پرویز مشرف سے ناراض ہوگئے اور ان کی مخالفت میں وزارت عظمیٰ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ دیا۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ لندن میں نواز شریف کی بلائی گئی اے پی سی میں بھی شریک ہوئے لیکن اس عرصے میں بھی عمران خان افغانستان اور طالبان سے متعلق ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ان کی مہم بھی اس سلسلے کی کڑی تھی۔ 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جب پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کرگئے اور مسلم لیگ(ن) پہلے سے مغضوب تھی تو عمران خان کی قیادت میں تیسری قوت کھڑی کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔

اس دوران لوگ ظاہری بیانات کی بنا پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن مجھے ذاتی طور پر علم تھا کہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر جیسے لوگوں کو کس طرح طاقتوروں نے عمران خان کا ہم سفر بنایا؟ پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ کس طرح ان کے لاہور اور پنڈی کے جلسے میں ان کا ہاتھ بٹایا گیا اور کس طرح ہمارے ٹی وی چینل سمیت میڈیا کو ان کا معاون اور ہم رکاب بنایا گیا۔

میں چونکہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں، اس لئے جب عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا بنایا تو اس وقت سے میری خصوصی تنقید کا رخ ان کی طرف ہونے لگا۔ دوسری طرف عمران خان چونکہ میڈیا کے لاڈلے بنائے گئے تھے اور سلیبرٹی کی زندگی گزارنے کی وجہ سےتنقید سننے کے عادی بھی نہیں تھے، اس لئے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس انہوں نے میری تنقید کو دل پر لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ حالانکہ میری خصوصی تنقید کی پہلی وجہ مذکورہ پس منظر تھا۔

ایک اور بات جس کی وجہ سے میں عمران خان پر تنقید کرنے والوں میں نمایاں ہوگیا یہ تھی کہ میں عمران خان کو اس طرح نہیں سمجھ رہا تھا، جس طرح کہ ان کے چاہنے والے یا پھر ہمارے میڈیا کے بعض دوست سمجھ رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کو صحافت میں آنے سے قبل قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا، اس لئے میں سمجھ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں ایسے نہیں کہ جیسے نظر آ رہے ہیں۔

مثلاً لوگ ان کو بڑا صاحبِ دل سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا صرف ذہن اور خواہش ہے لیکن ان کا دل نہیں ہے۔ لوگ انہیں سچا اور کھرا انسان سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ زرداری اور نواز شریف کی طرح کے ایک سیاستدان تھے۔ اب آصف زرداری جیسے ہیں، لوگ ان کو ویسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کا ہے“۔(جاری ہے)

(راقم کی نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ سے اقتباس)

اور تبدیلی الٹی پڑ گئی (2)

سلیم صافی
(گزشتہ سے پیوستہ)

یوں بطور صحافی میری کوشش تھی کہ میں عمران خان کو دیگر سیاستدانوں کی طرح اصل روپ میں عوام کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دوں ۔ میرا ارادہ تھا کہ جس دن عوام ان کو اسی طرح جان لیں گے جس طرح نواز شریف اور زرداری کو جانتے ہیں تو میں ان سے متعلق خصوصی تنقید کرناچھوڑ دوں گا لیکن افسوس کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ ہر ادارے کو ان کے حق میں ایسے استعمال کیا گیا کہ ہم جیسے چند لوگوں کی آواز نقارخانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اقتدار میں آنے کےبعد دھیرے دھیرے ان کی حقیقت بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح عوام پر واضح ہورہی ہے۔

عمران خان کو ان کے حامی تو کیا بعض مخالفین بھی سیدھا سادہ انسان سمجھ رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اب بھی سمجھ رہی ہے لیکن میں ان کے سیاست میں آنے کے دن سے انہیں نہایت ذہین اور شاطر انسان سمجھتا ہوں۔ ذہین ، دانشمند یا پھر اسٹیٹس مین کے پیرائے میں نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے ذہین۔ میں نے محسوس کیا کہ عمران خان اپنی ذات سے متعلق دل کی بجائے عقل کی بنیاد پرفیصلے کرتے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں پوری ٹیم کی جیت کو اپنی جیت بنا یا ۔ پھر ورلڈ کپ کو شوکت خانم کے لیے اور پھر شوکت خانم کو سیاسی جماعت بنانے کے لیے استعمال کیا۔ میری اس رائے کی پختگی کے پیچھے ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں لیکن وہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں اور میں ذاتی معاملات کا میڈیا میں کبھی ذکر نہیں کرتا ۔یوں میری یہ سوچ بن گئی تھی کہ اگر ایک شخص دل کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا تو وہ کیوں کر ملک کا درد دل میں سموسکتا ہے۔

یہ تو رہا عمران خان سے متعلق میری تنقید کا پس منظر لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا معاملہ میری صحافتی زندگی کا سب سے مشکل اور صبر آزما مرحلہ رہا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ عمران خان ایک سلیبرٹی اور سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر تھے۔ ملک کے لاکھوں نوجوان ان کو مسیحا سمجھ رہے تھے ۔ اب ایک میڈیا پرسن، جو ٹی وی پر بھی پروگرام کی میزبانی کرتا ہو،کے پروگرام میں اگر ملک کا سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والا لیڈر آنے سے انکاری ہو (عمران خان نے 2012میں مجھے ایک بار انٹرویو دیا اور اس کے بعد میرے سامنے بیٹھنے کا کبھی رسک نہیں لیا) تو میڈیا پرسن جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی قیمت ہے؟ دوسری طرف 2011سے میں ان کے چاہنے والوں کی گالیاں برداشت کررہا ہوں ۔ پی ٹی آئی نے برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور میں سوشل میڈیا کے مختلف سیٹ اپ بنا رکھے تھے جو مسلسل میری کردارکشی میں لگے رہے ۔ ملک کے اندر بھی اسد عمر ، عارف علوی، جہانگیر ترین، علیم خان، عثمان ڈار اور خود عمران خان کے الگ الگ سیٹ اپ تھے اور ان سب کی خصوصی نظر اس عاجز پر رہی ۔ حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد حکومتی وسائل بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگے ۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ جس طرح عمران خان کی حمایت کرنے والے میڈیا پرسنز کی سرپرستی کرتی رہی، اسی طرح ہم جیسے لوگ اس کے ناپسندیدہ تھے ۔ میرے لیے ایک اور بڑی آزمائش یہ تھی کہ ہمارے طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سیاسی دوستوں کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے تھا۔ عمران خان کے دبائو پر کئی ایک نے مجھے چھوڑ دیا اور کچھ کو مجھے الوداع کہنا پڑا کیونکہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے برعکس عمران خان ذاتی اور سیاسی تعلق کو الگ الگ رکھنے کے قائل نہیں ۔ بہر حال ہم جیسے قلم کے مزدوروں کی چیخ و پکار کے باوجود عدلیہ، میڈیا، نیب اور الیکشن کمیشن کو بری طرح استعمال کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان کے لیے بڑی آزمائش ثابت ہوئی لیکن میں عمران خان کا مشکور ہوں کہ اپنی طرز حکمرانی کے ذریعے انہوں نے مجھے سرخرو کیا ۔ تاہم سرخروئی کے باوجود میں خوش نہیں کیونکہ یہ تبدیلی کم و بیش ہر حوالے سے الٹی پڑ گئی ہے ۔

عمران خان کو اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنایا گیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر کریں گے لیکن جی ڈی پی گروتھ جو ان کے وزیراعظم بننے سے قبل پانچ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی ، ایک فی صد پر آگئی۔ 2019-20کے مالی سال کے دوران یہ شرح افغانستان سے بھی کم رہی جبکہ اس سال مہنگائی کی شرح افغانستان سے زیادہ رہی ۔ توقع یہ تھی کہ وہ پاکستان کو سنگاپور یا ملائیشیا بنا دیں گے لیکن معاشی لحاظ سے الٹا انہوں نے افغانستان بنا دیا۔امید لگائی گئی تھی کہ وہ خارجہ محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ۔ چین کو ناراض کیا لیکن امریکہ کو بھی اپنا ہمنوا نہ بناسکے ۔ سعودی عرب کو ناراض کیا لیکن ترکی و ایران کو بھی پوری طرح اپنا نہ بناسکے ۔ انہیں اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنا یا گیا تھا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے لیکن انہوں نے ان دونوں کے گناہ بخشوا دیے اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ عمران خان نے ان کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے الٹا زندہ کردی ہے۔ یہ توقع تھی کہ وہ قوم کو متحد کریں گے لیکن ان کے دور میں سیاست بدرجہ اتم نفرت اور پولرائزیشن کی شکار ہوگئی۔ توقع تھی کہ وہ میڈیا کو مضبوط بنائیں گے لیکن ان کے دور میں میڈیا کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کے ذریعے عوام کی نظروں میں بے وقعت کردیا گیا ۔ چونکہ ہر حوالے سے معاملہ الٹ ہوگیا ہے ، اس لیے اس کتاب کا نام ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ رکھا گیا ہے ۔ اس سے قبل میری جو کتاب ”اور تبدیلی لائی گئی ۔۔۔“ شائع ہوئی ہے، اس میں الیکشن سے قبل کے دور کے عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق کالم جمع کئے گئے“۔

یہ اقتباس میری نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑ گئی۔۔۔“ سے لیا گیا ہے جو تین ماہ قبل پرنٹنگ کے لیے بھجوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے یہ کتاب عین اس وقت منظر عام پر آئی جب ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا تنازعہ زوروں پر تھا۔ غریب عوام کو تو پہلے ہی احساس ہو چکا تھا کہ تبدیلی الٹی بلکہ ان کے گلے پڑ گئی لیکن نوٹیفیکیشن کے معاملے پر اس بلاجواز تنازعہ کی وجہ سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ یہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے بھی گلے پڑگئی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

سورس
سورس

to yea to ho gae mazak ke baat aab zara serious baat ho jae, kia khayal hy
 

Hunter_

MPA (400+ posts)

سلیم لفافی تیرا کالم پڑھے بغیر ہی تجھ پر بے شمار لعنت

لفافی چاہے تو الٹا ہو یا الٹ پُلٹ ہو لیکن خان تجھے ہڈی نہیں ڈالے گا۔ تیرے جیسے آوارہ کتے بھونکتے ہی رہ جائیں گے
main ny bhe aisa he kia, "bagair parhay laanat"
copy paste kro pr itna bhe nahi yaar rofl kon log hain yea kahan sy aatay hain yea loog,
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
عمران خان افغانستان اور طالبان سے متعلق ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو ڈرون حملوں کی حمایت کرنے والے کس "اسٹیٹ" کی پالیسیوں پر عمل پیرا تھے!!!؛
 
Last edited:

The Sane

Chief Minister (5k+ posts)

Saleem-Safi2-Columnist.png

(1) اور تبدیلی الٹی پڑگئی

سلیم صافی​

”کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ شاید عمران خان سے میری کوئی ذاتی مخاصمت ہے حالانکہ وہ ان تین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں،جن سے میری شناسائی میدان صحافت میں قدم رکھنے سے قبل ہوئی تھی۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق، محمد علی درانی اور عمران خان وہ تین سیاستدان ہیں،جن سے میرا تعارف دور طالب علمی میں ہوگیا تھا۔جنرل حمید گل مرحوم کے علاوہ حفیظ اللہ نیازی، ڈاکٹر فاروق خان مرحوم اور محمد علی درانی وہ لوگ تھے جو عمران خان کو سیاست کے میدان میں لائے تھے۔

ڈاکٹر فاروق خان میرے بڑے بھائی کی مانند دوست اور نظریاتی تربیت کرنے والے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے بانی جنرل سیکرٹری تھے اور پی ٹی آئی کا دستور بھی انہی کا لکھا ہوا تھا۔ محمد علی درانی کے ساتھ بھی میری دور طالب علمی سے بھائی بندی ہے جنہوں نے عمران خان کو سیاست کے میدان میں دھکیلنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ابتدائی نشستوں میں ان سے متنفر ہوگئے۔

ڈاکٹر فاروق خان سال ڈیڑھ ان کے ساتھ چلے اور پھر خاموشی کے ساتھ الگ ہوگئے۔ عمران خان سیاست کریں یا نہ کریں؟ اس سوال پر ابتدائی نشستیں لاہور میں جاوید احمد غامدی کے گھر پر ہوئی تھیں جن کو مجھے ڈاکٹر فاروق خان کی وساطت سے براہ راست دیکھنے اور سننے کا موقع ملا تھا۔

کئی دن پر محیط اس بحث کو ایک کونے میں بیٹھ کر میں سنتا رہا۔ جاوید احمد غامدی، عمران خان کو سیاست سے منع کررہے تھے۔ ان کی رائے تھی کہ عمران خان سیاست کے لئے موزوں نہیں۔ وہ انہیں شوکت خانم کی طرح مزید پروجیکٹ شروع کرنے اور ملک کے اندر اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے کا کہتے رہے لیکن عمران خان سیاست کی طرف مائل تھے۔

دوسری طرف جنرل حمید گل، حفیظ اللہ نیازی اور ڈاکٹر فاروق خان چاہتے تھے کہ وہ سیاست میں آئیں۔ کئی روز پر محیط اس مباحثے کو سننے کے نتیجے میں ایک تو میں بھی جاوید احمد غامدی کی رائے کا قائل ہوگیا اور دوسرا عمران خان کے بارے میں میری رائے بھی یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس وقت تک میں کرکٹر اور سوشل ورکر ہونے کے ناطے عمران خان کا فین تھا اور انہیں سیدھا سادہ انسان سمجھ رہا تھا لیکن اس وقت مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ صرف کرکٹر نہیں بلکہ عملی زندگی کے بھی بڑے کھلاڑی ہیں۔

میری یہ رائے بنی کہ وہ اسٹیٹس مین تو نہیں لیکن اپنی ذات کے خول میں بند ایک ایسے انسان ہیں جن کی شخصیت کے مختلف روپ ہیں اور وہ مختلف لوگوں کے سامنے مختلف روپ سامنے لاتے ہیں۔ بہ ہر حال وہ میدان سیاست میں آئے۔2011 تک میں نے ان کی سیاست کو خاص توجہ دی اور نہ خصوصی تنقید کا نشانہ بنایا۔

افغانستان اور طالبان سے متعلق ان کی اپروچ سے مجھے شدید اختلاف تھا لیکن چونکہ قومی سیاست میں ان کا کردار قابل ذکر تھا اور نہ وہ حکمران تھے، اس لئے میں نے بھی ان پر خصوصی تنقید نہیں کی۔ ہاں البتہ 2011کے بعد وہ میری خصوصی تنقید کا نشانہ اس وجہ سے بننے لگے کیونکہ مجھے معلوم ہوگیا کہ پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ انہیں نئے سیاسی گھوڑے کے طور پر تیار کرنے لگی ہے۔

عمران خان بعد میں تو جنرل پرویز مشرف کے مخالف، اس وقت بن گئے جب ان کی وزارت عظمیٰ کا خواب پورا کرنے کی بجائے اقتدار مسلم لیگ(ق) کو دلوانے کا فیصلہ ہوا۔ اس وقت عمران خان پرویز مشرف سے راتوں کی ملاقاتوں میں زور دیتے رہے کہ وہ انہیں دو تین درجن الیکٹیلبز دے دیں تو وہ الیکشن جیت سکتے ہیں لیکن پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ پچاس کو تو سو بناسکتے ہیں لیکن دس کو سو نہیں بناسکتے۔ یوں عمران خان جنرل پرویز مشرف سے ناراض ہوگئے اور ان کی مخالفت میں وزارت عظمیٰ کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کو ووٹ دیا۔

میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کا مطالبہ کرتے رہے جبکہ لندن میں نواز شریف کی بلائی گئی اے پی سی میں بھی شریک ہوئے لیکن اس عرصے میں بھی عمران خان افغانستان اور طالبان سے متعلق ڈیپ اسٹیٹ کی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے۔ ڈرون حملوں کے خلاف ان کی مہم بھی اس سلسلے کی کڑی تھی۔ 2011 میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے جب پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلافات شدت اختیار کرگئے اور مسلم لیگ(ن) پہلے سے مغضوب تھی تو عمران خان کی قیادت میں تیسری قوت کھڑی کرنے کے عمل کا آغاز ہوا۔

اس دوران لوگ ظاہری بیانات کی بنا پر عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ مخالف سمجھ رہے تھے لیکن مجھے ذاتی طور پر علم تھا کہ شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور اسد عمر جیسے لوگوں کو کس طرح طاقتوروں نے عمران خان کا ہم سفر بنایا؟ پھر مجھے یہ بھی علم تھا کہ کس طرح ان کے لاہور اور پنڈی کے جلسے میں ان کا ہاتھ بٹایا گیا اور کس طرح ہمارے ٹی وی چینل سمیت میڈیا کو ان کا معاون اور ہم رکاب بنایا گیا۔

میں چونکہ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو خود اسٹیبلشمنٹ اور ملک کے لئے نقصان دہ سمجھتا ہوں، اس لئے جب عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنا گھوڑا بنایا تو اس وقت سے میری خصوصی تنقید کا رخ ان کی طرف ہونے لگا۔ دوسری طرف عمران خان چونکہ میڈیا کے لاڈلے بنائے گئے تھے اور سلیبرٹی کی زندگی گزارنے کی وجہ سےتنقید سننے کے عادی بھی نہیں تھے، اس لئے دوسرے سیاستدانوں کے برعکس انہوں نے میری تنقید کو دل پر لیا اور یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید مجھے ان سے کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ حالانکہ میری خصوصی تنقید کی پہلی وجہ مذکورہ پس منظر تھا۔

ایک اور بات جس کی وجہ سے میں عمران خان پر تنقید کرنے والوں میں نمایاں ہوگیا یہ تھی کہ میں عمران خان کو اس طرح نہیں سمجھ رہا تھا، جس طرح کہ ان کے چاہنے والے یا پھر ہمارے میڈیا کے بعض دوست سمجھ رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کو صحافت میں آنے سے قبل قریب سے جاننے کا موقع ملا تھا، اس لئے میں سمجھ رہا تھا کہ وہ حقیقت میں ایسے نہیں کہ جیسے نظر آ رہے ہیں۔

مثلاً لوگ ان کو بڑا صاحبِ دل سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ ایک ایسے شخص تھے جن کا صرف ذہن اور خواہش ہے لیکن ان کا دل نہیں ہے۔ لوگ انہیں سچا اور کھرا انسان سمجھ رہے تھے لیکن میرے نزدیک وہ زرداری اور نواز شریف کی طرح کے ایک سیاستدان تھے۔ اب آصف زرداری جیسے ہیں، لوگ ان کو ویسا ہی سمجھ رہے ہیں۔ یہی معاملہ میاں نواز شریف، مولانا فضل الرحمٰن، اسفندیار ولی خان اور دیگر سیاسی رہنمائوں کا ہے“۔(جاری ہے)

(راقم کی نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ سے اقتباس)

اور تبدیلی الٹی پڑ گئی (2)

سلیم صافی
(گزشتہ سے پیوستہ)

یوں بطور صحافی میری کوشش تھی کہ میں عمران خان کو دیگر سیاستدانوں کی طرح اصل روپ میں عوام کے سامنے لائوں اور پھر فیصلہ ان پر چھوڑ دوں ۔ میرا ارادہ تھا کہ جس دن عوام ان کو اسی طرح جان لیں گے جس طرح نواز شریف اور زرداری کو جانتے ہیں تو میں ان سے متعلق خصوصی تنقید کرناچھوڑ دوں گا لیکن افسوس کہ میں اس میں کامیاب نہیں ہوسکا کیونکہ ہر ادارے کو ان کے حق میں ایسے استعمال کیا گیا کہ ہم جیسے چند لوگوں کی آواز نقارخانے میں طوطی کی صدا ثابت ہوئی۔ تاہم اللہ کا شکر ہے کہ اقتدار میں آنے کےبعد دھیرے دھیرے ان کی حقیقت بھی دیگر سیاستدانوں کی طرح عوام پر واضح ہورہی ہے۔

عمران خان کو ان کے حامی تو کیا بعض مخالفین بھی سیدھا سادہ انسان سمجھ رہے تھے اور ایک بڑی تعداد اب بھی سمجھ رہی ہے لیکن میں ان کے سیاست میں آنے کے دن سے انہیں نہایت ذہین اور شاطر انسان سمجھتا ہوں۔ ذہین ، دانشمند یا پھر اسٹیٹس مین کے پیرائے میں نہیں بلکہ اپنی ذات کے لیے ذہین۔ میں نے محسوس کیا کہ عمران خان اپنی ذات سے متعلق دل کی بجائے عقل کی بنیاد پرفیصلے کرتے ہیں ۔ مثلاً انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ کرکٹ ورلڈ کپ کے سلسلے میں پوری ٹیم کی جیت کو اپنی جیت بنا یا ۔ پھر ورلڈ کپ کو شوکت خانم کے لیے اور پھر شوکت خانم کو سیاسی جماعت بنانے کے لیے استعمال کیا۔ میری اس رائے کی پختگی کے پیچھے ایک نہیں سینکڑوں واقعات ہیں لیکن وہ ان کی ذاتی زندگی سے متعلق ہیں اور میں ذاتی معاملات کا میڈیا میں کبھی ذکر نہیں کرتا ۔یوں میری یہ سوچ بن گئی تھی کہ اگر ایک شخص دل کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا تو وہ کیوں کر ملک کا درد دل میں سموسکتا ہے۔

یہ تو رہا عمران خان سے متعلق میری تنقید کا پس منظر لیکن حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کا معاملہ میری صحافتی زندگی کا سب سے مشکل اور صبر آزما مرحلہ رہا ۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ عمران خان ایک سلیبرٹی اور سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والے لیڈر تھے۔ ملک کے لاکھوں نوجوان ان کو مسیحا سمجھ رہے تھے ۔ اب ایک میڈیا پرسن، جو ٹی وی پر بھی پروگرام کی میزبانی کرتا ہو،کے پروگرام میں اگر ملک کا سب سے زیادہ ریٹنگ دینے والا لیڈر آنے سے انکاری ہو (عمران خان نے 2012میں مجھے ایک بار انٹرویو دیا اور اس کے بعد میرے سامنے بیٹھنے کا کبھی رسک نہیں لیا) تو میڈیا پرسن جانتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی قیمت ہے؟ دوسری طرف 2011سے میں ان کے چاہنے والوں کی گالیاں برداشت کررہا ہوں ۔ پی ٹی آئی نے برطانیہ، امریکہ اور سنگاپور میں سوشل میڈیا کے مختلف سیٹ اپ بنا رکھے تھے جو مسلسل میری کردارکشی میں لگے رہے ۔ ملک کے اندر بھی اسد عمر ، عارف علوی، جہانگیر ترین، علیم خان، عثمان ڈار اور خود عمران خان کے الگ الگ سیٹ اپ تھے اور ان سب کی خصوصی نظر اس عاجز پر رہی ۔ حکومت ہاتھ میں آنے کے بعد حکومتی وسائل بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہونے لگے ۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ جس طرح عمران خان کی حمایت کرنے والے میڈیا پرسنز کی سرپرستی کرتی رہی، اسی طرح ہم جیسے لوگ اس کے ناپسندیدہ تھے ۔ میرے لیے ایک اور بڑی آزمائش یہ تھی کہ ہمارے طبقے سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر سیاسی دوستوں کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے تھا۔ عمران خان کے دبائو پر کئی ایک نے مجھے چھوڑ دیا اور کچھ کو مجھے الوداع کہنا پڑا کیونکہ دوسرے سیاسی لیڈروں کے برعکس عمران خان ذاتی اور سیاسی تعلق کو الگ الگ رکھنے کے قائل نہیں ۔ بہر حال ہم جیسے قلم کے مزدوروں کی چیخ و پکار کے باوجود عدلیہ، میڈیا، نیب اور الیکشن کمیشن کو بری طرح استعمال کرکے عمران خان کو وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان کے لیے بڑی آزمائش ثابت ہوئی لیکن میں عمران خان کا مشکور ہوں کہ اپنی طرز حکمرانی کے ذریعے انہوں نے مجھے سرخرو کیا ۔ تاہم سرخروئی کے باوجود میں خوش نہیں کیونکہ یہ تبدیلی کم و بیش ہر حوالے سے الٹی پڑ گئی ہے ۔

عمران خان کو اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنایا گیا تھا کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر کریں گے لیکن جی ڈی پی گروتھ جو ان کے وزیراعظم بننے سے قبل پانچ فی صد سالانہ سے زیادہ تھی ، ایک فی صد پر آگئی۔ 2019-20کے مالی سال کے دوران یہ شرح افغانستان سے بھی کم رہی جبکہ اس سال مہنگائی کی شرح افغانستان سے زیادہ رہی ۔ توقع یہ تھی کہ وہ پاکستان کو سنگاپور یا ملائیشیا بنا دیں گے لیکن معاشی لحاظ سے الٹا انہوں نے افغانستان بنا دیا۔امید لگائی گئی تھی کہ وہ خارجہ محاذ پر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دیں گے لیکن معاملہ الٹ ہوگیا ۔ چین کو ناراض کیا لیکن امریکہ کو بھی اپنا ہمنوا نہ بناسکے ۔ سعودی عرب کو ناراض کیا لیکن ترکی و ایران کو بھی پوری طرح اپنا نہ بناسکے ۔ انہیں اس امید کے ساتھ وزیراعظم بنا یا گیا تھا کہ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی سیاست کا خاتمہ کردیں گے لیکن انہوں نے ان دونوں کے گناہ بخشوا دیے اور ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ عمران خان نے ان کی سیاست کو ختم کرنے کی بجائے الٹا زندہ کردی ہے۔ یہ توقع تھی کہ وہ قوم کو متحد کریں گے لیکن ان کے دور میں سیاست بدرجہ اتم نفرت اور پولرائزیشن کی شکار ہوگئی۔ توقع تھی کہ وہ میڈیا کو مضبوط بنائیں گے لیکن ان کے دور میں میڈیا کو معاشی لحاظ سے کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ سنسرشپ کے ذریعے عوام کی نظروں میں بے وقعت کردیا گیا ۔ چونکہ ہر حوالے سے معاملہ الٹ ہوگیا ہے ، اس لیے اس کتاب کا نام ”اور تبدیلی الٹی پڑگئی“ رکھا گیا ہے ۔ اس سے قبل میری جو کتاب ”اور تبدیلی لائی گئی ۔۔۔“ شائع ہوئی ہے، اس میں الیکشن سے قبل کے دور کے عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق کالم جمع کئے گئے“۔

یہ اقتباس میری نئی کتاب ”اور تبدیلی الٹی پڑ گئی۔۔۔“ سے لیا گیا ہے جو تین ماہ قبل پرنٹنگ کے لیے بھجوائی گئی۔ حسنِ اتفاق سے یہ کتاب عین اس وقت منظر عام پر آئی جب ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا تنازعہ زوروں پر تھا۔ غریب عوام کو تو پہلے ہی احساس ہو چکا تھا کہ تبدیلی الٹی بلکہ ان کے گلے پڑ گئی لیکن نوٹیفیکیشن کے معاملے پر اس بلاجواز تنازعہ کی وجہ سے یہ تاثر عام ہونے لگا کہ یہ تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے بھی گلے پڑگئی۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟

سورس
سورس

حرام خور, تجھے ہر چیز ہی الٹی پڑتی ہے
 
Last edited:

shafali

Chief Minister (5k+ posts)
اپنے آپ کو صحافی کہنے سے پہلے اسے چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئیے۔ یہ تو انسان بھی نہیں ہے۔
 

socrates khan

Councller (250+ posts)
تبدیلی نے عوام کی سفید پوشی کے چیتھڑے بنا کر یوں بے بس کر دیا ہے کہ اب نہ تو بیچارے فریاد کناں رہے اور نہ ہی خواہش پنہاں رہے۔۔۔ بھڑوی تبدیلی