بااختیار افراد نے ای سی ایل قوانین میں ترمیم کر کے فائدہ اٹھایا، عدالت عظمی

11sceclcaseremarks.jpg

تحقیقات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بااختیار افراد نے ای سی ایل قوانین میں ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ای سی ایل قوانین کے حوالے سے کابینہ نے منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کابینہ کمیٹی قانون سازی میں معاملہ زیرغور ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہو، اسے اجازت ہونی چاہیے۔ جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔ ملک میں موجودہ حالات اپنی نوعیت کے اور مختلف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت بنانے والی اکثریتی جماعت اسمبلی سے جا چکی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، لہذا سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ کسی کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔


عدالت نے واضح کیا کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیں گے۔ کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔ واضح بات کے بجائے ہمیشہ اِدھر اُدھر کی سنائی جاتی ہیں۔ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے۔ ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کی گئی۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، تاہم ہم ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔
 

monkk

Senator (1k+ posts)
Judge sb... insaaf kareen... send the cocksuker home....
muluk ko IK ny COVID meen bhi bacheea tha... IK ab bhi bacha lay ga.. inshallah..

app bas insaaf ker deen
 

thinking

Prime Minister (20k+ posts)
CJ sahib jis din ECL se naam nikalay ge usi din medias par aa gia tha k apnay bando ko nawaznay k lia kiya gia tha sab kuch..lekan ap logo ko ye Jan ney m aik month laga. PM sahib is lia zamanat k lia court jatay rehay k unhain pata tha FIA..NAB..judges compromised ho chukay hain.Aur CJ sir..mulk buhrano se inho choro ki wajah se guzar raha ha..
 

Eigle

Senator (1k+ posts)
11sceclcaseremarks.jpg

تحقیقات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بااختیار افراد نے ای سی ایل قوانین میں ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ای سی ایل قوانین کے حوالے سے کابینہ نے منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کابینہ کمیٹی قانون سازی میں معاملہ زیرغور ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہو، اسے اجازت ہونی چاہیے۔ جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔ ملک میں موجودہ حالات اپنی نوعیت کے اور مختلف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت بنانے والی اکثریتی جماعت اسمبلی سے جا چکی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، لہذا سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ کسی کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔


عدالت نے واضح کیا کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیں گے۔ کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔ واضح بات کے بجائے ہمیشہ اِدھر اُدھر کی سنائی جاتی ہیں۔ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے۔ ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کی گئی۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، تاہم ہم ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔
And we were sleeping (SC)
 

rafay1122

Senator (1k+ posts)
You allowed them back in parliament KNOWING full well what they were going to do. Yhey TOLD YOU ham istalahaat karengey.

You jumped over Article 69 and are yet to provide detailed judgement of that short order of 9th April.

Apna chooran kahin aur ja kar becho
 

wasiqjaved

Chief Minister (5k+ posts)
11sceclcaseremarks.jpg

تحقیقات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بااختیار افراد نے ای سی ایل قوانین میں ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ای سی ایل قوانین کے حوالے سے کابینہ نے منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کابینہ کمیٹی قانون سازی میں معاملہ زیرغور ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہو، اسے اجازت ہونی چاہیے۔ جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔ ملک میں موجودہ حالات اپنی نوعیت کے اور مختلف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت بنانے والی اکثریتی جماعت اسمبلی سے جا چکی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، لہذا سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ کسی کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔


عدالت نے واضح کیا کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیں گے۔ کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔ واضح بات کے بجائے ہمیشہ اِدھر اُدھر کی سنائی جاتی ہیں۔ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے۔ ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کی گئی۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، تاہم ہم ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔
Ye raat ko khulne wali adalat itni jaldi Kaise jaag gai?
 

Jhon

Politcal Worker (100+ posts)
11sceclcaseremarks.jpg

تحقیقات میں حکومتی مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بااختیار افراد نے ای سی ایل قوانین میں ترمیم کرکے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا ای سی ایل قوانین کے حوالے سے کابینہ نے منظوری دی؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کابینہ کمیٹی قانون سازی میں معاملہ زیرغور ہے۔

چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہو، اسے اجازت ہونی چاہیے۔ جو ملزم بھی بیرون ملک جانا چاہے تو اسے وزارت داخلہ سے اجازت لینا ہوگی۔ ملک میں موجودہ حالات اپنی نوعیت کے اور مختلف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس دیئے کہ حکومت بنانے والی اکثریتی جماعت اسمبلی سے جا چکی ہے۔ ملک اس وقت معاشی بحران سے گزر رہا ہے، لہذا سسٹم چلنے دینے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ کسی کے لیے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے۔


عدالت نے واضح کیا کہ نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ قانونی عمل پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونے دیں گے۔ کسی کو لگتا ہے کیس میں جان نہیں تو متعلقہ عدالت سے رجوع کرے۔ کابینہ ارکان نے تو بظاہر ای سی ایل کو ختم ہی کر دیا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا سمجھ نہیں آ رہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے۔ لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے۔ واضح بات کے بجائے ہمیشہ اِدھر اُدھر کی سنائی جاتی ہیں۔ ای سی ایل کے حوالے سے کوئی قانونی وجہ ہے تو بیان کریں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کی اتنی جلدی کیا تھی؟ ایسی کیا جلدی تھی کہ دو دن میں ای سی ایل سے نام نکالنے کی منظوری دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل پر تھے۔ ماضی میں بھی اسی انداز میں ای سی ایل سے نام نکالے جاتے رہے ہیں۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سوال کیا کہ کیا حکومت کا یہ جواب ہے کہ ماضی میں ہوتا رہا تو اب بھی ہوگا؟

سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کی ضمانت حاصل کرنے کے اقدام کی تعریف کی گئی۔ اس سلسلے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اچھا لگا کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے خود پیش ہوکر ضمانت کرائی، تاہم ہم ضمانت کے حکم نامے کا بھی جائزہ لیں گے۔
Supreme Court & other High courts are also part & parcel of the criminal gangs. Our courts have neither capability nor intention to dispense justice. Most of the judges of courts are either compromised or very dumb. Our courts only provide shelter or launder the criminals and their crimes.