ان بندروں کی اچھل کود شروع ساتھ بیٹھے کلاسرا کو پوچھو کل تک اس کو مریم پانامہ رانی کی شکل میں میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نظر آتی تھی اب دیکھنا ان کے اچھوتے تجزیے آسمان کو چھوتی فلسفی باتیں گہری ٹیری نظر جس میں کبھی نواز شریف قومی مجر م تو کبھی ایک کمال شخصیت جس کا کوئی ثانی نہیں یعنی کبھی اچھل اودھر کبھی اچھل کے ادھر
پاکستانی صحافت میں دو جوکروں نے اپنی جوکری سے بڑا نام کمایا ہے یہ لوگ خود ہی کہتے ہیں ہماری عوام گجنی ہیں ہمارے ذکوٹے جن پھر میرا لیہ مظفرگڑھ کیا بات ہے ہم منجن فروش ہیں جب میں نے ان کو اس نظر سے دیکھا اور ان کی باتیں مالائیں تو مجھے پھر بات سمجھ میں آئی ارے بھائی ان کی سوچ بچاروں کی تو ایک منجن فروش سے زیادہ نہیں یہ بیچارے زیادہ سے زیادہ کیا سوچ لیں گیں ان کی اکثر باتوں میں مایوسی اور اپنی کارگیری نظر آتی ہے بات کو ٹوسٹ دینا اور اس کو اس رنگ میں رنگنا کہ لگے ہم سے زیادہ کوئی ذہین نہیں بس ہم سے بچ کے رہنا جگہ جگہ نظر آتا ہے اب اس پروگرام میں ہی دیکھ لیں یہ وہ ہی حرکت کر رہے ہیں جو یہ ذلفی بخاری مسرت انیل کے متعلق کرتے رہے ہیں کہ بے سروپا باتیں اور پھر شرمندہ بھی نہیں ہوتےاب شروع ہو گئے کہاںسیف الرحمان کہاں شہزاد اکبر کہا لیکن تاثر دے کر اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کر رہے یہ ہی ان کی مکاریاں ہیں دونوں کی
فیرصحافت ان کا ہمیشہ سے دعوی ہے اور ان بندروں کی ناک کے نیچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کے سامنے دس سالوں میں ملک لٹ گیا 100 ارب ڈالر کا قرض چڑھ گیا لوٹنے والے امیر ان کے بچے اربوں پتی بن گئے ملک کے اثاثے گروی رکھ دییے گئے اور یہ سب آخباروں میں راوی سکون ہی سکون لکھتے رہے میں تو میں کہتا ہوں ان میں جو ملک لوٹنے والوں کے سہولت کار ہیں ان پر بھی قانون کے مطابق کاروائی ہونی چاہیے