بنو قریظہ کے بچوں کا قتل اور اس کی حقیقت

saud491

MPA (400+ posts)
بنو قریظہ کے بچوں کا قتل اور اس کی حقیقت --- اصول درایت کی روشنی میں ایک جائزہ

اصول تحقیق پر روشنی خود قرآن نے ڈالی ہے:

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن جَاءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا.(سورۃ الحجرات 6(
ایمان والو اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو.

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوہُ قُلْتُم مَّا یَکُونُ لَنَا أَن نَّتَکَلَّمَ بِہَٰذَا سُبْحَانَکَ ہَٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیمٌ.( سورۃ النور 61 (
اور کیوں نہ ایسا ہوا کہ جب تم لوگوں نے اس بات کو سنا تھا تو کہتے کہ ہمیں ایسی بات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے خدایا تو پاک و بے نیاز ہے اور یہ بہت بڑا بہتان ہے

ہمارے اس دور میں دو گروہوں نے جنم لے لیا ہے اور دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ ایک نام نہاد مذہبی گروہ قرآن کی آیات اور احادیث کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر اپنے انتقام و غلط مقاصد کیلیئے استعمال کررہا ہے جبکہ دوسرا مذہب سے بیذار آزاد خیال گروہ اس نام نہاد مذہبی گروہ کی پیش کردہ غلط دلائل کو دیکھ کر نعوذ بااللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر انگلیاں اٹھانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔

ہم ان روایات کو ایک جدول (ٹیبل) کی شکل میں لکھ رہے ہیں تاکہ ایک نظر میں آسانی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔
راوی
مکررات
قسم حدیث
حدیث نمبر
جلد
کتب حدیث
نمبر
بنو قریظ کے دو لڑکوں سے
حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ
عمارہ بن خزیمہ،
ابی جعفر،
حماد بن سلمہ،
اسد بن موسی،
ربیع بن سلیمان،
8
حدیث مرفوع
1368
دوم:
سنن نسائی:
1
روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.
متن حدیث
راوی
مکررات
قسم حدیث
حدیث نمبر
جلد
کتب حدیث
نمبر
عطیہ سے
عبدالملک بن عمیر،
شعبہ،
خالد،
اسماعیل بن مسعود،


8
حدیث موقوف
1285
سوم:
سنن نسائی:
2
روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
عبدالملک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن منصور،



8
حدیث موقوف
1369
دوم:
سنن نسائی:
3
روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن کثیر،



8
حدیث مقطوع
1009
سوم:
سنن ابوداؤد
4
فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر سے یہی حدیث اس فرق کے ساتھ مروی ہے کہ
ابوعوانہ،
مسدد،



8
حدیث مقطوع
1010
سوم:
سنن ابوداؤد
5
نے فرمایا کہ انہوں نے میرا ستر کھولا تو اسے پایا ان کی طرح جن کے بال نہیں اگے تھے تو مجھے قیدیوں میں کردیا
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
وکیع،
ہناد،


8
حدیث مرفوع
1650
اول:
جامع ترمذی:
6
کہتے کہ ہم یوم قریظہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کئے گئے تو جس کے زیر ناف بال اگے تھے اسے قتل کر دیا گیا۔ میں ان میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہذا مجھے چھوڑ دیا گیا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ بعض اہل علم کا اس پر عمل ہے کہ احتلام اور عمر کا پتہ نہ چلے تو زیر ناف بالوں کا اگنا بالغ ہونے کی علامت ہے۔ امام احمد اور اسحاق کا یہی قول ہے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
وکیع،
علی بن محمد،
ابوبکر بن ابی شیبہ،

8
حدیث مرفوع
699
دوم:
سنن ابن ماجہ:
7
فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب بنوقریظہ مارے گئے) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالملک بن عمیر کہتے ہیں کہ میں نے
سفیان بن عیینہ،
محمد بن صباح،



8
حدیث مرفوع
700
دوم:
سنن ابن ماجہ:
8
کو یہ فرماتے ہوئے سنا دیکھو اب میں تم لوگوں کے درمیان موجود ہوں ۔
متن حدیث

ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 12 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔

روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0502-Hadith.htm)
موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0503-Hadith.htm)
مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0504-Hadith.htm)

ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔

ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟

ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟

ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔

د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔

ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔

ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 3 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں؟

ز- حدیث نمبر 7 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔

س-حدیث نمبر 1 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟

ش-حدیث نمبر 1 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔

ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔

نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔

کچھ درایت کے اصول کے بارے میں:
قارئین کیلیئے کچھ درایت کے بارے میں اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضہ نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ عنقریب تمھارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایتیں آئینگی جو باہمدگر متناقض ہوں گی۔ تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو تو وہ مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں۔
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 430 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ "اور ان ان صورتوں میں خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی جب وہ عقل کے فیصلے کے منافی ہو۔ جب وہ قرآن کے محکم حکم کے خلاف ہو۔ جب وہ سنت معلومہ یا اس عمل کے خلاف ہو جو سنت ہی کی طرح معمول بہ ہے۔ اور جب وہ دلیل قطعی کے منافی ہو۔"
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 432 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم (از مولانا شبلی و مولانا سلیمان ندوی) میں لکھا ہے کہ "اس عبارت کا ماحاصل یہ ہیکہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اسکی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں-
۱۔جو روایت عقل کے خلاف ہو۔
۲۔جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔
۳۔محسوسات اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔
۴۔قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔
۵۔جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۶۔معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔
۷۔وہ روایت رکیک المعنی ہو مثلاً کدو کو بغیر ذبح کئے نہ کھاؤ۔
۸۔جو راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہیکہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔
۹۔جو روایت ایسی ہوکہ تمام لوگوں کو ا س سے واقف ہونے کی ضرورت ہو، با ایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے اس کی روایت نی کی ہو۔
۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔
دیکھیئے صفحہ 40 سے 41 مطبوعہ دار الاشاعت 1985۔

اس جائزے اور تحقیق میں اگر کوئی لغزش ہوگئی ہو تو ضرور مطلع کریں تاکہ اسکی اصلاح ہوسکے۔ اللہ سے دعا ہیکہ اس تحریر میں اگر شر ہو تو اس سے سب کو محفوظ رکھے اور مجھے معاف فرمائے اور اگر اس میں خیر ہو تو ساری امت مسلمہ کو اس سے مستفیذ فرمائے۔ آمین
____________


 
Last edited by a moderator:

Exiled-Pakistani

Minister (2k+ posts)
I am assuming that this fine research will provide necessary ground work for military courts to enable them to hang taliban boys after inspecting their pubes.
 

gorgias

Chief Minister (5k+ posts)
http://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3428/کیا-اسلام-بچوں‌-کے-قتل-کی-اجازت-دیتا-ہے/

یا اسلام بچوں* کے قتل کی اجازت دیتا ہے؟

موضوع:امن

سوال پوچھنے والے کا نام: محمد فرحان صدیقی مقام: کراچی

سوال نمبر 3428:
السلام علیکم مفتی صاحب! کچھ لوگ سانحہ پشاور میں* ہونے والی دہشت گردی کے جواز کے لیے ایک حدیث پیش کر رہے ہیں، جس میں* رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کا اشارہ دیا جارہا ہے، جو آپ نے قبیلہ بنو قریظہ کے قتال کے متعلق جاری کیا تھا؟ اس کی وضاحت فرما دیں۔

جواب:

حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پورے زمانہ اقدس میں کسی ایک غزوہ میں مسلمانوں کے ہاتھوں ایک عورت قتل ہوئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دورانِ جنگ غیر مسلم عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا سختی سے منع فرما دیا۔ حدیث مبارکہ ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَاة مَقْتُولَة فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اﷲِ فَنهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْیَانِ۔


حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کردیا گیا تھا۔ اس پر آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرمادی۔



  • [*=right]بخاري، الصحیح، 3: 1098، رقم: 2852، دار ابن کثیر الیمامة بیروت
    [*=right]مسلم، الصحیح، 3: 1364، رقم: 1744، دار احیاء التراث العربي بیروت
    [*=right] أحمد بن حنبل، المسند، 2: 22، رقم: 4739، مؤسسة قرطبة مصر
    [*=right]ترمذي، السنن، 4: 136، رقم: 1569، دار احیاء التراث العربي بیروت
    [*=right]ابن ماجه، السنن، 2: 947، رقم: 2841، دار الفکر بیروت

بنی قریظہ ایک عہد شکن قبیلہ تھا جس نے غزوہ خندق میں مسلمانوں سے غداری کرنے کی کوشش لیکن اﷲ تعالی کے فضل سے ناکام ہو گئی۔ غزوہ خندق کے فوراً بعد ان کا محاصرہ کیا گیا تو وہ قلعہ بند ہو گئے۔ چونکہ ان کا محاصرہ نماز عصر کے بعد کیا گیا تھا اس لیے خدشہ تھا کہ رات کو لڑائی ہونے کی صورت میں عورتیں اور بچے بھی مارے جائیں گے۔ جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ بنی قریظہ کا محاصرہ کیا اور ان کے جنگجو مردوں کو قتل کر دیا گیا جبکہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہیں کیا گیا تھا۔


عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ أُصِیبَ سَعْدٌ یَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاه رَجُلٌ مِنْ قُرَیْشٍ یُقَالُ لَه حِبَّانُ بْنُ الْعَرِقَة وَهوَ حِبَّانُ بْنُ قَیْسٍ مِنْ بَنِي مَعِیصِ بْنِ عَامِرِ بْنِ لُؤَیٍّ رَمَاه فِي الْأَکْحَلِ فَضَرَبَ النَّبِيُّ خَیْمَة فِي الْمَسْجِدِ لِیَعُودَه مِنْ قَرِیبٍ فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اﷲِ مِنَ الْخَنْدَقِ وَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ فَأَتَاه جِبْرِیلُ وَهوَ یَنْفُضُ رَأْسَه مِنْ الْغُبَارِ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاﷲِ مَا وَضَعْتُه اخْرُجْ إِلَیْهمْ قَالَ النَّبِيُّ فَأَیْنَ فَأَشَارَ إِلَی بَنِي قُرَیْظَة فَأَتَاهمْ رَسُولُ اﷲِ فَنَزَلُوا عَلَی حُکْمِه فَرَدَّ الْحُکْمَ إِلَی سَعْدٍ قَالَ فَإِنِّي أَحْکُمُ فِیهمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَة وَأَنْ تُسْبَی النِّسَائُ وَالذُّرِّیَّة وَأَنْ تُقْسَمَ أَمْوَالُهمْ قَالَ هشَامٌ فَأَخْبَرَنِي أَبِي عَنْ عَائِشَة أَنَّ سَعْدًا قَالَ اَللَّهمَّ إِنَّکَ تَعْلَمُ أَنَّه لَیْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهدَهمْ فِیکَ مِنْ قَوْمٍ کَذَّبُوا رَسُولَکَ وَأَخْرَجُوه اَللَّهمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّکَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَیْنَنَا وَبَیْنَهمْ فَإِنْ کَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَیْشٍ شَیْئٌ فَأَبْقِنِي لَه حَتَّی أُجَاهدَهمْ فِیکَ وَإِنْ کُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ فَافْجُرْها وَاجْعَلْ مَوْتَتِي فِیها فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِه فَلَمْ یَرُعْهمْ وَفِي الْمَسْجِدِ خَیْمَة مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا الدَّمُ یَسِیلُ إِلَیْهمْ فَقَالُوا یَا أَهلَ الْخَیْمَة مَا هذَا الَّذِي یَأْتِینَا مِنْ قِبَلِکُمْ فَإِذَا سَعْدٌ یَغْذُو جُرْحُه دَمًا فَمَاتَ مِنْهاص۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضي اﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ جنگ خندق کے اندر حضرت سعد بن معاذ کو قریش کے ایک آدمی حبان بن عرقہ (جس کا نام حبان بن قیس تھا، یہ قبیلہ بنی عامر بن لویّ کی شاخ بنی معیص سے تعلق رکھتا تھا) کا تیر لگ گیا تھا جو ان کے بازو کی رگ میں لگا تھا۔ تو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لئے مسجد نبوی میں خیمہ نصب کروا دیا تاکہ قریب سے ان کی بیمار پرسی کرسکیں۔ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم جنگ خندق سے فارغ ہوکر واپس تشریف لائے تو ہتھیار اتار کر غسل فرمانے لگے۔ اس وقت حضرت جبرئیل حاضر خدمت ہوئے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سر مبارک سے گرد جھاڑ رہے تھے۔ عرض گزار ہوئے کہ آپ نے تو ہتھیار اتار دیئے خدا کی قسم میں نے ابھی نہیں اتارے ان کی جانب تشریف لے چلیے۔ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کن کی جانب؟ انہوں نے بنی قریظہ کی جانب اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے۔ تو وہ آپ کے حکم پر قلعے میں اتر آئے پھر آپ نے یہ فیصلہ حضرت سعد کی طرف لوٹا دیا۔ انہوں (حضرت سعد) نے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان کے جو مرد لڑنے کے قابل ہیں انہیں قتل کردیا جائے، ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی غلام بنالیا جائے اور ان کے مال کو مسلمانوں پر تقسیم کردیا جائے۔ حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ حضرت سعد نے بارگاہِ خداوندی میں یوں دعا کی تھی۔ ’’اے اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے اس سے پیاری کوئی چیز نہیں کہ اس قوم سے جہاد کرتا رہوں جس نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور انہیں وطن سے نکالا۔ میرے خیال میں تو نے ہمارے اور کفار قریش کے درمیان لڑائی ختم کردی ہے۔ اگر قریش سے لڑنا ابھی باقی ہے تو مجھے زندگی عطا فرما تاکہ میں تیری راہ میں ان کے ساتھ جہاد کروں اور اگر تو نے ان کے ساتھ ہماری لڑائی ختم فرمادی ہے تو میرے اسی زخم کو جاری کر کے شہادت کی موت عطا فرمادے‘‘۔ پھر خیمہ سے بنی غفار کی طرف بہنے والے خون نے ہی انہیں گھبراہٹ میں ڈالا تو انہوں نے کہا: خیمہ والو! تمہاری طرف سے، ہماری جانب کیا آ رہا ہے؟ تو دیکھا حضرت سعد کے زخم سے تیزی کے ساتھ خون بہہ رہا ہے، جس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہو گئی۔



  • [*=right]بخاري، الصحیح، 4: 1511، رقم: 3896
    [*=right]مسلم، الصحیح، 3: 1389، رقم: 1769
    [*=right]أحمد بن حنبل، المسند، 6: 56، رقم: 24340

عَنْ أَبِي هرَیْرَة قَالَ بَیْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ فَقَالَ انْطَلِقُوا إِلَی یَهودَ فَخَرَجْنَا مَعَه حَتَّی جِئْنَا بَیْتَ الْمِدْرَاسِ فَقَامَ النَّبِيُّ فَنَادَاهمْ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ یَهودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ یَا أَبَا الْقَاسِمِ قَالَ فَقَالَ لَهمْ رَسُولُ اﷲِ ذَلِکَ أُرِیدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا فَقَالُوا قَدْ بَلَّغْتَ یَا أَبَا الْقَاسِمِ فَقَالَ لَهمْ رَسُولُ اﷲ ذَلِکَ أُرِیدُ ثُمَّ قَالَها الثَّالِثَة فَقَالَ اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلّٰه وَرَسُولِه وَأَنِّي أُرِیدُ أَنْ أُجْلِیَکُمْ مِنْ هذِه الْأَرْضِ فَمَنْ وَجَدَ مِنْکُمْ بِمَالِه شَیْئًا فَلْیَبِعْه وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلّٰه وَرَسُولِه۔


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کی طرف چلو۔ تو ہم آپ کے ساتھ چل دیئے یہاں تک کہ ہم بیت المدراس جا پہنچے۔ چنانچہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر انہیں آواز دی: اے یہودیو! اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: میری مراد یہی ہے کہ تم اسلام لے آئو، محفوظ ہو جائو گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابو القاسم! آپ نے پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اُن سے تیسری مرتبہ فرمایا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ تم اچھی طرح جان جاؤ کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے، اور میں تمہیں اس زمین سے جلا وطن کرنا چاہتا ہوں۔ تو جس کو اپنے مال کی کوئی قیمت ملتی ہے تو فروخت کر لے ورنہ سن لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔



  • [*=right]بخاري، الصحیح، 6: 2674، رقم: 6916
    [*=right]مسلم، الصحیح، 3: 1387، رقم: 1765

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اﷲُ عَنْهمَا قَالَ حَارَبَتِ النَّضِیرُ وَقُرَیْظَة فَأَجْلَی بَنِي النَّضِیرِ وَأَقَرَّ قُرَیْظَة وَمَنَّ عَلَیْهمْ حَتَّی حَارَبَتْ قُرَیْظَة فَقَتَلَ رِجَالَهمْ وَقَسَّمَ نِسَائَ همْ وَأَوْلَادَهمْ وَأَمْوَالَهمْ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ إِلَّا بَعْضَهمْ لَحِقُوا بِالنَّبِيِّ فَآمَنَهمْ وَأَسْلَمُوا وَأَجْلَی یَهودَ الْمَدِینَة کُلَّهمْ بَنِي قَیْنُقَاعَ وَهمْ رَهطُ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَلَامٍ وَیَهودَ بَنِي حَارِثَة وَکُلَّ یَهودِ الْمَدِینَة۔


حضرت ابن عمر رَضِيَ اﷲُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے لڑائی کی تو بنی نضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے انہیں رہنے دیا گیا۔ جب انہوں نے دوبارہ لڑائی کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو نیز مال اسباب کو مسلمانوں میں بانٹ دیا گیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل گئے یعنی ایمان لاکر مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ مدینہ منورہ کے سارے یہودی بنی قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام کے ہم قوم تھے، بنی حارثہ کے یہود اور مدینہ طیبہ کے دوسرے تمام یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔



  • [*=right]بخاري، الصحیح، 4: 1478، رقم: 3804
    [*=right]مسلم، الصحیح، 3: 1387، رقم: 1766

عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَة قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِیدٍ الْخُدْرِيَّ ص یَقُولُ نَزَلَ أَهلُ قُرَیْظَة عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ إِلَی سَعْدٍ فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلَی سَیِّدِکُمْ أَوْ خَیْرِکُمْ فَقَالَ هؤُلَائِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهمْ وَتَسْبِي ذَرَارِیَّهمْ قَالَ قَضَیْتَ بِحُکْمِ اﷲِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ۔


حضرت ابوسعید خدری ص فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کے حکم پر بنی قریظہ قلعہ کے نیچے اتر آئے تھے۔ تو نبی کریمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد ص کو بلا بھیجا۔ پس وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے گدھے پر سوار ہوکر چل پڑے اور جب مسجد نبوی کے قریب آگئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار یا اپنے بہترین فرد کے لئے تعظیمی قیام کرو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم پر قلعہ سے اتر آئے ہیں اب ان کا فیصلہ کردو۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے جو افراد لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور کبھی آپ یہ فرماتے کہ حکم فرشتہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔



  • [*=right]بخاري، الصحیح، 4: 1511، رقم: 3895
    [*=right]مسلم، الصحیح، 3: 1388، رقم: 1768
بالفرض ان غدار لوگوں کو (جو پوری ریاست مدینہ کے لئے خطرہ تھے) قتل کرتے ہوئے، رات کے اندھیرے میں لڑائی کے دوران عورتیں اور بچے ہلاک ہو جاتے یا انہی کی طرح کے خطرناک کوئی اور لوگ ہوتے یا پھر آج بھی کوئی ایسا گروہ ہو تو ان کے بارے میں درج ذیل حدیث مبارک ہے:

عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَة قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ بِالْأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهلِ الدَّارِ یُبَیَّتُونَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِهمْ وَذَرَارِیِّهمْ قَالَ: همْ مِنْهمْ وَسَمِعْتُه یَقُولُ لَا حِمَی إِلَّا ِﷲِ وَلِرَسُولِه


حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابواء یا ودّان کے مقام پر میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ سے ان مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو رات کو اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور (بوقتِ شب خون) قتل کردیئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ بھی تو ان ہی میں سے ہیں۔ نیز آپ کو یہ بھی فرماتے سنا گیا کہ چراگاہیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں۔

بخاري، الصحیح، 3: 1097، رقم: 2850

مسلم، الصحیح، 3: 1364، رقم: 1745
معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو عوام الناس کے جان و مال، عزت و آبرو اور ملکی سلامی کے لیے خطرہ ہوں انہیں کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اگر وہ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر چھپنے کی کوشش کریں تو بھی انہیں قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ پورے معاشرے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں اس لیے ان کا قلعہ قمہ کرنا ہر صورت لازم ہے۔ درج بالا حدیثِ مبارکہ درست مفہوم یہی ہے۔

اس حدیثِ مبارکہ کو سانحہ پشاور کے ساتھ جوڑنا اور دلائل پیش کر کے معصوم بچوں کے قتلِ ناحق کو جائز قرار دینا بالکل خارجی ذہن کی عکاسی ہے۔ اس سکول میں کون سے غدار چھپے ہوئے تھے؟ کیا وہ معصوم بغاوت کر رہے تھے؟ کیا وہاں جنگ ہو رہی تھی کہ عورتیں اور بچے زد میں آگئے؟ کیا بچوں نے کوئی فساد بپا کیا تھا؟ کیا وہ بچے مرتد ہوگئے تھے؟ کیا انہوں نے کوئی قتلِ ناحق کیا تھا؟ ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو اس قتلِ عام کے جواز کی دلیل کیسے بنا لی گئی؟


یہ ظلم خارجی دہشت گردوں نے معاشرے میں دہشت پھیلانے کے لیے کیا جس کا اسلام سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خوارج کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ ہر دور میں کفار کے بارے میں نازل ہونے والی آیات اور وارد ہونے والی احادیث کو اہلِ اسلام پر چسپاں کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے پیغمبرِ اسلام صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم کی ذات پر طعنہ زنی کی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں بکیں، اہلِ بیتِ رسول علیھم السلام پر کفر کے فتوے لگائے اور اہلِ اسلام کا قتلِ عام کیا۔ دورِ حاضر کے خوارج بھی اسی ذہنیت کا تسلسل ہیں۔ ان کے فتنہ و فساد کا دینِ امن و رحمت سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ یہ اسلام اور پاکستان، دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ اہلِ عقل و دانش کا فریضہ ہے کہ عوام الناس کو ان کی اصلیت سے روشناس کروائیں اور انہیں دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگنے سے بچائیں۔

مزید وضاحت کے لیے خود کش دھماکوں اور خوارج کے خلاف دیئے گئے شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمدطاہرالقادری کے فتویٰ کا مطالعہ کیجیے:

دہشت گردی اور فتنہ خوارج
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 
Last edited:

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
سعود صاحب:۔

پہلی گذارش یہ ہے کہ آپ مجھے اس تھریڈ کے متعلق مطلع کر دیتے کیونکہ ہم اس موضوع پر پہلے سے ہی اس تھریڈ میں گفتگو کر رہے تھے۔

دوسری گذارش ہے کہ پہلے تھریڈ میں سوالات پہلے سے موجود تھے جو تشنہ ہیں، مگر آپ نے وہ بات پھر یہاں پر دہرا دی۔

مثلا آپ نے دعویٰ کیا ہے:۔

واضح رہے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔

اس پر میں پہلے ہی اعتراضات پیش کر چکی ہوں جنکی تفصیل اس پوسٹ میں موجود ہے۔

مختصراً یہ کہ 1400 سال سے نبی، صحابہ یا مسلمانوں نے یہ استثنائی صارتحال کا بہانہ پیش نہیں کیا تھا، بلکہ 1400 سال کے بعد یہ بہانہ پیش ہو رہا ہے کیونکہ اس قتل عام اور معصوم عورتوں و بچوں کو کنیز باندیاں بنا لینے کے طلم کا دفاع انسانیت اور اخلاقیات کے حوالے سے کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔

اور مسلمانوں 1400 سال سے ہر ہر قوم کی معصوم عورتوں و بچوں کو غلام بناتے آ رہے ہیں، چاہے ان عورتوں و بچوں کا جنگ سے کچھ لینا دینا ہو یا نہ ہو۔

اور اس عذاب کی وجہ نبی کی تکذیب نہیں ، بلکہ مال غنیمت اور زمینوں پر قبضہ ہے۔

دوسری قوم چاہے امن سے ہی کیوں نہ رہ رہی ہو، اور اس نے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہ بھی پہنچایا ہو، مگر طریقہ کار یہ تھا کہ جب مسلمانوں کو زیادہ طاقت مل جائے تو اس امن والی قوم کو بھی دھمکی بھیج دو کہ یا تو جزیہ کے نام پر مال مسلمانوں کو دو، یا پھر ہم حملہ کر کے تمہارا قتل کریں گے اور تمہاری تمام عورتوں و بچوں کو باندیاں و غلام بنا لیں گے اور تمہاری تمام کی تمام زمین و جائیداد و مال و اسباب لوٹ لیں گے۔ تمہاری عورتوں کو اپنے قتل کیے جانے والے مردوں پر رونے اور غم منانے کا موقع تک نہ ہو گا اور اسی حالت میں انہیں کنیز باندیاں بنا کر بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتے ہوئے مسلمان اپنے علاقوں تک لے جائیں گے۔

مال بنانے کا یہ اصول یہاں نظر آ رہا ہے:۔


عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَة قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ بِالْأَبْوَائِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهلِ الدَّارِ یُبَیَّتُونَ مِنْ الْمُشْرِکِینَ فَیُصَابُ مِنْ نِسَائِهمْ وَذَرَارِیِّهمْ قَالَ: همْ مِنْهمْ وَسَمِعْتُه یَقُولُ لَا حِمَی إِلَّا ِﷲِ وَلِرَسُولِه
ترجمہ:۔
حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابواء یا ودّان کے مقام پر میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ سے ان مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو رات کو اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور (بوقتِ شب خون) قتل کردیئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ بھی تو ان ہی میں سے ہیں۔ نیز آپ کو یہ بھی فرماتے سنا گیا کہ چراگاہیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں۔
بخاري، الصحیح، 3: 1097، رقم: 2850
مسلم، الصحیح، 3: 1364، رقم: 1745

مال بنانے کے ساتھ ساتھ یہاں پر عورتوں وبچوں کے بھی قتل، یا پھر انکو کنیز باندیاں بنانے کی وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے کہ "وہ بھی ان میں سے ہیں"۔۔۔۔ یعنی وہ بھی گنہگار و مجرم ہیں چاہے وہ عورتیں و بچے حربی ہوں یا نہ ہوں، یہ بات کافی ہے کہ وہ مسلمانوں کی بجائے دوسری قوم میں پیدا ہوئے۔

میری تربیت اسلامی ماحول میں کی گئی ہے۔ لیکن میں پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ اسلام کا یہ اصول میرے حلق سے کسی صورت نیچے نہیں اتر رہا، چاہے آپ مجھ پر لاکھ مذہب سے بیزار و آزاد خیالی کا الزام لگاتے رہیں۔
میرا مسئلہ "انسانیت" ہے۔ اور اگر یہ چیز میرے حلق سے نیچے نہیں اتر پا رہی ہے تو اسکی وجہ یہی انسانیت ہے۔ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ میری فطرت میری رہنمائی کر رہی ہے کہ یہ ناانصافی ہے، یہ ظلم ہے۔
میرا جرم فقط یہ ہے کہ میں اپنے ضمیر کو مذہب کے اندھی تقلید کے نام پر سلانے میں ناکام ہوں، اور اس واقعہ پر پریشان ہوں اور ذہن میں ابھرتے سوالات کو نہیں دبا سکی ہوں۔

اسی مال غنیمت کا ایک اور نمونہ یہ ہے کہ بنی قریظہ ہی نہیں، بلکہ مدینے اور آس پاس کے دیگر تمام یہودیوں کو بھی (جنکا بنی قریظہ یا جنگ سے کوئی تعلق نہ تھا) شہر بدر کر دیا گیا اور انکی زمینوں اور مال و اسباب پر قبضہ کر لیا گیا۔

حضرت ابن عمر رَضِيَ اﷲُ عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ بنی نضیر اور بنی قریظہ نے لڑائی کی تو بنی نضیر کو جلاوطن کردیا گیا اور بنی قریظہ پر احسان کرکے انہیں رہنے دیا گیا۔ جب انہوں نے دوبارہ لڑائی کی تو ان کے مردوں کو قتل کردیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو نیز مال اسباب کو مسلمانوں میں بانٹ دیا گیا۔ ماسوائے ان لوگوں کے جو نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مل گئے یعنی ایمان لاکر مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ مدینہ منورہ کے سارے یہودی بنی قینقاع جو حضرت عبداللہ بن سلام کے ہم قوم تھے، بنی حارثہ کے یہود اور مدینہ طیبہ کے دوسرے تمام یہودی جلاوطن کردیئے گئے۔
بخاري، الصحیح، 4: 1478، رقم: 3804
مسلم، الصحیح، 3: 1387، رقم: 1766

ان دیگر یہودیوں پر اس ظلم کی وجہ فقط "چراگاہوں" کا حصول تھا، وگرنہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔

ََََََََََ========================

بنو قریظہ کے 12 تا 14 سالہ بچوں کا قتل

اس متعلق آپ نے کچھ غلط بیانیاں کی ہیں اور خامخواہ میں بہانے ہی بنائے ہیں جنکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپکا یہ طریقہ کار کچھ افسوسناک ہے۔

http://sunnah.com/abudawud/40/54
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي عَطِيَّةُ الْقُرَظِيُّ، قَالَ كُنْتُ مِنْ سَبْىِ بَنِي قُرَيْظَةَ فَكَانُوا يَنْظُرُونَ فَمَنْ أَنْبَتَ الشَّعْرَ قُتِلَ وَمَنْ لَمْ يُنْبِتْ لَمْ يُقْتَلْ فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ ‏.‏
صحيح (الألباني)حكم :
Narrated Atiyyah al-Qurazi:

I was among the captives of Banu Qurayzah. They (the Companions) examined us, and those who had begun to grow hair (pubes) were killed, and those who had not were not killed. I was among those who had not grown hair.


لنک
3429 أخبرنا الربيع بن سليمان قال حدثنا أسد بن موسى قال حدثنا حماد بن سلمة عن أبي جعفر الخطمي عن عمارة بن خزيمة عن كثير بن السائبقال حدثني ابنا قريظة أنهم عرضوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم قريظة فمن كان محتلما أو نبتت عانته قتل ومن لم يكن محتلما أو لم تنبت عانته ترك
ترجمہ:۔
ربیع بن سلیمان، اسد بن موسی، حمادبن سلمہ، ابی جعفر، عمارہ بن خزیمہ، حضرت کثیر بن سائب رضی اللہ عنہ بنو قریظ کے دو لڑکوں سے روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو)
حکم: صحیح (لغیرہ
)البانی۔ لنک۔


لنک
3430 أخبرنا محمد بن منصور قال حدثنا سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عطية القرظي قال كنت يوم حكم سعد في بني قريظة غلاما فشكوا فيفلم يجدوني أنبت فاستبقيت فها أنا ذا بين أظهركم
ترجمہ:۔
محمد بن منصور، سفیان، عبدالملک بن عمیر، حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
حکم: صحیح، البانی

لنک
2541 - حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وعلي بن محمد قالا ثنا وكيع عن سفيان عن عبد الملك بن عمير قال سمعت عطية القرظي يقول عرضنا على رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم قريظة . فكان من أنبت قتل . ومن لم ينبت خلى سبيله . فكنت فيمن لم ينبت فخلي سبيلي
[ ش - ( من أنبت ) أي شعر العانة . كأنه علامة البلوغ في الظاهر فاعتمدوا عليها . ]
قال الشيخ الألباني : صحيح
ترجمہ:۔
عطیہ القرظی فرماتے ہیں کہ قریظہ کے دن (جب سب بنوقریظہ مارے گئے) ہمیں اللہ کے رسول کی خدمت میں پیش کیا گیا تو جو بالغ تھا اسے قتل کر دیا گیا اور جو بالغ نہ تھا اسے چھوڑ دیا گیا تو میں نابالغوں میں تھا اس لیے مجھے بھی چھوڑ دیا گیا۔
حکم: حدیث مرفوع، صحیح، البانی (لنک)۔

نیز یہ واقعہ ابن جریر طبری نے 2 جگہ نقل کیا ہے اور دیگر مؤرخین نے بھی نقل کیا ہے۔

۔ مرفوع کی بحث وہاں اہم ہوتی ہے جہاں شریعت کے کسی حکم کا رسول (ص) سے براہ راست صادر ہونا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں صحابی کی ذاتی رائے غیر مرفوع ہونے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنتی ہے۔
مگر موجودہ مسئلے میں مرفوع اور غیر مرفوع کی بحث میں الجھانا بے مقصد ہے کیونکہ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جسکے عینی گواہ صحابی ہیں اور یہ بات کافی ہے۔
اور آخری بات، سنن ابن ماجہ میں موجود مرفوع حدیث پر امام البانی نے "صحیح" کا حکم لگایا ہے۔ چنانچہ مرفوع کی بحث اول تا آخر بے معنی ہے اور فقط لایعنی بحث میں الجھانے کے لیے کی جا رہی ہے۔

۔ اور آپ نے دعویٰ کیا کہ یہ روایت "خبر واحد" ہے۔ آپکا یہ دعویٰ بھی غلط ہے اور صاف غلط بیانی ہے جسکا آپکو اچھی طرح علم تھا مگر پھر بھی آپ نے یہ کام کیا۔
اوپر آپ نے خود اس واقعے کے 2 طریقے نقل کیے تھے۔ نیز تاریخی کتب بھی آپکے سامنے تھیں۔ اسکے بعد آپکے "خبر واحد" والے بہانے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟
نیز کیا یہ سچ نہیں کہ مسلمان علماء نے ان واقعات میں خبر واحد کو بھی حجت تسلیم کیا ہے؟
اس واقعے کو تو بہت سے لوگوں نے روایت کیا ہے، مگر اس واقعے کے ایک جز (زیر ناف بالوں والے بچوں کا قتل) کو بھی ایک صحابی نہیں، بلکہ 2 صحابی بیان کر رہے ہیں اور دیگر تاریخی کتب میں بھی اسکا اندراج ہے۔ اس حوالے سے بھی یہ خبر واحد نہ رہی۔ نیز دیگر شواہد بھی بیان کر رہے ہیں کہ ہر اس ذی روح کو قتل کیا گیا جو کہ کسی بھی طرح تلوار اٹھانے کے قابل تھا، جن میں 13 سالہ بچہ بھی شامل ہے جو کہ اتنا ڈیل ڈول رکھتا ہے کہ تلوار اٹھا کر دشمن پر وار کر سکے۔

۔ پھر آپ خامخواہ درایت کے نام پر شکوک پیدا کر کے اس واقعہ کا انکار کرنا چاہتے ہیں۔
اگر کسی واقعے میں احتلام اور زیر ناف بالوں کا ذکر ہے اور دوسری میں فقط زیر ناف بالوں کا، تو اس چیز کو روایات کا "اختلاف" نہیں کہا جاتا، بلکہ اسکو روایات میں "تطبیق" کرنا کہا جاتا ہے۔
آپ کو "تطبیق" کا اچھی طرح علم ہے مگر پھر بھی آپ نے خامخواہ میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی۔

۔حدیث نمبر 3 میں کہیں نہیں کیا گیا کہ بالغ یا زیر ناف بالوں کا حکم سعد نے دیا تھا۔ آپ خامخواہ شک پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
حدیث نمبر 7 میں زیر ناف بالوں کا مترادف "بالغ" اور "نابالغ" استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کہاں کا اصول ہے کہ اس بنیاد پر ساری روایات کو رد کر دو؟
زیر ناف بال ستر کو کھولے بگیر بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

الغرض، آپ نے جتنے بہانے بنائے ہیں، وہ سب کے سب لایعنی ہیں۔

اور اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے 1400 سالوں میں کسی مسلمان عالم نے ان میں سے کوئی بھی بہانہ بنا کر اس واقعے کا انکار نہیں کیا ہے۔ آپکے یہ سارے بہانے محدثین و علماء کے بنائے گئے اصولوں کے خلاف ہیں۔


 
Last edited:

saud491

MPA (400+ posts)


مختصراً یہ کہ 1400 سال سے نبی، صحابہ یا مسلمانوں نے یہ استثنائی صارتحال کا بہانہ پیش نہیں کیا تھا، بلکہ 1400 سال کے بعد یہ بہانہ پیش ہو رہا ہے کیونکہ اس قتل عام اور معصوم عورتوں و بچوں کو کنیز باندیاں بنا لینے کے طلم کا دفاع انسانیت اور اخلاقیات کے حوالے سے کسی صورت نہیں کیا جا سکتا۔

اور مسلمانوں 1400 سال سے ہر ہر قوم کی معصوم عورتوں و بچوں کو غلام بناتے آ رہے ہیں، چاہے ان عورتوں و بچوں کا جنگ سے کچھ لینا دینا ہو یا نہ ہو۔

اور اس عذاب کی وجہ نبی کی تکذیب نہیں ، بلکہ مال غنیمت اور زمینوں پر قبضہ ہے۔



یہ اصول 1400 سال سے قرآن میں موجود ہے اور اسکو آیات سے واضح کیا جاچکا ہے۔ چونکہ آپ حضور اکرمpbuh کو اللہ کا رسول نہیں سمجھتیں اسلیئے قرآن کو الہامی بھی نہیں مانتی۔


رسولوں کی مخاطب اقوام پر اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں عذاب آجاتا ہے۔

وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَمَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرآی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ.(القصص ۲۸: ۵۹)
اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں بنتا، جب تک ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج لے، جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں بنتے، مگر اسی وقت جب ان کے باشندے (اپنے اوپر) ظلم ڈھانے والے بن جاتے ہیں۔

وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ. وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِھِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ. (ابراہیم ۱۴: ۱۳ ۔۱۴)
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یاتو ہم تمھیں اپنی سرزمین سے نکال کر رہیں گے یا تمھیں ہماری ملت میں پھر واپس آنا پڑے گا۔ تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں ہی کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تم کو زمین میں بسائیں گے، یہ ان کے لیے ہے جو میرے حضور پیشی سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔


وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً. (بنی اسرائیل۱۷: ۱۵)
اور ہم عذاب دینے والے نہیں تھے، جب تک کسی رسول کو بھیج نہ دیں۔



وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ. فَلَوْلَآ اِذْجَآءَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْاوَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ. فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (الانعام ۶: ۴۲ ۔۴۵)
اور ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی امتوں کے پاس (اپنے) رسول بھیجے ۔پس ان کو مالی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ خدا کے آگے جھکیں توجب ہماری پکڑ آئی، وہ خدا کی طرف کیوں نہ جھکے ، بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کی نگاہوں میں اسی عمل کو کھبادیا جو وہ کرتے رہے تھے تو جب انھوں نے فراموش کردیا، اس چیز کو جس سے ان کو یاددہانی کی گئی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے ، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز پر اترانے لگے جو انھیں دی گئی تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پس وہ بالکل ہک دک رہ گئے۔ پس ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور شکر کا سزاوار حقیقی صرف اللہ ہے، تمام عالم کا رب۔


اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکٰتِ اَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ. ( سورۂ توبہ ۹: ۰ ۷)
کیا انھیں ان لوگوں کی سرگزشت نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزرے ۔ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، اصحاب مدین اور الٹی ہوئی بستیوں کی۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ان کے اوپر ظلم کرنے والا نہیں بنا ، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔

وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُ. وَقَوْمُ اِبْرٰھِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍ. وَّاَصْحٰبُ مَدْیَنَ وَ کُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کاَنَ نَکِیْرِ.(سورۂ حج ۲۲: ۴۲۔ ۴۴)
اور اگر یہ لوگ تمھاری تکذیب کررہے ہیں، تو (یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے)ان سے پہلے قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط اور مدین کے لوگ بھی تکذیب کرچکے ہیں، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی تو میں نے ان کافروں کو کچھ ڈھیل دی، پھر میں نے ان کو دھرلیا تو دیکھو، کیسی ہوئی میری پھٹکار۔


فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿٤﴾سورة محمد
پس جب کفار سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب زخموں سے چور ہوجائیں تو ان کی مشکیں باندھ لو پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے لیا جائے یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے - یہ یاد رکھنا اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن وہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل ہوئے وہ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرسکتا ہے

أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ دَمَّرَ اللَّـهُ عَلَيْهِمْ ۖ وَلِلْكَافِرِينَ أَمْثَالُهَا ﴿١٠سورة محمد
تو کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ دیکھتے کہ ان سے پہلے والوں کا کیا انجام ہوا ہے بیشک اللہ نے انہیں تباہ و برباد کردیا ہے اور کفاّر کے لئے بالکل ایسی ہی سزا مقرر ہے


وَكَأَيِّن مِّن قَرْ*يَةٍ هِيَ أَشَدُّ قُوَّةً مِّن قَرْ*يَتِكَ الَّتِي أَخْرَ*جَتْكَ أَهْلَكْنَاهُمْ فَلَا نَاصِرَ* لَهُمْ ﴿١٣﴾ أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّ*بِّهِ كَمَن زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُم ﴿١٤سورة محمد
اور کتنی ہی بستیاں تھیں جو تمہاری اس بستی سے کہیں زیادہ طاقتور تھیں جس نے تمہیں نکال دیا ہے جب ہم نے انہیں ہلاک کردیا تو کوئی مدد کرنے والا بھی نہ پیدا ہوا. تو کیا جس کے پاس پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیل موجود ہے وہ اس کے مثل ہوسکتا ہے جس کے لئے اس کے بدترین اعمال سنوار دیئے گئے ہیں اور پھر ان لوگوں نے اپنی خواہشات کا اتباع کرلیا ہے


إِذْ يُوحِي رَبُّكَ إِلَى الْمَلَائِكَةِ أَنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا ۚ سَأُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴿١٢﴾ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ شَاقُّوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ ۚ وَمَن يُشَاقِقِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ ﴿١٣﴾سورة الأنفال
جب تیرے رب نے فرشتوں کو حکم بھیجا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم مسلمانوں کے دل ثابت رکھو میں کافروں کے دلوں میں دہشت ڈال دوں گا سو گردنوں پر مارواور ان کے پور پور پر مارو. یہ اس لیے ہے کہ وہ الله اوراس کے رسول کے مخالف ہیں اور جو کوئی اللہ اور اس کےرسول کا مخالف ہو تو بے شک الله سخت عذاب دینے والا ہے

فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ ۚ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ رَمَىٰ ۚ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا ۚ إِنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٧سورة الأنفال
سو تم نے انہیں قتل نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو قتل کیا۔ اور آپ نے خاک کی مٹھی نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے وه پھینکی اور تاکہ مسلمانوں کو اپنی طرف سے ان کی محنت کا خوب عوض دے بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے واﻻ خوب جاننے واﻻ ہے.


وَأَنزَلَ الَّذِينَ ظَاهَرُوهُم مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن صَيَاصِيهِمْ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ وَتَأْسِرُونَ فَرِيقًا ﴿٢٦
وَأَوْرَثَكُمْ أَرْضَهُمْ وَدِيَارَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ وَأَرْضًا لَّمْ تَطَئُوهَا ۚ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرًا ﴿٢٧﴾سورة الأحزاب
خدا نے ان اہلِ کتاب کو جنہوں نے ان (کفار) کی مدد کی تھی ان کے قلعوں سے اتار دیا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا۔ چنانچہ تم ان میں سے بعض کو قتل کرنے لگے اور بعض کو قید کر لیا۔ اور (خدا نے) تمہیں ان (کافروں) کی زمین کا اور ان کے گھروں کا اور ان کے اموال کا اور ان کی اس زمین کا جس پر تم نے قدم بھی نہیں رکھا تھا وارث بنا دیا اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔

اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ* السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ* السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُ*ونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا ﴿٤٣﴾ أَوَلَمْ يَسِيرُ*وا فِي الْأَرْ*ضِ فَيَنظُرُ*وا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْ*ضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرً*ا ﴿٤٤﴾وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّـهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَ*كَ عَلَىٰ ظَهْرِ*هَا مِن دَابَّةٍ وَلَـٰكِن يُؤَخِّرُ*هُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرً*ا ﴿٤٥﴾سورة فاطر
یہ زمین میں استکبار اور بڑی چالوں کا نتیجہ ہے حالانکہ بڑی چالیں چالباز ہی کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہیں تو اب یہ گزشتہ لوگوں کے بارے میں خدا کے طریقہ کار کے علاوہ کسی چیز کا انتظار نہیں کررہے ہیں اور خدا کا طریقہ کار بھی نہ بدلنے والا ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا تغیر ہوسکتا ہے. تو کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی کہ دیکھیں ان سے پہلے والوں کا انجام کیا ہوا ہے جب کہ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھے اور خدا ایسا نہیں ہے کہ زمین و آسمان کی کوئی شے اسے عاجز بناسکے وہ یقینا ہر شے کا جاننے والا اور اس پر قدرت رکھنے والا ہے. اور اگراللہ تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا مواخذہ کرلیتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مخصوص اور معین مدّت تک ڈھیل دیتا ہے اس کے بعد جب وہ وقت آجائے گا تو پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خوب بصیرت رکھنے والا ہے

لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ*ضٌ وَالْمُرْ*جِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِ*يَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُ*ونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ سُنَّةَ اللَّـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٦٢﴾سورة الأحزاب
پھر اگر منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہ پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ ہی کو ان پر مسلّط کردیں گے اور پھر یہ آپ کے ہمسایہ میں صرف چند ہی دن رہ پائیں گے. یہ لعنت کے مارے ہوئے ہوں گے کہ جہاں مل جائیں گرفتار کرلئے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں. یہ خدائی سّنت ان لوگوں کے بارے میں رہ چکی ہے جو گزر چکے ہیں اور خدائی سّنت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے

:
اِنَّ الَّذِیْنَ یُحَآدُّوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ،ۤ اُولٰۤئِکَ فِی الْاَذَلِّیْنَ.کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.(المجادلہ ٥٨: ٢٠- ٢١ )

''بے شک، وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں، وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک، اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔

قَاتِلُوا الَّذِیْنَ لَایُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَلَا بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ، وَلَایُحَرِّمُوْنَ مَاحَرَّمَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہ،، وَلَا یَدِیْنُوْنَ دِیْنَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حَتّٰی یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍ وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ.(٩: ٢٩)
ان لوگوں سے لڑو جو الله پر اور آخرت کے دن پر ایمان نہیں لاتے اور نہ اسے حرام جانتے ہیں جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور سچا دین قبول نہیں کرتے ان لوگوں میں سے جو اہلِ کتاب ہیں یہاں تک کہ ذلیل ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں


هُوَ الَّذِي أَخْرَ*جَ الَّذِينَ كَفَرُ*وا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِ*هِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ* ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُ*جُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّـهِ فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّ*عْبَ ۚ يُخْرِ*بُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُ*وا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ* ﴿٢﴾ وَلَوْلَا أَن كَتَبَ اللَّـهُ عَلَيْهِمُ الْجَلَاءَ لَعَذَّبَهُمْ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَ*ةِ عَذَابُ النَّارِ* ﴿٣﴾(الحشر ٥٩)
''وہی ہے جس نے اہل کتاب کافروں کو پہلے ہی حملے میں اُن کے گھروں سے نکال باہر کیا تمہیں ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے، اور وہ بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اُن کی گڑھیاں انہیں اللہ سے بچا لیں گی مگر اللہ ایسے رخ سے اُن پر آیا جدھر اُن کا خیال بھی نہ گیا تھا اُس نے اُن کے دلوں میں رعب ڈال دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے بھی اپنے گھروں کو برباد کر رہے تھے اور مومنوں کے ہاتھوں بھی برباد کروا رہے تھے پس عبرت حاصل کرو اے دیدہ بینا رکھنے والو! اگر اللہ نے اُن کے حق میں جلا وطنی نہ لکھ دی ہوتی تو دنیا ہی میں وہ انہیں عذاب دے ڈالتا، اور آخرت میں تو ان کے لیے دوزخ کا عذاب ہے ہی



جب سرجن ٹیومر کو جسم کے حصے سے کاٹ کر نکالتا ہے تو وہ بے رحم نہیں ہوتا بلکہ رحم کررہا ہوتا ہے۔

================
بنو قریظہ کے خلاف جو اقدام کیا گیا اسکی وجوہات بھی بیان کردی گئی ہیں۔
1- دو دفعہ معاہدے سے انحراف
2- بغاوت و سرکشی
3- مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش
4- اتمام حجت کے بعد آخری رسول کی تکفیر

http://www.siasat.pk/forum/showthread.php?312216-%DB%8C%DB%81%D9%88%D8%AF-%DB%8C%D8%AB%D8%B1%D8%A8-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%85%DB%8C%D8%AB%D8%A7%D9%82-%D9%85%D8%AF%DB%8C%D9%86%DB%81-%D8%AD%D8%B6%D9%88%D8%90%D8%B1-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D8%AE%D8%A7%D9%84%D9%81%D8%AA

========================
مِنْ اَجْلِ ذٰلِكَ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْۤ اِسْرَآءِ يْلَ اَنَّه، مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا وَمَنْ اَحْيَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْيَا النَّاسَ جَمِيْعًا. وَلَقَدْ جَآءَ تْهُمْ رُسُلُنَا بِالبَيِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِيْرًا مِّنْهُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ. اِنَّمَا جَزٰۤؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه، وَيسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ ايْْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلاَفٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ. اِلاَّ الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ فَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. سورہ مائدہ (٥) آیات ٣٢- ٣٤
''اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لکھ دیا کہ جس نے کسی ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کی جان لینے یا زمین میں فساد برپا کرنے کے علاوہ قتل کیا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی ایک انسان کو زندہ رکھا تو اس نے گویا تمام انسانوں کو زندہ رکھا۔ اور یقینا ان کے پاس ہمارے رسول واضح دلائل لے کر آئے، لیکن اس کے بعد بھی ان میں سے بہت سے لوگ زمین میں حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرتے اور زمین میں فساد پھیلانے کے لیے سرگرم رہتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انھیں عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیا جائے، یا انھیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں الٹے کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلاوطن کر دیا جائے۔ یہ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے، جبکہ آخرت میں بھی ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے، البتہ جو مجرم تمھارے ان پر قابو پانے سے پہلے توبہ کرلیں تو جان لو کہ اللہ بخشنے والا، مہربان ہے۔''
-----------------
------------------
دنیا میں جن قوموں پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوا، ان سب کی جامع فرد قرارداد جرم بیان کرنے کے لیے بھی یہی تعبیر استعمال ہوئی ہے:

فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُوْنِ مِنْ قَبْلِکُمْ اُوْلُوْا بَقِيَّةٍ يَّنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِی الْاَرْضِ اِلاَّ قَلِيْلاً مِّمَّنْ اَنْجَيْْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مَآ اُتْرِفُوْا فِيْهِ وَکَانُوْا مُجْرِمِيْنَ.(هود١١: ١١٦)

''تو کیوں نہ ایسا ہوا کہ تم سے پہلے جو قومیں تھیں، ان میں ایسے عقل مند ہوتے جو زمین میں فساد برپا کرنے سے روکتے؟ ایسے لوگ بہت کم تھے اور یہ وہ تھے جنھیں ہم نے ان میں سے (عذاب سے) محفوظ رکھا، جبکہ ظالم اس سامان عیش وعشرت کے پیچھے لگے رہے جو انھیں دیا گیا تھا اور وہ مجرم تھے۔''

یہاں 'يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه،' اور 'يَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا'کی دو الگ الگ تعبیریں استعمال ہوئی ہیں۔ قرآن مجید میں ان دونوں تعبیروں کے مواقع استعمال کا استقصا کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ ان سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف اور معاند گروہوں کی وہ سرگرمیاں ہیں جن کا مقصد مدینہ منورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقتدار کو چیلنج کرنا اور سازش، بغاوت یا اس طرح کے دوسرے طریقوں سے کام لیتے ہوئے اسے کمزور کرنے کی کوشش کرنا تھا۔ چنانچہ مثال کے طور پر منافقین مدینہ کی اندرونی سازشوں کے لیے سورہ توبہ(٩) کی آیت ١٠٧ میں 'حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْله،' کے الفاظ آئے ہیں۔ قرآن مجید کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے دین کا غلبہ جزیرہ عرب پر قائم ہونا آپ کی بعثت کا ہدف اور مقصود تھا اور جن گروہوں نے بھی اس کے علی الرغم کھڑا ہونے اور اس کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی، انھوں نے گویا اللہ اور اس کے رسول کے خلاف برسر جنگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہ بنیادی طور پر مشرکین عرب، یہود اور منافقین کے گروہ تھے اور قرآن میں ان گروہوں کی سرگرمیوں کے لیے 'يُشَاقِقِ اللّٰهَ وَرَسُوْله،' )( النساء ٤:١١٥۔ الانفال ٨:١٣۔ محمد٤٧: ٣٢۔ الحشر٥٩: ٤۔) اور 'يُحَادِدِ اللّٰهَ وَرَسُوْله،'( التوبہ ٩:٦٣۔ المجادلہ٥٨: ٥، ٢٠۔) کی تعبیریں بھی استعمال ہوئی ہیں جو محاربہ کے مفہوم کو مزید واضح کرتی ہیں۔ اسی طرح 'سَعٰی فِی الْاَرْضِ فَسَادًا' کی تعبیر قرآن مجید میں یہود اور منافقین کی ایسی مفسدانہ، شرانگیز اور باغیانہ (subversive) سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوئی ہے جن کا مقصد انارکی پھیلانا اور مدینہ کی اسلامی ریاست کو سیاسی، اخلاقی اور معاشرتی سطح پر کمزور کرنا تھا۔ ( البقرہ ٢:٢٠٥۔ المائدہ ٥:٦٤۔)

عمار خان ناصر کے مضمون 'حرابہ' اور 'فساد فی الارض'سے ماخوذ
======================================

ان دیگر یہودیوں پر اس ظلم کی وجہ فقط "چراگاہوں" کا حصول تھا، وگرنہ انہوں نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔

آپ کے پیرٹ اور واٹ صاحبان کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کو ان کی غداری و بغاوت کی سزا دی گئی۔
Paret, Mohammed und der Koran, p. 122-124.
Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, p. 170-176.
Watt, Muhammad at Medina, p. 217-218.
==================================

بنو قریظہ کے 12 تا 14 سالہ بچوں کا قتل

اس متعلق آپ نے کچھ غلط بیانیاں کی ہیں اور خامخواہ میں بہانے ہی بنائے ہیں جنکی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ آپکا یہ طریقہ کار کچھ افسوسناک ہے۔

تھریڈ کا عنوان " اصول درایت" سے ہے نا کہ "اصول روایت" سے۔ شیخ البانی رح نے حکم "اصول روایت" کے حساب سے لگایا ہے۔

آپ نے تین روایتیں پیش کی ہیں جو کہ میرے مضمون میں بھی ہیں۔ دیکھ لیجیئے آخری دو روایتوں میں راوی ایک ہی ہیں، سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عطية القرظي۔ پہلی روایت میں حضرت کثیر رضہ حضوراکرم سے براہ راست نہیں سن رہے ہیں۔ وہ دو لڑکے کون ہیں؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟

اس تھریڈ کا موضوع بچوں (خصوصاٌ زیر ناف والی بات) کے قتل سے ہے۔ طبری نے زیر ناف والی بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اگر ہے تو کتاب کے اصلی صفحے کا اسکین پیش کیجیئے (تاریخ طبری کی جلد8 ہارون الرشید اور اسکے جانشین سے متعلق ہے۔) بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔ امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔

الغرض، آپ نے جتنے بہانے بنائے ہیں، وہ سب کے سب لایعنی ہیں۔


اگر آپ سمجھتی ہیں کہ دلائل لایعنی ہیں تو آپ کو یہ کہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ قارئین کے سامنے دونوں کے دلائل موجود ہیں۔

یہاں بنو قریظہ کے واقعہ کا انکار نہیں کیا جارہا بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ زیر ناف والی روایات "درایت کے اصول" کی روشنی میں ضعیف ہیں اور 11 / 12 سال کے بچوں کا قتل نہیں کیا گیا۔


===================================================
کچھ درایت کے اصول کے بارے میں:
قارئین کیلیئے کچھ درایت کے بارے میں اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضہ نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ عنقریب تمھارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایتیں آئینگی جو باہمدگر متناقض ہوں گی۔ تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو تو وہ مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں۔
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 430 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ "اور ان ان صورتوں میں خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی جب وہ عقل کے فیصلے کے منافی ہو۔ جب وہ قرآن کے محکم حکم کے خلاف ہو۔ جب وہ سنت معلومہ یا اس عمل کے خلاف ہو جو سنت ہی کی طرح معمول بہ ہے۔ اور جب وہ دلیل قطعی کے منافی ہو۔"
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 432 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم (از مولانا شبلی و مولانا سلیمان ندوی) میں لکھا ہے کہ "اس عبارت کا ماحاصل یہ ہیکہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اسکی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں-
۱۔جو روایت عقل کے خلاف ہو۔
۲۔جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔
۳۔محسوسات اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔
۴۔قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔
۵۔جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۶۔معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔
۷۔وہ روایت رکیک المعنی ہو مثلاً کدو کو بغیر ذبح کئے نہ کھاؤ۔
۸۔جو راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہیکہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔
۹۔جو روایت ایسی ہوکہ تمام لوگوں کو ا س سے واقف ہونے کی ضرورت ہو، با ایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے اس کی روایت نی کی ہو۔
۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔
دیکھیئے صفحہ 40 سے 41 مطبوعہ دار الاشاعت 1985۔





 

saud491

MPA (400+ posts)
اب ہم بخاری و مسلم سے حدیثیں پیش کرتے ہیں جس سے مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ بچوں کو قتل نہیں کیا گیا، صرف جنگ کے قابل مردوں کو قتل کیا گیا۔

صحیح بخاری


zumix5.jpg

1fk3fo.jpg

ntdu9.jpg


صحیح مسلم

2na1u3c.jpg

f4dwyr.jpg


2lbi49w.jpg




وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿١٧﴾سورة يس
اور ہماری ذمہ داری صرف واضح طور پر پیغام پہنچادینا ہے

 

muntazir

Chief Minister (5k+ posts)
اب ہم بخاری و مسلم سے حدیثیں پیش کرتے ہیں جس سے مکمل طور پر واضح ہوجاتا ہے کہ بچوں کو قتل نہیں کیا گیا، صرف جنگ کے قابل مردوں کو قتل کیا گیا۔

صحیح بخاری


zumix5.jpg

1fk3fo.jpg

ntdu9.jpg


صحیح مسلم

2na1u3c.jpg

f4dwyr.jpg


2lbi49w.jpg




وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ﴿١٧﴾سورة يس
اور ہماری ذمہ داری صرف واضح طور پر پیغام پہنچادینا ہے


@mehwish_ali
میری اس معاملے میں معلومات بلکل ناقص ہے پر یہ جو روایت سعود بھائی نے پیش کی ہیں ان کو ہی ہمیں کافی سمجھنا چاہے کے بچوں کا قتل عام نہیں ہوا ہے
لیکن اگر ایسا ہوا بھی ہے اگر تو میں ہی کیا ہم سب کو سمجھنا چاہے کے ہمارے نبی پاک نے جو بھی کیا وہ حکم خدا وندی کے سواے کچھ نہیں ہو سکتا ہے ہمکو اسے قبول کرنا چاہے ایک مثال دینا چاہتا ہوں
جب حضرت موسیٰ علیہ سلام حضرت خضر کے ساتھ تھے تو انہوں نے ایک بچے کو قتل کر دیا اس کی کیا وجوہات تھیں ؟
یہ بات ہمسب کو سمجھنی چاہے کے آپ کی ذات خود کچھ نہیں کہتی یا کرتی تھیں جب تک کے وحی نازل نہیں ہوتی تھی
اس لے اگر قتل ہوا بھی ہے تو اس کی کوئی وجوہات ہوں گی اگر نہیں ہوا تو تب بھی یہ سب حکم خدا وندی ہی ہے

 

mehwish_ali

Chief Minister (5k+ posts)
یہ اصول 1400 سال سے قرآن میں موجود ہے اور اسکو آیات سے واضح کیا جاچکا ہے۔ چونکہ آپ حضور اکرمpbuh کو اللہ کا رسول نہیں سمجھتیں اسلیئے قرآن کو الہامی بھی نہیں مانتی۔


رسولوں کی مخاطب اقوام پر اتمام حجت کے بعد دنیا ہی میں عذاب آجاتا ہے۔


آپ نے میری ایک بھی بات کا جواب نہیں دیا، بلکہ اپنی پرانی باتوں کو تکرار کے ساتھ دہرا رہے ہیں۔

آپکا پہلا دعویٰ ہے کہ "مخاطب اقوام پر اتمام حجت کے بعد دنیا مین عذاب آ جاتا ہے"۔
آپکا دوسرا دعویٰ ہے کہ "سنت میں تبدیلی" نہیں ہوتی۔
تو پھر میں نے سیدھا سا سوال پوچھا تھا قرآن تو گواہی دے رہا ہے کہ یہ اقوام تو حجت تمام ہونے کے بعد اپنے انبیاء کو قتل کر ڈالتی تھیں، اور ان پر کوئی عذاب نہیں آتا تھا۔ تو پھر کہا ں گیا وہ دنیا کا عذاب اور کہاں گئی وہ سنت میں تبدیلی نہ ہونا؟

میں تو انصاف کی بات کہہ رہی ہوں جو کہ غور و فکر کرنے کے بعد سامنے آتی ہے۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ جہاں "موقع" اور "داؤ" لگا وہاں پکڑ کر دوسری قوم کو قتل کر دیا گیا، انکے معصوم بچوں اور عورتوں کو سیکس سلیو بنا لیا گیا، اور انکے مال و دولت کو لوٹ لیا گیا، اور پھر نام لے دیا گیا یہ عذاب الہیٰ ہےاور اس سنت میں تبدیلی نہیں ہوتی۔

اور جب میں مسندِ انصاف پر بیٹھوں گی تو مسلمان بن کر مجھے فیصلہ نہیں کرنا ہوتا، بلکہ انصاف کے نام پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے میں پریشان ہوں کہ اسلام اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں پر پورا نہیں اتر رہا ہوتا۔


وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُھْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْٓ اُمِّھَا رَسُوْلاً یَّتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَمَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرآی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ.(القصص ۲۸: ۵۹)
اور تیرا رب بستیوں کو ہلاک کرنے والا نہیں بنتا، جب تک ان کی مرکزی بستی میں کوئی رسول نہ بھیج لے، جو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائے، اور ہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں بنتے، مگر اسی وقت جب ان کے باشندے (اپنے اوپر) ظلم ڈھانے والے بن جاتے ہیں۔

اگر بذاتِ خود کوئی "قدرتی آفت" براہ راست اللہ کی طرف سے آئے تو یہ چیز علیحدہ ہے۔
لیکن اگر عذاب کے نام پر دوسری قوم والوں کو ذبح کر کے بچوں اور عورتوں کو سیکس سلیو بنا لیا جائے اور انکے تمام مال و اسباب کو لوٹ لیا جائے تو اس میں نہ اللہ نظر آتا ہے اور نہ کوئی انصاف۔

اسی لیے میں نے آپکی خدمت میں یہ چند سادہ سے سوال کیے تھے، مگر انکو آپ نے دور دور تک نہیں چھوا۔

۔ پہلا سوال تھا کہ قرآن نے پھر اسے تکذیب کرنے پر عذاب الہی قرار کیوں نہیں دیا تھا؟
۔دوسرا سوال تھا کہ 1400 سال کے مسلمانوں نے اسے تکذیب کرنے پر بنو قریظہ پر عذاب الہی قرار کیوں نہیں دیا تھا اور کیوں فقط 1400 سال کے بعد مبشر نذیر صاحب جیسے حضرات کو یہ بہانہ گھڑنا پڑا؟
۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ یہ رسول کی تکذیب کا عذاب الہی تھا تو یہ فقط "بنو قریظہ" پر ہی کیوں آیا، او ردیگر یہودی قبیلوں اور قوم پر کیوں نہ آیا کیونکہ وہ سب کے سب رسول (ص) کی تکذیب کر رہے تھے؟
۔ آپکی عقل میں یہ بات کیسے گھستی ہے کہ کفار مکہ جو کہ اصل جنگ کی حالت میں تھے اور تکذیب کے معاملے میں کہیں آگے تھے، ان پر تو کوئی عذاب نہیں آتا، مگر بنو قریظہ کو قتل کر دیا جاتا ہے؟

۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ قوموں پر عذاب الہی اسے کہا جاتا ہے جو کہ "قدرتی آفات" کے نتیجے میں براہ راست خدا کی طرف سے عذاب آئے۔ اس لیے آج بھی مسلمان طوفان نوح اور ہود و صالح وغیرہ کی مثال دے رہے ہوتے ہیں۔
تلواروں والا معاملے میں کوئی نشانی نہیں کہ یہ عذاب الہی ہے (خیر سے نشانی تو زلزلوں میں بھی نہیں کیونکہ آج سائنس ثابت کر رہی ہے کہ یہ زلزلے کسی الہامی حکم پر نہیں بلکہ زمین کی ساخت کی وجہ سے آتے ہیں اور صرف ان علاقوں میں آتے ہیں جہاں یہ خاص سلیں پائی جاتی ہیں جو کہ حرکت کرتی ہیں)۔
بلکہ جب بنی اسرائیل غالب آئے تو انہوں نے قتل کیا اور عورتوں وغیرہ کو غلام بنا لیا۔ لیکن جب جنگ میں کفار غالب آئے تو انہوں نے نبیوں کو قتل کر ڈالا اور بنی اسرائیل کی عورتوں وبچوں وغیرہ کو غلام بنا لیا۔
نبیوں کی تکذیب تو ایک طرف رہی، نبیوں کے قتل پر بھی کوئی عذاب نہ آیا اور صدیوں تک نبی قتل ہوتے رہے اور بنی اسرائیل غلام بنے رہے۔ کیا یہ چیز عقل میں آتی ہے؟ بے چارے ان نبیوں پر عذاب الہی کیوں نازل ہو رہا ہے؟
۔ اور رہ گئی سنت الہی، تو وہ تو کئی جگہ تبدیل ہو تی دکھائی دے رہے ہیں۔
جہاں داؤ لگ گیا، وہاں پر قتل عام کر دیا گیا۔ اور جہاں حالات اتنے سازگار نہیں تھے، وہاں پر فقط مخالف قوم کو جلا وطن کرنے پر ہی اکتفا کر لیا گیا۔ اور جہاں اس سے بھی زیادہ مسئلہ ہوا، وہاں عذاب الہی کی جگہ فقط معاہدہ کر لیا گیا۔
ایسے عذاب تو کفار بھی دیتے تھے جہاں جہاں انکا داؤ لگ جاتا تھا۔
اور اللہ کی سنت بھی میں پھر تبدیلی نظر آتی ہے کہ طوفان نوح اور قوم لوگ وغیرہ میں تو معصوموں کو بچا لیتا ہے ، مگر بنی قریظہ میں پوری قوم کو بشمول بچوں اور عورتوں کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ۔۔۔۔یہ کہاں کی سنت ہے اور کہاں کا انصاف ہے؟

اور یہ عذاب صرف نبی سے مخصوص نہیں جیسا کہ مبشر نذیر صاحب یا آپ غلط دعویٰ کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ 1400 سالوں سے مسلمان اسے قانون کے طور پر مانتے آ رہے ہیں کہ 1400 سالوں سے مخالف قوم کی عورتوں کو سیکس سلیو بناتے آ رہے ہیں، انکی زمینیں و مال و اسباب کو مال غنیمت کے نام پر لوٹتے آ رہے ہیں۔ اور آج بھی داعش اسی نام پر یزدی عورتوں کو سیکس سلیو بنا رہی ہے اور مردوں کو قتل کر رہی ہے۔
وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِھِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا فَاَوْحٰٓی اِلَیْہِمْ رَبُّھُمْ لَنُھْلِکَنَّ الظّٰلِمِیْنَ. وَلَنُسْکِنَنَّکُمُ الْاَرْضَ مِنْ م بَعْدِھِمْ ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِ. (ابراہیم ۱۴: ۱۳ ۔۱۴)
اور کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا کہ یاتو ہم تمھیں اپنی سرزمین سے نکال کر رہیں گے یا تمھیں ہماری ملت میں پھر واپس آنا پڑے گا۔ تو ان کے رب نے ان پر وحی بھیجی کہ ہم ان ظالموں ہی کو ہلاک کردیں گے اور ان کے بعد تم کو زمین میں بسائیں گے، یہ ان کے لیے ہے جو میرے حضور پیشی سے ڈرے اور میری وعید سے ڈرے۔

وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً. (بنی اسرائیل۱۷: ۱۵)
اور ہم عذاب دینے والے نہیں تھے، جب تک کسی رسول کو بھیج نہ دیں۔


وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا اِلآی اُمَمٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَخَذْنٰھُمْ بِالْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ لَعَلَّھُمْ یَتَضَرَّعُوْنَ. فَلَوْلَآ اِذْجَآءَ ھُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْاوَلٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰٓی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ. فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. (الانعام ۶: ۴۲ ۔۴۵)
اور ہم نے تم سے پہلے بھی بہت سی امتوں کے پاس (اپنے) رسول بھیجے ۔پس ان کو مالی اور جسمانی تکالیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ خدا کے آگے جھکیں توجب ہماری پکڑ آئی، وہ خدا کی طرف کیوں نہ جھکے ، بلکہ ان کے دل سخت ہوگئے اور شیطان نے ان کی نگاہوں میں اسی عمل کو کھبادیا جو وہ کرتے رہے تھے تو جب انھوں نے فراموش کردیا، اس چیز کو جس سے ان کو یاددہانی کی گئی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے ، یہاں تک کہ جب وہ اس چیز پر اترانے لگے جو انھیں دی گئی تو ہم نے ان کو دفعتاً پکڑ لیا، پس وہ بالکل ہک دک رہ گئے۔ پس ان لوگوں کی جڑ کاٹ دی گئی جنھوں نے ظلم کا ارتکاب کیا اور شکر کا سزاوار حقیقی صرف اللہ ہے، تمام عالم کا رب۔

اَلَمْ یَاْتِھِمْ نَبَاُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ قَوْمِ نُوْحٍ وَّ عَادٍ وَّ ثَمُوْدَ وَ قَوْمِ اِبْرٰھِیْمَ وَاَصْحٰبِ مَدْیَنَ وَالْمُؤْتَفِکٰتِ اَتَتْھُمْ رُسُلُھُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ. ( سورۂ توبہ ۹: ۰ ۷)
کیا انھیں ان لوگوں کی سرگزشت نہیں پہنچی جو ان سے پہلے گزرے ۔ قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، اصحاب مدین اور الٹی ہوئی بستیوں کی۔ ان کے پاس ان کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے تو اللہ ان کے اوپر ظلم کرنے والا نہیں بنا ، بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے بنے۔

وَاِنْ یُّکَذِّبُوْکَ فَقَدْ کَذَّبَتْ قَبْلَھُمْ قَوْمُ نُوْحٍ وَّ عَادٌ وَّ ثَمُوْدُ. وَقَوْمُ اِبْرٰھِیْمَ وَ قَوْمُ لُوْطٍ. وَّاَصْحٰبُ مَدْیَنَ وَ کُذِّبَ مُوْسٰی فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ فَکَیْفَ کاَنَ نَکِیْرِ.(سورۂ حج ۲۲: ۴۲۔ ۴۴)
اور اگر یہ لوگ تمھاری تکذیب کررہے ہیں، تو (یہ کوئی عجیب بات نہیں ہے)ان سے پہلے قوم نوح، عاد، ثمود، قوم ابراہیم، قوم لوط اور مدین کے لوگ بھی تکذیب کرچکے ہیں، اور موسیٰ کی بھی تکذیب کی گئی تو میں نے ان کافروں کو کچھ ڈھیل دی، پھر میں نے ان کو دھرلیا تو دیکھو، کیسی ہوئی میری پھٹکار۔


یہ سب کی سب آیات "قدرتی آفات" کے متعلق ہیں۔
انکو آپ دو قوموں کے "معاملات" پر لاگو نہیں کر سکتے۔
اگر بنو قریظہ کو کسی قدرتی آفت نے تباہ کیا ہوتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا اور مسلمانوں پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ لیکن آپ کہیں کہ یہ بنو قریظہ کو بدعہدی کی سزا دی گئی اور پھر اس نام پر آپ تمام کے تمام مردوں اور 14 سالہ بچوں کو قتل کر ڈالیں، اور عورتوں کو پکڑ کر سیکس سلیو بنا لیں اور مال و اسباب کو لوٹ لیں، تو پھر یہ "معاملات' کا مسئلہ ہے اور ہرگز کسی انصاف سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔


فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّـهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ ﴿٤﴾سورة محمد
پس جب کفار سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں اڑادو یہاں تک کہ جب زخموں سے چور ہوجائیں تو ان کی مشکیں باندھ لو پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دیا جائے یا فدیہ لے لیا جائے یہاں تک کہ جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے - یہ یاد رکھنا اور اگر خدا چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن وہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ آزمانا چاہتا ہے اور جو لوگ اس کی راہ میں قتل ہوئے وہ ان کے اعمال کو ضائع نہیں کرسکتا ہے


میں کئی بار پہلے اس مسئلے پر روشنی ڈال چکی ہوں کہ:۔
۔ اگر جنگ کے دوران آپ مخالف قوم کے حربی مردوں کو قتل کر رہے ہیں تو اس میں ہرگز کوئی اعتراض نہیں۔
۔ لیکن اسکے نام پر اگر آپ مخالف قوم کے غیر حربی مردوں اور حتیٰ کہ 14 سالہ بچوں کو بھی ذبح کر ڈالیں اور تمام کی تمام عورتوں کو پکڑ کر سیکس سلیو بنا لیں اور مال و اسباب لوٹ لیں تو پھر یہ کسی بھی طرح کسی الہامی انصاف کا آئینہ دار نہیں۔
کیا آپ کو یہ صاف صاف فرق نظر نہیں آتا جو آپ بار بار جان بوجھ جنگ کے نام کو استعمال کر کے عورتوں اور بچوں پر ہونے والے اس ظلم کو حلال بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں؟
۔ اسی آیت میں یہ بھی بیان ہو رہا ہے کہ جو لوگ "قیدی" بن جائیں تو انکو قتل نہ کیا جائے، بلکہ انکا فدیہ لے لیا جائے یا ایسے ہی انہیں آزاد کر دیا جائے۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اسی لیے میں بار بار آپ کو بتلا رہی ہوں کہ یہ انسانیت نہیں کہ آپ پہلے دوسری قوم والوں سے کہیں کہ وہ اپنے ہتھیار رکھ کراپنے آپ کو آپکا قیدی بننا منظور کریں۔ اور جب ایک مرتبہ وہ ہتھیار رکھ کر آپکے سامنے بے بس ہو جائیں تو آپ پھر انکا قتل عام شروع کر دیں۔ یہ طرزِ عمل انسانیت کے لیے شرم کا مقام بن جائے گا۔
حتیٰ کہ آج بھی انسانی ضمیر نے اس بات کو انتہائی برا مانا ہے اور آج بھی اقوام عالم نے یہی اصول طے کیا ہے کہ جنگی قیدیوں کو یوں قتل نہیں کیا جائے گا۔
لَّئِن لَّمْ يَنتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَ*ضٌ وَالْمُرْ*جِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِ*يَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُ*ونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا ﴿٦٠﴾ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ سُنَّةَ اللَّـهِ فِي الَّذِينَ خَلَوْا مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ﴿٦٢﴾سورة الأحزاب
پھر اگر منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور مدینہ میں افواہ پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ ہی کو ان پر مسلّط کردیں گے اور پھر یہ آپ کے ہمسایہ میں صرف چند ہی دن رہ پائیں گے. یہ لعنت کے مارے ہوئے ہوں گے کہ جہاں مل جائیں گرفتار کرلئے جائیں اور ان کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں. یہ خدائی سّنت ان لوگوں کے بارے میں رہ چکی ہے جو گزر چکے ہیں اور خدائی سّنت میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے


میں پہلے بیان کر چکی ہوں کہ اگر کسی نے سازش کی ہے یا جنگ کی ہے تو پھر اسے بے شک سزا دی جائے۔ لیکن اسکے نام پر آپ بار بار جو عورتوں اور بچوں پر ہونے والے ظلم کو حلال کر رہے ہیں، وہ شرمناک ہے۔


بنو قریظہ کے خلاف جو اقدام کیا گیا اسکی وجوہات بھی بیان کردی گئی ہیں۔
1- دو دفعہ معاہدے سے انحراف
2- بغاوت و سرکشی
3- مسلمانوں کو ختم کرنے کی سازش
4- اتمام حجت کے بعد آخری رسول کی تکفیر


میں نے بھی جواباً آپکے سامنے بار بار اپنا مؤقف پیش کیا تھا کہ اول تو بنو قریظہ کی بدعہدی کوئی بڑے پیمانے کی نظر نہیں آتی اور پورے مہینے کے محاصرے کے دوران کفار نے انکی طرف سے کوئی ایک حملہ بھی نہیں کیا۔
چنانچہ مان بھی لیا جائے انہوں نے کوئی چھوٹے پیمانے کی بدعہدی کی تب بھی اسکی سزا اتنی سخت ہرگز نہیں ہو سکتی کہ پوری قوم کو ہی پکڑ کر ذبح کر ڈالا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے اور تمام کے تمام مال و اسباب کو لوٹ لیا جائے، جبکہ ان عورتوں اور بچوں کا جنگ سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔

اور آپ آج بھی کوئی ٹھوس دلیل پیش کرنے سے قاصر ہے کہ یہ بنوقریظہ کا یہ قتل تکذیب کی سزا کی وجہ سے ہوا، بلکہ 1400 سال سے یہ سزا فقط بدعہدی کے ضمن میں پیش کی جا رہی ہے۔ ۔۔۔ مگر آپکی حالت اس بھیڑئیے جیسی ہو گئی ہے جسے ہر صورت میں بھیڑ کے بچے کو قتل کر کے ہڑپ کرنا تھا اور اس کے لیے وہ ہر قسم کے بہانے بناتا رہا۔
اگر اللہ کو تکذیب کی سزا دینی ہی تھی تو بنو قریظہ کے ان عورتوں اور بچوں کی بجائے کفارِ مکہ کو دیتا، اور ان اقوام کو دیتا جس نے اللہ کے نبیوں تک کو قتل کر ڈالا تھا۔ مگر افسوس کہ آپ کو اس معاملے میں بار بار بتلانے پر بھی کوئی عذاب نظر آتا ہےا ور نہ سنت نظر آتی ہے اور ہر مرتبہ اس معاملے کو شیر مادر سمجھ کر ڈکار مارے بغیر ہضم کر جاتے ہیں۔





آپ کے پیرٹ اور واٹ صاحبان کہتے ہیں کہ بنو قریظہ کو ان کی غداری و بغاوت کی سزا دی گئی۔
Paret, Mohammed und der Koran, p. 122-124.
Watt, Muhammad, Prophet and Statesman, p. 170-176.
Watt, Muhammad at Medina, p. 217-218.



میں تو پیرٹ یا واٹ صاحب کو نہیں جانتی اور نہ ہی وہ میرے لیے حجت ہیں۔ بلکہ میں تو ثبوتوں کی بنیاد پر بات کر رہی ہوں۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ سزا "بغاوت اور غداری" کے نام پر دی گئی، اور آپ کا "تکذیب" والا بہانے اس خونی بھیڑیئے والی سنت ہی ہے جسے ہر لولا لنگڑا بہانہ کر کے اس بھیڑ کے بچے کو ہضم کر جانا تھا۔


تھریڈ کا عنوان " اصول درایت" سے ہے نا کہ "اصول روایت" سے۔ شیخ البانی رح نے حکم "اصول روایت" کے حساب سے لگایا ہے۔

یا حیرت! اگر آپ کو "اصول روایت" پر بات نہیں کرنا تھی تو پھر ان روایات کی اسناد پیش کرنے کی کیا ضرورت تھی؟
اسی پر بس نہیں، بلکہ آگے مرفوع، موقوف اور مقطوع کی لمبی لمبی بحثیں کر کے ان روایات کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ پھر اصول روایت کے ضمن میں آتا ہے اور اسکا درایت سے کوئی تعلق نہیں۔

ہمارے اس دور میں دو گروہوں نے جنم لے لیا ہے اور دونوں ہی غلطی پر ہیں۔ ایک نام نہاد مذہبی گروہ قرآن کی آیات اور احادیث کو سیاق و سباق سے کاٹ چھانٹ کر اپنے انتقام و غلط مقاصد کیلیئے استعمال کررہا ہے جبکہ دوسرا مذہب سے بیذار آزاد خیال گروہ اس نام نہاد مذہبی گروہ کی پیش کردہ غلط دلائل کو دیکھ کر نعوذ بااللہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر انگلیاں اٹھانے لگا ہے۔ واضح رہے کہ بنو قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔

نہیں، بلکہ مسئلہ آجکے اس نئے گروہ کا ہے جو کہ خونی بھیڑئیے کی طرح آج کی صدی میں پہلی مرتبہ ہر قسم کے لولے لنگڑے بہانے لے کر آ رہا ہے تاکہ اس ظلم کو حلال اور انصاف کے مطابق ثابت کر سکے۔
۔ پچھلے 1400 سالوں میں کسی ایک مسلمان عالم نے بھی اس کو استثنائی حکم قرار نہیں دیا۔ بلکہ بنی اسرائیل میں بھی اس چیز کو بطور قانون پیش کیا۔ کیا 1400 سال کے یہ تمام کے تمام مسلمان نام نہاد مذہبی گروہ تھے؟
۔ پچھلے 1400 سال سے اجماع ہے کہ یہ سزا تکذیبِ رسول کی مد میں نہیں دی گئی بلکہ واحد اور واحد وجہ بنو قریظہ کی بدعہدی بتلائی گئی۔ مگر آجکے اس تیسرے گروہ کو خونی بھیڑیے کی سنت پر عمل کرنے کے لیے نئے نت بہانوں کی ضرورت ہے۔
۔ پچھلے 1400 سالوں سے مسلمان اسی وجہ سے مخالف قوم کی عورتوں اور بچوں کو مال غنیمت میں غلام بناتے آ رہے ہیں اور انکے تمام مال و اسباب کو مالِ غنیمت کے نام پر لوٹ لیتے ہیں۔ اور مردوں کے متعلق انکی مرضی ہوتی ہے کہ انہیں قیدی بنا لیں یا پھر قتل کر ڈالیں جیسے کہ مالک بن نویرہ کو قتل کیا گیا، اور آج داعش عراق وغیرہ میں مردوں کو قتل کر رہی ہوتی ہے۔

آپ نے تین روایتیں پیش کی ہیں جو کہ میرے مضمون میں بھی ہیں۔ دیکھ لیجیئے آخری دو روایتوں میں راوی ایک ہی ہیں، سفيان عن عبد الملك بن عمير عن عطية القرظي۔ پہلی روایت میں حضرت کثیر رضہ حضوراکرم سے براہ راست نہیں سن رہے ہیں۔ وہ دو لڑکے کون ہیں؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟

پچھلے 1400 سالوں میں کسی نے یہ بہانے نہ تو اصول کے نام پر پیش کیے اور نہ ہی درایت کے نام پر۔ حدیث اور روایت کے نام پر جو سٹینڈرڈز متعین کیے گئے تھے انکے مطابق اگر صحابی نے رسول (ص) سے براہ راست نہ بھی سنا ہو بلکہ کسی اور صحابی سے کوئی بات سنی ہو تب بھی انکی روایت حجت ہے کیونکہ آپکا عقیدہ عدالت صحابہ کا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں ایک لڑکا صحابی عطیۃ القریظی ہوں۔
بلکہ اگر صحابی کثیر نہ بھی ہوتے اور صرف اور صرف صحابی عطیۃ القرظی کی گواہی ہوتی، تو 1400 سالوں سے متعین اصول کے مطابق انکی تنہا گواہی بھی حجت قرار پاتی۔

اس تھریڈ کا موضوع بچوں (خصوصاٌ زیر ناف والی بات) کے قتل سے ہے۔ طبری نے زیر ناف والی بات کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ اگر ہے تو کتاب کے اصلی صفحے کا اسکین پیش کیجیئے (تاریخ طبری کی جلد8 ہارون الرشید اور اسکے جانشین سے متعلق ہے۔) بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔ امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔

دکھائیں کہ پچھلے 1400 سالوں میں کس نے "درایت" کے نام پر یہ اصول پیش کیے ہیں کہ طبری نے بھی یہ بات نقل کی ہو اور مالک نے بھی؟
کیا آپ کو اپنے یہ ڈبل سٹینڈرڈز نظر نہیں آ رہے جہاں حجت تمام ہونے کے باوجود آپ لنگڑے لولے بہانے بنا کر درایت کے نام پر فرار ہونے کی کوشش کر رہے ہیں؟



اگر آپ سمجھتی ہیں کہ دلائل لایعنی ہیں تو آپ کو یہ کہنے کا پورا حق حاصل ہے۔ قارئین کے سامنے دونوں کے دلائل موجود ہیں۔
یہاں بنو قریظہ کے واقعہ کا انکار نہیں کیا جارہا بلکہ یہ بتایا جارہا ہے کہ زیر ناف والی روایات "درایت کے اصول" کی روشنی میں ضعیف ہیں اور 11 / 12 سال کے بچوں کا قتل نہیں کیا گیا۔

اگر آپ سچے ہوتے تو پچھلے 1400 سالوں میں کوئی نہ کوئی تو ہوتا جو درایت کے نام پر اسکو ضعیف کہتا۔
کچھ درایت کے اصول کے بارے میں:
قارئین کیلیئے کچھ درایت کے بارے میں اہم نکات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضہ نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی علیہ و سلم نے فرمایا کہ عنقریب تمھارے سامنے مجھ سے منسوب ایسی روایتیں آئینگی جو باہمدگر متناقض ہوں گی۔ تو جو کتاب اللہ اور میری سنت کے موافق ہو تو وہ مجھ سے ہیں اور جو کتاب اللہ اور میری سنت کے مخالف ہوں وہ مجھ سے نہیں ہیں۔
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 430 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ "اور ان ان صورتوں میں خبر واحد قبول نہیں کی جائیگی جب وہ عقل کے فیصلے کے منافی ہو۔ جب وہ قرآن کے محکم حکم کے خلاف ہو۔ جب وہ سنت معلومہ یا اس عمل کے خلاف ہو جو سنت ہی کی طرح معمول بہ ہے۔ اور جب وہ دلیل قطعی کے منافی ہو۔"
الکفایہ فی علم الروایہ: ص 432 بحوالہء مبادیء تدبر حدیث

کتاب سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم (از مولانا شبلی و مولانا سلیمان ندوی) میں لکھا ہے کہ "اس عبارت کا ماحاصل یہ ہیکہ حسب ذیل صورتوں میں روایت اعتبار کے قابل نہ ہوگی اور اس کے متعلق اسکی تحقیق کی ضرورت نہیں کہ اس کے راوی معتبر ہیں یا نہیں-
۱۔جو روایت عقل کے خلاف ہو۔
۲۔جو روایت اصول مسلمہ کے خلاف ہو۔
۳۔محسوسات اور مشاہدہ کے خلاف ہو۔
۴۔قرآن مجید یا حدیث متواتر یا اجماع قطعی کے خلاف ہو اور اس میں تاویل کی کچھ گنجائش نہ ہو۔
۵۔جس حدیث میں معمولی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو۔
۶۔معمولی کام پر بہت بڑے انعام کا وعدہ ہو۔
۷۔وہ روایت رکیک المعنی ہو مثلاً کدو کو بغیر ذبح کئے نہ کھاؤ۔
۸۔جو راوی کسی شخص سے ایسی روایت کرتا ہیکہ کسی اور نے نہیں کی اور یہ راوی اس شخص سے نہ ملا ہو۔
۹۔جو روایت ایسی ہوکہ تمام لوگوں کو ا س سے واقف ہونے کی ضرورت ہو، با ایں ہمہ ایک راوی کے سوا کسی اور نے اس کی روایت نی کی ہو۔
۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔
دیکھیئے صفحہ 40 سے 41 مطبوعہ دار الاشاعت 1985۔

میں آپکے اس بیان کا جواب پہلے بھی تفصیل سے پیش کر چکی ہوں۔
اصول روایت اور درایت کے حوالے سے عطیۃ القرظی اور صحابی جناب کثیر کی روایات بقیہ روایات سے ٹکرا نہیں رہی ہیں، بلکہ اسے "تطبیق" کرنا کہا جاتا ہے۔
بخاری اور مسلم اور دیگر تمام کتب میں یہ درج ہے کہ صرف "مردوں" کا ہی نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے قتل کا حکم جاری کیا گیا جو کہ "ہتھیار اٹھانے" کے قابل ہوں۔
عطیۃ القرظی اور جناب کثیر گواہی دے رہے ہیں کہ 14 سالہ بچوں کو بھی ہتھیار اٹھانے کے قابل سمجھا گیا اور ایسے تمام بچوں کو بھی قتل کر ڈالا گیا جن کے ناف کے بال آ چکے تھے۔
چنانچہ آپ تطبیق کو چھپا کر درایت کے نام پر جو ان 2 صحابہ کی گواہیوں کا ٹکراؤ کروا رہے ہیں، تو یہ پچھلے 1400 سال سے قائم اصولوں کے خلاف ہے اور فقط ڈبل سٹینڈرڈ رویہ کہلایا جائے گا۔

۱۰۔جس روایت میں قابل اعتنا واقعہ بیان کیا گیا ہو کہ اگر وقوع میں آتا تو سینکڑوں آدمی اس کو روایت کرتے، باوجود اس کے صرف ایک ہی راوی نے اس کی روایت کی ہو۔


پہلی بات یہ ہے کہ زیر ناف بالوں والا معاملہ اس واقعہ کی جزئیات میں سے فقط ایک جز ہے اور اسکے راوی سینکڑوں آدمی نہیں ہے بلکہ علی اور زبیر کو قتل کرنے پر مامور کیا گیا تھا تو وہی گواہ ہو سکتے تھے یا پھر دوسرے وہ جنہیں کہ زیر ناف بال ہونے کی وجہ سے قتل کر دیا گیا اور وہ گواہی دینے کے لیے زندہ نہیں، اور تیسرا گروہ ہے زیر ناف بال دیکھے جانے پر بچ گئے اور انہوں نے اپنی گواہی نوٹ کروا دی۔
دوسری بات یہ کہ بہت سے لوگوں نے یہ بیان دیا ہے کہ صرف مردوں کو ہی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کو قتل کا حکم دیا گیا جو کہ "ہتھیار" اٹھا سکتا تھا۔ بذاتِ خود یہ بات ان 2 صحابیوں کے بیان کو تقویت پہنچا رہی ہے اور یہ اصول درایت کے مطابق صحیح طرز عمل تھا مگر آپ نے اصول درایت کے نام پر اسکے بالکل الٹ بات کو گھڑ لیا۔

تیسری بات یہ کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ بنو قریظہ نے 2 مرتبہ بدعہدی کی۔ تو اگر آپ سچے ہیں تو اس پہلی مرتبہ کی بدعہدی کے واقعے کے متعلق سینکڑوں عینی گواہ پیش کریں اور اس واقعہ کی تفصیلات پیش فرمائیں۔۔۔۔ افسوس کہ آپ کا طرزِ عمل دیکھتے ہوئے مجھے ہرگز توقع نہیں ہے کہ اپنی مرتبہ آپ ان اصولوں کو اپنے اوپر بھی جاری کریں گے، بلکہ پھر وہی منافقانہ طرزِ عمل حاوی ہو جائے گا جہاں ہر قانون، ہر اصول فقط دوسروں کے لیے ہے اور بذات خود آپ ہر اصول و قانون سے بالاتر ہیں۔