اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
الله مولانا کی خطائیں معاف کرے اور انہیں غریق رحمت کرے . آمین
انسان خطاء کا پتلا ہے . مولانا کے طرز تکلم سے اختلاف کرنے کی گنجائش موجود ہو سکتی ہے
لیکن اسلامی تعلیمات اور افکار میں ان کا علم بہت وسیع تھا . پورے بر صغیر میں شائد ہی ایسے کوئی اسلامی عالم ہوں جو علامہ اقبال پر اتنی فصیح و بلیغ دسترس رکھتے ہوں جتنی کہ علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کو تھی
مرحوم علامہ اقبال کی سوچ اور تعلیمات پر ایک چلتا پھرتا انساییکلوپیڈیا تھے
ایک بار پھر...... الله مرحوم کی مغفرت کرے . آمین
بلا شبہ کلام علامہ اقبال شناسی میں اس عھد میں یکتا تھے ۔ بعید ہے کسی دوسرے کو کلام اقبال اس وسعت اور روانی سے یاد رہا ہو۔ ایک وقت میں صوفی تبسم یا ڈاکٹر قرار وغیرہ اقبال پر لیکچر دیا کرتے تھے مگر جیسا کہ رضوی صاحب خود کہتے تھے وہ روحِ اقبال شناس تھے جبکہ دوسر ے فکر اقبال شناس تھے ۔۔ علامہ اقبال کے کلام کے اس پہلو کی تشریح انقلاب ایران کے زعما پر بھی اثر انداز ہوئی تھی اور انکے انقلابی خظبات کا حصہ بھی بنی ۔۔ دویم رضوی صاحب روایتی اسلامی علوم میں کسی سے بھی کم نہ تھے اور یاداشت بھی خوب، اور روایتی قران پر دسترس بھی مگر جو فہم قران کی نئی جہتیں پچھلے سو برس بھر میں ابھری ہیں ان سے کوسوں دور ، ۔ انکے عشق رسول پر تبصرہ نہیں مگر انکا عشق بھی کسی فلسفیانہ نکتہ طرازی کی بجائے براہ راست سیرت رسول اور صحابہ سے اخذ تھا ، اسی ماخذ سبب عشق انکا اول و آ خر ہوا ۔
۔رضوی صاحب کا تیسرا پہلو انکا پر اثر فن تقریر تھا۔جس کی آئیندہ مثال دی جائے گی ہمارے ہاں مساجد کے خطبااور واعظ اکثر مقامی ڈکشن استعمال کرتے نہیں گھبراتے ( مسجد شہدا میں ڈاکٹر اسرار ایک ایکسیپشن تھے کہ ۔عالمانہ۔ انداز کے واعظ بنے جس نے انہیں یکدم سٹار بنا دیا اور پھر وہ لہجہ کسی حد مروج بھی ہو گیا) ۔۔ ٹی وی کے خطیبوں کا بوجوہ لہجہ اور انداز مختلف ہوتا مگر رضوی صاحب نیشنل لیول کے خطیب تو بن گئے مگر اپنے مساجد والے وعظ کے انداز پر قائم رہے اور اس موجب ان پر تنقید بھی ہوئی مگر فہم زبان خصوصا فارسی اور عربی پر قادر تھے ۔
سیا سی اختلاف کے ذکر کا یہ موقع نہیں اور بھلے عزیر ویسے ہی اوپر کیا کیا کچھ تحریر کر چکے ہیں ۔سب نے اس دنیا کو چھوڑ اپنی قبر جانا ہے مری حثیئت نہیں اس موقع بولوں۔