تشہد ميں اُنگلي کو حرکت دينا ۔ جاويد احمد غامدي

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
تشہد میں شروع سے آخر تک انگشت شہادت اٹھا کرحرکت دیتے رہنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔لیکن صرف شہادتین کے موقع پر انگلی اٹھانا اور پھر اسے رکھ دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے پہلے اور دوسرے تشہد میں انگلی اٹھانے کے دو طریقے ہیں:
1۔دایئں ہاتھ کی انگلیاں بند کرلی جایئں پھر انگوٹھے کو درمیانی انگلی کی جڑ میں رکھ کر انگشت شہادت کو قبلہ رخ کرین اور اسے مسلسل ہلاتے رہیں۔
2۔دایئں ہاتھ کی دو انگلیاں بند کرلی جایئں پھر انگوٹھے اور درمیانی انگلی سے حلقہ بنا کر انگشت شہادت کو متواتر حرکت دیتے رہیں۔(مسلم۔ابودائود۔کتاب الصلاۃ)
بعض روایتوں میں انگشت شہادت کوحرکت نہ دینے کی صراحت ہے لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی تمام روایات شاذ یا منکر ہیں انہیں حرکت دینے والی روایات کے مقابلہ میں لانا صحیح نہیں ہے تشہد میں انگلی اٹھا کر حرکت کرتے رہنا اس کا فائدہ یہ ہے کہ نماز میں یکسوئی کا باعث ہے۔ خیالات پراگندہ نہیں ہوتے۔حدیث میں بھی اس کا اشارہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔''تشہد میں انگلی اٹھانا شیطان کے لئے لوہے کے نیزہ سے زیادہ ضرب کاری کا باعث ہے۔''(مسند امام احمد :119/2)
© حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا پابند کیاگیا پیشانی دونوں ہاتھ دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔(صحیح بخاری :حدیث نمبر 809)

درج ذیل دو حدیثیں غور سے دیکھیں ؛؛


عَن وَائِلِ بْنِ حَجَرٍ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ فَافْتَرَشَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُسْرَى وَحَدَّ مِرْفَقَهُ الْيُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ الْيُمْنَى وَقَبَضَ ثِنْتَيْنِ وَحَلَّقَ حَلْقَةً ثُمَّ رَفَعَ أُصْبُعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُو بهَا. ( رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والدارمي )

سیدنا وائل ابن حجر (رضی اللہ عنہ) ( نبی کریم کی نماز کی تفصیل بتاتے ہوئے ) فرماتے ہیں کہ " پھر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (سجدے سے سر اٹھا کر اس طرح) بیٹھے (کہ) اپنا بایاں پاؤں تو بچھا لیا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور دائیں ران پر دائیں کہنی الگ رکھی (یعنی کہنی کو ران پر رکھتے وقت اسے پہلو سے نہیں ملایا) اور دونوں انگلیاں (یعنی چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی) بند کر کے حلقہ بنایا پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شہادت کی انگلی اٹھائی اور میں نے دیکھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس انگلی کو حرکت دیتے تھے اور اس سے دعاء کرتے تھے۔ " (سنن ابوداؤد، دارمی)
(مشکوٰۃ المصابیح )

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَعَدَ فِي التَّشَهُّدِ وَضَعَ يَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُسْرَى وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رُكْبَتِهِ الْيُمْنَى وَعَقَدَ ثَلَاثًا وَخمسين وَأَشَارَ بالسبابة ‘‘
وَفِي رِوَايَةٍ: كَانَ إِذَا جَلَسَ فِي الصَّلَاةِ وَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ وَرَفَعَ أُصْبُعَهُ الْيُمْنَى الَّتِي تلِي الْإِبْهَام يَدْعُو بِهَا وَيَدَهُ الْيُسْرَى عَلَى رُكْبَتِهِ بَاسِطَهَا عَلَيْهَا. رَوَاهُ مُسلم
عبداللہ ابن عمر (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ امام الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے ہی تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔
اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ " جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز ( کے قعدہ) میں بیٹھتے ہی دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے ، اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔ " (صحیح مسلم)
اس حدیث شریف میں لفظ (إِذَا قَعَدَ ) کا مطلب واضح ہے کہ تشہد کیلئے بیٹھتے ہی انگشت شہادت اٹھالیتے
اور (يَدْعُو بِهَا ۔ اسی کے ساتھ دعاء کرتے ) کا مطلب ہے کہ آخر تک انگشت مسلسل کھڑی رکھتے اور ہلاتے رہتے ؛

دیکھئے قعدہ اخیرہ میں پڑھنے کی تین چیزیں ہیں :
(۱) پہلی عبارت التحیات سے لے کر (عبدہ رسولہ ) تک۔۔ تَّشَهُّدُ ۔۔ کہلاتی ہے،
(۲) دوسری عبارت درود شریف کی ہے ،
(۳ )ٌ تیسری اور آخری دعاء ہے ،
ہم اردو بولنے والے کبھی ان تینوں کو ( التحیات ) بھی کہہ دیتے ہیں ؛
اور اہل عرب ان تینوں کو اختصار کی راہ سے (تَّشَهُّدُ ) کہتے ہیں (کیونکہ اس میں توحید ورسالت کی شہادت بھی ہے )
علامہ شمس الحق عظیم آبادیؒ عون المعبود میں لکھتے ہیں :

(كَانَ يُشِيرُ بِأُصْبُعِهِ إِذَا دَعَا) أَيْ إِذَا تَشَهَّدَ
قَالَ فِي الْمِرْقَاةِ وَالْمُرَادُ إِذَا تَشَهَّدَ وَالتَّشَهُّدُ حَقِيقَةُ النُّطْقِ بِالشَّهَادَةِ وَإِنَّمَا سُمِّيَ التَّشَهُّدُ دُعَاءً لِاشْتِمَالِهِ عَلَيْهِ وَمِنْهُ قَوْلُهُ فِي الرِّوَايَةِ الثَّانِيَةِ يَدْعُو بِهَا أَيْ يَتَشَهَّدُ بِهَا وَأَنْ يَسْتَمِرَّ عَلَى الرَّفْعِ إِلَى آخِرِ التَّشَهُّدِ۔انْتَهَى

یعنی : تَّشَهُّدُ شہادت دینے کو کہا جاتا ہے ،اور یہاں (قعدہ اخیرہ کی اس عبارت کو ) تَّشَهُّدُ کو دعاءاسلئے کہا گیا ہے کیونکہ اس میں دعاء بھی شامل ہے ، اور انگلی اٹھا کر دعاء پڑھنے کا مطلب ہے انگشت شہادت کے ساتھ تشہد پڑھتے اور مسلسل آخر تک اس کو اٹھائے رکھتے ، انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ :
کبھی پوری نماز کو دعاء کہا جاتا ہے یا پوری نماز کو قرآن کہا جاتا ہے:

( وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا )سورۃ بنی اسرائیل
اور نماز صبح (کا بھی التزام کرو) ۔ بلاشبہ صبح کی نماز (فرشتوں کے) حاضر ہونے کا وقت ہے۔
اور اسی سورۃ میں فرمایا :

{وَلا تَجْهَرْ بِصَلاتِكَ وَلا تُخَافِتْ بِهَا [وَابْتَغِ بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلا } نہ تو آپ اپنی نماز بہت بلند آواز سے پڑھیں اور نہ بالکل پوشیده بلکہ اس کے درمیان کی راہ اپنالے۔
ابن کثیرؒ لکھتے ہیں :

قَالَ: كَانَ إِذَا صَلَّى بِأَصْحَابِهِ رَفَعَ صَوْتَهُ بِالْقُرْآنِ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ الْمُشْرِكُونَ سَبُّوا الْقُرْآنَ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ کو نماز پڑھاتے اور بلند آواز سے اس میں قرأت پڑھتے تو مشرکین قرآن کو برا کہتے ۔ اس لیے حکم ہوا کہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ مشرکین سنیں اور گالیاں بکیں۔
اس آیت میں قرآن کریم کو نماز کہا کیونکہ وہ نماز پڑھا جاتا جس کے سبب مشرکین بکواس کرتے ۔
اللہ اعلم