توہین رسالتﷺ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے:بنگلہ دیشی وزیر ڈاکٹر حسن محمود

bangladesh-minister.jpg


بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر حسن محمود نے کہا ہے کہ پیغمبرﷺ اسلام کی توہین کا تنازع ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ڈھاکہ میں حکومت کو اس پر ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے ہفتے کی شام ڈھاکہ میں آنے والے ہندوستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ غیر رسمی بات چیت میں کہا۔ "سب سے پہلے، یہ ایک بیرونی مسئلہ ہے (بنگلہ دیش کے لیے)۔ یہ ہندوستان کا مسئلہ ہے، بنگلہ دیش کا نہیں۔ ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ ڈاکٹر حسن محمود نے بھارتی حکام کو اس معاملے میں کارروائی کرنے پر مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے مزید کہا وہ اس معاملے کو مزید "ہوا " نہیں دیں گے۔ حالانکہ بھارتی صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا ڈھاکہ کی خاموشی ایک ایسے وقت میں جب ایک درجن سے زائد مسلم ممالک اور 57 ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون نے احتجاج کیا یا بی جے پی کے دو سابق ترجمانوں کے پیغمبر اسلام کے بارے میں بیانات کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے، ۔ شیخ حسینہ حکومت کی ملکی اور اسلامی دنیا میں پوزیشن کوئی سمجھوتہ نہیں کیا؟

جس پر بنگالی وزیر نے کہا "ہم کسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم جب بھی اور جہاں کہیں بھی حضور کی توہین کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے کارروائی کی ہے، اور ہم اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم بھارتی حکومت کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اب قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں پیغمبرﷺ کی توہین کا معاملہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو میں اس معاملے کو کیوں بھڑکاوں؟ کیا اس پرکافی توجہ نہیں دی گئی؟ میرا کام آگ لگانا نہیں ہے۔

 

Bubber Shair

Chief Minister (5k+ posts)
ایسے مذہبی جنونی مسلمانوں اور ہندووں میں دونوں اطراف پاے جاتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں۔ سری لنکن والا کیس ابھی حال ہی کا واقعہ ہے ہمارے ہاں بھی مندروں پر حملے ہوتے ہیں اور اسطرف مساجد پر ہمارے ہاں مساجد میں خودکش حملے ہوتے ہیں اور ادھر بلوای حملے کرتے ہیں
یہ مذہبی جنونی چونکہ فتنہ پھیلاتے ہیں اور معاشروں کاسکون برباد کرتے ہیں لہذا ان کو جہاں کہیں بھی دیکھا جاے گولی ماردینی چاہئے
انڈیا کو احتجاجی پیغام بھیجنا چاہئے جس کے بعد دیکھا جاے کہ اس نے کیا کاروای کی ہے اگر کوی کاروای نہ کی جاے تو پھر اپنے ملک میں ہندووں کو نہیں مارنا بلکہ انڈیا کی پراڈکٹس خریدنی بند کی جاسکتی ہیں
 

Aristo

Minister (2k+ posts)
bangladesh-minister.jpg


بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر حسن محمود نے کہا ہے کہ پیغمبرﷺ اسلام کی توہین کا تنازع ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے اور ڈھاکہ میں حکومت کو اس پر ردعمل کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے ہفتے کی شام ڈھاکہ میں آنے والے ہندوستانی صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ غیر رسمی بات چیت میں کہا۔ "سب سے پہلے، یہ ایک بیرونی مسئلہ ہے (بنگلہ دیش کے لیے)۔ یہ ہندوستان کا مسئلہ ہے، بنگلہ دیش کا نہیں۔ ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے"۔ ڈاکٹر حسن محمود نے بھارتی حکام کو اس معاملے میں کارروائی کرنے پر مبارکباد پیش کی۔

انہوں نے مزید کہا وہ اس معاملے کو مزید "ہوا " نہیں دیں گے۔ حالانکہ بھارتی صحافیوں نے سوال کیا کہ کیا ڈھاکہ کی خاموشی ایک ایسے وقت میں جب ایک درجن سے زائد مسلم ممالک اور 57 ممالک کی تنظیم اسلامی تعاون نے احتجاج کیا یا بی جے پی کے دو سابق ترجمانوں کے پیغمبر اسلام کے بارے میں بیانات کے خلاف مذمتی بیانات جاری کیے، ۔ شیخ حسینہ حکومت کی ملکی اور اسلامی دنیا میں پوزیشن کوئی سمجھوتہ نہیں کیا؟

جس پر بنگالی وزیر نے کہا "ہم کسی بھی طرح سے سمجھوتہ نہیں کر رہے ہیں۔ ہم جب بھی اور جہاں کہیں بھی حضور کی توہین کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت نے کارروائی کی ہے، اور ہم اس کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ ہم بھارتی حکومت کو مبارکباد دیتے ہیں۔ اب قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔‘‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں پیغمبرﷺ کی توہین کا معاملہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تو میں اس معاملے کو کیوں بھڑکاوں؟ کیا اس پرکافی توجہ نہیں دی گئی؟ میرا کام آگ لگانا نہیں ہے۔

Is Begairat Wazir ko koi batao k yeh Dunia main mojood har muslman ka masla hai main kisi b individual k qanoon hath main lenay k lhilaf gon lakin jab kisi muslim state k spokesperson he aisay biyan dain gy to aam muslman kia karay ga?? India ke mslmano k khilaf roz roz muzalim bharty ja rahy hain aour muslman states chup kar k bethay hain aour ab is level tak be his o begairat ho gy han k Ghustahi E Rasool (PBUH) ko b sirf india ka androoni mamla keh rahy hain ALLAH hidiyat dain sab ko
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
ایسے مذہبی جنونی مسلمانوں اور ہندووں میں دونوں اطراف پاے جاتے ہیں جو مذہب کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں۔ سری لنکن والا کیس ابھی حال ہی کا واقعہ ہے ہمارے ہاں بھی مندروں پر حملے ہوتے ہیں اور اسطرف مساجد پر ہمارے ہاں مساجد میں خودکش حملے ہوتے ہیں اور ادھر بلوای حملے کرتے ہیں
یہ مذہبی جنونی چونکہ فتنہ پھیلاتے ہیں اور معاشروں کاسکون برباد کرتے ہیں لہذا ان کو جہاں کہیں بھی دیکھا جاے گولی ماردینی چاہئے
انڈیا کو احتجاجی پیغام بھیجنا چاہئے جس کے بعد دیکھا جاے کہ اس نے کیا کاروای کی ہے اگر کوی کاروای نہ کی جاے تو پھر اپنے ملک میں ہندووں کو نہیں مارنا بلکہ انڈیا کی پراڈکٹس خریدنی بند کی جاسکتی ہیں
باریک سا فرق ہے ایک طرف مذہبی جنونیوں کی حکومت ہے جو اقلیتوں کو ختم کرنا چاہتی ہے دوسری طرف ذاتی رنجش کے واقعات. اس فرق کو وسیع کیا جائے تو یہودی، عیسائی اور بدھ ریاستوں کی مثالیں بھی مل جاتی ہیں

 
Last edited:

tahirmajid

Chief Minister (5k+ posts)
Toheen-e-Risalat kisi bhi mulk ka andaroni muamla nahi hota, ye sub muslims ka muamla hota hay chahey wo dunya mein kisi bhi jagha hoon, lagta hay is Bengali ko deen ka ziada ilm nahi, sirf siyasi dukandaari kar raha hay
 

!n5aNiTy

Minister (2k+ posts)
Lanat ke siva kia bol saktee heen. Jo iss dunia ke khatir muzamat tak nahee ker sekta.. uss admi per afsoos hee kia ja sekta he.