حافظ نعیم الرّحمٰن ریلی سے خطاب کرتے ہوئے
تو اس وقت 5 اگست (2019) کو ہمارے حکمران جاگے تھے، اور وہ بھی اس لیے جاگے تھے کہ آپ سڑکوں پر رہتے ہیں۔ آپ جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر آپ یہ تحریک نہ چلائیں تو یہ حکمران کشمیر کا سودا کر دیں۔ بیچ دیں اس کو۔ لیکن عمران خان تم بھی سن لو۔ نواز شریف تم بھی سن لو۔ زرداری تم بھی سن لو۔ باجوہ صاحب آپ بھی سن لیجیے۔ کشمیریوں کی یہ تحریک کسی فوج کی تحریک نہیں ہے۔ کسی وزیراعظم کی تحریک نہیں ہے۔ یہ آزادی کی تحریک مسلمانان برصغیر کی تحریک ہے۔ امت کی تحریک ہے۔ پاکستان کا یہ تکمیل کا ایجنڈا ہے۔ یہ ہماری شہہ رگ کی تحریک ہے۔ آپ کو سودا نہیں کرنے دیں گے۔ نہیں کرنے دیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔
اس کے بعد باجوہ اور نیازی کے نقشے پر بات کرتے ہوئے
ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آپ نے اس پرانے نقشے کو بحال کیا ہے جو پہلے ہم کتابوں میں پڑھا کرتے تھے۔ درمیان میں غدّار مشرف نے ایسا کام کیا تھا کہ یہاں باڑ لگوائی تھی، اور اپنے نقشے میں اس کو ڈسپیوٹڈ ٹیریٹری قرار دے دیا تھا۔ اگر آپ نے اس پرانے نقشے کو بحال کیا ہے، یہ کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ اب اس نقشے کی تکمیل کے لیے آگے بڑھنا ہوگا۔ تاریخ کا یہ سبق ہے، ہم جانتے ہیں کہ کشمیر جس پر بھارتی فوج کا غاصبانہ قبضہ ہے، آج سے بہتّر تہتّر سال پہلے بھی بزور شمشمیر ہی آزاد ہوا تھا۔ جدوجہد کے ذریعے آزاد ہوا تھا۔ جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے آزاد ہوا تھا۔ پھر غداری کی گئی تھی اور ان مجاہدین کا راستہ روک دیا گیا تھا اور جب سے لے کر اب تک یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں سڑ رہا ہے، یہ مسئلہ عالمی برادری کی نذر ہو رہا ہے، اور یہ مسئلہ پاکستان کے حکمرانوں کی بزدلی کی نذر ہو رہا ہے۔ ہم یہ بتا دینا چاہتے ہیں ڈپلومیسی کے محاذ پر بھی آپ کام نہیں کررہے۔ آپ پرانی کشمیر کمیٹی کو برا کہتے تھے، لوگ تالیاں پیٹتے تھے۔ ہمیں بتائیے 2 سال میں آپ کی کشمیر کمیٹی کہاں ہے؟ کون ہے اس کا چیئرمین؟ کون اس کے ممبران ہیں؟ کہاں پر یہ جاتے ہیں؟ کس سے یہ بات کرتے ہیں؟ ڈپلومیسی کے محاذ پر آپ شکست کھا چکے ہیں۔ آپ کے اندر جرات بھی نہیں ہے، ہمت بھی نہیں ہے۔ آپ ہمیشہ کہتے ہیں کہ ہم مثبت رویہ اختیار کریں۔ ابھی نندن کو حوالے کر دیں۔ کلبھوشن سے ملاقاتوں کا انتظام کر دیں۔ اور ہم کوئی بدلہ نہ لیں۔ لیکن میرے بھائیو، اسے حکمت نہیں کہتے۔ بزدلی کا نام حکمت نہیں ہوتا۔
نریندرا مودی کے دینی بھائی، قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے
میرے بھائیو، ہم اپنی فوج کے سالار سے کہتے ہیں۔ جب کور کمانڈرز نے 5 اگست (2019) کو اجلاس کیا تھا، پچھلے سال، اور یہ کہا تھا کہ ہم آخری حد تک جائیں گے۔ پوری قوم نے یہ سمجھا تھا کہ ہماری فوج لڑنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن میرے بھائیو، ایک سال گزرنے کے بعد بھی ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی ہے۔ آپ سے ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم بجٹ، اپنے خون پیسنے کی کمائی کو قربان کر کے جو ٹیکس دیتے ہیں، وہ بڑے پیمانے پر دفاعی بجٹ میں خرچ ہوتا ہے۔ آپ ہم سے یہ کہتے ہیں کہ کشمیر کی آزادی کی تحریک کے لیے فوج کو یہ بجٹ دینا جائز ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہاں ٹھیک ہے، کشمیر بڑا مسئلہ ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا دشمن بھارت ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے، تو بجٹ ملنا چاہیے۔ یقیناً ملنا چاہیے۔ لیکن جب آپ لڑیں گے نہیں، جب آپ جہاد نہیں کریں گے، جب آپ کا اپنا موٹو ایمان، تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ، اس سے آپ صرف نظر کریں گے، بلکہ ایسی کارروائیاں ہونے لگیں گی، جس پہ لوگ جہاد کا نام لینا چھوڑ دیں، اور جہاد کو دہشت گردی سے ملایا جانے لگے گا، تو پھر ہم بھی یہ سوال کریں گے کہ دفاعی بجٹ کہاں جارہا ہے۔ اس دفاعی بجٹ کا کیا مصرف ہے؟ اتنی فوج کا کیا مصرف ہے؟ اس لیے اپنی افواج پاکستان کے جذبہ جہاد، اور شوق شہادت اور ان سارے سپاہیوں کے جو بارڈروں پہ کھڑے ہوئے ہیں، جو سیاچن کے برف پوش پہاڑوں پر کھڑے ہوتے ہیں، جو بار بار بھارت کی بزدلانہ کارروائیوں کا نشانہ بنتے ہیں، ان سب کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ لیکن میں جرنیلوں سے بھی کہتا ہوں کہ آپ کے جذبات سپاہیوں کے جذبات کے ساتھ ملنے چاہیئیں۔ افسروں کے جذبات کے ساتھ ملنے چاہیئیں۔ قوم کے جذبات کے ساتھ ملنے چاہیئیں۔ ہم سے کہا جاتا ہے معروضی حالات تقاضہ نہیں کرتے، اب جنگیں نہیں ہوا کرتیں۔ افغانستان میں کیا ہوا ہے؟ افغانستان میں تو 40 ملکوں کی فوج نے وہاں افغانستان کو تلپٹ کر دیا تھا۔ جہاد کامیاب ہوا ہے۔ امریکہ کو جہاد نے شکست دی ہے۔ ایمان نے شکست دی ہے۔ ایمان اور تقویٰ نے اور جہاد فی سبیل اللہ نے امریکہ کی طاقت کا غرور سڑک پر رگڑ دیا ہے۔ خاک میں ملا دیا ہے۔