جمہوریت : تازہ خدا اور اس کے پجاری
جمہوریت : تازہ خدا اور اس کے پجاری
ایک اللہ کو چھوڑ کر انسانوں نے شیطان کے تحالف سے اس کرہ ارض پر جتنے ”خدا“ تراشے ہیں ، ان تازہ خداوُں کی ٹاپ لسٹ میں ایک ”جمہوریت“ ہے۔ اس بت کی دلفریبی اتنی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے کہ اس نے بڑے بڑے موحدوں کا بھی دل موہ لیا ہے۔ جمہوریت کے مندر میں جانے والوں کی فہرست اگر آپ دیکھیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ دنیا کی سب سے” پرانی جمہوریت“ اس بت کو ساری دنیا اور خصوصاً مسلم دنیا میں نصب کرنے کے لئے اتنی بیتاب ہے کہ وہ مسلسل فضائی بمباری ، بحری اور بری حملوں سے ملکوں اور شہروں کو برباداوراسکے مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کر رہی ہے۔ اس ”جمہوریت“ کے ”تہذیب یافتہ قائدین “برملا کہتے ہیں کہ ”جمہوریت“ کے لئے ان قوموں کو یہ قربانی دینی ہی ہوگی۔ جمہوریت کے لئے ناپسندیدہ قوموں اور قومیتوں کی نسل کشی اس کی ”مہذب پالیسی“ کا حصہ ہے۔جنوبی ایشیا میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے یہاں کی اقلیتوں کو جسمانی، معاشی، تہذیبی اور مذہبی ہر لحاظ سے نیست ونابود کر دینا چاہتی ہے اور اس جمہوریت کا ڈنکا بھی دنیا بھر میں خوب بج رہا ہے۔اسی طرح مشرق وسطیٰ کی’’واحد جمہوریت ‘‘ کایہ حق تسلیم کر لیا گیا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے وطن پر قبضہ کے لئے ان کو جلا وطن کر سکتی ہے۔
جمہوریت کا ایک جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔جنگ اول و دوئم اور اس کے بعد ہزاروں چھوٹی بڑی جنگیں انھیں”قومی جمہوریتوں“ کے خاطر لڑی گئی ہیں ،تاہم کروڑہا انسانوں کی کھوپڑیوں اور خون کی بلی سے بھی جمہوری ماتا کی سیرابی نہیں ہو پاتی۔شاید اس کا وجود خون اور مسلسل خون کا ہی محتاج ہے۔ دور جدید کے بڑے اور چھوٹے تمام فراعنہ؛ ہٹلر، مسولینی،ناصر، بھٹو، مجیب الرحمٰن، الطاف حسین، نریندر مودی، سب اسی جمہوری ماں کے بطن سے نکلے ہیں۔
جمہوریت کے موجدین انسانوں کو انفرادی اور ملوکی تاناشاہی سے نکال کر حکمرانی ان کے اپنے ہاتھ میں دینا چاہتے تھے۔ اور اس طرح عوام کے لئے ، عوام کے ذریعہ ، عوام کی حکومت کا تصور آیا، لیکن جس طرح الہامی رہ نمائی کے بغیر انسانوں کے اپنے زماں و مکاں میں محددود عقل سے بنے تمام نظام ناکام ہو چکے ہیں، یہ نظام بھی نہ صرف بری طرح ناکام رہا ہے بلکہ اس نے افراد اور قوموں پر جو ظلم روا رکھا ہے اس نے ملوکی اور شخصی حکمرانوں کے ظلم کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 500 سال قبل مسیح کے یونان کے ایتھینی جمہوریت،1215 ءکے انگلینڈ کے میگنا کارٹا جمہوریت، سے لے کر 1947ءکے بھارت کی نہرویائی جمہوریت میں ایک چیز یکساں ہے اور وہ یہ کہ قوم کے اکثریتی فرقہ کے اقلیتی گروہ کا منظم ہو کر ، کبھی انچاس فیصد تو کبھی ووٹوں کی تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں ساٹھ ستر، اسّی فیصد سے بھی زیادہ شکست خوردہ ’’اقلیت‘‘ پر منظم جمہوری ظلم کا سلسلہ دراز ہو جانا۔ یہ اکثریتی فرقہ کی ایک معمولی اقلیت کا استبداد ہے۔ (Tyranny of the minority of the majority)
ملوکی ادوار اور شاہی حکومتوں میں تو بغاوت اور خروج کے ذریعہ سے حکومتوں اور حکمرانوں کی تبدیلی ممکن تھی۔لیکن جمہوریت میں ایک ہی گروہ چہرے بدل بدل کر آتا رہتا ہے اور مظلوم عوام میں سے گرکوئی آہ بھی کرتاہے تو ہو جاتا ہے بدنام۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے جمہوری حکومت کی تعریف اپنے قلم سے یوں کی ہے کہ ” دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اکثریت ، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتی ہے“ ( میری کہانی، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی)۔
یہ جمہوریت مسلمانوں کی فطرت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات سے براہ راست ٹکراتی ہیں۔ اس لئے مسلمان فطرتاً اور عملاً کبھی ’جمہوری“ ہو ہی نہیں سکتا۔(” ووٹ“ اور ”جمہوریت “ کے شمالی امریکا میں ہماری کمیونٹی کے جارح مبلغین نوٹ کرلیں) جمہوریت کا یہ اصول کہ دو افراد خواہ وہ انبیاءموسیٰؑ و ہارون ہی کیوں نہ ہوں باطل پر ہیں اگر ان کے مقابلہ میں فرعون اور سامری کی امت کے چھ افراد مخالفانہ رائے دے دیں، مسلمان کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ ”ناپاک اور پاک برابر نہیں اگرچہ ناپاک کی کثرت تجھ کو فریفتہ کرنے والی ہو (المائدہ 100)۔
اقبال کہتے ہیں
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
مغربی ا قوام نے نو آبادیاتی دور میں محکوم رعایا پر جو تعلیی نظام بزور طاقت اور لالچ رائج کیا ان اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں انھیں سیکولرزم، قوم پرستی اور لبرل جمہوریت کے تین ٹیکے(shots) مسلسل لگائے گئے اورا س کا سلسلہ آج کے نام نہاد ”آزاد ممالک“ میں بھی جاری ہے۔ کوئی بھی قوم، ملت، کمیونٹی کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا تعلیمی اور اقتصادی نظام اس کا اپنا اور اسکے اپنے ”قومی ٹائپ“ (عقائد، نظریات، تہذیب و تمدن، الہامی تعلیمات) کے موافق نہ ہو جائے۔
ماضی میں ملوک اور قیصر کی حکومتوں کا دائرہ بہت محدود تھا ۔ انسانی زندگی کا ایک شعبہ ہی اس کی گرفت میں آتا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک چھوٹی حکومت (small government) ہوا کرتی تھی۔ معیشت، تجارت، درآمدات، برآمدات، جائداد، امیگریشن، تعلیم، اور دیگر بہت سے شعبہ اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہی نہیں تھے۔لیکن جمہوریت کے ارتقاءکے ساتھ ساتھ فرد، سماج، اور ریاست کو بحیثیت ایک زندہ نظام جسمانی(Organic theory of state and society) کا تخیل سامنے آیا اس نے ترقی کرتے کرتے فرد کی خوابگاہ کو بھی ریاستی قوانین کے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ حکومت کے دائرے کی وسعت اور لامحدودیت نے بنیادی حقوق کو بے معنی بنا دیا ہے۔ خصوصی مفاد رکھنے والی ایک انتہائی قلیل اقلیت، میگا تجارتی کارپوریشن، بینکوں اور کریڈٹ کمپنیوں کے مالکان ساہو کاروں نے پوری دنیا کے انسانوں کو عملاً غلام بنا لیا ہے، جتنی اور جس طرح کی ”آزادی“ ان کو مطلوب اور ان کے مفاد کے مطابق ہے اتنی ہی آزادی ہمیں حاصل ہے۔ اب ایک فرد کے پاس اس بات کا بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی اور مدت تک اپنے معاش کے لئے کسی بھی جگہ پر کام کر سکے یا جہاں چاہے اپنی شادی کر سکے اورزوج کو اپنے ساتھ ریاست کی حدود میں لا سکے۔ تاریخ میں انسان اتنا مجبور اور بے بس کبھی بھی نہ تھا۔
مسلمان ایک موحد قوم ہے، ایک خدا کے علاوہ وہ کسی کی غلامی قبول کر سکتی ہے نہ برداشت۔ اس کی تعلیمات اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے۔مزید برآں اس کے رب اور مالک وحدہ لا شریک لہ نے اسے زندگی گزارے کا ایک مکمل نظام (الدین) دیا ہے اور اسے اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ وہ اسے خدا کی زمین اور ملک میں جہاں اور جدھر بھی ہو اور جس زمانے اور حالات میں بھی ہو انسانی آبادی میں اس دین کو قائم اور نافذ کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ اور اس کی اخروی کامیابی اور ناکامی کا سارا دارو مدار ہی اسی جدوجہد پر ہے۔ ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجاوُ (البقرہ 208 )۔ وہ عملاً ”اقامت دین“ کا مکلف نہیں (اور جو منہ موڑ گیا تو بہر حال ہم نے تمہیں ان لوگوں کا پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے، النساء80) بلکہ اس کی کوشش کا، اور اس کے لئے شدید خواہش رکھنے کا وہ ضرور مکلف ہے۔مسلمانوں نے اپنی بندگی (بشمول معاملات سیاست و ریاست) کو اپنے رب کے لئے خالص بنا لیا ہے۔ اور اقتدار اور حکومت کے حوالہ سے ان کا پختہ ایمان یہ ہوتا ہے کہ”اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے“ (البقرہ 247) اور یہ کہ ” بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے“ (البقرہ 249)۔موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ”اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لئے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں (الاعراف 128)۔اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے (الانبیاء105)
جو” مسلم“ اور” اسلامی کارکنان“ آج ووٹ اور جمہوریت اور لبرلزم کے داعی اور مبلغین بنے ہوئے ہیں اور غلامانہ اور باغیانہ اقتدار میں اپنے حصے کے لئے جلدی مچا رہے ہیں، اور ان میں سے بعض کو اس کی حقیقت کا اور اس حوالہ سے اللہ کے احکام کا بھی بخوبی علم بھی ہے، ان سے اللہ خود مخاطب ہے ” حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔“ (البقرہ 174)
اور یہ” اقامت دین“ اکثریت (جمہوریت اور ہجوم) کی خواہش اور مرضی پر منحصر نہیں ہے۔یہاں اسلام اور جمہوریت کا راستہ متضاد، مخالف، اور متحارب ہے۔ یہ د و الگ شاہراہیں ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتیں۔ ”پس اے نبیﷺ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو،ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے، پھراگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں (المائدہ49)۔
جمہوریت کی ”خصوصیت“ یہ ہے کہ وہ انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے۔
’’اور اے نبیﷺ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ، وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔(الانعام 116)(جمہوریت کی نفی)۔ جمہوریت انسانی خواہشات کی مرضی اور پیروی کا دوسرا نام ہے اور اللہ نے اس جمہوریت کے خلاف واضح چتاونی دے دی ہے” اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے۔اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہاراحامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے (الرعد38)۔ایک مومن کا اقامت دین اور الٰہی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ ” میرا حامی اور ناصر وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے(الاعراف 197) ۔ اور یہ کہ ”اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ (الانفال 49)۔ ”زمین اور آسمانوں کے سارے لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم وحکیم ہے (الفتح 4)۔
ایک مسلم اقامت دین اور نظام حکومت و سلطنت کی تبدیلی کے لئے جمہوری خواہشات کا نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کا محتاج ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ کا مددگاربنتا ہے۔”وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں (اکثریت) کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (التوبہ 33 ، الحجرات 28، الصف 9) ۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: ”کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار“؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا:” ہم ہیں اللہ کے مددگار“۔اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے(الجمعہ 14 )
مسلم یکسو ہو کر اسی سیدھی اور صاف شاہراہ پر ثابت قدمی سے چلتا رہتا ہے۔’’وہ رب ہی ہے آسمانوں کا ، زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پس تم اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (مریم 65) ۔اور ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ”نہ ڈرو نہ غم کرو، اور خوش ہو جاو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ( حم السجدہ 31)۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔(مسلم، کتاب الامارت ، حدیث نمبر 50)
ایسی کسی قانون ساز مجلس، اسمبلی اور پارلیمنٹ میں شامل ہونا، اس کے لئے سیاسی صف بندی کرنا، اس کی رکنیت کے لئے جدو جہد کرنا، اس کے لئے ووٹ حاصل کرنا اور ایسے کسی ادارے کی اپنے قول و فعل سے حمایت کرنا جہاں ان امور میں انسانی خواہشات کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں جس کے لئے اللہ نے واضح ہدایات اور قوانین دے دئے ہوں، قرآنی ا حکام کی صریح خلاف ورزی اور اللہ سے بغاوت اور سرکشی ہے۔
(جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں“۔ (المائدہ 44"
(جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔“ (المائدہ 45"
”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔“( المائدہ 47)۔
قرآن کے انہی اصولوں کے سامنے رکھ کرسید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ہندوستان میں آزادی ہند سے قبل اسمبلی میں شمولیت اور ووٹ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا :
’’اسمبلی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ موجودہ زمانہ میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں (جن کی ایک شاخ ہندوستان کی موجودہ اسمبلیاں بھی ہیں) وہ اس مفروضے پر بنی ہیں کہ باشندگان ملک اپنے معاملات کے متعلق جو تمدن، سیاست، معیشت، اخلاق اور معاشرت کے اصول وضع کرنے اور ان کے مطابق تفصیلی قوانین و ضوابط بنانے کا حق رکھتے ہیں اور اس قانون سازی کے لئے رائے عام سے بالا تر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظریہ اسلام کے نظریہ سے با لکل برعکس ہے۔اسلام میں توحید کے عقیدے کا لازمی جز یہ ہے کہ لوگوں کا اور تمام دنیا کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے، ہدایت اور حکم دینا اس کا کام ہے اور لوگوں کا کام یہ ہے کہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم سے اپنے لئے قانون زندگی اخذ کریں، نیز اگر اپنی آزادی رائے استعمال کریں بھی تو ان حدود کے اندر کریں جن حدود میں خود اللہ تعالیٰ نے ان کوآزادی دی ہے۔ اس نظرئیے کی رو سے قانون کا ماخذ اور تمام معاملات زندگی میں مرجع اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار پاتی ہے، اور اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظرئیے کو قبول کرنا گویا عقیدہ توحید سے منحرف ہو جانا ہے۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانہ کے جمہوری اصول پر بنی ہیں ان کی رکنیت حرام ہے، کیونکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی رائے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانوں سازی کرنا ہے جو عقیدہ تو حید کے سراسر منافی ہے۔ (اس مسئلہ کو جو لوگ تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب”اسلامی ریا ست“ ملاحظہ فرمائیں۔اضافہ جدید، 1972، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
امریکا اور کینیڈا ہی نہیں بلکہ تمام تر دنیا میں اقامت دین کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور یہ وہی راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام تر انبیاءکا راستہ قرار دے کر ہم کو اس پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ابتدادعوت دین اور دعوت اقامت دین کے پرامن لیکن سخت اور صبر آزما مراحل سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد تربیت افراد اور قیادت اور امامت صالحہ ( ہر شعبہ زندگی بشمول سیاست) کی تیاری ہے۔ سیکولر، لبرل، قوم پرستانہ جمہوریتوں میں لے جاکر دین اسلام کے قیام کو اکثریتی مرضی کے تابع بنانا اسلام اور مسلمان دونوں سے دشمنی ہے۔
سید جاوید انور
جمہوریت کا ایک جادو ہے جو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔جنگ اول و دوئم اور اس کے بعد ہزاروں چھوٹی بڑی جنگیں انھیں”قومی جمہوریتوں“ کے خاطر لڑی گئی ہیں ،تاہم کروڑہا انسانوں کی کھوپڑیوں اور خون کی بلی سے بھی جمہوری ماتا کی سیرابی نہیں ہو پاتی۔شاید اس کا وجود خون اور مسلسل خون کا ہی محتاج ہے۔ دور جدید کے بڑے اور چھوٹے تمام فراعنہ؛ ہٹلر، مسولینی،ناصر، بھٹو، مجیب الرحمٰن، الطاف حسین، نریندر مودی، سب اسی جمہوری ماں کے بطن سے نکلے ہیں۔
جمہوریت کے موجدین انسانوں کو انفرادی اور ملوکی تاناشاہی سے نکال کر حکمرانی ان کے اپنے ہاتھ میں دینا چاہتے تھے۔ اور اس طرح عوام کے لئے ، عوام کے ذریعہ ، عوام کی حکومت کا تصور آیا، لیکن جس طرح الہامی رہ نمائی کے بغیر انسانوں کے اپنے زماں و مکاں میں محددود عقل سے بنے تمام نظام ناکام ہو چکے ہیں، یہ نظام بھی نہ صرف بری طرح ناکام رہا ہے بلکہ اس نے افراد اور قوموں پر جو ظلم روا رکھا ہے اس نے ملوکی اور شخصی حکمرانوں کے ظلم کو بھی بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ 500 سال قبل مسیح کے یونان کے ایتھینی جمہوریت،1215 ءکے انگلینڈ کے میگنا کارٹا جمہوریت، سے لے کر 1947ءکے بھارت کی نہرویائی جمہوریت میں ایک چیز یکساں ہے اور وہ یہ کہ قوم کے اکثریتی فرقہ کے اقلیتی گروہ کا منظم ہو کر ، کبھی انچاس فیصد تو کبھی ووٹوں کی تقسیم در تقسیم کے نتیجے میں ساٹھ ستر، اسّی فیصد سے بھی زیادہ شکست خوردہ ’’اقلیت‘‘ پر منظم جمہوری ظلم کا سلسلہ دراز ہو جانا۔ یہ اکثریتی فرقہ کی ایک معمولی اقلیت کا استبداد ہے۔ (Tyranny of the minority of the majority)
ملوکی ادوار اور شاہی حکومتوں میں تو بغاوت اور خروج کے ذریعہ سے حکومتوں اور حکمرانوں کی تبدیلی ممکن تھی۔لیکن جمہوریت میں ایک ہی گروہ چہرے بدل بدل کر آتا رہتا ہے اور مظلوم عوام میں سے گرکوئی آہ بھی کرتاہے تو ہو جاتا ہے بدنام۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے جمہوری حکومت کی تعریف اپنے قلم سے یوں کی ہے کہ ” دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں کہ اکثریت ، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتی ہے“ ( میری کہانی، مطبوعہ مکتبہ جامعہ دہلی)۔
یہ جمہوریت مسلمانوں کی فطرت، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات سے براہ راست ٹکراتی ہیں۔ اس لئے مسلمان فطرتاً اور عملاً کبھی ’جمہوری“ ہو ہی نہیں سکتا۔(” ووٹ“ اور ”جمہوریت “ کے شمالی امریکا میں ہماری کمیونٹی کے جارح مبلغین نوٹ کرلیں) جمہوریت کا یہ اصول کہ دو افراد خواہ وہ انبیاءموسیٰؑ و ہارون ہی کیوں نہ ہوں باطل پر ہیں اگر ان کے مقابلہ میں فرعون اور سامری کی امت کے چھ افراد مخالفانہ رائے دے دیں، مسلمان کبھی تسلیم نہیں کر سکتا۔ ”ناپاک اور پاک برابر نہیں اگرچہ ناپاک کی کثرت تجھ کو فریفتہ کرنے والی ہو (المائدہ 100)۔
اقبال کہتے ہیں
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
مغربی ا قوام نے نو آبادیاتی دور میں محکوم رعایا پر جو تعلیی نظام بزور طاقت اور لالچ رائج کیا ان اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں میں انھیں سیکولرزم، قوم پرستی اور لبرل جمہوریت کے تین ٹیکے(shots) مسلسل لگائے گئے اورا س کا سلسلہ آج کے نام نہاد ”آزاد ممالک“ میں بھی جاری ہے۔ کوئی بھی قوم، ملت، کمیونٹی کبھی بھی آزاد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس کا تعلیمی اور اقتصادی نظام اس کا اپنا اور اسکے اپنے ”قومی ٹائپ“ (عقائد، نظریات، تہذیب و تمدن، الہامی تعلیمات) کے موافق نہ ہو جائے۔
ماضی میں ملوک اور قیصر کی حکومتوں کا دائرہ بہت محدود تھا ۔ انسانی زندگی کا ایک شعبہ ہی اس کی گرفت میں آتا تھا۔ وہ ہر لحاظ سے ایک چھوٹی حکومت (small government) ہوا کرتی تھی۔ معیشت، تجارت، درآمدات، برآمدات، جائداد، امیگریشن، تعلیم، اور دیگر بہت سے شعبہ اس کے دائرہ اختیار میں آتے ہی نہیں تھے۔لیکن جمہوریت کے ارتقاءکے ساتھ ساتھ فرد، سماج، اور ریاست کو بحیثیت ایک زندہ نظام جسمانی(Organic theory of state and society) کا تخیل سامنے آیا اس نے ترقی کرتے کرتے فرد کی خوابگاہ کو بھی ریاستی قوانین کے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ حکومت کے دائرے کی وسعت اور لامحدودیت نے بنیادی حقوق کو بے معنی بنا دیا ہے۔ خصوصی مفاد رکھنے والی ایک انتہائی قلیل اقلیت، میگا تجارتی کارپوریشن، بینکوں اور کریڈٹ کمپنیوں کے مالکان ساہو کاروں نے پوری دنیا کے انسانوں کو عملاً غلام بنا لیا ہے، جتنی اور جس طرح کی ”آزادی“ ان کو مطلوب اور ان کے مفاد کے مطابق ہے اتنی ہی آزادی ہمیں حاصل ہے۔ اب ایک فرد کے پاس اس بات کا بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی اور مدت تک اپنے معاش کے لئے کسی بھی جگہ پر کام کر سکے یا جہاں چاہے اپنی شادی کر سکے اورزوج کو اپنے ساتھ ریاست کی حدود میں لا سکے۔ تاریخ میں انسان اتنا مجبور اور بے بس کبھی بھی نہ تھا۔
مسلمان ایک موحد قوم ہے، ایک خدا کے علاوہ وہ کسی کی غلامی قبول کر سکتی ہے نہ برداشت۔ اس کی تعلیمات اور فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی اور اپنے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کی غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے۔مزید برآں اس کے رب اور مالک وحدہ لا شریک لہ نے اسے زندگی گزارے کا ایک مکمل نظام (الدین) دیا ہے اور اسے اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ وہ اسے خدا کی زمین اور ملک میں جہاں اور جدھر بھی ہو اور جس زمانے اور حالات میں بھی ہو انسانی آبادی میں اس دین کو قائم اور نافذ کرنے کی جدوجہد میں لگا رہے۔ اور اس کی اخروی کامیابی اور ناکامی کا سارا دارو مدار ہی اسی جدوجہد پر ہے۔ ’’اے ایمان لانے والو، تم پورے کے پورے اسلام میں آجاوُ (البقرہ 208 )۔ وہ عملاً ”اقامت دین“ کا مکلف نہیں (اور جو منہ موڑ گیا تو بہر حال ہم نے تمہیں ان لوگوں کا پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا ہے، النساء80) بلکہ اس کی کوشش کا، اور اس کے لئے شدید خواہش رکھنے کا وہ ضرور مکلف ہے۔مسلمانوں نے اپنی بندگی (بشمول معاملات سیاست و ریاست) کو اپنے رب کے لئے خالص بنا لیا ہے۔ اور اقتدار اور حکومت کے حوالہ سے ان کا پختہ ایمان یہ ہوتا ہے کہ”اور اللہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے ، اللہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے“ (البقرہ 247) اور یہ کہ ” بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے ۔اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے“ (البقرہ 249)۔موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا ”اللہ سے مدد مانگو اور صبر کرو، زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا وارث بنا دیتا ہے، اور آخری کامیابی انھی کے لئے ہے جو اس سے ڈرتے ہوئے کام کریں (الاعراف 128)۔اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے (الانبیاء105)
جو” مسلم“ اور” اسلامی کارکنان“ آج ووٹ اور جمہوریت اور لبرلزم کے داعی اور مبلغین بنے ہوئے ہیں اور غلامانہ اور باغیانہ اقتدار میں اپنے حصے کے لئے جلدی مچا رہے ہیں، اور ان میں سے بعض کو اس کی حقیقت کا اور اس حوالہ سے اللہ کے احکام کا بھی بخوبی علم بھی ہے، ان سے اللہ خود مخاطب ہے ” حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کیے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انھیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔“ (البقرہ 174)
اور یہ” اقامت دین“ اکثریت (جمہوریت اور ہجوم) کی خواہش اور مرضی پر منحصر نہیں ہے۔یہاں اسلام اور جمہوریت کا راستہ متضاد، مخالف، اور متحارب ہے۔ یہ د و الگ شاہراہیں ہیں جو کبھی آپس میں نہیں ملتیں۔ ”پس اے نبیﷺ تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو،ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے، پھراگر یہ اس سے منہ موڑیں تو جان لو کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے پاداش میں ان کو مبتلائے مصیبت کرنے کا ارادہ کر لیا ہے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں میں سے اکثر فاسق ہیں (المائدہ49)۔
جمہوریت کی ”خصوصیت“ یہ ہے کہ وہ انسان کو راہ راست سے ہٹا دیتی ہے۔
’’اور اے نبیﷺ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں گے ، وہ تو محض گمان پر چلتے اور قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔(الانعام 116)(جمہوریت کی نفی)۔ جمہوریت انسانی خواہشات کی مرضی اور پیروی کا دوسرا نام ہے اور اللہ نے اس جمہوریت کے خلاف واضح چتاونی دے دی ہے” اسی ہدایت کے ساتھ ہم نے یہ فرمان عربی تم پر نازل کیا ہے۔اب اگر تم نے اس علم کے باوجود جو تمہارے پاس آچکا ہے لوگوں کی خواہشات کی پیروی کی تواللہ کے مقابلے میں نہ کوئی تمہاراحامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اس کی پکڑ سے تم کو بچا سکتا ہے (الرعد38)۔ایک مومن کا اقامت دین اور الٰہی حکومت کے قیام کی جدوجہد میں اس بات پر پختہ یقین ہوتا ہے کہ ” میرا حامی اور ناصر وہ اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے(الاعراف 197) ۔ اور یہ کہ ”اگر کوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو یقیناً اللہ بڑا زبردست اور دانا ہے۔ (الانفال 49)۔ ”زمین اور آسمانوں کے سارے لشکر اللہ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ علیم وحکیم ہے (الفتح 4)۔
ایک مسلم اقامت دین اور نظام حکومت و سلطنت کی تبدیلی کے لئے جمہوری خواہشات کا نہیں بلکہ اللہ کی مرضی کا محتاج ہوتا ہے اور وہ صرف اللہ کا مددگاربنتا ہے۔”وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں (اکثریت) کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (التوبہ 33 ، الحجرات 28، الصف 9) ۔”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں کو خطاب کرکے کہا تھا: ”کون ہے اللہ کی طرف (بلانے) میں میرا مددگار“؟ اور حواریوں نے جواب دیا تھا:” ہم ہیں اللہ کے مددگار“۔اس وقت بنی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرے گروہ نے انکار کیا۔پھر ہم نے ایمان لانے والوں کی ان کے دشمنوں کے مقابلے میں تائید کی اور وہی غالب ہو کر رہے(الجمعہ 14 )
مسلم یکسو ہو کر اسی سیدھی اور صاف شاہراہ پر ثابت قدمی سے چلتا رہتا ہے۔’’وہ رب ہی ہے آسمانوں کا ، زمین کا اور ان ساری چیزوں کا جو آسمان و زمین کے درمیان ہیں، پس تم اس کی بندگی پر ثابت قدم رہو۔کیا ہے کوئی ہستی تمہارے علم میں اس کی ہم پایہ؟ (مریم 65) ۔اور ’’جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقیناً ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ”نہ ڈرو نہ غم کرو، اور خوش ہو جاو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے ( حم السجدہ 31)۔حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آ جائے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔(مسلم، کتاب الامارت ، حدیث نمبر 50)
ایسی کسی قانون ساز مجلس، اسمبلی اور پارلیمنٹ میں شامل ہونا، اس کے لئے سیاسی صف بندی کرنا، اس کی رکنیت کے لئے جدو جہد کرنا، اس کے لئے ووٹ حاصل کرنا اور ایسے کسی ادارے کی اپنے قول و فعل سے حمایت کرنا جہاں ان امور میں انسانی خواہشات کے مطابق فیصلے ہوتے ہوں جس کے لئے اللہ نے واضح ہدایات اور قوانین دے دئے ہوں، قرآنی ا حکام کی صریح خلاف ورزی اور اللہ سے بغاوت اور سرکشی ہے۔
(جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں“۔ (المائدہ 44"
(جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔“ (المائدہ 45"
”جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی فاسق ہیں۔“( المائدہ 47)۔
قرآن کے انہی اصولوں کے سامنے رکھ کرسید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے ہندوستان میں آزادی ہند سے قبل اسمبلی میں شمولیت اور ووٹ کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا :
’’اسمبلی کے متعلق یہ سمجھ لیجیے کہ موجودہ زمانہ میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں (جن کی ایک شاخ ہندوستان کی موجودہ اسمبلیاں بھی ہیں) وہ اس مفروضے پر بنی ہیں کہ باشندگان ملک اپنے معاملات کے متعلق جو تمدن، سیاست، معیشت، اخلاق اور معاشرت کے اصول وضع کرنے اور ان کے مطابق تفصیلی قوانین و ضوابط بنانے کا حق رکھتے ہیں اور اس قانون سازی کے لئے رائے عام سے بالا تر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ نظریہ اسلام کے نظریہ سے با لکل برعکس ہے۔اسلام میں توحید کے عقیدے کا لازمی جز یہ ہے کہ لوگوں کا اور تمام دنیا کا مالک اور فرماں روا اللہ تعالیٰ ہے، ہدایت اور حکم دینا اس کا کام ہے اور لوگوں کا کام یہ ہے کہ اس کی ہدایت اور اس کے حکم سے اپنے لئے قانون زندگی اخذ کریں، نیز اگر اپنی آزادی رائے استعمال کریں بھی تو ان حدود کے اندر کریں جن حدود میں خود اللہ تعالیٰ نے ان کوآزادی دی ہے۔ اس نظرئیے کی رو سے قانون کا ماخذ اور تمام معاملات زندگی میں مرجع اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت قرار پاتی ہے، اور اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظرئیے کو قبول کرنا گویا عقیدہ توحید سے منحرف ہو جانا ہے۔اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانہ کے جمہوری اصول پر بنی ہیں ان کی رکنیت حرام ہے، کیونکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی رائے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانوں سازی کرنا ہے جو عقیدہ تو حید کے سراسر منافی ہے۔ (اس مسئلہ کو جو لوگ تفصیل کے ساتھ سمجھنا چاہتے ہیں وہ میری کتاب”اسلامی ریا ست“ ملاحظہ فرمائیں۔اضافہ جدید، 1972، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)
امریکا اور کینیڈا ہی نہیں بلکہ تمام تر دنیا میں اقامت دین کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ اور یہ وہی راستہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے تمام تر انبیاءکا راستہ قرار دے کر ہم کو اس پر چلنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ابتدادعوت دین اور دعوت اقامت دین کے پرامن لیکن سخت اور صبر آزما مراحل سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد تربیت افراد اور قیادت اور امامت صالحہ ( ہر شعبہ زندگی بشمول سیاست) کی تیاری ہے۔ سیکولر، لبرل، قوم پرستانہ جمہوریتوں میں لے جاکر دین اسلام کے قیام کو اکثریتی مرضی کے تابع بنانا اسلام اور مسلمان دونوں سے دشمنی ہے۔
سید جاوید انور
جمہوریت : تازہ خدا اور اس کے پجاری
www.raastanews.com