جنرل اختر عبدالرحمن شہید:لاہور محاذ پر دشمن کےدستوں پرپہلا فائرکرنےکااعزاز؟

gen-akhtar-pak-army-tbz.jpg


جنرل اختر عبدالرحمن شہید،
مشاہدات و تاثرات

بریگیڈئر (ر) سید اے آئی ترمذی

جنرل اختر عبدالرحمان شہید کو ایک مافوق الفطرت انسان کے طور پر پیش کرنا میرا مقصد نہیں، بلکہ میں ان کی بعض ایسی صفات اور خوبیوں کو بیان کرنا چاہتا ہوں جو ایک سپاہی اور منتظم کے طور پر میں نے ان میں دیکھیں، جن کے ذریعے وہ اپنے وطن کی خدمت اور تحفظ کے لیے اپنے باوری ساتھیوں کی بہتر طور پر راہنمائی کر سکتے تھے اور ان کے اندر عزم و اعتماد اور حوصلہ پیداکر سکتے تھے۔

انھیں خراج تحسین کرنے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انھوں نے 14 اگست 1947 سے لے کر تادم آخر پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کے لیے جو عظیم خدمات انجام دیں اور جس ثابت قدمی، دیانت داری، عزم و حوصلہ اور جذبہ ء ایثار و قربانی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیے، ان کا اعتراف اور ان پر اظہار تحسین کیا جائے۔

ایک رفیق کار اور ماتحت کے طور پر مجھے جنرل اختر عبدالرحمن شہید کے ساتھ تقریباً20 سال کام کرنے کا موقع ملا۔ پہلی مرتبہ ہم ستمبر 1965ء میں آرٹلری سنٹر نوشہرہ میں ملے، جہاں ہمیں ہنگامی بنیادوں پر ایک آرٹلری یونٹ کی تشکیل اور پھر فوری طور پر محاذ جنگ پر معرکہ آرائی میں شمولیت کا حکم ملا تھا۔جنرل اختر کو، جو ان دنوں لیفٹیننٹ کرنل تھے، ہمارے کمانڈنگ آفیسر تھے۔

جی ایچ کیو کے احکامات ملتے ہی وہ سب سے پہلے نوشہرہ پہنچے۔ 12 فٹ / 8 فٹ کے ایک کمرے میں ایک میز اور ایک کرسی بچھا کر انھوں نے اپنا دفتر قائم کر لیا تھا۔جوں جوں دوسری یونٹوں اور فارمیشنوں سے دوسرے ساتھی وہاں پہنچتے رہے، ایک لمحہ ضائع کیے بغیر انھیں ان کے فرائض سپرد کیے جاتے رہے۔

WhatsApp-Image-2020-08-17-at-8.03.21-PM.jpeg


نفری کو جمع کرنے، اسلحہ کے لیے سٹور فراہم کرنے، لڑائی کے لیے گروپ بنانے اور ان کی تربیت کے مختلف اور متنوع کام یکساں طور پر تیزی سے مکمل کیے جا رہے تھے۔ متعلقہ لوگوں کی مدد کرنے، ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنے اوران کی راہنمائی کے لیے وہ ہر وقت اور ہر جگہ موجود نظر آتے تھے۔ چنانچہ غیر معمولی تیزی کے ساتھ آرٹلری یونٹ معرکہ آرائی کے لیے تیار ہو گیا۔

راجستھان کے محاذ کی طرف روانگی کے لیے ہم حیدرآباد جانے والے ٹرین میں سوار ہوئے۔ ٹرین میں سوار ہونے سے قبل ہم نے خدا کے حضور سجدہ کیا۔ اختر عبدالرحمن نے دعا اور عبادت میں ہماری قیادت کی۔ روانگی سے قبل ہم نے جانوروں کی قربانی بھی کی۔ نوشہرہ سے حیدر آباد تک کا سفر ہمارے لیے صرف ایک سفر نہ تھا،

کیونکہ اس دوران بھی ہم تربیت میں مصروف رہے،جس کا انتظام اختر عبدالرحمن نے اس طرح کیا تھا کہ ٹرین کے مختلف کمپارٹمنٹوں سے اوپی آفیسر وائرلیسوں سے دوسرے کمپارٹمنٹ میں موجود کمانڈ پوسٹ کے لوگوں، جیسے وہ اس وقت کمانڈ پوسٹ پر موجود ہیں، آرڈر جاری کر رہے تھے۔

گنر اپنے کمپارٹمنٹ میں ان کے احکامات کے مطابق پریکٹس فائرنگ کے لیے ڈیٹا تیار کر رہے اور اسے آزما رہے تھے۔ کمانڈنگ آفیسر جگہ جگہ اتر کر ایک سے دوسرے کمپارٹمنٹ میں جا کر تربیت کے اس نظام کی نگرانی کر رہے تھے۔ اس طرح جب ہم حیدرآباد پہنچے تو کمانڈنگ آفیسر ذاتی طور پر یونٹ کے ہر سپاہی اور آفیسر سے واقف ہو چکے تھے، بلکہ ان کی احکامات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔

ہماری یونٹ ایک تربیت یافتہ اور مربوط عسکری یونٹ کی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔محاذ پر پہنچتے ہی ہماری توپوں نے دشمن پرآگ برسانا شروع کر دی۔

لاہور کے محاذ کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ لاہور کی طرف بڑھنے والے دشمن کے دستوں پر پہلا فائرکرنے کا اعزاز ان کی یونٹ کی حاصل ہوا تھا۔ ہم نے بھارت کی بڑھتی ہوئی فوج کا زور توڑ کر اپنی فوج کو محاذ پر اہم دفاعی پوزیشنوں پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا تھااور پھر ہمیں اطلاع ملی کہ حملہ آور فوج کی کمر ٹوٹ گئی ہے اور بھارتی جارحیت کا خاتمہ ہو گیا ہے۔جس انداز سے اختر عبدالرحمن نے اپنی یونٹ کو دشمن کے خلاف لڑایا، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ انھیں بھارتیوں سے کتنی نفرت ہے۔ وہ بھارتیوں پر فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے بے تاب رہتے تھے۔

وہ خود اگلے مورچوں میں ہر ممکن حد تک موجود رہتے تھے۔ دشمن پر تیزی اور کامیابی سے حملہ کرنے کی خواہش ہر آن انھیں مضطرب رکھتی تھی۔ ان کی شہرت ایک سخت گیر افسر مگر مشفق راہنما اور اپنے جوانوں سے ان کی صلاحیتوں سے بہترین کام لینے کے اہل افسر کے طور پرہو گئی تھی۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ 1947ء میں انھوں نے پاکستان آنے والے مہاجروں کی ٹرینوں پر فرائض انجام دیے تھے اور ایک مرتبہ ہندو فوجیوں نے انھیں قابو کر لیا،

ان کے ہاتھ پاوں باندھ دیے اور انھیں گولی مارنے والے تھے۔ اتفاق سے مسلمانوں کی ایک جماعت وہاں پہنچ گئی، جنہوں نے انھیں ہندووں کے قبضے سے آزاد کرایا۔اس دور میں مسلمان مہاجروں کو جن اذیتوں، مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑا،

WhatsApp-Image-2020-08-17-at-8.03.21-PM-2.jpeg


ان سے متعلق بہت سے واقعات انھوں نے دیکھے تھے، ہمارے سامنے بیان کیے۔ ایسے واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور آوا ز بھرا گئی۔اس کے باوجود وہ آہستہ آہستہ او رٹھیر ٹھیر کر یہ داستان سناتے چلے گئے۔ان کا انداز اتنا پُر اثر اور دل آویز تھا کہ ہمارے رفقا جو اس وقت کھانے میں مصروف تھے، ان کے چمچوں کی ٹین کے ڈبوں سے ٹکرانے کی آواز تھم گئی اور راجستھان کے صحرا میں دسمبر کی سرد رات میں ان کا خون کھولنے لگا۔

دوسری بار ہم آزادکشمیر میں یکجا ہوئے، جہاں وہ ایک انفنٹری بریگیڈ کی کمانڈ کر رہے تھے۔ میں وہیں متعین آرٹلری رجمنٹ کی کمانڈ کر رہا تھا۔ ہمیں گشت اور دوسرے مواقع پر آپس میں ملنے اور تبادلہ خیال کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ جب وہ بریگیڈ کمانڈر تھے، انھوں نے اپنے زیرکمان پورے علاقے کا پیدل دورہ کیا اور اس علاقے میں کوئی مورچہ، کوئی خندق ایسی نہ تھی، جہاں وہ نہ پہنچے ہوں اور کوئی ہتھیار ایسا نہ تھا

جس کا انھوں نے خود معائنہ نہ کیا ہو۔مجھے یاد ہے کہ ایک رات ہم اگلے علاقے میں ایک ایسی جگہ پر تھے، جہاں سے مقبوضہ کشمیر کا ایک بڑا قصبہ صاف نظر آتا تھا۔ وہ وہاں کھڑے کافی دیر تک قصبے کی طرف دیکھتے رہے۔

مکانوں کی روشنیاں جلتی بجھتی نظر آ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنے دانت بھینچتے ہوئے کہا، ”ایک دفعہ مجھے کارروائی حکم کا مل جائے، پھردیکھو میں کیا کرتا ہوں۔“ وہ کسی پنجرے میں بند شیر کی طرح اضطراب کے عالم میں ٹہل رہے تھے اور ان کے چہرے سے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے لیے دکھ اور کرب کا اظہار ہو رہا تھا۔

اختر عبدالرحمن جی ایچ کیو میں ایجوٹنٹ جنرل کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، جب جنرل محمد ریاض خان ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی اچانک عارضہ قلب سے فوت ہو گئے اور جنرل اختر عبدالرحمان آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر ہمارے ادارے میں آ گئے۔

ڈائریکٹوریٹ انٹیلی جنس ایک بہت بڑااور انتہائی حساس ادارہ ہے، جہاں ہر وقت اس ادارے کے کارکنوں کو انتہائی سنجیدہ مسائل سے درپیش رہتے ہیں، جن میں فوری طور پر فیصلہ کرنے اور عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں معمولی سی غلطی اور کوتاہی بھی بسا اوقات قومی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔جنرل اختر عبدالرحمان نے ایک ہفتے کے اندر اندر اس ادارے کے نظام کار اور اس کی پیچیدگیوں پرعبور حاصل کر لیا۔ انھوں نے اس ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنانے،

سیکورٹی سے متعلق معلومات کے حصول،دشمن سے متعلق معلومات کی فراہمی، ہر خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات اور پیچیدہ اور حساس مسائل کے بارے میں انتہائی اہم اور مفید احکامات جاری کرنے شروع کر دیے۔ بلاشبہ ان کی اس کامیابی میں ان کی محنت اورجانفشانی کے علاوہ ان کی خداداد انتظامی صلاحیتوں کا سب سے بڑا دخل تھا۔

بطور آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبدالرحمن کی بہت ساری کامیابیاں ہیں اور اندرون ملک انھوں نے بعض ایسے حساس نوعیت کے خفیہ آپریشن بھی کیے، جن کی تفصیلات شاید کبھی سامنے نہ آسکیں، لیکن جہاد افغانستان کی کامیابی میں انھوں نے جو کلیدی کردار ادا کیا،اس کی تفصیلات سامنے آ چکی ہیں۔ حقیقتاً پاکستان اور افغانستان دونوں ہی جنرل اختر عبدالرحمن شہید کے ممنون احسان ہیں۔

اس حیرت انگیز کارنامہ کی بنا پر ان کا شمار بیسویں صدی کے عظیم سپاہیوں اور مجاہدوں میں ہوتا ہے۔ ابھی ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے میں بہت بخل سے کام لیا جا رہا ہے، لیکن جب تعصبات کے موجودہ بادل چھٹ جائیں گے، اور حق و صداقت کے تقاضوں کے مطابق تاریخ لکھی جائے گی تو جنرل اختر عبدالرحمان کا نام،

ان کی جرات اور جانبازی اور افغان قوم کی سوویت یونین کے خلاف جدوجہد میں ان کے ناقابل فراموش کردار کی وجہ سے ان کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔
 

Terminator;

Minister (2k+ posts)
آج اِس مُردار جرنیل کے بیٹے ہمایوں اختر، اور ھارون اخترارب پتی ہیں
کوئی ان سے پوچھے کہ جنرل شعیب، اور جنرل اعجاز اعوان کے بیٹے کیوں ارب پتی نہیں؟؟؟؟

چند لاکھ کی تنخواہ لینے والے جنرل اختر رحنمان نے افغان جنگ کا اسلحہ
غیر قانونی طور پر بیچا، اور ارب پتی بن گیا

ریکارڈ غائب، کے لئے سانحہ اوجڑی کیمپ کرایا گیا تھا،،،،سارے جنرل غدّار، ہیں ،،حرامزادے ہیں
خدارا انہہیں ھیرو بنانے کا گناہ سر پر مت لیں

 
Last edited: