ذرا تصور کریں، آپ پاکستان میں ہوں، جون جولائی کی گرمی ہو، سورج آگ برسا رہا ہو، آپ نے پورے کپڑے پہنےہوں اورپھر آپ کے اوپر سر سے لے کر پاؤں تک کالے رنگ کا تنبو نما کپڑا اوڑھا دیا جائے ، آپ کو کیسا محسوس ہوگا؟۔ آپ نے اسی کالے تنبو کو اوڑھ کر رہنا ہے، جہاں بھی جانا ہے تنبو سمیت جانا ہے، گاڑی، بس ، وین میں سفر کرنا ہے تو اسی تنبو کے اندر محبوس رہ کر بیٹھنا ہے، سڑک پر چلنا ہے تو تنبو کو لپیٹے ہوئے سورج کی گرمی کشید کرتے ہوئے چلنا ہے، کیا یہ کسی نارمل شخص کیلئے عذاب سے کم ہوگا؟ کالا رنگ ویسے بھی ہیٹ بہت زیادہ جذب کرتا ہے۔ مردوں کیلئے تو یقیناً یہ تصور کرنا ہی کافی عذاب ناک ہوگا، مگر کیا کبھی کسی نے ان خواتین کے بارے میں سوچا ہے جن پر مذہبی اور سماجی جبر تلے بچپن سے ہی یہ عذاب مسلط کردیا جاتا ہے؟۔
حیرت کی بات ہے کہ سکولوں کی بچیوں تک کو کالے برقعے اوڑھائے ہوتے ہیں اور وہ بچیاں سڑکوں پر چلتی ہوئی یوں لگتی ہیں جیسے گیم آف تھرونز کے وائٹ واکرز کہیں سے اڑ کر آگئے ہوں۔ اگر کسی برقعہ سپورٹر سے پوچھا جائے کہ بھئی کیوں عورتوں کو یوں قیدی بنا کر رکھنے پر بضد ہو تو جواب کچھ اس طرح دیا جاتا ہے کہ عورت کو مردوں کی نگاہوں اور حرکات سے بچاؤ کیلئے یہ ضروری ہے۔ اگر یہی دلیل ہے تو پھر پاکستان میں تو نوخیز لڑکے بھی محفوظ نہیں، آئے روز کتنے ہی بچے زیادتی یا قتل کا نشانہ بنے ہوتے ہیں، پھر ان لڑکوں کو برقعہ کیوں نہیں اوڑھایا جاتا؟۔
پاکستان کے تقریباً پچانوے فیصد مردوں کی یہی رائے ہے کہ عورت کو مرد کے شر سے بچنے کیلئے پردہ کرنا چاہئے، اگر کوئی برقعے پر بضد نہ بھی ہو تو پردے کے پھر بھی حامی ہوتے ہیں۔اس مردانہ سوچ کی مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجئے کہ خود اپنی نظروں سے بچانے کیلئے عورتوں کو عذاب میں مسلط کیا ہوا ہے، ارے بھئی اگر مردوں کی نظروں سے ہی بچانا ہے تو پردہ تو پھر مردوں کو کرنا چاہئے، عورتوں کو کیوں خجل خوار کیا ہوا ہے۔۔ سیدھی سی بات ہے، جو بھی مرد یہ رائے رکھتا ہے کہ عورت کو برقعہ یا پردہ کرنا چاہئے اس کو پہلے خود برقعہ اوڑھ کر اپنی ذات کو مثال بنانا چاہئے پھر کسی عورت سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مرد خود برقعہ اوڑھ کر گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں پھرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو اسے کوئی حق نہیں کہ وہ کسی عورت کو پردہ کرنے کو کہے۔۔۔
حیرت کی بات ہے کہ سکولوں کی بچیوں تک کو کالے برقعے اوڑھائے ہوتے ہیں اور وہ بچیاں سڑکوں پر چلتی ہوئی یوں لگتی ہیں جیسے گیم آف تھرونز کے وائٹ واکرز کہیں سے اڑ کر آگئے ہوں۔ اگر کسی برقعہ سپورٹر سے پوچھا جائے کہ بھئی کیوں عورتوں کو یوں قیدی بنا کر رکھنے پر بضد ہو تو جواب کچھ اس طرح دیا جاتا ہے کہ عورت کو مردوں کی نگاہوں اور حرکات سے بچاؤ کیلئے یہ ضروری ہے۔ اگر یہی دلیل ہے تو پھر پاکستان میں تو نوخیز لڑکے بھی محفوظ نہیں، آئے روز کتنے ہی بچے زیادتی یا قتل کا نشانہ بنے ہوتے ہیں، پھر ان لڑکوں کو برقعہ کیوں نہیں اوڑھایا جاتا؟۔
پاکستان کے تقریباً پچانوے فیصد مردوں کی یہی رائے ہے کہ عورت کو مرد کے شر سے بچنے کیلئے پردہ کرنا چاہئے، اگر کوئی برقعے پر بضد نہ بھی ہو تو پردے کے پھر بھی حامی ہوتے ہیں۔اس مردانہ سوچ کی مضحکہ خیزی ملاحظہ کیجئے کہ خود اپنی نظروں سے بچانے کیلئے عورتوں کو عذاب میں مسلط کیا ہوا ہے، ارے بھئی اگر مردوں کی نظروں سے ہی بچانا ہے تو پردہ تو پھر مردوں کو کرنا چاہئے، عورتوں کو کیوں خجل خوار کیا ہوا ہے۔۔ سیدھی سی بات ہے، جو بھی مرد یہ رائے رکھتا ہے کہ عورت کو برقعہ یا پردہ کرنا چاہئے اس کو پہلے خود برقعہ اوڑھ کر اپنی ذات کو مثال بنانا چاہئے پھر کسی عورت سے یہ مطالبہ کرنا چاہئے۔ اگر کوئی مرد خود برقعہ اوڑھ کر گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں پھرنے کی ہمت نہیں رکھتا تو اسے کوئی حق نہیں کہ وہ کسی عورت کو پردہ کرنے کو کہے۔۔۔