جی ڈی پی کی اصطلاح اور اس کی حقیقت و اہمیت

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
پچھلے کافی دنوں سے حکومت کو اس بات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے دورِ حکومت میں جی ڈی پی کی شرح ساڑھے چار فیصد تھی اور اس حکومت کے دور میں پہلے یہ شرح منفی میں گئی اور پھر اب بہ مشکل اٹھ رہی ہے۔

کہنے والوں نے دنیا کے سامنے اس بات کو ایسا گھمایا ہے کہ لگتا ہے جیسے معیشت کا تمام انحصار جی ڈی پی پر ہی ہوتا ہے۔

لیکن ماہر معاشیات ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے لیئے ہمیں چاہیئے کہ پہلے جی ڈی پی کو سمجھیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کس لیئے استعمال کیا جاتا ہے؟

جی ڈی پی کسی بھی معیشت کے اندر صرف معاشی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی معیشت میں قریباً اتنا کاروبار ہورہا ہے۔ اسکو سمجھنے کے لیئے جی ڈی پی کا فارمولا دیکھتے ہیں۔

اوپر دیئے گئے فارمولے کے حساب سے پہلی چیز ہے کہ لوگوں کا اشیاء کا استعمال کتنا ہے؟ دوسری شے ہے کہ سرمایہ کاری کتنی ہوئی، تیسری چیز ہے کہ حکومت نے کتنا خرچ کیا اور چوتھا آتا ہے کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی برآمدات منفی درآمدات۔

سیدھے حساب میں دیکھا جائے تو جب لوگ مالی طور پر آسودہ ہونگے تو زیادہ خرچ کریں گے، دوسرا یہ کہ سرمایہ کاری کتنی بڑھی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ سرمایہ کاری سے معاشی حرکات عمل میں آتی ہیں، کوئی فیکٹری لگتی ہے یا پھر کسی کاروبار میں پیسہ لگایا جاتا ہے تاکہ منافع کمایا جاسکے، تیسری چیز یہ کہ جب حکومت عوام پر زیادہ خرچ کرے گی تو بھی معاشی حرکات ہونگی، مثلاً حکومت اگر ایک ہسپتال بنوائے گی تو اسکا ٹھیکا کسی کنسٹرکشن کمپنی کو جائے گا، وہ کمپنی سیمنٹ، سریا، مزدور اور مشینری بازار سے خریدے گی اور اسطرح معیشت چلے گی۔ چوتھی چیز ہے ہمارا کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی کل برآمدات منفی کل درآمدات۔ اس سے بھی معلوم چلتا ہے کہ معیشت کیا ملک کے اندر زیادہ چل رہی ہے یا پھر آپ ملک میں صرف چیزیں منگوا رہے ہیں اور آپ کی انڈسٹری اس خلا کو پورا نہیں کر پا رہی۔

اب معاشی ماہرین کیوں جی ڈی پی کو کسی معیشت کی ترقیّ کا اصل پیمانہ نہیں سمجھتے، ہم ان نقاط پر آتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کہیں یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کے اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے کیا ان کی زندگیاں بھی آسان ہورہی ہیں یا نہیں؟ مثلاً اگر ایک شخص اپنے گاوٗں میں نوکری تلاش نہیں کرسکا اور اسے شہر آنا پڑا تو وہ ایک تو اپنے شہر میں رہنے کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے اور دوسرا اسے کچھ پیسے گھر بھی بھیجنے پڑتے ہیں۔ اسطرح اسکا کل خرچہ زیادہ ہی ہوگا، لیکن اگر وہی شخص اپنے گاوٗں میں رہتے ہوئے اس سے کم پیسوں کا بھی روزگار تلاش کر لے گا تو اسکا خرچہ بھی کم ہوگا، لیکن گھر کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ اپنے گھر کے کافی سارے کام خود کرسکتا ہے اور اسکی زندگی میں آسودگی بھی زیادہ ہوگی۔ ضروریات بڑھ جانے کا مطلب معاشی ترقی نہیں۔

دوسرا یہ ہے کہ سرمایہ کاری کتنی آئی؟ لیکن جی ڈی پی یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کس قیمت پر آئی اور اسکا بعد میں معیشت پر کیا اثر رونما ہوگا؟ مثلاً سرمایہ کاری اس بنیاد پر ہورہی ہے کہ بجلی گھر لگائے جایئنگے اور ان کے نہ چلنے کے اوپر بھی حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے انھیں ادائیگی کرے گی، تو اسکا معیشت کو کیا فائدہ ہوا؟ نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ صنعت کو کوئی فائدہ ہوا، الٹا عوام کے ٹیکس کے پیسے پر ڈاکہ زنی ہوگئی۔ لہٰذا جن سالوں میں یہ انویسٹمنٹ ملک کے اندر آتی جائیگی، تب تک آپکو جی ڈی پی اوپر جاتا ہوا دکھائی دے گا اور جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیگنے اوران بجلی گھروں کو مفت کے پیسے دینے پڑیں گے، تو آپکو جی ڈی پی نیچے جاتا ہوا دکھائی دے گا۔

تیسرا یہ کہ حکومت نے فلاحی کاموں پر کتنا خرچ کیا۔ جی ڈی پی اس بات سے بھی بے بہرہ ہوتا ہے کہ یہ خرچ کیسے کیا جارہا ہے اور اس سے عوام کو فوائد کیا حاصل ہورہے ہیں؟ مثلاً اگر تین سال تک دو سو ارب روپے کا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو ہر سال آپکو قریباً پینسٹھ ارب روپے کا جی ڈی پی بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ جب منصوبہ ختم ہوجائے گا تو یہ جی ڈی پی نیچے چلا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد اگر آپ کو اس منصوبے کو چلانے کے لیئے حکومتی سبسڈی کی طرف دیکھنا پڑے تو یہ پیسہ عوام کے کس کام کا؟ جی ڈی پی یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ ہاں اگر یہ پیسہ کسی ڈیم کے منصوبے پر لگایا جاتا تو ڈیم بننے کے بعد نہ صرف اس سے بجلی پیدا ہوتی، جس سے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جاتی بلکہ زراعت میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کے روزگار کشادہ ہوتے۔ لیکن جی ڈی پی کبھی یہ نہیں بتا سکتا کہ حکومت کے اخراجات کی مد میں جو پیسہ لگایا گیا، اس سے ملک کی معیشت پر آگے جا کر کیا اثرات مرتّب ہونے ہیں؟

ساتھ ہی اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ حکومت کے خرچ کیئے گئے پیسے میں کتنی کرپشن ہوئی؟ کیا ایک منصوبہ جو سو ارب روپے میں مکمّل ہوسکتا تھا اس پر خواہ مخواہ دو سو ارب تو نہیں لگائے گئے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جی ڈی پی اس کرپشن میں اڑے پیسے کو بھی اپنے اندر شمار کرتا ہے۔

پھر باری آتی ہے کرنٹ اکاوٗنٹ کی، کہ برآمدات اور درآمدات میں کتنا فرق ہے؟ یہاں جی ڈی پی بھی یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ ایسا فرق کیوں آرہا ہے؟ کیا حکومت اپنے چند منظور نظر لوگوں کو درآمدات میں غیر منضفانہ چھوٹ دے کر مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے؟ جیسا کہ ہم نے زرداری دور میں آئی سی آئی کے پورٹ قاسم پر لگے نیفتھا کریکنگ پلانٹ کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ پاکستان کا واحد نیفتھا کریکر تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اپنا پلاسٹک اور مضنوعی ربر بنتا تھا۔ لیکن زرداری دور میں درآمد شدہ پلاسٹک اور خام ربر پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی اور یہ صنعت یہیں تباہ ہوگئی۔ آج تک پاکستان اپنی ضرورت کا پلاسٹک اور مصنوعی ربر درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

دوسرا یہ کہ برآمدات بھی کس قسم کی ہورہی ہیں؟ اگر تو یہ صنعتی مصنوعات ہیں، تب تو کچھ ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ برآمدات خام مال کی صورت میں ہیں اور یہ خام مال بھی اگر محدود ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے تو پھر یہ بھی ایک معیشت کے لیئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے دور میں اکثر چائنیز کمپنیوں کو پاکستان میں خام دھات کو برآمد کیا جارہا تھا۔


تو جناب، تمام گفتگو کا حاصل وصول یہ کہ جی ڈی پی صرف ایک اشارہ ہے اسطرف کہ ملک کی معیشت چل رہی ہے، لیکن کسطرح چلائی جارہی ہےاور اسمیں کیا کیا شعبدہ بازیاں کی جارہی ہیں یہ نہیں بتا سکتا۔

یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ جی ڈی پی یہ تو بتا سکتا ہے کہ انسان چل رہا ہے، لیکن یہ نہیں بتاسکتا کہ اسکا رُخ جہنمّ کی طرف ہے یا جنّت کی طرف؟

موجودہ حالات میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی ساڑھے چار فیصد تھا، تو وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ یہ ساڑھے چار فیصد انھوں نے مہنگے قرضے لے کر، سو ارب کا پروجیکٹ دو سو ارب میں بنا کر، حاصل کیا، اور منصوبے بھی ایسے کہ جن سے مجال ہے کہ عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ حاصل ہوا ہو یا وہ ملک کی معیشت میں کمائی کر کے مزید معاشی ترقی کا باعث بنیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں جی ڈی پی کی شرح کا نیچے آنے کا مسئلہ ہی تھا کہ ایک تو کسی ایسے منصوبے پر پیسے نہیں لگائے گئے، دوسرا پرانے منصوبوں پر لیئے گئے قرضوں کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور تیسرا یہ کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیئے درآمدات کو بند کیا گیا ہے، تاکہ مقامی انڈسٹری سے کمی کو پورا کرے۔ اور اسی لیئے ان مقامی انڈسٹری میں جان آتی معلوم ہورہی ہے، دوسرا یہ کہ یہ سفید ہاتھی جیسے بجلی گھروں کے منصوبے نہیں لگنے دیئے جارہے، بلکہ ان کی جگہہ ڈیم بنانے پر توّجہ دی جارہی ہے۔

لہٰذا جو لوگ صرف جی ڈی پی کی شرح کو دکھا کر منہہ چڑاتے ہیں، ان کو یہ پیغام ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ اسطرح جی ڈی پی کی شرح کو بڑھا دینا سوائے شعبدہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ان کے دور میں معاشی ترقی اتنی ہی مضبوط بنیادوں پر ہورہی ہوتی تو حکومت کے بدلتے ہی اگلے سال یہ تمام ترقّی یکدم ایسے غائب نہ ہوتی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انھوں نے پیسہ صحیح جگہہ پر لگایا ہوتا تو موجودہ حکومت کی بری سے بری پرفارمنس پر بھی ملک میں معاشی استحکام جاتے جاتےجاتا۔ جبکہ یہاں تو بلکل ایسا معاملہ ہوا جیسے غبارے میں سے ہوا نکال دی جاتی ہے۔

References:
 
Last edited:

Resident Evil

Senator (1k+ posts)
رام گلی کا دلا چینیوٹ سے ملنے والے " سائز" سے غیر مطمئین ۔ ۔ ۔ ۔
86115_090306_mag.jpg
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

پچھلے کافی دنوں سے حکومت کو اس بات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ پچھلے دورِ حکومت میں جی ڈی پی کی شرح ساڑھے چار فیصد تھی اور اس حکومت کے دور میں پہلے یہ شرح منفی میں گئی اور پھر اب بہ مشکل اٹھ رہی ہے۔

کہنے والوں نے دنیا کے سامنے اس بات کو ایسا گھمایا ہے کہ لگتا ہے جیسے معیشت کا تمام انحصار جی ڈی پی پر ہی ہوتا ہے۔

لیکن ماہر معاشیات ایسا نہیں سمجھتے۔ اس کے لیئے ہمیں چاہیئے کہ پہلے جی ڈی پی کو سمجھیں کہ یہ کیا ہوتا ہے اور کس لیئے استعمال کیا جاتا ہے؟

جی ڈی پی کسی بھی معیشت کے اندر صرف معاشی سرگرمی کو ظاہر کرتا ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آپ کی معیشت میں قریباً اتنا کاروبار ہورہا ہے۔ اسکو سمجھنے کے لیئے جی ڈی پی کا فارمولا دیکھتے ہیں۔

اوپر دیئے گئے فارمولے کے حساب سے پہلی چیز ہے کہ لوگوں کا اشیاء کا استعمال کتنا ہے؟ دوسری شے ہے کہ سرمایہ کاری کتنی ہوئی، تیسری چیز ہے کہ حکومت نے کتنا خرچ کیا اور چوتھا آتا ہے کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی برآمدات منفی درآمدات۔

سیدھے حساب میں دیکھا جائے تو جب لوگ مالی طور پر آسودہ ہونگے تو زیادہ خرچ کریں گے، دوسرا یہ کہ سرمایہ کاری کتنی بڑھی ہے، ظاہر سی بات ہے کہ سرمایہ کاری سے معاشی حرکات عمل میں آتی ہیں، کوئی فیکٹری لگتی ہے یا پھر کسی کاروبار میں پیسہ لگایا جاتا ہے تاکہ منافع کمایا جاسکے، تیسری چیز یہ کہ جب حکومت عوام پر زیادہ خرچ کرے گی تو بھی معاشی حرکات ہونگی، مثلاً حکومت اگر ایک ہسپتال بنوائے گی تو اسکا ٹھیکا کسی کنسٹرکشن کمپنی کو جائے گا، وہ کمپنی سیمنٹ، سریا، مزدور اور مشینری بازار سے خریدے گی اور اسطرح معیشت چلے گی۔ چوتھی چیز ہے ہمارا کرنٹ اکاوٗنٹ یعنی کل برآمدات منفی کل درآمدات۔ اس سے بھی معلوم چلتا ہے کہ معیشت کیا ملک کے اندر زیادہ چل رہی ہے یا پھر آپ ملک میں صرف چیزیں منگوا رہے ہیں اور آپ کی انڈسٹری اس خلا کو پورا نہیں کر پا رہی۔

اب معاشی ماہرین کیوں جی ڈی پی کو کسی معیشت کی ترقیّ کا اصل پیمانہ نہیں سمجھتے، ہم ان نقاط پر آتے ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ جی ڈی پی میں کہیں یہ ظاہر نہیں کیا جاتا کہ لوگوں کے اخراجات کے بڑھنے کی وجہ سے کیا ان کی زندگیاں بھی آسان ہورہی ہیں یا نہیں؟ مثلاً اگر ایک شخص اپنے گاوٗں میں نوکری تلاش نہیں کرسکا اور اسے شہر آنا پڑا تو وہ ایک تو اپنے شہر میں رہنے کے اخراجات بھی برداشت کرتا ہے اور دوسرا اسے کچھ پیسے گھر بھی بھیجنے پڑتے ہیں۔ اسطرح اسکا کل خرچہ زیادہ ہی ہوگا، لیکن اگر وہی شخص اپنے گاوٗں میں رہتے ہوئے اس سے کم پیسوں کا بھی روزگار تلاش کر لے گا تو اسکا خرچہ بھی کم ہوگا، لیکن گھر کے پاس رہنے کی وجہ سے وہ اپنے گھر کے کافی سارے کام خود کرسکتا ہے اور اسکی زندگی میں آسودگی بھی زیادہ ہوگی۔ ضروریات بڑھ جانے کا مطلب معاشی ترقی نہیں۔

دوسرا یہ ہے کہ سرمایہ کاری کتنی آئی؟ لیکن جی ڈی پی یہ بتانے سے قاصر رہتی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کس قیمت پر آئی اور اسکا بعد میں معیشت پر کیا اثر رونما ہوگا؟ مثلاً سرمایہ کاری اس بنیاد پر ہورہی ہے کہ بجلی گھر لگائے جایئنگے اور ان کے نہ چلنے کے اوپر بھی حکومت عوام کے ٹیکس کے پیسے سے انھیں ادائیگی کرے گی، تو اسکا معیشت کو کیا فائدہ ہوا؟ نہ بجلی سستی ہوئی اور نہ صنعت کو کوئی فائدہ ہوا، الٹا عوام کے ٹیکس کے پیسے پر ڈاکہ زنی ہوگئی۔ لہٰذا جن سالوں میں یہ انویسٹمنٹ ملک کے اندر آتی جائیگی، تب تک آپکو جی ڈی پی اوپر جاتا ہوا دکھائی دے گا اور جب یہ منصوبے مکمل ہوجائیگنے اوران بجلی گھروں کو مفت کے پیسے دینے پڑیں گے، تو آپکو جی ڈی پی نیچے جاتا ہوا دکھائی دے گا۔

تیسرا یہ کہ حکومت نے فلاحی کاموں پر کتنا خرچ کیا۔ جی ڈی پی اس بات سے بھی بے بہرہ ہوتا ہے کہ یہ خرچ کیسے کیا جارہا ہے اور اس سے عوام کو فوائد کیا حاصل ہورہے ہیں؟ مثلاً اگر تین سال تک دو سو ارب روپے کا اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو ہر سال آپکو قریباً پینسٹھ ارب روپے کا جی ڈی پی بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔ جب منصوبہ ختم ہوجائے گا تو یہ جی ڈی پی نیچے چلا جائے گا۔ لیکن اس کے بعد اگر آپ کو اس منصوبے کو چلانے کے لیئے حکومتی سبسڈی کی طرف دیکھنا پڑے تو یہ پیسہ عوام کے کس کام کا؟ جی ڈی پی یہ دیکھنے سے بھی قاصر رہتا ہے۔ ہاں اگر یہ پیسہ کسی ڈیم کے منصوبے پر لگایا جاتا تو ڈیم بننے کے بعد نہ صرف اس سے بجلی پیدا ہوتی، جس سے عوام کو سستی بجلی فراہم کی جاتی بلکہ زراعت میں بھی اضافہ ہوتا اور لوگوں کے روزگار کشادہ ہوتے۔ لیکن جی ڈی پی کبھی یہ نہیں بتا سکتا کہ حکومت کے اخراجات کی مد میں جو پیسہ لگایا گیا، اس سے ملک کی معیشت پر آگے جا کر کیا اثرات مرتّب ہونے ہیں؟

ساتھ ہی اس کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ حکومت کے خرچ کیئے گئے پیسے میں کتنی کرپشن ہوئی؟ کیا ایک منصوبہ جو سو ارب روپے میں مکمّل ہوسکتا تھا اس پر خواہ مخواہ دو سو ارب تو نہیں لگائے گئے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ جی ڈی پی اس کرپشن میں اڑے پیسے کو بھی اپنے اندر شمار کرتا ہے۔

پھر باری آتی ہے کرنٹ اکاوٗنٹ کی، کہ برآمدات اور درآمدات میں کتنا فرق ہے؟ یہاں جی ڈی پی بھی یہ بتانے سے قاصر رہتا ہے کہ ایسا فرق کیوں آرہا ہے؟ کیا حکومت اپنے چند منظور نظر لوگوں کو درآمدات میں غیر منضفانہ چھوٹ دے کر مقامی انڈسٹری کو تباہ کر رہی ہے؟ جیسا کہ ہم نے زرداری دور میں آئی سی آئی کے پورٹ قاسم پر لگے نیفتھا کریکنگ پلانٹ کے ساتھ ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ پاکستان کا واحد نیفتھا کریکر تھا، جس کی وجہ سے پاکستان میں اپنا پلاسٹک اور مضنوعی ربر بنتا تھا۔ لیکن زرداری دور میں درآمد شدہ پلاسٹک اور خام ربر پر ڈیوٹی معاف کر دی گئی اور یہ صنعت یہیں تباہ ہوگئی۔ آج تک پاکستان اپنی ضرورت کا پلاسٹک اور مصنوعی ربر درآمد کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

دوسرا یہ کہ برآمدات بھی کس قسم کی ہورہی ہیں؟ اگر تو یہ صنعتی مصنوعات ہیں، تب تو کچھ ٹھیک ہے، لیکن اگر یہ برآمدات خام مال کی صورت میں ہیں اور یہ خام مال بھی اگر محدود ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے تو پھر یہ بھی ایک معیشت کے لیئے خطرے کی گھنٹی ہوتی ہے۔ جیسا کہ نواز شریف کے دور میں اکثر چائنیز کمپنیوں کو پاکستان میں خام دھات کو برآمد کیا جارہا تھا۔


تو جناب، تمام گفتگو کا حاصل وصول یہ کہ جی ڈی پی صرف ایک اشارہ ہے اسطرف کہ ملک کی معیشت چل رہی ہے، لیکن کسطرح چلائی جارہی ہےاور اسمیں کیا کیا شعبدہ بازیاں کی جارہی ہیں یہ نہیں بتا سکتا۔

یہ بلکل ایسے ہی ہے کہ جی ڈی پی یہ تو بتا سکتا ہے کہ انسان چل رہا ہے، لیکن یہ نہیں بتاسکتا کہ اسکا رُخ جہنمّ کی طرف ہے یا جنّت کی طرف؟

موجودہ حالات میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دور میں جی ڈی پی ساڑھے چار فیصد تھا، تو وہ یہ نہیں بتانا چاہتے کہ یہ ساڑھے چار فیصد انھوں نے مہنگے قرضے لے کر، سو ارب کا پروجیکٹ دو سو ارب میں بنا کر، حاصل کیا، اور منصوبے بھی ایسے کہ جن سے مجال ہے کہ عوام کو ایک روپے کا بھی فائدہ حاصل ہوا ہو یا وہ ملک کی معیشت میں کمائی کر کے مزید معاشی ترقی کا باعث بنیں۔

موجودہ حکومت کے دور میں جی ڈی پی کی شرح کا نیچے آنے کا مسئلہ ہی تھا کہ ایک تو کسی ایسے منصوبے پر پیسے نہیں لگائے گئے، دوسرا پرانے منصوبوں پر لیئے گئے قرضوں کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں اور تیسرا یہ کہ برآمدات کو بڑھانے کے لیئے درآمدات کو بند کیا گیا ہے، تاکہ مقامی انڈسٹری سے کمی کو پورا کرے۔ اور اسی لیئے ان مقامی انڈسٹری میں جان آتی معلوم ہورہی ہے، دوسرا یہ کہ یہ سفید ہاتھی جیسے بجلی گھروں کے منصوبے نہیں لگنے دیئے جارہے، بلکہ ان کی جگہہ ڈیم بنانے پر توّجہ دی جارہی ہے۔

لہٰذا جو لوگ صرف جی ڈی پی کی شرح کو دکھا کر منہہ چڑاتے ہیں، ان کو یہ پیغام ہے کہ ذرا اپنے گریبانوں میں بھی جھانک کر دیکھیں۔ اسطرح جی ڈی پی کی شرح کو بڑھا دینا سوائے شعبدہ بازی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ان کے دور میں معاشی ترقی اتنی ہی مضبوط بنیادوں پر ہورہی ہوتی تو حکومت کے بدلتے ہی اگلے سال یہ تمام ترقّی یکدم ایسے غائب نہ ہوتی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انھوں نے پیسہ صحیح جگہہ پر لگایا ہوتا تو موجودہ حکومت کی بری سے بری پرفارمنس پر بھی ملک میں معاشی استحکام جاتے جاتےجاتا۔ جبکہ یہاں تو بلکل ایسا معاملہ ہوا جیسے غبارے میں سے ہوا نکال دی جاتی ہے۔

References:

آگے کے لئے آپ کی کیا سفارشات ہیں ؟
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

آگے کے لئے آپ کی کیا سفارشات ہیں ؟
شاہ جی، مجھے معلوم تھا کہ ایسا معقول سوال صرف آپ ہی کر سکتے ہیں، باقی تو سب یہاں تنقیدی مواد ہی تلاش کرتے ہیں، تعمیری سوچ صرف چند اشخاص تک ہی محدود ہے۔

جناب ہماری سفارشات تو تب ہوں جب ہماری کوئی سنتا ہو، سفارش۔

ہم تو صرف گزارشات کر سکتے ہیں کہ گزرتی عمر اور وقت میں اسی پر گزارہ ہے۔

سب سے پہلے اقدامات میں کنزیومر پرائس انفلیشن پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ بنیادی اشیاء خوردونوش میں اگر قیمتیں استحکام کی طرف نہیں جائینگی تو اگلا الیکشن پی ٹی آئی بھول جائے، کیونکہ ہمارے یہاں اسی فیصد سے زیادہ لوگ معاشی ترقی کو اپنی آمدنی اور خرچے کی بنیاد پر ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

دوسرا، میں چاہوں گا کہ حکومت ایک انڈسٹری کو یہاں پر پروان چڑھائے، اور وہ ہے بائیو فیول۔
بائیوگیس اور بائیوڈیزل کے پلانٹ لگائیں، معیشت دو سال میں بھاگنے لگے گی۔
اس پر مختصراً یہ کہ ہماری درآمدات میں سب سے بڑا حصّہ تیل اور گیس کی امپورٹ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ان کی قیمتیں عالمی منڈی میں بھی عدم استحکام کا شکار رہتی ہیں۔ لہٰذا اپنی اگاوٗ اور اپنی کھاوٗ کی پالیسی پر اگر ہم صرف ملک کی ضرورت کا ۲۰ فیصد بھی اس انڈسٹری سے پورا کرلیں تو ہماری بچت اربوں ڈالر میں چلی جاتی ہے۔
 
Last edited:

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

شاہ جی، مجھے معلوم تھا کہ ایسا معقول سوال صرف آپ ہی کر سکتے ہیں، باقی تو سب یہاں تنقیدی مواد ہی تلاش کرتے ہیں، تعمیری سوچ صرف چند اشخاص تک ہی محدود ہے۔

جناب ہماری سفارشات تو تب ہوں جب ہماری کوئی سنتا ہو، سفارش۔

ہم تو صرف گزارشات کر سکتے ہیں کہ گزرتی عمر اور وقت میں اسی پر گزارہ ہے۔

سب سے پہلے اقدامات میں کنزیومر پرائس انفلیشن پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ بنیادی اشیاء خوردونوش میں اگر قیمتیں استحکام کی طرف نہیں جائینگی تو اگلا الیکشن پی ٹی آئی بھول جائے، کیونکہ ہمارے یہاں اسی فیصد سے زیادہ لوگ معاشی ترقی کو اپنی آمدنی اور خرچے کی بنیاد پر ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔

دوسرا، میں چاہوں گا کہ حکومت ایک انڈسٹری کو یہاں پر پروان چڑھائے، اور وہ ہے بائیو فیول۔
بائیوگیس اور بائیوڈیزل کے پلانٹ لگائیں، معیشت دو سال میں بھاگنے لگے گی۔
اس پر مختصراً یہ کہ ہماری درآمدات میں سب سے بڑا حصّہ تیل اور گیس کی امپورٹ پر خرچ کیا جاتا ہے۔ ان کی قیمتیں عالمی منڈی میں بھی عدم استحکام کا شکار رہتی ہیں۔ لہٰذا اپنی اگاوٗ اور اپنی کھاوٗ کی پالیسی پر اگر ہم صرف ملک کی ضرورت کا ۲۰ فیصد بھی اس انڈسٹری سے پورا کرلیں تو ہماری بچت اربوں ڈالر میں چلی جاتی ہے۔

تعریف کا شکریہ
لیکن میں اس لائق نہیں ہوں . . . . . . میں بھی دوسرے کے ارادوں میں کیڑے نکالتا ہوں
درحقیقت میں نے اپنے دوستوں کو خبردار کیا ہوا ہے کہ میرے کیڑے نکالنے کی وجہ سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہ کرنا بلکے خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا
. . . . . . . . . . .
میرے خیال میں بائیو فیول ابھی ناقابل عمل ہے کیونکہ یہ مہنگا پڑتا ہے توانائی کی کمی کو ہم ڈیم ، رینیو ایبل انرجی ، اور اٹامک پلانٹ سے پورا کر سکتے ہیں . اور ابھی پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی لگانے کا رحجان بھی نہیں ہے
ہاں زراعت میں بہتری کی بہت گنجائش ہے اور کیمکل انڈسٹری میں بھی
اور
میں نہیں سوچتا کہ قیمتیں ڈنڈے کے زور پر کم کی جا سکتیں ہیں بلکے اس کے لئے لوگوں کی قوت خرید بڑھانی چاہیے ، یعنی لوگوں کو روزگار ملے تو قیمتوں کا مسلہ حل ہو جائے گا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

تعریف کا شکریہ
لیکن میں اس لائق نہیں ہوں . . . . . . میں بھی دوسرے کے ارادوں میں کیڑے نکالتا ہوں
درحقیقت میں نے اپنے دوستوں کو خبردار کیا ہوا ہے کہ میرے کیڑے نکالنے کی وجہ سے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نہ کرنا بلکے خود سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا
. . . . . . . . . . .
میرے خیال میں بائیو فیول ابھی ناقابل عمل ہے کیونکہ یہ مہنگا پڑتا ہے توانائی کی کمی کو ہم ڈیم ، رینیو ایبل انرجی ، اور اٹامک پلانٹ سے پورا کر سکتے ہیں . اور ابھی پاکستان میں نئی ٹیکنالوجی لگانے کا رحجان بھی نہیں ہے
ہاں زراعت میں بہتری کی بہت گنجائش ہے اور کیمکل انڈسٹری میں بھی
اور
میں نہیں سوچتا کہ قیمتیں ڈنڈے کے زور پر کم کی جا سکتیں ہیں بلکے اس کے لئے لوگوں کی قوت خرید بڑھانی چاہیے ، یعنی لوگوں کو روزگار ملے تو قیمتوں کا مسلہ حل ہو جائے گا
شاہ جی، یہ بائیوفیول کی اکنامکس اتنی آسان نہیں جتنی نظر آتی ہے۔ دراصل اسکی قیمت آپ کے پاس ائے جانے والے اجزاء کی قیمت پر منحصر ہوتی ہے، اور جب ہم اس سلسلے میں مغرب کی کوئی اسٹڈی اٹھا کر دیکھتے ہیں تو ہمیں خیال نہیں رہتا کہ یورپ میں یا امریکہ میں ان زرعی اجناس کی قیمت کیا پاکستان میں ان اجناس کی قیمت سے مطابقت رکتھی ہے؟

مثلاً امریکہ میں چونکہ مکئی وافر مقدار میں ہوتی ہے، لہٰذا وہاں پر جو قیمت مکئی سے بنائے بائیو ڈیزل کی ہوتی ہے، وہ یورپ میں ہو ہی نہیں سکتی۔ اسی طرح برازیل میں گنا اور آلو سے بنایا جانے والا بائیوفیول انکو درآمد شدہ پیٹرول یا ڈیزل سے کہیں سستا پڑتا ہے کیونکہ وہاں یہ اجناس وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں۔ لہٰذا اس کی قیمتوں کا اندازہ ایسے کرنا مشکل ہے۔ پاکستان کے حساب سے ابھی تک اس کی قیمتوں پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔
دوسری چیز ہے بائیوگیس، اور انڈیا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔

دراصل جب آپ کوئی شے سستی بھی باہر سے منگوتے ہیں تو آپ کا زرِّ مبادلہ جاتا ہے اور دوسرا قیمتوں کا استحکام بھی ایک مسئلہ رہتا ہے۔ تیسرا آپ ان مجبوریوں کی وجہ سے اسٹریٹجک طریقے سے بھی پھنس جاتے ہیں۔ سعودیہ کا واحد زور ہم پر اسی بات کا چلتا ہے کہ ہماری بات مانو نہیں تو تیل بند کردیں گے۔

جب آپ یہی چیز بھلے تھوڑی مہنگی ہی اپنے ملک میں تیّار کرتے ہیں تو ایک بات یہ کہ زر مبادلہ بچتا ہے، دوسرا یہ کہ یہ پیسہ آپ کی اپنی اکانومی میں چلتا ہے، اسی کے ذریعے دیگر روزگار پیدا ہوتے ہیں لہٰذا پیسے کے اس خرچ سے مجموعی طور پر آپکو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ دوسروں پر انحصار کم ہوجاتا ہے اور قیمتیں بھی تغیّر کا شکار نہیں ہوتیں اور نہ ہی آپکی سپلائی کو کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔

رینیو ایبل انرجی تھوڑا بہت سہارا تو دے سکتی ہے، لیکن اس پر موسم کے اثرات بہت زیادہ مرتب ہوتے ہیں، یہی حال ہائیڈل انرجی کا بھی ہے، کہ بارشیں ہوجائیں تو مسئلہ اور سردیوں میں پانی کا بہاوٗ ویسے ہی کم، جبکہ انڈسٹری کو ایک مستحکم سپلائی کی ضرورت ہوتی ہے، اسی وجہ سے پوری دنیا میں ابھی تک ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر موجود ہیں۔

اٹامک انرجی ایک حل تو ہے، لیکن اس ٹیکنالوجی میں اسٹریٹجک مسائل بہت زیادہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ بہت پیچیدہ ٹیکنالوجی ہے اور دوسرا یہ کہ کسی جنگ، تخریب کاری یا کسی دوسرے حادثے کی صورت میں اسکے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ فوکوشیما اور چرنوبل آجتک دنیا کو بھولتے نہیں۔ ساتھ ہی اسکاٹ لینڈ میں لگنے والے فورتھ جنریشن نیوکلیئر ری ایکٹر کے ڈیزائن میں سب سے پہلے اسے کسی فضائی حملے سے بچانے کی ترکیب سوچی گئی اور نتیجتاً اس پراجیکٹ کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی۔

بائیو فیول اس کے مقابلے میں بہت سادہ ٹیکنالوجی ہے جو ہمارے ہاں کے لوگوں کی سمجھ میں بہ آسانی آسکتی ہے۔ دوسرا اس کے اجزا کی قیمت کم کرنے کے لیئے اقدامات کیئے جاسکتے ہیں۔ تیسرا یہ ماحول دوست بھی ہے اور ساتھ ہی اسکے گلیسرین وغیرہ بھی پیدا ہوتی ہے، جسکی اپنی قیمت کافی اچھی مل جاتی ہے۔

ہماری بہت ساری زمینیں بنجر پڑی ہوئی ہیں، ساتھ ہی بہت سارے پانی کے ذخائر انسانی استعمال میں لانے کے قابل نہیں ہیں، کیوں نہ انھیں اس کام میں استعمال کیا جائے؟ پاکستان میں پی اسی او نے جیٹروفا کارکس‘‘ کے لیئے ایک پائلٹ پراجیکٹ کیا تھا جو بہت کامیاب رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کیسٹر کا بھی کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔ لیکن وہاں بھی جب پرائس چارٹ کی باری آئی تو میں نے دیکھا کہ انھوں نے جیٹروفا اور کیسٹر کی فصل کی وہ قیمت لکھی ہوئی ہے جو اس وقت مارکیٹ میں چل رہی ہے، جبکہ انکو اس بات کا دھیان ہی نہیں کہ جب ان دونوں اجناس کی پیداوار بڑھائی جائیگی تو ان کی قیمت بہت نیچے آجائے گی۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)

میں نہیں سوچتا کہ قیمتیں ڈنڈے کے زور پر کم کی جا سکتیں ہیں بلکے اس کے لئے لوگوں کی قوت خرید بڑھانی چاہیے ، یعنی لوگوں کو روزگار ملے تو قیمتوں کا مسلہ حل ہو جائے گا
دراصل یہاں یہ بنایدی تضاد پایا جاتا ہے کہ روزگار بھلے مہیاّ کردیا جائے، لیکن جب مسئلہ سپلائی پر مصنوعی قلت پیدا کرنے کا آجاتا ہے تو یہ مافیا ہمیشہ لوگوں کی قوت خرید سے بڑھ کر ہی قیمت لگاتی ہے۔

آپ آج لوگوں کی تنخواہ بڑھا دیں، روزگار بڑھا دیں، یہ پھر سے سپلائی غائب کردیں گے اور ڈیمانڈ بڑھا کر مصنوعی طریقے سے قیمتیں اور بڑھا دیں گے۔

لہٰذا قیمتوں کا استحکام بہت ضروری ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کا روزگار اور معیار زندگی بہتر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ قیمتیں بھی ایک جگہہ روک کر کیا فائدہ، جب دوسری طرف لوگوں کا روزگار ہی ختم ہوتا جائے؟

اب ڈنڈے کے زور پر کریں، یا جیسے کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ریزرو بنا کر ان آڑتیوں کے مقابلے میں حکومت خود آئے، اور بعد میں کموڈتی ایکسچینج کمیشن بنا کر اور کولڈ اسٹوریج چین بنا کر کاشت کاروں اور خریداروں کے درمیان ویلیو چین کا فاصلہ کم کریں اور انھیں مالی استحکام فراہم کریں اور ساتھ ہی ان کی استحصال سے بچائیں،

کام یہ بہر صورت اب انجام پذیر ہوجانا چاہیئے۔ نہیں تو میں خود کہوں گا کہ یہ حکومت گھر چلی جائے۔ شاہ جی، میں نے پچھلے ایک سال کے اندر مزدور طبقے کا جو حال ایک تو کرونا اور دوسرا اس مہنگائی کی وجہ سے دیکھا ہے، یقین کریں دل پر خراش لگ جاتی ہے۔ ٹھیک ہے انڈسٹری چل پڑی ہے، لیکن یہ بدذات حرامخور آڑتی مافیا اس ترقی کا اصل پھل عوام تک نہیں پہنچنے دیتے اور سارا منافع خود کھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)

دراصل یہاں یہ بنایدی تضاد پایا جاتا ہے کہ روزگار بھلے مہیاّ کردیا جائے، لیکن جب مسئلہ سپلائی پر مصنوعی قلت پیدا کرنے کا آجاتا ہے تو یہ مافیا ہمیشہ لوگوں کی قوت خرید سے بڑھ کر ہی قیمت لگاتی ہے۔

آپ آج لوگوں کی تنخواہ بڑھا دیں، روزگار بڑھا دیں، یہ پھر سے سپلائی غائب کردیں گے اور ڈیمانڈ بڑھا کر مصنوعی طریقے سے قیمتیں اور بڑھا دیں گے۔

لہٰذا قیمتوں کا استحکام بہت ضروری ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کا روزگار اور معیار زندگی بہتر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ قیمتیں بھی ایک جگہہ روک کر کیا فائدہ، جب دوسری طرف لوگوں کا روزگار ہی ختم ہوتا جائے؟

اب ڈنڈے کے زور پر کریں، یا جیسے کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ریزرو بنا کر ان آڑتیوں کے مقابلے میں حکومت خود آئے، اور بعد میں کموڈتی ایکسچینج کمیشن بنا کر اور کولڈ اسٹوریج چین بنا کر کاشت کاروں اور خریداروں کے درمیان ویلیو چین کا فاصلہ کم کریں اور انھیں مالی استحکام فراہم کریں اور ساتھ ہی ان کی استحصال سے بچائیں،

کام یہ بہر صورت اب انجام پذیر ہوجانا چاہیئے۔ نہیں تو میں خود کہوں گا کہ یہ حکومت گھر چلی جائے۔ شاہ جی، میں نے پچھلے ایک سال کے اندر مزدور طبقے کا جو حال ایک تو کرونا اور دوسرا اس مہنگائی کی وجہ سے دیکھا ہے، یقین کریں دل پر خراش لگ جاتی ہے۔ ٹھیک ہے انڈسٹری چل پڑی ہے، لیکن یہ بدذات حرامخور آڑتی مافیا اس ترقی کا اصل پھل عوام تک نہیں پہنچنے دیتے اور سارا منافع خود کھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔

درست فرمایا
اصل مسلہ مزدور طبقے تک ثمرات کا پہنچنا ہے
میرے خیال میں ان تک روزگار دینا بھی اسی کی ایک کڑی ہے
. . . .
ایک بات تو پکی ہے کہ معیشت کا مضمون بہت مشکل ہے ، غلط فیصلوں سے غرباء کو بہت نقصان ہوتا ہے
الله سے دعا ہے کہ ہمیں عمل کی توفیق دے
اور ہمارے اقدامات میں برکت ڈالے
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
الله سے دعا ہے کہ ہمیں عمل کی توفیق دے
اور ہمارے اقدامات میں برکت ڈالے

آمین
درست فرمایا

اصل مسلہ مزدور طبقے تک ثمرات کا پہنچنا ہے
میرے خیال میں ان تک روزگار دینا بھی اسی کی ایک کڑی ہے
. . . .
شاہ جی گھوڑا گھاس سے دوستی کر نہیں سکتا اور مزدور روزگار کو انکار نہیں کر سکتا۔
اور یہ بات درست ہے کہ کرونا کی وباء کے دور میں ہمیں تنخواہیں بڑھانے سے زیادہ نوکریاں بچانے کی فکر لاحق ہوگئی۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ اس آڑتی مافیا نے اس وقت بھی اللہ کا خوف نہ کیا، اور مزید آٹے اور چینی وغیرہ کی مصنوعی قلّت پیدا کی۔ مزدور بیچارہ دونوں طرف سے پِس گیا۔ نہ تو روزگار رہا اور نہ ہی بچت کے پیسوں پہ کچھ دن گزارا ممکن رہا ان قیمتوں کی وجہ سے۔ پھر ہم سوچتے ہیں کہ جرائم اتنے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

ایک بات تو پکی ہے کہ معیشت کا مضمون بہت مشکل ہے ، غلط فیصلوں سے غرباء کو بہت نقصان ہوتا ہے
شاہ جی کم از کم آپ تو نہ کہیں اس مضمون کو مشکل، مشکل تو اسے میرے جیسا نکمّا کہتا ہوا ٹھیک لگتا ہے۔

شاہ جی مضمون آسان یا مشکل نہیں ہوتے، دراصل کام کرنا کسی قوم کے اندر آسان یا مشکل ان کے رویوّں سے بنتا ہے۔

میں حیران ہوتا ہوں شاہ جی یہ دیکھ کر کہ کمیونزم اور ڈیموکریسی دونوں دنیا میں کامیاب چل رہی ہیں، لیکن صرف ان ممالک میں جہاں کی قومیں اپنی ترقیّ کی لیئے سنجیدہ ہیں، نظام آپ انھیں کوئی بھی پکڑا دیں، صرف نیت اور لگن ہی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو کسی بھی نظام کے کامیاب ہونے یا نہ ہونے کی ضامن ہے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
سب سے پہلے اقدامات میں کنزیومر پرائس انفلیشن پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔ بنیادی اشیاء خوردونوش میں اگر قیمتیں استحکام کی طرف نہیں جائینگی تو اگلا الیکشن پی ٹی آئی بھول جائے، کیونکہ ہمارے یہاں اسی فیصد سے زیادہ لوگ معاشی ترقی کو اپنی آمدنی اور خرچے کی بنیاد پر ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں۔
ایڈا تو معیشت دان۔ او بھائی مہنگائی کمزور معیشت کی علامت ہے۔ جس معیشت میں درآمداد کم کرنے یا سبسڈی ختم کرنے پر مہنگائی برداشت سے باہر ہو جائے وہ معیشت چل نہیں سکتی۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
دراصل یہاں یہ بنایدی تضاد پایا جاتا ہے کہ روزگار بھلے مہیاّ کردیا جائے، لیکن جب مسئلہ سپلائی پر مصنوعی قلت پیدا کرنے کا آجاتا ہے تو یہ مافیا ہمیشہ لوگوں کی قوت خرید سے بڑھ کر ہی قیمت لگاتی ہے۔

آپ آج لوگوں کی تنخواہ بڑھا دیں، روزگار بڑھا دیں، یہ پھر سے سپلائی غائب کردیں گے اور ڈیمانڈ بڑھا کر مصنوعی طریقے سے قیمتیں اور بڑھا دیں گے۔

لہٰذا قیمتوں کا استحکام بہت ضروری ہے، ساتھ ساتھ لوگوں کا روزگار اور معیار زندگی بہتر کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ قیمتیں بھی ایک جگہہ روک کر کیا فائدہ، جب دوسری طرف لوگوں کا روزگار ہی ختم ہوتا جائے؟

اب ڈنڈے کے زور پر کریں، یا جیسے کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ریزرو بنا کر ان آڑتیوں کے مقابلے میں حکومت خود آئے، اور بعد میں کموڈتی ایکسچینج کمیشن بنا کر اور کولڈ اسٹوریج چین بنا کر کاشت کاروں اور خریداروں کے درمیان ویلیو چین کا فاصلہ کم کریں اور انھیں مالی استحکام فراہم کریں اور ساتھ ہی ان کی استحصال سے بچائیں،

کام یہ بہر صورت اب انجام پذیر ہوجانا چاہیئے۔ نہیں تو میں خود کہوں گا کہ یہ حکومت گھر چلی جائے۔ شاہ جی، میں نے پچھلے ایک سال کے اندر مزدور طبقے کا جو حال ایک تو کرونا اور دوسرا اس مہنگائی کی وجہ سے دیکھا ہے، یقین کریں دل پر خراش لگ جاتی ہے۔ ٹھیک ہے انڈسٹری چل پڑی ہے، لیکن یہ بدذات حرامخور آڑتی مافیا اس ترقی کا اصل پھل عوام تک نہیں پہنچنے دیتے اور سارا منافع خود کھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
سپلائی بڑھانی ہے تو کارٹلز کو ختم کرو۔ اجناس کو ملک سے باہر یا دوسرے صوبوں میں جانے سے روکو۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرو تاکہ پیداوار بڑھے۔
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
سپلائی بڑھانی ہے تو کارٹلز کو ختم کرو۔ اجناس کو ملک سے باہر یا دوسرے صوبوں میں جانے سے روکو۔ ٹیکنالوجی کا استعمال کرو تاکہ پیداوار بڑھے۔
جی یہ کارٹلز کا ہی کمال ہے اور انھی کے مقابلے میں حکومت خود ان کے مقابل آئے گی، فی الحال۔
جہاں یہ پیسہ پھینک کر اجناس کو سستے میں خرید کر ذخیرہ کرلیتے ہیں اور سپلائی مارکیٹ سے غائب کردیتے ہیں، تو وہیں اب حکومت ان کے خلاف خود بھی خریدار بن کر کھڑی ہوجائے گی اور ان کے مقابلے میں اجناس خرید لے گی۔ پھر جب ڈٰیمانڈ مصنوعی طریقے سے بڑھائی جائے گی، اس وقت حکومت سپلائی بڑھا کر اسے کنٹرول کر لے گی۔

دوسری بات جو آپ نے ایکسپورٹ کے بارے میں کی ہے، یہ بھی ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے لیئے بھی حکومت کو بہت جلد اقدامات کرنے ہونگے۔ ورنہ یہ اسی طرح معیشت کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھیں گے۔