جے پی مورگن کی رپورٹ سے کچھ اقتباس

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
عالمی معیار کے مالیاتی ادارے جے پی مورگن نے جو پاکستان کی معیشت کے بارے میں رپورٹ پیش کی ہے، اس میں ان کے منہہ سے خفیف ہی سہی، لیکن کم از کم کچھ تو تعریفی کلمات نکل ہی گئے ہیں۔

فوربز، ایس اینڈ پی اور جے پی مورگن کے بارے میں یہ باتیں مالیاتی دنیا میں عام مانی جاتی ہیں کہ کوئی رپورٹ بناتے وقت یہ اپنے ممالک کا بھی دھیان رکھتے ہیں کہ کہیں کوئی زیادہ تعریف کرنے پر ان کے اپنے ممالک سے انویسٹمنٹ نکل کر باہر نہ چلی جائے۔

اسکا اندازہ جے پی مورگن کی اس سال کی رپورٹ کو دیکھ کر ہوا، جہاں ان کے اپنے ہی دیئے ہوئے اعداد و شمار ان کے اپنے ہی الفاظ سے مطابقت نہیں رکھ پارہے۔

خیر چلیں پہلے دیکھتے ہیں کہ جی پی مورگن کے اعداد و شمار کیا کہتے ہیں؟
JPM.jpg

Source: https://pbs.twimg.com/media/E3glK6zXEAI72TK?format=jpg&name=large

یہاں یہ بات صاف دیکھی جا سکتی ہے کہ مہنگائی کے تناظر میں سال ۲۰۲۰ میں جے پی مورگن نے اشیائے خورد و نوش میں افراطِ زر یعنی اینفلیشن آٹھ اعشاریہ چھ فیصد ظاہر کی، جبکہ رواں مالی سال میں یہ بڑھ کر ساڑھے دس فیصد تک پہنچ جانے کے امکانات ہیں۔ جبکہ دوسری جانب، اگلے مالی سال میں یہی تناسب گھٹ کر سات اعشاریہ چھ فیصد پر جانے کے امکانات بھی ظاپر کیئے گئے۔ یعنی رواں مالی سال کے بعد انفلیشن کی مد میں بڑی کمی کو یقینی طور پر دیکھا گیا ہے۔

ساتھ ہی اگر کنزیومر پرائس انڈیکس کو دیکھا جائے تو وہ بھی کچھ مثبت اشارے دیتا ہے۔ جیسے کہ اشیائے خورد و نوش میں اوسطاً پچھلے مالی سال کی بہ نسبت اس سال کچھ بہتری دیکھنے میں آئی۔ پچھلے مالی سال میں، جہاں کنزیوپر پرائس انڈیکس چھ اعشاریہ آٹھ فیصد سے بڑھ کر دس اعشاریہ سات فیصد پر ایک لمبی جست لگا چکا تھا، وہیں اس سال اس میں قدرے بہتری دیکھنے میں آرہی ہے۔ رواں مالی سال میں اس کی شرح نو فیصد پر دیکھی جارہی ہے جبکہہ اگلے سال مزید بہتری کے ساتھ اسے قریباً ساتھ اعشاریہ آٹھ فیصد تک پر دیکھا جارہا ہے۔

دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ جہاں جے پی مورگن نے اپنا زیادہ اعتماد پاکستان کے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری کو منافع بخژ قرار دیا ہے، وہیں اس بات کو اتنا بہتر طور پر واضع نہیں کیا گیا کہ پاکستان میں قرض کے پالیسی ریٹ اس سال بھی سات فیصد پر برقرار رکھے جائیں گے اور اگلے سال بھی اس ریٹ میں معمولی سطح کا اضافہ دیکھا جارہا ہے، یعنی کہ صرف ایک فیصد کا۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ قرض کی شرح سود کم ہونے کی وجہ سے کاروبار زیادہ پھیلنے کے امکانات ہوتے ہیں۔ لوگوں کو کم شرح پر قرضہ فراہم کرنے کی وجہ سے لوگ کاروبار میں زیادہ سرمایہ کاری کرتے ہیں اور ان کی اشیاء و خدمات کی قیمتیں بھی کم ہوجاتی ہیں۔ لیکن جے پی مورگن کو کیا کہا جاسکتا ہے؟ کہ وہ پھر بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی انڈسٹری کی بجائے حکومتی بانڈز میں سرمایہ کاری شارٹ ٹرم یعنی قلیل المدّت حاشیئے میں سود مند رہے گی۔

پاکستان کی صنعتی ترقیّ کا عندیہ ضی ڈی پی کے اعداد و شمار میں بھی صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں ہمارا جی ڈی پی سال ۲۰۱۸ میں تین سو چودہ اعشاریہ چھ بلین ڈالر سے گر کر گزشتہ مالی سال ۲۰۲۰ میں صرف دو سو باسٹھ بلین ڈالر تک رہ گیا تھا، وہ اب چار اعشاریہ سات فیصد کی رفتار سے بڑھتے ہوئے رواں مالی سال میں تقریباً دو سو اٹھانوے بلین ڈالر تک جا پہنچنے کی امید ہے۔ ساتھ ہی اس رجحان کے آگے بڑھنے کی بھی امید ظاہر کی گئی ہے، جس کی بنا پر آئندہ مالی سال سنہ ۲۰۲۲ میں ملکی جی ڈی پی کا حجم تین سو انتیس بلین ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے، جتنا حجم پاکستان کی معیشت نے پچھلے پانچ سالوں میں کبھی بھی نہ دیکھا۔

بیرونی ترسیلاتِ زر کے تناظر میں جے پی مورگن کی رپورٹ بھی معترف نظر آتی ہے کہ اسمیں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ گو کہ آئندہ آنے والے سالوں میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ ترسیلات کم ہوسکتی ہیں، لیکن بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا گیا۔

بہرحال، اگر پاکستان کے حکومتی بانڈز کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور جے پی مورگن بھی اسمیں سرمایہ کاری کو منافع بخژ قرار دینے سے گریز نہ کر پایا ہے، تو اسکا مطلب یہ بھی ہے کہ مستقبل میں ترسیلاتِ زر کی کمی کو یہاں سے پورا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر ترسیلات زر میں کمی نہ ہوئی، تو یہ رجحان آئندہ مالی سال میں پاکستان کی معیشت کو جے پی مورگن کی پیش گوئی سے بھی بہت زیادہ مستحکم کرسکتا ہے۔

جی پی مورگن نے دیگر خدشات کے ساتھ کرونا وباء اور اس کے اثرات کو بہت خاص وزن دیا ہے۔ گو کہ بات درست بھی ہے، لیکن اگر پاکستان کے اعداد و شمار پچھلے ایک سال میں باقی دنیا اور خاص کر اسکے اپنے پڑوسی ممالک کے تناظر میں دیکھے جائیں، تو یہ خدشہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل نظر نہیں آتا، لیکن چونکہ قدرتی آفات کے بارے میں کوئی یقینی طور کچھ نہیں کہہ سکتا، لہٰذا اس مسئلے میں کچھ ملے جلے رجحان نظر آنے کے امکانات کو بعید القیاس نہیں کہا جاسکتا۔

بہرحال، یہاں خود ہی جے پی مورگن نے اپنے ہی اعداد و شمار کے تناظر میں نیچے ایک چھوٹی سی سطر میں یہ بھی لکھا ہے کہ یہ اعداد و شمار پاکستان کے آئی ایم ایف کے پروگرام کے تحت اسپیشل ڈرائنگ رائٹس یعنی ایس ڈی آر کو خارج از امکان رکھتے ہوئے دیئے گئے ہیں۔ پاکستان کے پاس اس مد میں قریباً دو اعشاریہ آٹھ بلین ڈالر تک رسائی ممکن ہے۔ ایسے میں کرونا وباء کی صورت میں کسی ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیئے بھی پاکستان کے پاس خاصا سہارا موجود ہے۔

بہرحال، ضرورت اس امر کی ہے کہ بیان کیئے گئے خدشات، چاہے منطقی طور تھوڑا کم ہی وزن رکھتے ہوں، لیکن پھر بھی ان پر نظر رکھنا اور ان کے لیئے موثر پیش بندی کرنا ضروری ہے۔ الحمداللہ ہم ایک اچھے آغاز کی نہج تک پہنچ چکے ہیں، اس کے بعد ایسی ہی پالیسیوں کے تسلسل کی ضرورت ہے، جسمیں جی ڈی پی بڑھاتے ہوئے ایسے منصوبوں اور کاموں پر اخراجات کیئے جائیں جن سے بعد از تکمیل ملک و قوم کے لیئے آمدنی کے یا اخراجات میں کمی کے مستقل ذرائع پیدا ہوں۔ نہیں تو جی ڈی پی تو ایک مجسمّہ بناتے ہوئے بھی بڑھ جاتا ہے، لیکن مجسمے کی تکمیل کے بعد نہ تو اس منصوبے پر کوئی مستقل روزگار مہیّا ہوتے ہیں اور نہ ہی حکومت کے اخراجات یا آمدنی میں کوئی مثبت رجحان پیدا ہوتا ہے۔
 

ahameed

Chief Minister (5k+ posts)
جہاں ہمارا جی ڈی پی سال ۲۰۱۸ میں تین سو چودہ اعشاریہ چھ بلین ڈالر سے گر کر گزشتہ مالی سال ۲۰۲۰ میں صرف دو سو باسٹھ بلین ڈالر تک رہ گیا تھا​

وہ اس لئے کہ ڈالر ایک سو دس سے ایک سو ساٹھ پر پہنچ گیا تھا
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
وہ اس لئے کہ ڈالر ایک سو دس سے ایک سو ساٹھ پر پہنچ گیا تھا
کرونا کی وجہ سے معیشت بھی تباہ حال تھی، اور یہ حال باقی دنیا میں بھی تھا، بلکہ اس تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستان میں قدرے بہتر ہی حالات رہے، خاص کر ہمارے پڑوسی ممالک ایران اور بھارت کو دیکھتے ہوئے۔
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
This is not an opposition for any sensible person, it is more like Harram khoor children of Harram khoor parents trying to accumulate wealth with hook and crook from this illiterates and Jahal 220 million people.
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Just look at this Pakistani parliment.This stupid general brought 30% unelected women. 80% of them have no clue why they are there to begin with.
Most of them come there to show their styles. If you would wash their faces and have a second look,you wouldn't recognize them.