حامد میر: ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان کو ’چھٹی پر بھیج دیا گیا‘، پی ایف یو جے کی مذمت
حامد میر: ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے بعد پروگرام کیپیٹل ٹاک کے میزبان کو ’چھٹی پر بھیج دیا گیا‘، پی ایف یو جے کی مذمت
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے جیو نیوز کے اینکر اور صحافی حامد میر کو اپنے ہی شو کیپیٹل ٹاک سے 'آف ایئر' کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے اسے اظہار رائے کی آزادی پر ایک حملہ قرار دیا ہے۔
پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کی پابندی حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔‘
پی ایف یو جے کے شہزادہ ذولفقار اور سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے سوال اٹھایا کہ جمعے کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے حامد میر کی تقریر 'جس میں انھوں نے صحافی اسد طور پر حملے کے بعد غیر جمہوری طاقتوں کی مذمت کی، کے 72 گھنٹوں بعد ایسا کیا ہوا کہ جیو انتظامیہ نے یہ فیصلہ کر لیا۔۔۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ یہ چینل کا اپنا فیصلہ ہے یا حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ۔'
پاکستان کے سینیئر صحافی اور نجی چینل جیو نیوز پر دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پروگرام کرنے والے حامد میر پیر سے اپنے شو کیپیٹل ٹاک کی میزبانی نہیں کریں گے اور انھیں جیو نیوز کی انتظامیہ کی جانب سے ’چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔‘
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے اس حوالے سے ردِ عمل سامنے آیا اور ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ’کسی نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اوراس کی ٹیم کیا ہو گی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔
’ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں، تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں۔‘
یاد رہے کہ جمعے کی شام کو صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طور پر تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کے بعد ان کی حمایت میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی تھی کہ آئندہ کسی صحافی پر ایسے تشدد نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ 'گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے۔'
پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں صحافتی تنظیم پی ایف یو جے کا کہنا تھا کہ 'اس طرح کی پابندی حکومت کی جانب سے اظہار رائے کی آزادی اور صحافیوں کے تحفظ کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے۔‘
پی ایف یو جے کے شہزادہ ذولفقار اور سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے سوال اٹھایا کہ جمعے کو نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے حامد میر کی تقریر 'جس میں انھوں نے صحافی اسد طور پر حملے کے بعد غیر جمہوری طاقتوں کی مذمت کی، کے 72 گھنٹوں بعد ایسا کیا ہوا کہ جیو انتظامیہ نے یہ فیصلہ کر لیا۔۔۔ ہم جاننا چاہیں گے کہ یہ چینل کا اپنا فیصلہ ہے یا حکومت و اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ۔'
پاکستان کے سینیئر صحافی اور نجی چینل جیو نیوز پر دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے پروگرام کرنے والے حامد میر پیر سے اپنے شو کیپیٹل ٹاک کی میزبانی نہیں کریں گے اور انھیں جیو نیوز کی انتظامیہ کی جانب سے ’چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔‘
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کی جانب سے اس حوالے سے ردِ عمل سامنے آیا اور ایک ٹویٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ’کسی نشریاتی ادارے نے کیا پروگرام نشر کرنا ہے اوراس کی ٹیم کیا ہو گی یہ فیصلہ ادارے خود کرتے ہیں۔
’ہمارا اداروں کے اندرونی فیصلوں سے کوئی تعلق نہیں، تمام ادارے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت اپنی پالیسی بنانے کے خود ذمہ دار ہیں۔‘
یاد رہے کہ جمعے کی شام کو صحافی اور یوٹیوب ولاگر اسد طور پر تین نامعلوم افراد کی جانب سے ان کے گھر میں گھس کر تشدد کے بعد ان کی حمایت میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حامد میر نے ریاستی اداروں کو تنبیہ کی تھی کہ آئندہ کسی صحافی پر ایسے تشدد نہیں ہونا چاہیے ورنہ وہ 'گھر کی باتیں بتانے پر مجبور ہوں گے۔'
اس تقریر میں حامد میر کی باتوں سے واضح تھا کہ ان کی تنقید کا نشانہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہے۔
’
اس بار میری بیوی، بیٹی کو دھمکیاں ملی ہیں‘
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ چینل کی انتظامیہ کی جانب سے انھیں کہا گیا ہے کہ پیر کو وہ آن ائیر نہیں جا رہے۔ ان کے مطابق یہ بات دو تین دن سے چل رہی تھی۔
دوسری جانب جیو نیوز کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ حامد میر پیر سے اپنے شو کی میزبانی نہیں کریں گے اور انھیں کچھ عرصے کے لیے چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق حامد میر ابھی بھی جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں تاہم اطلاعات کے مطابق جیو کے اینکر پرسن محمد جنید کو حامد میر کی جگہ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے کراچی سے اسلام آباد بلا لیا گیا ہے۔
حامد میر نے بتایا کہ ’انتظامیہ نے مجھے کہا کہ میں پریس کلب کے سامنے کی تقریر کی وضاحت یا تردید کروں۔ میں نے ان سے پوچھا یہ آپ سے کون کہہ رہا ہے۔‘
’میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو میں وضاحت چھوڑیں، معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں۔‘
ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں حامد میر نے مزید بتایا کہ یہ سب ان کے لیے نیا نہیں۔ ’مجھ پر دو بار پابندی لگی اور دو بار اپنی نوکری سے ہاتھ دھوئے۔ میں حملوں کے باوجود زندہ ہو لیکن آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس بار کسی بھی قسم کے نتائج اور کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں کیونکہ وہ میرے خاندان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اس بار ان کی بیوی اور
بیٹی کو دھمکیاں ملی ہیں جبکہ ان کے بھائی کو ایف ائی اے نے کسی پرانے کیس میں طلب کیا ہے۔
پی ایف یو جے کا کہنا ہے کہ ’حامد میر پر پابندی کا مطلب صرف ایک صحافی پر حملہ نہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی آزادی پر حملہ ہے۔‘ صحافی تنظیم نے سوال اٹھایا کہ 'یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ ہے یا چینل نے خود یہ اقدام اٹھایا؟'
اس بیان کے مطابق 'پہلے صحافیوں پر حملے کیے جاتے ہیں پھر اس کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے فاشسٹ ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔'
خیال رہے کہ پاکستان کی قومی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں حال ہی میں دو ایسے بل پیش کیے گئے جن کا مطالبہ پاکستانی کے صحافی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
یہ بل پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا عہدیداروں کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ لیکن صحافیوں کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون کو قومی اور صوبائی سطح پر متعارف ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یوٹیوب ویلاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہوئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسد طور پر حملے کے بعد حامد میر کی جانب سے اس کے احتساب کے لیے ایک مظاہرے میں تقریر کی گئی جس کے بعد اب انھیں اس کی سزا دی گئی۔
اس کے مطابق 'اس سے موجودہ جابرانہ ماحول میں اظہار رائے کی آزادی کی ذمہ داری اٹھانے والے صحافتی اداروں اور حکام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ صحافیوں کے لیے ان کی نوکریوں کی قیمت سینسرشپ، ہراس اور جسمانی تشدد نہیں ہونے چاہییں۔'
’
اس بار میری بیوی، بیٹی کو دھمکیاں ملی ہیں‘
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ چینل کی انتظامیہ کی جانب سے انھیں کہا گیا ہے کہ پیر کو وہ آن ائیر نہیں جا رہے۔ ان کے مطابق یہ بات دو تین دن سے چل رہی تھی۔
دوسری جانب جیو نیوز کی انتظامیہ نے تصدیق کی ہے کہ حامد میر پیر سے اپنے شو کی میزبانی نہیں کریں گے اور انھیں کچھ عرصے کے لیے چھٹی پر بھیجا گیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق حامد میر ابھی بھی جنگ گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں تاہم اطلاعات کے مطابق جیو کے اینکر پرسن محمد جنید کو حامد میر کی جگہ میزبانی کے فرائض سرانجام دینے کے لیے کراچی سے اسلام آباد بلا لیا گیا ہے۔
حامد میر نے بتایا کہ ’انتظامیہ نے مجھے کہا کہ میں پریس کلب کے سامنے کی تقریر کی وضاحت یا تردید کروں۔ میں نے ان سے پوچھا یہ آپ سے کون کہہ رہا ہے۔‘
’میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو میں وضاحت چھوڑیں، معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں۔‘
ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں حامد میر نے مزید بتایا کہ یہ سب ان کے لیے نیا نہیں۔ ’مجھ پر دو بار پابندی لگی اور دو بار اپنی نوکری سے ہاتھ دھوئے۔ میں حملوں کے باوجود زندہ ہو لیکن آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس بار کسی بھی قسم کے نتائج اور کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں کیونکہ وہ میرے خاندان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اس بار ان کی بیوی اور
پی ایف یو جے کا کہنا ہے کہ ’حامد میر پر پابندی کا مطلب صرف ایک صحافی پر حملہ نہیں بلکہ اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی آزادی پر حملہ ہے۔‘ صحافی تنظیم نے سوال اٹھایا کہ 'یہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کا نتیجہ ہے یا چینل نے خود یہ اقدام اٹھایا؟'
اس بیان کے مطابق 'پہلے صحافیوں پر حملے کیے جاتے ہیں پھر اس کے خلاف آواز اٹھانے والے صحافیوں کو خاموش کرنے کے لیے فاشسٹ ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔'
خیال رہے کہ پاکستان کی قومی اور سندھ کی صوبائی اسمبلی میں حال ہی میں دو ایسے بل پیش کیے گئے جن کا مطالبہ پاکستانی کے صحافی کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔
یہ بل پاکستان میں کام کرنے والے صحافیوں اور میڈیا عہدیداروں کی حفاظت سے متعلق ہیں۔ لیکن صحافیوں کے تحفظ کے لیے مجوزہ قانون کو قومی اور صوبائی سطح پر متعارف ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دارالحکومت اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے صحافی اور یوٹیوب ویلاگر اسد علی طور کو ان کے گھر میں گھس کر تشدد کا نشانہ بنایا جس سے وہ زخمی ہوئے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اسد طور پر حملے کے بعد حامد میر کی جانب سے اس کے احتساب کے لیے ایک مظاہرے میں تقریر کی گئی جس کے بعد اب انھیں اس کی سزا دی گئی۔
اس کے مطابق 'اس سے موجودہ جابرانہ ماحول میں اظہار رائے کی آزادی کی ذمہ داری اٹھانے والے صحافتی اداروں اور حکام کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ صحافیوں کے لیے ان کی نوکریوں کی قیمت سینسرشپ، ہراس اور جسمانی تشدد نہیں ہونے چاہییں۔'
سوشل میڈیا پر ردعمل
سوشل میڈیا پر ردعمل
یاد رہے کہ جب حامد میر کی گذشتہ ہفتے کی تقریر منظر عام پر آئی تو سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہوئی تھی، بلخصوص اس حصے پر جہاں تقریر کے آخر میں انھوں نے شدید غصے کی حالت میں تنبیہ کرتے ہوئے کہا کہ اب اگر صحافیوں کے ساتھ اس قسم کا برتاؤ کیا گیا اور ان پر گھروں میں گھس کر تشدد کیا گیا تو 'گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے۔'
جوں ہی حامد میر کو آف ائیر کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی تو صارفین، خاص طور پر میڈیا سے وابستہ افراد کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور کئی لوگوں نے ان کے حق میں اور ان کے خلاف ٹویٹس کیں۔
صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق 'اگر حامد میر کو آج آف ایئر کر دیا جاتا ہے یا ان کے جیو نیوز پر پروگرام پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مزید انگلیاں اٹھیں گی اور 'ان کے الفاظ کی تائید ہوگی۔'
صحافی منیزے جہانگیر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ 'ان کے لیے تھپر ہے جو پاکستان میں آزاد میڈیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔'
'حامد میر کو صحافیوں کے خلاف حملوں پر بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔'
مہرین ذہرہ ملک کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں 'جگہ مزید تنگ ہونے جا رہی ہے۔۔۔ بدترین حالات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔'
انسانی حقوق کی کارکن اور وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے ٹویٹ میں لکھا کہ 'جو حامد میر کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ان کی کہی گئی باتیں ثابت ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر ان لوگوں کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔'
سلیم نامی صارف نے یاد کرایا کہ 'حامد میر نے شاید سب سے زیادہ انٹرویو عمران خان کے ہی کیے ہیں۔۔۔ 'دیکھیں حامد' کے الفاظ ان ہی شوز سے نکلے۔'
مگر نتاشہ نامی صارف کے مطابق حامد میر سے متعلق اطلاعات اب 'بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پہنچ رہی ہیں۔ کبھی کبھار مجھے پی ٹی آئی کے لیے بُرا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے احمق لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔'
دوسری جانب حامد میر کے ناقدین نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر تنقید کی۔
مریم نے حامد میر کے پیشہ ورانہ رویے پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'دنیا میں کہیں بھی اداروں پر اس طرح تنقید نہیں کی جاتی۔۔۔ آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کے جذبات سے اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ان کا رویہ صحافت کے اخلاقی پیرامیٹر پر پورا نہیں اترتا۔'
اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا دعویٰ تھا کہ 'اطلاعات کے مطابق حامد میر کو آف ایئر کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا، نہ پنڈی نے نہ آئی ایس آئی نے۔ پھر ان پر پابندی کیوں؟ جیو انتظامیہ کو اس اچانک فیصلے کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ کیا یہ دباؤ کا نتیجہ ہے؟ کس کا دباؤ؟'
تحریکِ انصاف سے وابستہ سوشل میڈیا کے سرگرم کارکن اور وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے ڈیجیٹل افیئرز اظہر مشوانی نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ: ’اس وقت میر صاحب کی ریٹنگ بہت نیچے ہیں۔ حامد میر پر عارضی پابندی لگا کر ان کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دیا گیا ہے۔ جیو نیوز کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ چند دن کے بعد حامد میر یہی ہوگا اور آزادی کا چیمپئن بن کر جب کیپیٹل پروگرام کرے گا تو ریٹنگ زیادہ ہوگی، فائدہ جیو کو ہی ہوگا۔‘
SOURCE
جوں ہی حامد میر کو آف ائیر کرنے کی خبر سوشل میڈیا پر آئی تو صارفین، خاص طور پر میڈیا سے وابستہ افراد کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور کئی لوگوں نے ان کے حق میں اور ان کے خلاف ٹویٹس کیں۔
صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق 'اگر حامد میر کو آج آف ایئر کر دیا جاتا ہے یا ان کے جیو نیوز پر پروگرام پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مزید انگلیاں اٹھیں گی اور 'ان کے الفاظ کی تائید ہوگی۔'
صحافی منیزے جہانگیر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ 'ان کے لیے تھپر ہے جو پاکستان میں آزاد میڈیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔'
'حامد میر کو صحافیوں کے خلاف حملوں پر بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔'
مہرین ذہرہ ملک کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں 'جگہ مزید تنگ ہونے جا رہی ہے۔۔۔ بدترین حالات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔'
انسانی حقوق کی کارکن اور وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے ٹویٹ میں لکھا کہ 'جو حامد میر کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ان کی کہی گئی باتیں ثابت ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر ان لوگوں کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔'
سلیم نامی صارف نے یاد کرایا کہ 'حامد میر نے شاید سب سے زیادہ انٹرویو عمران خان کے ہی کیے ہیں۔۔۔ 'دیکھیں حامد' کے الفاظ ان ہی شوز سے نکلے۔'
مگر نتاشہ نامی صارف کے مطابق حامد میر سے متعلق اطلاعات اب 'بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پہنچ رہی ہیں۔ کبھی کبھار مجھے پی ٹی آئی کے لیے بُرا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے احمق لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔'
دوسری جانب حامد میر کے ناقدین نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر تنقید کی۔
مریم نے حامد میر کے پیشہ ورانہ رویے پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ 'دنیا میں کہیں بھی اداروں پر اس طرح تنقید نہیں کی جاتی۔۔۔ آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کے جذبات سے اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ان کا رویہ صحافت کے اخلاقی پیرامیٹر پر پورا نہیں اترتا۔'
اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا دعویٰ تھا کہ 'اطلاعات کے مطابق حامد میر کو آف ایئر کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا، نہ پنڈی نے نہ آئی ایس آئی نے۔ پھر ان پر پابندی کیوں؟ جیو انتظامیہ کو اس اچانک فیصلے کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ کیا یہ دباؤ کا نتیجہ ہے؟ کس کا دباؤ؟'
تحریکِ انصاف سے وابستہ سوشل میڈیا کے سرگرم کارکن اور وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے ڈیجیٹل افیئرز اظہر مشوانی نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ: ’اس وقت میر صاحب کی ریٹنگ بہت نیچے ہیں۔ حامد میر پر عارضی پابندی لگا کر ان کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دیا گیا ہے۔ جیو نیوز کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ چند دن کے بعد حامد میر یہی ہوگا اور آزادی کا چیمپئن بن کر جب کیپیٹل پروگرام کرے گا تو ریٹنگ زیادہ ہوگی، فائدہ جیو کو ہی ہوگا۔‘
SOURCE