ایک تجزیہ
میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔