در حقیقت اندرونِ خانہ کیا پک رہا ہے

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
ٹوٹل بکواس پاکستان کے معاشی حالت ٧٠ سال میں
اس وقت سب سے بہترین ہیں
قرضہ ختم ہونے کا قریب ہے
ایکسپورٹ ٹاپ پر ہیں
امپورٹس کم سے کم سطح پر ہیں
منگھائی دنیا میں سب سے کم سطح پر ہے
پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس ختم ہو چکا ہے
صحت کارڈ کامیابی سے جاری ہے
غریب مزدور پناہ گاہ میں سوتے ہیں کوئی سڑک پر نہیں سوتا
او ای سی دوسری بار پاکستان میں منعقد ہو رہی ہے
اسلام و فوبیا کے خلاف پہلی بار کوئی بات کر رہا ہے
چوروں پر فرد جرم آید ہونے والی ہے
چار سال میں نہ کوئی ڈرون حملہ نہ کوئی ایل و سی پر شہادتیں ہوئی ہیں
اور تو یہاں جھوٹا پروپیگنڈا کر رہا ہے
دفع ہو جا جھوٹے
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
خان یا باجوہ دونوں میں سے ایک کو جانا ہے. باجوہ کو بھیجے بغیر اگر خان چلا گیا تو اسکا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہے
تیری امی کا فدا پاڑنا ہو گا نواز دلے کی اولاد کی گانڈ بجانی ہو گی
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
ثبوت پیش کر ورنہ اپنا تجزیہ اپنے اندر گھسا لے
جھوٹے لعنتی
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
میری ذاتی رائے، کے مطابق پاک افواج کی جونیئر لیڈرشپ اب بھی آزمائ ہوئ اپوزیشن کے مقابلے میں عمران خان حکومت کی حمایت کرتی ہے اور انکی اس حمایت کا اثر بہرطور سینئر لیڈر شپ پر ہوتا ہی ہے۔
 

Meme

Minister (2k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔

میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد9 سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
فورم کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو ایسا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہالت کی پیشگی معافی، کیا مذکورہ شخص جنرل فیض ہیں جو گیارہویں نمبر پہ ہیں؟ اور یہ کہ جب آپ قائل ہیں کہ مدعا اگلا الیکشن ہے جس کے لئے عمران ملک میں موجود ہیجان انگیز کیفیت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو آپ پھر بھی ڈائے ہارٹ فین کیوں کر ہیں؟
?
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
فورم کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو ایسا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہالت کی پیشگی معافی، کیا مذکورہ شخص جنرل فیض ہیں جو گیارہویں نمبر پہ ہیں؟ اور یہ کہ جب آپ قائل ہیں کہ مدعا اگلا الیکشن ہے جس کے لئے عمران ملک میں موجود ہیجان انگیز کیفیت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو آپ پھر بھی ڈائے ہارٹ فین کیوں کر ہیں؟
?
Total bakwas....
No sense no proof no evidence just Bak Bak
totally against on ground facts.
Prove economy is bad
Economy is 100 times better than 2018 and you are stating it's bad.
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
Total bakwas and bunch of lies
 

DilDilPakistan0991

Councller (250+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
Thank you for the input, bohat dilchasp nuqta e nazar he. aur bht sensible tajzia he.
Aur isme se kafi baatein sach bhi hosktin hen.

Ye awazen bht jagahon se uth rahin hen. Aur bht si chzon ki sense bhi isi se banrhi he.

Allah hamare mulk ka hami o nasir ho.
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
Yah tazea naheen maryum Kay ghulam ka propaganda hai
Economy is 10000 times better than 2018.
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
Shame on you liar this is maryum corrupt criminal agenda
Zero facts.
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
ایک تجزیہ

میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
Total bakwas zero facts ? % lies.
 

Shahid Abassi

Chief Minister (5k+ posts)
فورم کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو ایسا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہالت کی پیشگی معافی، کیا مذکورہ شخص جنرل فیض ہیں جو گیارہویں نمبر پہ ہیں؟ اور یہ کہ جب آپ قائل ہیں کہ مدعا اگلا الیکشن ہے جس کے لئے عمران ملک میں موجود ہیجان انگیز کیفیت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو آپ پھر بھی ڈائے ہارٹ فین کیوں کر ہیں؟
?
ہیجان خیز صورت حال اسٹیبلشمنٹ کی پیدا کردہ ہے اس کی وجہ نہ حکومت ہے اور نہ اپوزیشن۔ سیاست دان ہمیشہ آلہ کار بنتے ہیں اور اس وقت اپوزیشن آلہ کار بنی ہے۔ میں نے خود کو عمران خان کا فین نہی کہا لیکن ہاں میں اسے اپوزیشن پر فوقیت دیتا ہوں جس کی وجہ معیشت پر اس کے بہتر فیصلے ہیں۔
معیشت تین چیزوں سے پہچانی جاتی ہے۔
ایکسپورٹ ریمیٹینسز یا کسی بھی طریقے سے ڈالر کمانے کی کیپیسٹی۔
معیشت میں بڑھوتی یعنی گروتھ
اور تیسری چیز ہے ٹیکس کالیکشن۔
اور ان تینوں پوائنٹس پر موجودہ حکومت پچھلی دونوں حکومتوں سے بہت زیادہ بہتر ہے۔​
 

Shan ALi AK 27

Chief Minister (5k+ posts)
فورم کی خوش نصیبی ہے کہ آپ جیسے پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں جو ایسا باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جہالت کی پیشگی معافی، کیا مذکورہ شخص جنرل فیض ہیں جو گیارہویں نمبر پہ ہیں؟ اور یہ کہ جب آپ قائل ہیں کہ مدعا اگلا الیکشن ہے جس کے لئے عمران ملک میں موجود ہیجان انگیز کیفیت کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو آپ پھر بھی ڈائے ہارٹ فین کیوں کر ہیں؟
?
?????
Jhoat auk bakwas ka planda
Na koi facts na koi information
Sirf jhoat aur bakwas
 
Last edited:

pakistankamaltabkia_

MPA (400+ posts)
خان یا باجوہ دونوں میں سے ایک کو جانا ہے. باجوہ کو بھیجے بغیر اگر خان چلا گیا تو اسکا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہے
False propaganda by Noonies …. Khan is v eager and happy to keep General bajwa! The real surprise is not nisar ali khan ! The real surprise is …… well if we tell you then it’s not !!! Army itself is sick n tired of pmln and ppp ….. khan is still v popular among poor who form majority …. Yes iffat Umer doesn’t like but my whole family n their friends n friends all prefer khan any day over all else ….. furthermore army understands and agrees with khan but army itself want to stay in back ! Surprise of khan = army …. So wait n see let the billo and rain badmouth PTI and institution all they want !!
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
آپ نے عمران خان کو شریف یا زرداری ڈاکو سمجھ رکھا ہے جو ملک کے مفاد کیخلاف کچھ کرے گا؟
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
اگر مسئلہ جنرل فیض کو آرمی چیف بنانے کاہے تو عمران خان کو اس نکتہ پر قائل کیا جا سکتا ہے۔ اسے روکنے کیلئے اس کی حکومت گرانا لازمی ہے؟