samkhan
Chief Minister (5k+ posts)
ہوا بھری کس نے ہے؟سب اپنی اپنی مقررہ آئینی مدت پوری کریں گے۔ اس عدم اعتماد کے غبارہ سے جلد ہوا نکلنے والی ہے
ہوا بھری کس نے ہے؟سب اپنی اپنی مقررہ آئینی مدت پوری کریں گے۔ اس عدم اعتماد کے غبارہ سے جلد ہوا نکلنے والی ہے
یعنی پھر عدم اعتماد صرف جنرل فیض کو مبینہ طور پر آرمی چیف بنانے والے معاملہ پر ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو خان صاحب کو یہ بات پوری قوم کے سامنے ۲۷ مارچ کے تاریخی جلسہ پر رکھنی چاہئے۔ تاکہ ان کرپٹ جرنیلوں کی لتر پریڈ شروع کی جا سکے جو اس تحریک عدم اعتماد کے پیچھے ہیںاور ان تینوں پوائنٹس پر موجودہ حکومت پچھلی دونوں حکومتوں سے بہت زیادہ بہتر ہے۔
موجودہ حالات میں باجوہ کے جانے سے عمران کی منشا پوری نہی ہوگی۔ جب باجوہ ریٹائیر ہونگے تو اس وقت فیض حمید تیسرے موسٹ سینئر جنرل ہیں۔ لیکن اب وہ گیارہویں نمبر پر ہیں جو ناممکن ہے۔خان یا باجوہ دونوں میں سے ایک کو جانا ہے. باجوہ کو بھیجے بغیر اگر خان چلا گیا تو اسکا دوبارہ اقتدار میں آنا مشکل ہے
To simplify, in the easiest way possible.موجودہ حالات میں باجوہ کے جانے سے عمران کی منشا پوری نہی ہوگی۔ جب باجوہ ریٹائیر ہونگے تو اس وقت فیض حمید تیسرے موسٹ سینئر جنرل ہیں۔ لیکن اب وہ گیارہویں نمبر پر ہیں جو ناممکن ہے۔
Jhotah admit world bankایک تجزیہ
میرے خیال میں موجودہ حالات پاکستان کے لئے کسی صورت بھی اچھے نہی ہیں۔ حالات ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ کی طرف جاسکتے ہیں۔ ستائیس مارچ کو ایک بڑا مقابلہ ہے تحریک انصاف اور مقتدر حلقوں کے درمیان۔ پی ٹی آئی لاکھوں لوگ اکٹھے کرنے کی تگودو کرے گی اور مقتدر حلقے شاید پسِ پردہ اپنے سارے ذرائع استعمال کرکے یہ کوشش کریں گے کہ ان کے پی ٹی آئی میں موجود الیکٹیبلز اس اجتماع میں کوئی بندے لا کر شمولیت نہ کرے۔ عمران خان کے لئے اس اجتماع میں لوگوں کی تعداد میک آر بریک کی حیثیت رکھتی ہے۔ وہ لاکھوں کے مجمع کی حمایت دیکھ کر کسی ایسے فیصلے کا اعلان کر سکتا ہے جو کہ ملک کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے۔
یہ میرا اندازہ ہے کہ چوہدری نثار کو عمران کے پاس وزیراعلی بنانے کے لئے نہی بلکہ ثالثی یا عمران خان کو انتہائی اقدام نہ کرنے پر منانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور کوشش کی جارہی ہے کہ اگر عمران ستمبر میں الیکشنز پر راضی ہوجائے تو تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے لیکن عمران کسی صورت بھی نومبر کے مہینے سے فیض یاب ہوئے بغیر الیکشن نہی کرائے گا۔
مقتدر حلقے کسی بھی صورت عمران خاں کا عسکری سربراہ کی تعیناتی کا موجودہ صورت میں حق ماننے کو تیار نہی ہے یا کم از کم اس کے چائس کے وقت سے متفق نہی ہے۔ اسے وقت آنے پر سنیارٹی پر چلنے کو کہا گیا لیکن وہ وقت سے بہت پہلے سو کالڈ میرٹ کو فوقیت دینے کا فیصلہ کر چکا جہاں میرٹ کا فیصلہ اس کی صوابدید پر ہو جیسا کہ آئین میں بھی درج ہے ۔ عمران خان میں روایتی سیاست دانوں والی بات نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کے کچھ کمزور فیصلے بعض اوقات اس کے ڈائی ہارٹ فینز کی سمجھ سے بھی بالا دکھائی دیتے ہیں۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ ہمارے سابق وزراء اعظم آخری دِنوں تک کبھی یہ ظاہر نہی ہونے دیتے تھے کہ وہ کس جنرل کو سربراہی کے لئے موزوں سمجھتے ہیں۔ اس سے یہ ہوتا تھا کہ آخری دنوں تک سارے ہی سینیئر جنرلز وزیراعظم کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کی کوشش میں رہتے تھے اور وزیراعظم ایک ڈارلنگ بنا رہتا تھا۔ لیکن یہاں ہمارے وزیراعظم صاحب نے پورا ایک سال پہلے سے کسی ایک فرد کو پروموٹ کرنا شروع کردیا اور اس عمل سے تین چار سینئر ترین افراد کو نہ صرف اپنا مخالف بنا لیا بلکہ انہیں زبردستی فائض عیسی کی طرح ن لیگ کہ جھولی میں ڈال دیا۔ اگر فوج کی تنظیم کی روح سے دیکھا جائے تو بھی عمران خان کا ایسا کرنا غلط تھا کہ دس سینیئر افراد کے سروس میں ہوتے ہوئے گیارہویں بندے کے لئے اس پوسٹ کے لئے ایک ڈیڑھ سال قبل ہی مکمل طور پر اپنا چائس واضح کردینا نئے آرمی چیف بننے تک کے درمیانی وقت میں تنظیمی مسائل پیدا کرتا ہے۔ فوج ایک سالڈ تنظیمی معیار رکھتی ہے اور یہاں گیارہویں نمبر پر موجود فرد کو ایک سال قبل ہی آئیندہ آرمی چیف کے لئے اپنا چائس بنا کر پیش کرنے سے چین آف کمانڈ کے گھمبیر مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ہاں ان دس میں سے سات افراد تو اس دن سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے اور ریس سے باہر بھی ہیں لیکن باقی تین کو سینیئر ہوتے ہوئے بھی ابھی سے ہی اپنے خواب ٹوٹتے نظر آنے لگے ہیں اور ان کے دل میں عمران خان کی مخالفت پیدا ہونا ایک قدرتی عمل ہے۔ اور جو اس سے قبل ریٹائر ہونگے وہ بھی ستمبر تک اپنے سے گیارہ نمبرز جونیئر شخص کو آرمی چیف ڈیزگنیٹ کے طور سامنے رکھ کر کام نہی کر سکتے۔ ان حالات میں شاید اب یہ آرمی کی مجبوری ہے کہ کچھ بھی کیا جائے لیکن فوج میں یہ تاثر ختم کرنے کے لئے کہ مجوزہ فرد آرمی چیف بن سکتا ہے سیاسی اقدامات کئے جائیں۔ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کو مقدم رکھنا چاہیئے تھا اور بجائے عمران خان کے خلاف چوروں کا ساتھ دے کر عدم اعتماد لانے کے انہیں مجوزہ جنرل سے فوج کی تنظیمی بقا کے لئے استعفی مانگنا چاہیئے تھا۔ٴ لیکن انہوں نے سیاسی رستہ اختار کرلیا ہے۔
میرے خیال میں فوج نے تین سال تک ہر طرح سے عمران خان کے ساتھ کھڑے رہ کر مدد کی ہےجب تک کہ نئے عسکری سربراہ کا مسئلہ درد سر نہی بن گیا۔ ہمارے خان صاحب ایک خاص جنرل کو اپنے اگلے پانچ سال حکومت کرنے کی ٹکٹ سمجھ بیٹھے ہیں اور اس سے اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہی ہیں۔ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر اور لاکھوں کا مجمع سامنے رکھ کر خدا نہ کرے کہ خان صاحب وہ فیصلہ کر بیٹھیں کہ جو ۱۹۹۹ میں دس سالہ مارشل لا کا موجب بنا تھا۔ اس وقت امریکہ بھی ایسے کسی بھی آئیڈیا کو پروموٹ کرنے سے نہی ہچکچائے گا اور ہمارے ہاں مارشل لا لگتا بھی تب ہی ہے جب کہ واشنگٹن سے گرین لائٹ مل جائے۔ یہ میری ریڈنگ ہے کہ اب تک چیف نے دوستانہ ماحول میں ہر صورت عمران خان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے لیکن عمران خان انتہائی اقدام سے ڈرا کر اپنے اہداف حاصل کرنے بارے پر یقین ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ سارے منحرف اور اتحادی اسٹیبلشمنٹ کی چھتری تلے کام کرتے ہیں اس لئے انہیں کچھ دینے کی ضرورت نہی۔
اللہ ہی خیر کرے اور ان مشکل معاشی حالات میں بھلا ہی کرے اور ساتھ ساتھ شریفوں اور زرداریوں سے بھی ملک کو بچائے رکھے۔
پاکستان میں کچھ بھی ان کی مرضی کے بغیر نہی ہوتا عارف صاحب۔ایک طرف فوج کا ترجمان کہتا ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں سیاست میں مت گھسیٹیں اور اگلے ہی دن فوج کا سر براہ اس قسم کے سیاسی بیانات دے رہا ہوتا ہے۔ اب بندہ کس پر یقین کرے؟ فوج کے ترجمان پر یا سربراہ پر؟
View attachment 5760
سوال تو یہ بنتا ہے کہ خان نے نومبر کا انتظار کیوں نہیں کیا اور خان کو کیوں جلدی کرنا پڑ رہی ہے؟ اسکی وجہ حکومت کہ خلاف سازش ہے جس میں باجوہ شریک ہے. فیض حمید کو جلدی لگانے سے باجوہ اور ہمنوا ناراض نہیں بلکہ باجوہ اور ہمنوا کسی اور بات پر پہلے ہی سے خان سے ناراض ہیں جس کو کاؤنٹر کرنے کہ لیے خان فیض حمید پر انحصار کر رہا ہےموجودہ حالات میں باجوہ کے جانے سے عمران کی منشا پوری نہی ہوگی۔ جب باجوہ ریٹائیر ہونگے تو اس وقت فیض حمید تیسرے موسٹ سینئر جنرل ہیں۔ لیکن اب وہ گیارہویں نمبر پر ہیں جو ناممکن ہے۔
بہت برے ہیں لیکن سیاست دان ان سے بھی برے کے پھر انہی کے پاس جا کر الیکشنز پلان کرتے ہیں یا ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ آوے کا آوا ہی ایسا ہے۔ لیکن میرے لئے پہلا سوال سیاست دان سے ہی ہوگا کیونکہ وہ میرا نمائندہ ہے۔ایک مفرور کنجر وزیر اعظم نے اپنے تین ادوار میں کتنے آرمی چیف لگائے، فارغ کئے۔ جب آئین پاکستان نے یہ اختیار وزیر اعظم کو ہی دیا ہے تو یہ جرنیل کون ہوتے ہیں وزیر اعظم کے اس اختیار کو چیلنج کرنے والے؟ کیا وہ آئین پاکستان سے اوپر ہیں؟
is main kon si statement Political hai?ایک طرف فوج کا ترجمان کہتا ہے کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ ہمیں سیاست میں مت گھسیٹیں اور اگلے ہی دن فوج کا سر براہ اس قسم کے سیاسی بیانات دے رہا ہوتا ہے۔ اب بندہ کس پر یقین کرے؟ فوج کے ترجمان پر یا سربراہ پر؟
View attachment 5760
ایسا نہی ہےسوال تو یہ بنتا ہے کہ خان نے نومبر کا انتظار کیوں نہیں کیا اور خان کو کیوں جلدی کرنا پڑ رہی ہے؟ اسکی وجہ حکومت کہ خلاف سازش ہے جس میں باجوہ شریک ہے. فیض حمید کو جلدی لگانے سے باجوہ اور ہمنوا ناراض نہیں بلکہ باجوہ اور ہمنوا کسی اور بات پر پہلے ہی سے خان سے ناراض ہیں جس کو کاؤنٹر کرنے کہ لیے خان فیض حمید پر انحصار کر رہا ہے
بھائی جب آئین پاکستان وزیر اعظم کو اپنی صوابدید کے مطابق ملک کا آرمی چیف لگانے کا اختیار دیتا ہے تو اس معاملہ میں ان کرپٹ جرنیلوں کو کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے؟ اگر یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے تو تین بار جرنیلوں نے ملک کا آئین توڑ کر اس میں انحراف کیا ہے۔ وہاں یہ آرمی چیف لگانے والا اختیار بھی وزیر اعظم سے لیکر آرمی چیف کو دے دیتے کہ اپنا جانشین وہ خود لگا سکتا۔ حد ہو گئی۔ یہ ملک ہے یا پیزا رپبلککیا حکومت کی طرف سے اگلے الیکشن کی خاطر پوری فوج کے نظم کو زیر زبر کرنے پہ ذمہ دار نہیں؟
آپ نے لکھا ہے کہ فوج مذکورہ جنرل سے استعفی مانگ لیتی اگر جنرل فیض تردد کرتے پھر کیا ہوتا؟ بہر کیف آپ نے عمران کے متوقع انتہائی قدم کا ذکر کیا ہے وہ کیا ہو سکتا ہے؟
جنرل فیض سے زیادہ عمران خان کی بوٹ پالش جنرل غفور نے کی تھی۔ الیکشن سے قبول وہ بطور ترجمان فوج کہہ چکے تھے کہ ۲۰۱۸ تبدیلی کا سال ہے۔ اور ان کی بطور ترجمان فوج پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے باجود کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ عمران خان ان کو اگلا آرمی چیف لگا رہا ہے۔ دراصل جنرل فیض سے پرابلم دیگر جرنیلوں کو نہیں، شریفوں کی کتی لیگ اور ان کے پالتو جج فائز عیسی کو ہےبات فیض کو چیف بنانے کی بھی ہے جو کہ کوئی غلط قدم نہی سمجھا جا سکتا۔ میرے مطابق اصل مسئلہ کسی بھی جنرل کو وقت سے ایک سال پہلے ہی اپنا چائس بنا کر اسے پرموٹ کرنے میں ہے نام میں نہی۔ آپ شاید میری بات نہی سمجھے یا میں شاید اچھی تحریر نہی لکھ سکا۔
خدا کا نام مانو بھائی جتنا باجوہ نے اس حکومت کے لئے کیا ہے اتنا تو باپ اپنے سگے بیٹے کے لئے بھی نہیں کرتاسوال تو یہ بنتا ہے کہ خان نے نومبر کا انتظار کیوں نہیں کیا اور خان کو کیوں جلدی کرنا پڑ رہی ہے؟ اسکی وجہ حکومت کہ خلاف سازش ہے جس میں باجوہ شریک ہے. فیض حمید کو جلدی لگانے سے باجوہ اور ہمنوا ناراض نہیں بلکہ باجوہ اور ہمنوا کسی اور بات پر پہلے ہی سے خان سے ناراض ہیں جس کو کاؤنٹر کرنے کہ لیے خان فیض حمید پر انحصار کر رہا ہے
فرض کی خاطر اولاد کی قربانی دینی پڑتی ہےخدا کا نام مانو بھائی جتنا باجوہ نے اس حکومت کے لئے کیا ہے اتنا تو باپ اپنے سگے بیٹے کے لئے بھی نہیں کرتا
?
اس وقت جنرل غفور فوج کی زبان بول رہا تھا اپنی نہی۔ فوج ایک ادارے کے طور پر عمران کو لا رہی تھی۔ غفور ویسے بھی اس وقت جونئیر یعنی میجر جنرل تھا اور نہ اس کا کوئی چانس بنتا تھا۔جنرل فیض سے زیادہ عمران خان کی بوٹ پالش جنرل غفور نے کی تھی۔ الیکشن سے قبول وہ بطور ترجمان فوج کہہ چکے تھے کہ ۲۰۱۸ تبدیلی کا سال ہے۔ اور ان کی بطور ترجمان فوج پی ٹی آئی حکومت کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس کے باجود کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ عمران خان ان کو اگلا آرمی چیف لگا رہا ہے۔ دراصل جنرل فیض سے پرابلم دیگر جرنیلوں کو نہیں، شریفوں کی کتی لیگ اور ان کے پالتو جج فائز عیسی کو ہے
جنرل فیض ابھی پشاور کور کی سربراہی کررہے ہیں ۔ انکو ۶ ماہ سے قبل آرمی چیف نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران خان اگر انتہائی قدم اٹھا کر جنرل باجوہ کو فارغ کر دیتے ہیں تو بھی جنرل فیض فی الحال آرمی چیف نہیں بن سکتےاگر میرا تجزیہ سچ ہے تو لازما ان اقدام سے فوج کے نظم پر اثر پڑا ہوگا اور یہ اسی کا ری ایکشن ہو سکتا ہے۔ اور میں نے ایسے اقدام کو غلط فیصلہ بھی گردانا ہے۔
میں انتہائی اقدام کو تحریر نہی کرنا چاہتا لیکن یہ آپ خود سوچ سکتے ہیں میں نے کافی اشارے دے دئیے ہیں۔ ۱۹۹۹ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔
راحیل نے ن حکومت کے لئے اس سے بھی زیادہ کیا تھا پہلے سالوں میں۔ ایسا ہی ہوتاہےخدا کا نام مانو بھائی جتنا باجوہ نے اس حکومت کے لئے کیا ہے اتنا تو باپ اپنے سگے بیٹے کے لئے بھی نہیں کرتا
?
ابھی تو اس سے دس جنرل سینیئر ہیں جن میں سے چھ یا سات ستمبر میں ریٹائر ہونگے تو ہی فیض ٹاپ فور سینئرز میں آئے گاجنرل فیض ابھی پشاور کور کی سربراہی کررہے ہیں ۔ انکو ۶ ماہ سے قبل آرمی چیف نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران خان اگر انتہائی قدم اٹھا کر جنرل باجوہ کو فارغ کر دیتے ہیں تو بھی جنرل فیض فی الحال آرمی چیف نہیں بن سکتے
سورس؟جنرل فیض ابھی پشاور کور کی سربراہی کررہے ہیں ۔ انکو ۶ ماہ سے قبل آرمی چیف نہیں بنایا جا سکتا۔ عمران خان اگر انتہائی قدم اٹھا کر جنرل باجوہ کو فارغ کر دیتے ہیں تو بھی جنرل فیض فی الحال آرمی چیف نہیں بن سکتے
یہی کہ وزیر اعظم پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ فلاں جنرل کو آرمی چیف نہ بنائیںکونسا غیر قانونی اور غیر آئینی کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں؟ میں نے تو ایسا کچھ نہی لکھا۔