رسول اکرم کی تواضع اورہم

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
رسول اکرمpbuh کی تواضع اورہم



رسول اکرم
pbuh سردارالانبیاء ہیں آپ نے اسریٰ کے روز بیت المقدس میں تمام انبیاءکو نماز پڑھائی۔ آپpbuh کو اللہ تعالیٰ نے معراج عطا کی جو ایک لاکھ 24 ہزار انبیاءومرسلین میں سے کسی کو عطا نہیں کی گئی۔ آپ کو مقام محمود عطا کیا گیا جو کسی نبی یا رسول کو عطا نہیں کیا گیا۔

مقام محمود یہ ہے کہ جب میدان حشر میں کوئی نبی گناہ گاروں کی شفاعت نہیں کرے گا تو آپ
pbuh گناہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے اور آپ کی شفاعت سے لاتعداد انسانوں کو جہنم سے نجات ملے گی اور انہیں جنت نصیب ہوگی۔ آپ کی اس عظمت کے باوجود آپ کے مزاج میں ایسا انکسار اور ایسی تواضع تھی کہ تاریخ انسانی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔

آپ
pbuh کی تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سیدالبشر تھے مگر اپنے اصحاب میں بھی نمایاں ہونا پسند نہ کرتے۔ آپpbuh صحابہ کے درمیان اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ آپ کا انفرادی تشخص باقی نہ رہے۔ نبوت کے آغاز میں اکثر لوگ آپ کو پہچانتے نہیں تھے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ کے باہر سے لوگ ملنے آتے اور آپ کو صحابہ کرام کے درمیان تشریف فرما ہونے کی وجہ سے آپ کو پہچان نہ پاتے۔ چنانچہ وہ کسی کو بھی محمد سمجھ کر اس سے مخاطب ہو جاتے۔ اس صورتحال سے صحابہ کرام ؓ کو بڑی شرمندگی ہوتی۔ چنانچہ صحابہؓ نے آپکی تواضع کی وجہ سے یہ روش اختیارکی کہ جیسے ہی کوئی اجنبی آپ سے ملنے آتا صحابہ کرام حضور اکرم سے الگ ہو کر بیٹھ جاتے تاکہ آنے والا فوراً ہی آپ کو پہچان لے۔

آپ
pbuh صحابہ کرام کے ساتھ کہیں تشریف لے جاتے تو آپpbuh دوسروں سے ممتاز ہوکر آگے آگے چلنے سے گریز فرماتے۔ ایک بار آپpbuh نے صحابہ کرام کے ساتھ جنگل میں قیام کیا۔ صحابہ کرام قیام وطعام کا بندوبست کرنے لگے اور سب نے اپنے لیے کوئی نہ کوئی کام تجویز کیا۔ رسول اکرم نے فرمایا کہ کھانا بنانے کے لیے لکڑیاں میں چن کر لاوں گا۔ صحابہ کرامؓ نے کہاکہ آپ کیوں زحمت فرماتے ہیں لیکن آپ نے لکڑیاں لانے پر اصرارکیا اور آپ کھانا بنانے کے لیے لکڑیاں چن کر لائے۔

غزوہ خندق کے موقع پر خندق کی کھدائی انتہائی دشوارکام تھا اور صحابہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ
pbuh یہ مشقت اختیار کریں۔ لیکن آپ نے عام محنت کش کی طرح خندق کی کھدائی میں حصہ لیا اور اس حال میں کہ آپ صحابہ کرام سے زیادہ بھوکے تھے۔ ایک صحابی نے بھوک کی شکایت کی اور پیٹ پر بندھا ہوا پتھر دکھایا۔ آپ نے یہ سن کر اپنی قمیص اٹھا دی شکایت کرنے والے صحابی نے دیکھا کہ آپ کے شکم مبارک پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں۔

غزوہ بدر میں مسلمانوں کے پاس مال واسباب کی سخت قلت تھی۔ سفرکے لیے ان کے پاس صرف دو گھوڑے اور 70 اونٹ تھے۔ مسلمانوں کی کل تعداد 313 تھی۔ چنانچہ اونٹوں پر باری باری سفرکا معاملہ طے پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ اونٹ پر سوار ہوتے اور کچھ لوگ پیدل سفر کرتے۔ صحابہ کرام کی شدید خواہش تھی کہ آپ اپنی باری پر اونٹ سے ہرگز نہ اتریں لیکن آپ نے مسلسل اونٹ پر بیٹھے رہنا پسند نہ فرمایا اور خود کو ممتاز کرنے سے انکار کر دیا۔

اصحاب صفہ صحابہ کرام ؓ میں وہ لوگ تھے جنہوں نے خود کو دین کے لیے وقف کردیا تھا۔ لیکن یہ لوگ انتہائی نادار تھے۔ ان کی ناداری کا یہ عالم تھا کہ وہ اکثر فاقے سے ہوتے۔ اور جسمانی نقاہت کی وجہ سے اصحاب صفہ نماز پڑھتے ہوئے بے ہوش ہوکر گر پڑتے۔ سب سے زیادہ احادیث روایت کرنے والے ابوہریرہؓ بھی اصحاب صفہ میں سے تھے۔ ابوہریرہ کا بیان ہے کہ ایک دن میں اتنا بھوکا تھا کہ بھوک کی شدت سے راستے پر جا بیٹھا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ابوبکر راستے سے گزرے میں نے انہیں روکا اور ان سے بات کی۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری طرف سے دیکھیں گے تو میری کیفیت کو پہچان لیں گے اور مجھے کچھ کھلا پلا دیں گے مگر ابوبکر ؓ مجھ سے بات کرکے بڑھ گئے۔ تھوڑی دیرکے بعد حضرت عمرؓ وہاں سے گزرے۔ وہ بھی مجھ سے بات کرکے آگے بڑھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد حضوراکرم تشریف لائے اور مجھے دیکھتے ہی میری حالت پہچان گئے۔ مجھے اپنے ساتھ لیا اور کاشانہ نبوت پر تشریف لے گئے۔ پوچھا گھر میں کچھ کھانے کو ہے۔ بتایا گیا کہ دودھ کا ایک پیالہ کہیں سے آیا ہوا ہے۔ حضورا کرم نے ابوہریرہ سے کہا کہ جاو تمام اصحابہ صفہ کو بلا لاو۔ ابوہریرہؓ کو خیال گزرا کہ دودھ کا پیالہ ایک ہے آخروہ کتنے لوگوں کے لیے کفایت کرے گا۔ لیکن رسول اکرم کی موجودگی سے دودھ میں برکت ہوئی۔ تمام اصحابہ صفہ نے پیٹ بھرکر دودھ پیا۔ جب سب دودھ پی چکے تو حضوراکرم نے ابوہریرہ ؓ سے کہا کہ اب صرف ہم دونوں رہ گئے۔ اب تم پیو۔ ابوہریرہؓ بھی سیر ہو کر پی چکے تو رسول اکرم نے خود دودھ پیا۔ مطلب یہ کہ ابوہریرہ اور دیگر اصحابہ صفہ کی طرح آپ بھی بھوکے تھے۔ مگر آپ نے اس موقع پر بھی اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دی۔

آپ
pbuh کی تواضع اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ عام آدمی آپpbuh کو کسی بھی وقت بلاکر کہیں بھی لے کر جاسکتا تھا۔ آپpbuh کسی سے ہاتھ ملاتے تو ازراہ تواضع آپ کبھی اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ الگ نہیں فرماتے تھے۔ ہاتھ ملانے والا آپ کا ہاتھ چھوڑتا تو آپ کا ہاتھ آپ کی طرف لوٹتا ورنہ آپ ہاتھ ملانے والے کے ہاتھ میں ہاتھ دیے دیر تک کھڑے رہتے۔

ایک بار نجاشی کے درباری حبشہ سے مکہ آئے۔ رسول اکرم
pbuh ان کی آمد سے بے حد مسرور ہوئے اور ان کی دعوت کی۔ اور دعوت میں خود مہمانوں کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرام ؓ نے کہا کہ آپ کیوں یہ زحمت کرتے ہیں ہم موجود ہیں۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ ہمارے اصحاب حبشہ گئے تھے تو نجاشی نے ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا تھا۔ چنانچہ میں یہ پسند کروں گا کہ نجاشی کے اصحابہ کا جواباً خود اکرام کروں۔

رسول اکرم
pbuh گھر تشریف لاتے تو اپنے پھٹے ہوئے کپڑے خود سی لیتے ۔ جوتا خود گانٹھ لیتے۔ بکری کا دودھ دوھ لیتے۔ یہاں تک کہ آپ امہات المومنینؓ کا ہاتھ بٹانے کے لیے آٹا گوندھ دیتے۔

آپ
pbuh کو شہد کی ایک قسم بہت مرغوب تھی۔ مگر بعض امہات المومنینؓ کو وہ شہد پسند نہیں تھا۔ چنانچہ ان سب نے طے کرکے یکے بعد دیگرے رسول اکرم سے کہا کہ اس شہد سے بوآتی ہے۔ یہ سن کر آپ نے قسم کھائی کہ آئندہ یہ شہد نہ کھائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ سے فرمایا کہ آپ اپنی بیویوں کے لیے ایک حلال چیز کو اپنے لیے حرام کیوں کیے لیتے ہیں؟

ایک سفرکے دوران بعض منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی کہ اہل ایمان اور سب سے بڑھ کر حضرت عائشہ ؓ کے لیے ایک بحرانی صورتحال پیدا ہوگئی۔ حضرت عائشہ چاہتی تھیں کہ آپ حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کا اعلان کریں۔ لیکن آپ اس حوالے سے وحی الٰہی کا انتظارکرتے رہے اور وحی کے آنے میں کافی دن لگ گئے۔ چنانچہ حضرت عائشہ نے انتہائی ملال کی کیفیت میں یہ عرصہ گزارا۔ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہؓ کی پاک دامنی کی گواہی دی اور رسول اکرم نے وحی کی آمد کی اطلاع خود حضرت عائشہؓ کو دی۔ اس وقت وہاں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عائشہؓ کی والدہ ام رومان بھی موجود تھیں۔ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ بیٹی رسول اکرم کا شکریہ ادا کرو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ میں ان کا شکریہ کیوں ادا کروں میں تو اپنے رب کا شکر ادا کروں گی جس نے میری پاک دامنی کا اعلان فرمایا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کو مارنے لپکے لیکن رسول اکرم حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عائشہؓ کے درمیان آگئے۔ اور پھر آپ نے تبسم فرماتے ہوئے حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔ دیکھو ہم نے تمہیں اس شخص سے بچا لیا

لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ رسول اکرم
pbuh کی اس تواضع کا ہم سے کیا تعلق ہی؟

ہمارا حال یہ ہے کہ تھوڑا سا تقویٰ اور معمولی سا علم ہمیں تکبر میں مبتلا کر دیتا ہے۔
حقیر سا عہدہ اور ذرا سا اختیار ہمیں وی آئی پی بنا دیتا ہے۔
تھوڑی سی دولت اور تھوڑی سی شہرت ہمارا دماغ خراب کردیتی ہے۔
ذرا سی خوبصورتی اور ذرا سی ذہانت ہمیں مریخ پر پہنچا دیتی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا اور انسانوں کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔

تعلقات کا حسن وجمال ان کی فطری برجستگی اور قربت فنا ہوجاتی ہے۔ ہم زندگی اور اس کے مظاہرکو ان کی اصل میں دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔یہاں تک کہ ہم اپنے قریب ترین رشتوں کے لیے بھی کچھ اور ہوجاتے ہیں چنانچہ ہمارے اور لوگوں کے درمیان ایک حجاب آجاتا ہے۔ یہ حجاب ہمیں ہزاروں مشترکہ مسرتوں سے محروم کردیتا ہے۔ ہم محفل میں ہوکر بھی تنہا ہوتے ہیں۔ نہ لوگ ہم پر اپنا اصل ظاہرکرتے ہیں اور نہ ہم دوسروں پر اپنا آپ ظاہر کر پاتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ زندگی ایک مشکل خوبصورتی بن کر رہ جاتی ہے اور اس میں ایک ایسا تصنع درآتا ہے جو زندگی کے سارے جمال اور جلال کو غارت کر دیتا ہے۔


187899_124205877654024_81606_q.jpg
 

aqeel813

Minister (2k+ posts)
Mirza jee! Allah aap ka bhala karay. Allah aapko iska itna ajar de k shumaar kerna namumkin ho. Aap pbuh ki zaat ki azmat sunnay se berh ker iss dunya mein koi aasoodgi aur koi musrrat aur koi lazzat nahin. Allah aap ko iss ki jaza de. Ameen.
 

Kurwaa Such

Voter (50+ posts)
Jazak allah. May allah taala give you and your family reward and keep you on sirat-e-mustaqeem ( ammen sum ameen ).