رنگ روڈ۔۔دوسرا پاناما اسکینڈل

Kashif Rafiq

Prime Minister (20k+ posts)
Javed-5-293x170.jpg


راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔

آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔


وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔


یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔


کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔


بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔


یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔


کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔


اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔


سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔


تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔


حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔


یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔


رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔


مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔


یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔

 

Resilient

Minister (2k+ posts)
ابھی تو یہ کچھ بھی نہیں جس دن پنجاب کی ساری غیر قانونی ہاؤسنگ سوسایٹیوں کو صرف ایک آرڈیننس سے قانونی کرنے کا سکینڈل آیا تو بزدار اور گورنر سرور کی فنکاری کھل کر سامنے آئے گی
 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
Javed-5-293x170.jpg


راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔

آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔


وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔


یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔


کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔


بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔


یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔


کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔


اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔


سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔


تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔


حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔


یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔


رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔


مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔


یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔

دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹا جاوید چوڈ هری جھوٹے کالم لکھنے کا عادی ہے۔
پہلے پیراگراف میں جھوٹ واضح ہو گیا ہے کے کمیشنر کو بلایا۔
یہ پیڈ کالم ہے نون لیگ نے لکھوایا ہے۔

اس حرام کو ملک ریاض، بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور ہزاروں سوسائٹیز پنجاب میں ہیں لوگوں سے مال بٹور کر غائب ہو گئے ھیں اُن پر آج تک ایک کالم نہیں لکھا،
اس حرام کو پیراگون، سیالکوٹ سٹی، گوجرانولہ، لاھور ملتان اور اسلامباد ایئرپورٹ کے پاس دو سو غیر قانون سوسائٹیز نظر نہیں آئیں۔
 
Last edited:

Truthstands

Minister (2k+ posts)
This ring road was planned in showbaz time and some key goons purchased land around it at that time. I know personally someone who purchased land in pennies on adiyala road and chakri road, now making a big society there. The issue is that ring road was to benefit noon league, and becuae IK took qction against these societies and the biggest looser are goon League, PTI was not in the scene at that time.
The column reflect the pain of noon league land mafia. I am not saying a few peanut ? was taken by recent govt officials.
 

Tit4Tat

Minister (2k+ posts)
Shocking, i feel for Imran Khan today, his team is disloyal to him and it is Imran Khan who has to take the daily criticism
 

abdlsy

Prime Minister (20k+ posts)
Javed-5-293x170.jpg


راولپنڈی رنگ روڈ کی کہانی وزیراعظم عمران خان کے دفتر سے شروع ہوئی‘ وزیراعظم کو کسی دوست نے بتایا آپ کے خلاف بھی پاناما اسکینڈل بن چکا ہے۔

آج آپ کی حکومت ختم ہو جاتی ہے تو آپ کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ کافی ہو گی‘ آپ باقی زندگی فائلیں اٹھا کر ایک عدالت سے دوسری عدالت دھکے کھاتے رہیں گے‘ وزیراعظم کے لیے یہ انکشاف پریشان کن تھا‘ وزیراعظم کو دوست نے چند اکاؤنٹ نمبرز‘ چند فون نمبرز‘ چار اعلیٰ سرکاری افسروں کے عہدے اور 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے نام دیے اور وزیراعظم کو کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سے چند سوال پوچھنے کا مشورہ دیا۔


وزیراعظم نے خفیہ تحقیقات کرائیں‘ الزام سچ نکلا‘ وزیراعظم نے کمشنر راولپنڈی کیپٹن محمود کو بلایا اور ان سے صرف ایک سوال پوچھا ’’آپ کو راولپنڈی رنگ روڈ کا روٹ بدلنے اور اٹک لوپ کو اس میں شامل کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا‘‘ کیپٹن محمود نے فوراً جواب دیا ’’مجھے کسی نے نہیں کہا تھا‘‘ وزیراعظم نے دوبارہ پوچھا ’’کیا آپ کو کسی وفاقی وزیر یا اسپیشل ایڈوائزر ٹو پی ایم نے سفارش نہیں کی؟‘‘ کمشنر نے صاف انکار کر دیا۔


یہ انکار وزیراعظم کو برا لگا‘ کیوں؟ کیوں کہ وزیراعظم کے پاس سارا ریکارڈ موجود تھا‘ یہ جانتے تھے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کمشنر راولپنڈی پر اثرانداز ہوئے تھے اور اس اثرورسوخ کی وجہ سے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے چند ماہ میں اربوں روپے کمائے تھے۔


کمشنر کے انکار نے وزیراعظم کے خدشات کو مضبوط بنا دیا اور انھوں نے راولپنڈی کی ساری انتظامیہ کمشنرکیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود‘ ڈپٹی کمشنر راولپنڈی محمد انوار الحق‘ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوکیپٹن (ر) شعیب علی اور اسسٹنٹ کمشنر صدر غلام عباس کو عہدوں سے ہٹا دیا اور چیئرمین چیف منسٹر انسپکشن ٹیم گلزارحسین شاہ کو کمشنر راولپنڈی لگایا اور انھیں راولپنڈی رنگ روڈ کی انکوائری کا حکم دے دیا‘ کمشنر گلزارحسین شاہ نے کام شروع کیا اور 11مئی کو انکوائری رپورٹ آ گئی۔


بیوروکریسی میں گلزار حسین شاہ کی شہرت اچھی نہیں‘ یہ ڈسکہ میں این اے 75کے الیکشن کے دوران کمشنر گوجرانوالہ تھے اور ان پر الیکشن میں اثرانداز ہونے کا الزام لگا تھا مگر اس کے باوجود گلزار حسین کی انکوائری رپورٹ نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا‘ میں نے اپنے 28 سال کے صحافتی کیریئر میں کسی سرکاری افسر کی تیار کردہ اتنی تگڑی اور جامع رپورٹ نہیں دیکھی‘ اس رپورٹ نے ثابت کر دیا اگر سرکاری افسر کام کرنا چاہے تو یہ ایک ہفتے میں تمام تحقیقاتی اداروں اور جے آئی ٹیز کو پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔


یہ رپورٹ ہمارے پورے سسٹم کا نوحہ بھی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے سیاست دان‘ بیوروکریٹس اور طاقتور اداروں کے ریٹائرڈ افسر کس طرح مل کر پورے نظام کو توڑ مروڑکر ایک ایک رات میں عوام کی جیب سے کھربوں روپے نکال لیتے ہیں‘ میں عمران خان کا ناقد ہوں‘ میں چھ سال سے ان پر تنقید کر رہا ہوں لیکن یہ رپورٹ پڑھ کر پہلی مرتبہ مجھے ان پر ترس آیا‘ یہ شخص واقعی ہر طرف سے مفاد پرستوں میں گھرا ہوا ہے‘ سرکاری افسر‘ وزیراعظم کے دوست اورحکمران پارٹی کے عہدیدار ملک کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ملک اور اپنے آپ کو ان سے بچانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن سوال یہ ہے یہ کس کس سے بچے گا؟ اس ملک میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔


کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا پنجاب حکومت نے 2017 میں راولپنڈی پر ٹریفک کا دباؤ کم کرنے کے لیے 40کلومیٹر کی رنگ روڈ بنانے کا فیصلہ کیا‘ پلان بھی بن گیا اور بینک آف چائنہ سے 400 ملین ڈالر لون بھی منظور ہو گیا لیکن منصوبہ شروع ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف کی حکومت ختم ہو گئی اوریہ منصوبہ بھی دوسرے بے شمار منصوبوں کی طرح ٹھپ ہو گیا لیکن پھر یہ اچانک نہ صرف ایکٹو ہو گیا بلکہ اس میں 26کلومیٹر کا اضافہ بھی ہو گیا‘ اس میں اٹک لوپ بھی شامل ہو گئی۔


اسلام آباد کے دو سیکٹر بھی اس میں ڈال دیے گئے اور حکومت کو یہ تاثر بھی دیا جانے لگا ہمیں غیرملکی قرضوں کی ضرورت نہیں‘ ہمارے پاس ایسی کمپنیاں موجود ہیں جو اپنی جیب سے 66کلو میٹر لمبی سڑک بنائیں گی اور ٹول ٹیکس شیئرنگ کے ذریعے اپنی سرمایہ کاری واپس لے لیں گی‘ یہ منصوبہ بظاہر شان دار لگتا تھا لیکن اس کامقصد رنگ روڈ بنانا نہیں تھا‘ اس کے ذریعے 10 ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے مالکان نے لوگوں سے کھربوں روپے جمع کرنا تھے‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے مطابق نوا سٹی کے نام سے راتوں رات ایک ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹرڈ ہوئی۔


سوسائٹی کے پاس 970 کنال زمین تھی لیکن سوسائٹی کے مالک جنید چوہدری نے 20 ہزار فائلیں بنائیں اور مارکیٹ میں ایک ماہ میں یہ ساری فائلیں بیچ دیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ کے بعد مزید تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا فائلیں صرف 20 ہزار نہیں تھیں ان کی تعداد 30 ہزار ہے اور اس میں ہوا بازی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کے صاحب زادے منصور خان پارٹنر ہیں‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ نے سول ایوی ایشن کی طرف سے نوا سٹی کے فوری این او سی پر بھی سوال اٹھایا‘ یہ این او سی حیران کن اسپیڈ سے جاری ہوا تھا‘ جنید چوہدری نے یہ فائلیں رئیل اسٹیٹ مارکیٹنگ کمپنیوں کو بلک میں دیں‘ پراپرٹی ڈیلروں نے سوشل میڈیا پر اشتہارات دیے اور ایک ماہ میں 20 ہزار فائلیں بیچ دیں۔


تحقیقاتی اداروں نے تحقیقات کیں تو پتا چلا صرف ایک ایجنٹ نے ایک ماہ میں 34 کروڑ روپے کمائے‘ آپ باقی کا اندازہ خود لگا لیجیے‘ یہ بھی پتا چلا نیو ائیرپورٹ سوسائٹی کے مالک راجہ سجاد حسین نے بھی رنگ روڈ کے نام پر اندھا دھند سرمایہ کمایا‘ اس کی کمپنی کا نام الآصف ڈویلپر ہے جب کہ لائف اسٹائل کے نام سے جنوری 2020 میں جنید چوہدری نے ایک دوسری کمپنی بھی بنائی اور اس کمپنی نے کمشنر آفس کی معلومات پر تھوڑی سی زمینیں خریدیں اور ہاؤسنگ اسکیموں نے اس زمین کی بنیاد پر دھڑا دھڑ فائلیں بیچنا شروع کر دیں۔


حبیب رفیق گروپ نے رنگ روڈ میں مورت انٹرچینج ڈال کر اسمارٹ سٹی کو بوسٹ دیا اور اپنی سیل میں اضافہ کر لیا‘ کمشنر گلزار حسین کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں کمشنر کیپٹن محمود بے نامی حصے دار ہیں‘ رنگ روڈ سے اس کو بھی بوسٹ ملا اور اس کے مالکان بھی اربوں روپے کھا گئے‘ بلیو ورلڈ سوسائٹی نے بھی بوسٹ لی اور اسلام آباد کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی (ICHS) بھی پیچھے نہ رہی‘ رپورٹ میں میجر جنرل ریٹائرڈ سلیم اسحاق‘ کرنل ریٹائرڈ عاصم ابراہیم پراچہ اور کرنل ریٹائرڈ مسعود کا نام بھی شامل ہے‘ اتحاد ہاؤسنگ سوسائٹی‘ میاں شہباز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری توقیر شاہ اور وزیراعظم کے معاون خصوصی ذلفی بخاری کے رشتے داروں کی زمینوں کا ذکر بھی ہے۔


یہ لوگ پسوال زگ زیگ کے بینی فشریز ہیں‘ یہ انکشاف بھی کیا گیا کمشنر کیپٹن(ر) محمد محمود نے گریڈ 17 کے افسر وسیم علی تابش کو غیرقانونی طور پر اٹک میں پوسٹ کیا‘ اسے رنگ روڈ کے لیے زمینیں خریدنے کی ذمے داری سونپ دی اور اس نے پانچ ارب روپے کی لینڈ ایکوزیشن کر دی۔


رپورٹ میں قرطبہ سٹی اور کمشنر کیپٹن محمود کے دو بھائیوں کا ذکر بھی ہے‘ یہ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پارٹنر بھی تھے اور بے نامی دار بھی‘ وسیم علی تابش بھی ٹاپ سٹی کے مالک کے دوست اور رشتے دار ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی رنگ روڈ میں تبدیلی کا سب سے بڑا ’’بینی فشری‘‘ تھا‘ کمشنر نے رپورٹ کے آخر میں درخواست کی نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے نوا سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ سٹی‘ اتحاد سٹی‘ میاں رشیدہ گاؤں میں موجود 300 بے نامی زمینوں‘ گاؤں تھالیاں میں 200 کنال بے نامی زمین‘ جاندو اور چھوکر گاؤں میں ملٹی پروفیشنل ہاؤسنگ اسکیم کی زمین‘ گاؤں راما میں لائف ریزیڈینشیا‘ اڈیالہ روڈ پر موجود روڈن انکلیو‘ ایس اے ایس ڈویلپرز‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی اور ٹاپ سٹی کے خلاف تحقیقات کی جائیں جب کہ کمشنر راولپنڈی کیپٹن(ر) محمد محمود سمیت اسکینڈل میں ملوث تمام سرکاری افسروں کو نوکری سے فارغ کیا جائے اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے۔


مجھے کل دوپہر پتا چلا ملزمان کے خلاف خفیہ تحقیقات شروع ہو چکی ہیں‘ نوا سٹی کے مالک جنید چوہدری کے دو وفاقی وزراء اور وزیراعظم کے اسپیشل اسسٹنٹ سے روابط بھی نکل آئے ہیں‘ تحائف کی تفصیلات کا علم بھی ہو چکا ہے‘ نوا سٹی کے ایجنٹوں کے اکاؤنٹس‘ فون ڈیٹا‘ جائیدادوں اور بے نامی پراپرٹیز کی فہرستیں بھی بن رہی ہیں‘ کیپیٹل اسمارٹ سٹی‘ نیو ائیرپورٹ سوسائٹی‘ بلیو ورلڈ‘ اتحاد سٹی اور روڈن کے خلاف بھی ثبوت جمع ہو رہے ہیں اور وزیراعظم نے تمام ملزموں کو گرفتار کرنے اور عوام کی رقم واپس دلوانے کا حکم بھی دے دیا ہے‘ وزیراعظم اور ذلفی بخاری کے تعلقات میں بھی دراڑ آ چکی ہے‘ وزیراعظم ان سے یہ توقع نہیں رکھتے تھے‘ ان کی وزارت کے اندر بھی چند فائلیں کھل رہی ہیں اور وہ انکشافات بھی حیران کن ہوں گے۔


یہ ملک کس طرح چل رہا ہے؟ آپ صرف گلزار حسین کی رپورٹ پڑھ لیں‘ آپ کو مزید کچھ پڑھنے کی ضرورت نہیں رہے گی‘ آپ ظلم دیکھیے‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان سیاست دانوں اور بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر کس طرح فضا بناتے ہیں‘ پورے پورے شہر کاغذوں میں بناتے اور پلاٹوں کی فائلیں بنا کر مہینے میں اربوں روپے جمع کر لیتے ہیں اور عوام سستے پلاٹوں اور گھروں کے لالچ میں اپنی عمر بھر کی کمائی سے محروم ہو جاتے ہیں‘ یہ کیسے لوگ ہیں؟ کیا ان کے دل رحم سے بالکل خالی ہو چکے ہیں؟ عمران خان سچ کہتے ہیں اس ملک میں مافیاز کی حکومت ہے اور یہ مافیاز ہر حکومت کو مفلوج کر کے رکھ دیتے ہیں۔

Chuloe he got a huge leefafa to create a fitna jalee javed fraudeeyae
 

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
When all of this was happening, jeda was under the table of IK and was sucking off his balls. Hence , first hand report
 

Iconoclast

Chief Minister (5k+ posts)
In the business of getting to the truth of things in a world where your biggest asset is the regard people hold you in and scarcest usually wealth, this feeble minded excuse for a human being opted for unconscionable wealth. What he lacks is comfort, that very despair forces him to resort to sophistry. Little does he know, that will compound his agony even further.
I feel sorry for all those who think journalistic media is the source of unfiltered and unadulterated information regarding events that are critical to them. All they do is sensationalize, trivialize and distort facts to the point where the line between fact and fiction becomes a blur diffusion.
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
In the business of getting to the truth of things in a world where your biggest asset is the regard people hold you in and scarcest usually wealth, this feeble minded excuse for a human being opted for unconscionable wealth. What he lacks is comfort, that very despair forces him to resort to sophistry. Little does he know, that will compound his agony even further.
I feel sorry for all those who think journalistic media is the source of unfiltered and unadulterated information regarding events that are critical to them. All they do is sensationalize, trivialize and distort facts to the point where the line between fact and fiction becomes a blur diffusion.

o bhae Urdu main likh lay yahan koe Shakespeare ka act nahen chal raha
 

Islamabadiya

Chief Minister (5k+ posts)
This ring road was planned in showbaz time and some key goons purchased land around it at that time. I know personally someone who purchased land in pennies on adiyala road and chakri road, now making a big society there. The issue is that ring road was to benefit noon league, and becuae IK took qction against these societies and the biggest looser are goon League, PTI was not in the scene at that time.
The column reflect the pain of noon league land mafia. I am not saying a few peanut ? was taken by recent govt officials.
So pti ministers thought we should make some money too
Think like Pakistani pls and demand a judicial enquiry (including showbaz sharif time)
 

Worldtronic

Senator (1k+ posts)
دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹا جاوید چوڈ هری جھوٹے کالم لکھنے کا عادی ہے۔
پہلے پیراگراف میں جھوٹ واضح ہو گیا ہے کے کمیشنر کو بلایا۔
یہ پیڈ کالم ہے نون لیگ نے لکھوایا ہے۔

اس حرام کو ملک ریاض، بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی اور ہزاروں سوسائٹیز پنجاب میں ہیں لوگوں سے مال بٹور کر غائب ہو گئے ھیں اُن پر آج تک ایک کالم نہیں لکھا،
اس حرام کو پیراگون، سیالکوٹ سٹی، گوجرانولہ، لاھور ملتان اور اسلامباد ایئرپورٹ کے پاس دو سو غیر قانون سوسائٹیز نظر نہیں آئیں۔

This scandal 1st time by Imran Khan Riaz PTI media team favourite anchor.
The Zulfi Bukhari is the same who spent 1,7500000 on PMIK Umrah, Khan is not child that cannot understand that he is spending Rs1,7500000 and moreover 90% Khan UK visit sponsored by this Zulfi.


 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
Ring road type scandal is a routine matter for parliamentarians and bureaucrats to get rich, But the difference is Imran khan who is not only against such norms but is also not hesitant to take action against his own ministers and government.

But Lifafa chaudhry is not giving credit to Imran khan for action against his own ministers and government, but is using the title as a trap for people to blame Imran khan for all this.