رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
شہباز گل کبھی برابر بیٹھا کرتا تھا اب دروازے کا چوکیدار بن کر بیٹھتا ہے
دروازے کا شیرو
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں انہیں کے کوچے میں ہم آج گنہ گاروں کی طرح
دعویٰ تھا جنہیں ہمدردی کا خود آ کے نہ پوچھا حال کبھی
محفل میں بلایا ہے ہم پہ ہنسنے کو ستم گاروں کی طرح
سو روپ بھرے جینے کے لیے بیٹھے ہیں ہزاروں زہر پئے
ٹھوکر نہ لگانا ہم خود ہیں گرتی ہوئی دیواروں کی طرح