زندہ ہے بھٹو مر گے ہم

QaiserMirza

Chief Minister (5k+ posts)
images


زندہ ہے بھٹو مر گے ہم

بھٹو کے دور میں کس بے رحمی سے ہم نے اپنی انڈسٹری اپنے ہی ہاتھوں تباہ کی اور آج پچاس سال بعد کس بے بسی سے ہم دنیا سے التجا کرتے پھر رہے ہیں کہ صاحب پلیز اپنی کچھ صنعتیں پاکستان منتقل کر دیجیے ۔ اللہ عمر دراز کرے بھٹو صاحب تو آج بھی زندہ ہیں لیکن پاکستان کی معیشت کو انہوں نے ایسا زندہ درگور کیا کہ ہم آج تک نہیں سنبھل پائے ۔

ساٹھ کی دہائی تک پاکستان میں انڈسٹری فروغ پا رہی تھی ۔ اسفہانی ، آدم جی ، سہگل ، جعفر برادرز ، رنگون والا، افریقہ والا برادرز جیسے ناموں نے پاکستان کو انڈسٹریلائزیشن کے راستے پر ڈال دیا تھا ۔ دنیا پاکستان کو انڈسٹریل پیراڈائز کہا کرتی تھی ۔ ماہرین کا کہنا تھا ترقی کی رفتار یہی رہی تو پاکستان ایشیاء کا ٹائیگر بن جائے گا ۔ یہاں فیکٹریاں ، ملیں اور کارخانے لگ رہے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کا کسان بحران کا شکار ہو گیا کیونکہ اس کے پاس پٹ سن کی فصل تو تھی لیکن اس کی ملیں کلکتہ میں رہ گئی تھیں. آدم جی گروپ بروئے کار آیا اور نراین گنج میں دنیا کی سب سے بڑی جیوٹ مل قائم کر دی.

بجائے ان کاروباری خاندانوں کے مشکور ہونے کے کہ وہ معاشی سرگرمی کو زندہ رکھے ہوئے تھے ہمارے ہاں سرمایہ دار کو ہمیشہ دشمن سمجھا گیا. رہی سہی کسر بھٹو کے سوشلزم نے پوری کر دی ۔ ہمارے ہاں نظمیں پڑھی جانے لگیں ’’ چھینو مل لٹیروں سے ‘‘ ۔ چنانچہ ایک دن بھٹو صاحب نے نیشنلائزیشن کے ذریعے یہ سب کچھ چھین لیا ۔ لوگ رات کو سوئے تو بڑے وسیع کاروبار کے مالک تھے صبح جاگے تو سب کچھ ان سے چھینا جا چکا تھا ۔

بھٹو نے 31 صنعتی یونٹ، 13 بنک ،14 انشورنش کمپنیاں ،10 شپنگ کمپنیاں اور 2 پٹرولیم کمپنیوں سمیت بہت کچھ نیشنلائز کر لیا ۔ سٹیل کارپوریشن آف پاکستان ، کراچی الیکٹرک، گندھارا انڈسٹریز ، نیشنل ریفائنریز، پاکستان فرٹیلائزرز، انڈس کیمیکلز اینڈ اندسٹریز، پاکستان سٹیلز، حبیب بنک ، یونائیٹڈ بنک ، مسلم کمرشل بنک ، پاکستان بنک ، بینک آف بہاولپور ، لاہور کمرشل بنک ، کامرس بنک ، آدم جی انشورنس، حبیب انشورنس، نیو جوبلی، پاکستان شپنگ ، گلف سٹیل شپنگ، سنٹرل آئرن ایند سٹیل سمیت کتنے ہی اداروں کو ایک حکم کے ذریعے ان کے جائز مالکان سے چھین لیا گیا ۔

مزدوروں اور ورکرز کو خوش کرنے کے لیے سوشلزم کے نام پر یہ واردات اس بے ہودہ طریقے سے کی گئی کہ شروع میں کہا گیا حکومت ان صنعتوں کا صرف انتظام سنبھال رہی ہے جب کہ ملکیت اصل مالکان ہی کی رہے گی ۔ پھر کہا گیا ان ان صنعتوں کی مالک بھی حکومت ہو گی ۔ پہلے کہا گیا کسی کو کوئی زر تلافی نہیں ملے گا ۔ پھر کہا گیا دیا جائے گا ۔ کبھی کہا گیا مارکیٹ ریٹ پر دیا جائے گا پھر کہا گیا ریٹ کا تعین حکومت کرے گی ۔ یوں سمجھیے ایک تماشا لگا دیا گیا ۔

مزدور اور مالکان کے درمیان معاملات خراب تھے یا دولت کا ارتکاز ہو رہا تھا تو اس معاملے کو اچھے طریقے سے بیٹھ کر حل کیا جا سکتا تھا ۔ مزدوروں کی فلاح کے لیے کچھ قوانین بنائے جا سکتے تھے لیکن بھٹو کا مسئلہ اور تھا ۔ وہ مزدور اور کارکن کو یہ تاثر دینا چاہتے تھے کہ سرمایہ داروں کے خلاف انہوں نے انقلاب برپا کر دیا ہے ۔ یہ تاثر قائم کرتے کرتے انہوں نے پاکستانی معیشت کو برباد کر دیا ۔
عمران خان کے مشیر رزاق داءود کے دادا سیٹھ احمد داءود کو جیل میں ڈال کر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ۔ بعد ازاں وہ مایوس ہو کر امریکہ چلے گئے اور وہاں تیل نکالنے کی کمپنی بنا لی ۔ اس کمپنی نے امریکہ میں تیل کے چھ کنویں کھودے اور کامیابی کی شرح 100 فیصد رہی ۔ آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم تیل کی تلاش کی کھدائی کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کے محتاج ہیں ۔

صادق داءود نے بھی ملک چھوڑ دیا ، وہ کینیڈا شفٹ ہو گئے ۔ ایم اے رنگون والا ایک بہت بڑا کاروباری نام تھا ۔ وہ رنگون سے بمبئی آئے اور قیام پاکستان کے وقت سارا کاروبار لے کر پاکستان آ گئے ۔ وہ یہاں ایک یا دو نہیں پینتالیس کمپنیاں چلا رہے تھے ۔ انہوں نے بھی مایوسی اور پریشانی میں ملک چھوڑ دیا، وہ ملائیشیا چلے گئے ۔ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی والے سی ایم لطیف بھی بھارت سے پاکستان آ چکے تھے اور بادامی باغ لاہور میں انہوں نے پاکستان کا سب سے بڑا انجینئرنگ کمپلیکس قائم کیا تھا جو ٹویوٹا کے اشتراک سے کام کر رہا تھا ۔ یہ سب بھی ضبط کر لیا گیا ۔ انہیں اس زمانے میں ساڑھے تین سو ملین کا نقصان ہوا اور دنیا نے دیکھا بٹالہ انجینئرنگ کے مالک نے دکھ اور غم میں شاعری شروع کر دی ۔

رنگون والا ، ہارون ، جعفر سنز ، سہگل پاکستان چھوڑ گئے ۔ کچھ نے ہمت کی اور ملک میں ہی رہے کیسے دادا گروپ ، آدم جی، گل احمد اور فتح لیکن ان کا اعتماد یوں مجروح ہوا کہ پھر کسی نے انڈسٹریلائزیشن کو سنجیدہ نہیں لیا ۔ جو ملک چھوڑ گئے ان مینں سے کچھ اس وقت واپس آ گئے جب بھٹو کا اقتدار ختم ہوا لیکن وہ پھر انڈسٹری لگانے کی ہمت نہ کر سکے ۔ احمد ابراہیم کی جعفر برادرز اس زمانے میں مقامی طور پر کار بنانے کے قریب تھی ۔ ہم آج تک کار تیار نہیں کر سکے ۔ فینسی گروپ اکتالیس صنعتیں تباہ کروا کے یوں ڈرا کہ اگلے چالیس سالوں میں اس نے صرف ایک فیکٹری لگائی ، وہ بھی بسکٹ کی ۔ ہارون گروپ کی پچیس صنعتیں تھیں ، وہ اپنا کاروبار لے کر امریکہ چلے گئے ۔ آج پاکستان میں ان کے صرف دو یونٹ کام کر رہے ہیں ۔

کاروباری خاندان ملک چھوڑ گئے یا پاکستان میں سرمایہ کاری سے تائب ہو گئے ۔ ادھر بھٹو نے صنعتیں قبضے میں تو لے لیں لیکن چلا نہ سکے ۔ ان اداروں میں سیاسی کارکنوں کی فوج بھرتی کر دی گئی ۔ مزدور اب سرکار کے ملازم تھے ، کام کرنے کی کیا ضرورت تھی ۔ نتیجہ یہ نکلا ایک ہی سال میں قومیائی گئی صنعت کا 80 فیصد برباد ہو گیا ۔ زرعی گروتھ کی شرح میں تین گنا کمی واقع ہوئی ۔ نوبت قرضوں تک آ گئی ۔ جتنا قرض مشرقی اور مغربی یعنی متحدہ پاکستان نے اپنی پوری تاریخ میں لیا تھا اس سے زیادہ قرض بھٹو حکومت نے چند سالوں میں لے لیا ۔ خطے میں سب سے زیادہ افراط زر پاکستان میں تھا ۔ ادائیگیوں کے خسارے میں 795 فیصد اضافہ ہو گیا ۔ سٹیٹ بنک ہر سال ایک رپورٹ پیش کرتا ہے ۔ بھٹو نے چار سال سٹیٹ بنک کو یہ رپورٹ ہی پیش نہ کرنے دی تا کہ لوگوں کو علم ہی نہ ہو سکے کتنی تباہی ہو چکی ۔

ٓہم بھی کیا لوگ ہیں، اپنی ہی قبر کھودنے کو تیار رہتے ہیں





(Copied from Alia Jamshed Khakwani)
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
رہی سہی کسر کوٹہ سسٹم نے نکال دی۔ قابل افراد منہ دیکھتے رہیں اور ان سے کم قابلیت والے ملازمت حاصل کر لیں۔
 

shamsheer

Senator (1k+ posts)
جب تک وطن عزیز میں شخصیت پرستی زندہ ہے انسانیت روز مرتی رہے گی۔ انسان بندگی کے لئے پیدا ہوا ہے، اگر خدا کی بندگی سے بھاگے گا تو بندوں کی بندگی نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ کچھ اللہ کے بندے ہوتے ہیں کچھ بندوں کے اور کچھ بتوں کے،
 

such786

Senator (1k+ posts)
jub tuk marie huie bhoto ko loug apnie hathoon sie nahi mar daitie tub tuk yeh khudh yah in kie bachie martie rahien gie.
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
بھٹو کے بغض میں سرمایہ داروں کے قصیدے پڑھنا اچھی بات نہیں
. . . . .
دولت اگر چند ہاتھوں میں سمٹ جائے تو کوئی اچھی بات نہیں ، اسلام میں اس کی بھرپور مذمت ہے
بھٹو صاحب نے ایک غلط کام کو غلط کام کے ذریے ختم کرنا چاہا اور ناکام رہے
ان کو ناکام کرنے میں ہمارے سیاست دانوں کا بھی قصور تھا کہ انہوں نے سرکاری اداروں میں اپنے نا اہل پالتو بھرتی کرنے شروع کیے
.. . . . .
بھٹو کے بعد کوئی بھی درستگی نہ کر سکا . صرف جنرل مشرف صاحب تھے جنہوں نے ادارے بنائے ، انڈسٹری چلائی اور لوگوں کو روزگار دیا . الله ان کو جزائے خیر دے . آمین
 
Last edited:

bigfootyetee

Senator (1k+ posts)
haramzadeh bhutto key bad kitniy industry lagiy hey ?kiya bakwas ker rahey ho? tum jeson ka marna behter hey. tum apney bap harrami ziaulhaq key barey mey kabhi kuch na kaho gey. us key daur meyn industry ka kiya hal huva. us ney tumheyn whabiyet ki lanet key ilava mazhab ki bhang diy is key ilava bhi kuch kiya us bharhey ney?
 

Constable

MPA (400+ posts)

آنجہانی جنرل ضیاع الیک نے پاکستان کے ساتھ جو یکی کی ہے اُس کا توڑ تریاق صدیوں تک نہیں ہونا۔ آج پاکستان کے نوے فیصد مسائل کا ذمہ دار جنرل ضیاع الیک جہنمی ہے، لاش کی بجائے جس کا کوئلہ بہالپور سے لاکر اسلام آباد میں دفنایا گیا تھا۔
جنرل ضیاع الیک کی چیدہ چیدہ یکیاں:۔

نواز شریف اور اہلخانہ مع آل اولاد پاکستان پر مسلط کرنا
سیاست میں پیسہ، پلاٹ، پرمٹ اور اقربا پروری کے ناسور کی بنیاد ڈالنا
اسلام کے نام پر گیارہ سال منافقت کا بازار گرم رکھنا
ڈنگر کلاس مولویوں کو مسیتوں سے نکال کر اقتدار کے مزے چکھا کر قوم پر مسلط کرنا
غریب اور نادار پاکستانی بچے ڈالروں کے عوض افغانستان میں ہلاک کروانا، نتیجہ انتہا پسندی اور طالبنائزیشن
پاکستان کو امریکہ کی لونڈی بنا کر بدلے میں اپنی پلید حکومت کو طول دینا
صحافت میں مجیب الرحمان شامی جیسے لالچی اور منحوس لوگوں کی کھیپ مسلط کر کے قوم کا مردہ خراب کرنا
ہر قومی ادارے پراہل افراد کی بجائے اپنےپسندیدہ لوطیے مسلط کرنا تاکہ امکان بغاوت کم از کم رہے
فوج جیسے پروفیشنل ادارے کو کو مذید مسلمان بنانے کی ڈرامے بازیوں میں الجھا کر مذید ناکارہ بنانا

جنرل ضیاع الیک ولد الزناء کی نجاستوں اور گمراہ کُن کرتوتوں کی داستان طویل بھی ہے اور سیاہ بھی۔
 
Last edited:

Constable

MPA (400+ posts)
بھٹو کے بغض میں سرمایہ داروں کے قصیدے پڑھنا اچھی بات نہیں
. . . . .
دولت اگر چند ہاتھوں میں سمٹ جائے تو کوئی اچھی بات نہیں ، اسلام میں اس کی بھرپور مذمت ہے
بھٹو صاحب نے ایک غلط کام کو غلط کام کے ذریے ختم کرنا چاہا اور ناکام رہے
ان کو ناکام کرنے میں ہمارے سیاست دانوں کا بھی قصور تھا کہ انہوں نے سرکاری اداروں میں اپنے نا اہل پالتو بھرتی کرنے شروع کیے
.. . . . .
بھٹو کے بعد کوئی بھی درستگی نہ کر سکا . صرف جنرل مشرف صاحب تھے جنہوں نے ادارے بنائے ، انڈسٹری چلائی اور لوگوں کو روزگار دیا . الله ان کو جزائے خیر دے . آمین

یہ سارے ہی جنرل ضیاع الیک ہوتے ہیں۔
جنرل مشرف اپنی نوعیت کا جنرل ضیاع الیک تھا ۔ دیگر سیاہ کرتوتوں کے ہمراہ جس نے روشن خیالی کے نام پر عجیب اوٹ پٹاگ ثقافت متعارف کروانا شروع کر دی جس کا دھرتی سے کچھ لینا نہ ہماری روایات سے کچھ دینا۔

اگر وہ بندے کا پتر ہوتا تو اپنا بارہ نکاتی اصلاحاتی ایجنڈا پورا کرتا جس میں سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا بھی شامل تھا لیکن اُس نے بھی اپنے پیش رو کی طرح امریکہ اور سعودی عرب کے سامنے شلوار اتار کر لیٹنے کی روایت برقرار رکھی اور نواز شریف کومع اہل و عیال اور سوٹ کیسز جہاز میں لوڈ کروا کے سعودیہ ایکسپورٹ کر دیا۔ جب پولیس والا چوروں کو جہازوں میں بٹھا کر پروٹوکول سے رخصت کرے تو اُس حرمای کیلئے کونسا لفظ مناسب ہوگا؟
جن چوروں کا لٹکانا تھا انہی کے ساتھ این آر او کر کے پھر انہی سے صدارت کی بھیک مانگتا رہا۔ دوسری طرف سعودی عرب نے اپنا مہرہ (نواز شریف) واپس پاکستان لا کر ہمارے اوپر مسلط کیا۔

قصہ کوتاہ: یہ سارے کنجر فوج کی پیداوار ہیں اور انکے آپسی رشتے خونی رشتوں سے زیادہ مظبوط ہیں۔
 
Last edited: