سلطنت غلاماں کے حکمرانوں سے عرض ہے کہ یہودی حکمران نیتن یاہو نے پاکستان کے خلاف بیان دیا ہے ۔ اور جان بوجھ کر نام لینے کی بجاے بھارت کا ہسایہ کہہ کر مخاطب کیا ہے یعنی وہ ہمیں بھارت کی دھمکی دے رہا ہے ۔اس بیان پر آپ نے خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے اور اب تک اس کا جواب کیوں نہیں دیا؟
او بزدل غلامو سعودیہ کی غلامی سے نکلتے نکلتے پھر ادھر ہی جا پھنسے ہو اسرائیل کے حاکم کا جواب تو دو ورنہ حکومت چھوڑ کر کسی جرات والے بندے کو آنے دو جو یہودی حاکم کو جواب دے کہ چاہے ساری دنیا تمہارے مظالم پر آنکھیں بند کر لےہم نہیں کریں گے اور نہ ہی ہم تم کو فلسطینیوں کو لاوارثوں کی طرح مارنے کی اجازت دیں گے۔ کچھ عملی اقدامات بھی ایک اچھا جواب ہوسکتا ہے مثلا فلسطینیوں کے لئے ایک مشترکہ افواج کا قیام اور ویسٹ بینک میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنانے کی طرف پیش رفت کی جاے
دنیا کے معزز ممالک میں خارجہ پالیسی پر بیان دینے سے پہلے تمام پہلووں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جبکہ غلامستان کے حکمران سر جوڑ کر اس بات کا مشورہ کرتے ہیں کہ انکی سٹیٹمینٹ ایسی ہونی چاہئے جس سے امریکہ، سعودیہ یا اسرائیل ناراض نہ ہوں؟ لکھ لعنت ایسے جینے پر
غلامستانی پارلیمینٹ کی مشترکہ قرارداد کا سن کر ان کی چالاکی اور منافقت پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ فلسطینیوں سے یکجہتی کی قرارداد منظور کی گئی تاکہ امریکہ اور اسرائیل ناراض نہ ہوں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسرائیل کی مذمت میں کوی قرارداد منظور کی جاتی مگر ایسا کرتے وقت جو موت انہیں پڑتی اس سے انکی غلامانہ سوچ کا پتا چلتا ہے
کل ایک خاتون اینکر سرکاری مولوی اشرفی سے پوچھ رہی تھی کہ آپ نے پاکستان کیلئے سعودیہ میں کیا دعائیں کیں، کیا کچھ مانگا ،کیا احساسات تھے؟ گویا خاتون فل مستی کے موڈ میں تھی اور سرکاری مولوی بھی ایسے نرم سوالات پر اپنا گٹر سے بھی بڑا منہ کھول کر لہک لہک کر بول رہا تھا۔ ظاہر ہے کوی اس سے یہ کیوں پوچھے گا کہ فلسطین اور کشمیر کے بچے جوانی دیکھے بغیر ہی مر رہے ہیں تو تم حرامخور ادھر بیٹھے مزے کیوں کررہے ہو ادھر جاو اور انکے ساتھ جیو یا مرو۔ ان ملاوں کو ہندووں کی گاے ماتا کی طرح مقدس بنانے میں سب ہی آگے آگے ہیں کیا صحافی اور کیا اینکر اور کیا سیاستدان اور کیا فوجی
اینکر ان بچگانہ سوالات کی بجاے سرکاری مولوی سے یہی پوچھ لیتی کہ تمہاری پاکستانی حکومت نے فلسطییوں کے لئے کیا عملی اقدامات کئے ہیں۔ تو کوی بات بھی تھی؟
کل شاہ محمود سے بھی یہی پوچھا گیا مگر اس نے بھی جمعہ کو یکجہتی کا دن منانے کے علاوہ کچھ نہیں بتایا جس سے بس کرونا ہی پھیلنا ہے۔
ہمیں اسرائیل کی مذمتی قرارداد منظور کروانی ہوگی اور فلسطینیوں کی حفاظت کے لئے امداد نہیں فوج بھجوانا ہوگی اکیلی قرارداد بغیر عمل کے اس نصیحت کی طرح رائیگاں جاے گی جس میں عمل نہ ہو
او بزدل غلامو سعودیہ کی غلامی سے نکلتے نکلتے پھر ادھر ہی جا پھنسے ہو اسرائیل کے حاکم کا جواب تو دو ورنہ حکومت چھوڑ کر کسی جرات والے بندے کو آنے دو جو یہودی حاکم کو جواب دے کہ چاہے ساری دنیا تمہارے مظالم پر آنکھیں بند کر لےہم نہیں کریں گے اور نہ ہی ہم تم کو فلسطینیوں کو لاوارثوں کی طرح مارنے کی اجازت دیں گے۔ کچھ عملی اقدامات بھی ایک اچھا جواب ہوسکتا ہے مثلا فلسطینیوں کے لئے ایک مشترکہ افواج کا قیام اور ویسٹ بینک میں اس کا ہیڈ کوارٹر بنانے کی طرف پیش رفت کی جاے
دنیا کے معزز ممالک میں خارجہ پالیسی پر بیان دینے سے پہلے تمام پہلووں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ جبکہ غلامستان کے حکمران سر جوڑ کر اس بات کا مشورہ کرتے ہیں کہ انکی سٹیٹمینٹ ایسی ہونی چاہئے جس سے امریکہ، سعودیہ یا اسرائیل ناراض نہ ہوں؟ لکھ لعنت ایسے جینے پر
غلامستانی پارلیمینٹ کی مشترکہ قرارداد کا سن کر ان کی چالاکی اور منافقت پر رونے کو جی چاہتا ہے۔ فلسطینیوں سے یکجہتی کی قرارداد منظور کی گئی تاکہ امریکہ اور اسرائیل ناراض نہ ہوں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اسرائیل کی مذمت میں کوی قرارداد منظور کی جاتی مگر ایسا کرتے وقت جو موت انہیں پڑتی اس سے انکی غلامانہ سوچ کا پتا چلتا ہے
کل ایک خاتون اینکر سرکاری مولوی اشرفی سے پوچھ رہی تھی کہ آپ نے پاکستان کیلئے سعودیہ میں کیا دعائیں کیں، کیا کچھ مانگا ،کیا احساسات تھے؟ گویا خاتون فل مستی کے موڈ میں تھی اور سرکاری مولوی بھی ایسے نرم سوالات پر اپنا گٹر سے بھی بڑا منہ کھول کر لہک لہک کر بول رہا تھا۔ ظاہر ہے کوی اس سے یہ کیوں پوچھے گا کہ فلسطین اور کشمیر کے بچے جوانی دیکھے بغیر ہی مر رہے ہیں تو تم حرامخور ادھر بیٹھے مزے کیوں کررہے ہو ادھر جاو اور انکے ساتھ جیو یا مرو۔ ان ملاوں کو ہندووں کی گاے ماتا کی طرح مقدس بنانے میں سب ہی آگے آگے ہیں کیا صحافی اور کیا اینکر اور کیا سیاستدان اور کیا فوجی
اینکر ان بچگانہ سوالات کی بجاے سرکاری مولوی سے یہی پوچھ لیتی کہ تمہاری پاکستانی حکومت نے فلسطییوں کے لئے کیا عملی اقدامات کئے ہیں۔ تو کوی بات بھی تھی؟
کل شاہ محمود سے بھی یہی پوچھا گیا مگر اس نے بھی جمعہ کو یکجہتی کا دن منانے کے علاوہ کچھ نہیں بتایا جس سے بس کرونا ہی پھیلنا ہے۔
ہمیں اسرائیل کی مذمتی قرارداد منظور کروانی ہوگی اور فلسطینیوں کی حفاظت کے لئے امداد نہیں فوج بھجوانا ہوگی اکیلی قرارداد بغیر عمل کے اس نصیحت کی طرح رائیگاں جاے گی جس میں عمل نہ ہو