سموگ کے اثرات پر ماہرین کی رائے ،حکومتی حکمت عملی:سموگ میں بڑا حصہ کس کا؟

smog-and-pti.jpg


گزشتہ کچھ سالوں سے تقریباً ہر پاکستانی سموگ نامی آفت سے باخبر ہے۔ یہ دراصل پیلی یا کالی دھند ہے جو کہ انسانی صحت کیلئے مضر ہے۔ یہ فضا میں آلودگی کے باعث جنم لیتی ہے۔ سموگ باریک ذرات سے مل کر بنتی ہے جو کہ مٹی، پانی اور گیس کی مدد سے وجود اختیار کرتے ہیں۔

صنعتوں کے گاڑیوں اور کوڑا جلانے سے بھی سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ کی بڑی مقدار بھی فضا میں شامل ہو جاتی ہے اور جب سورج کی کرنیں اس پر پڑتی ہیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو مزید آلودہ کر دیتے ہیں۔

سن 1952 میں 5 سے 9 دسمبر تک دنیا کی تاریخ کے آلودہ ترین دن تھے جنہیں گریٹ سموگ آف لندن کے طور پر جانا جاتا ہے یہ پہلی بار تھا کہ سموگ دیکھنے میں آئی اور اس سے ہزاروں لوگ جانوں سے گئے۔ اس کے بعد پہلی بار دنیا نے کلائمیٹ چینج کو سنجیدہ طور پر لیا اور اس کے لیے قوانین بنائے گئے۔


ماہر ماحولیات مریم شبیر عباسی کا کہنا ہے کہ ریسرچ کے مطابق سموگ کے پیدا ہونے میں بڑا حصہ ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بی آر ٹی، میٹرو وغیرہ بہت کم ہیں تو زیادہ لوگ انفرادی سواری استعمال کرتے ہیں جس سے اسموگ بڑھتی ہے۔

مریم شبیر عباسی نے کہا کہ دوسرا نمبر صنعتوں کا ہے۔ ان پر درست طریقے سے چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے وہ بھی سموگ بڑھنے کا ذریعہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن علاقوں میں اسموگ ہوتی ہے وہیں زیادہ تر صنعتیں ہوتی ہیں یہ بھی سموگ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ بنتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تیسرے نمبر پر فصلوں کی باقیات جلائے جانے سے جو دھواں پیدا ہوتا ہے وہ بھی ماحول کو مزید آلودہ کرنے میں کردار ادا کرتا ہے اور سموگ بڑھنے کا باعث بنتا ہے۔ ماہر ماحولیات نے کہا کہ ویسٹ منیجمنٹ کے ذریعے جو کوڑا جلایا جاتا ہے وہ بھی اس میں بہت کردار ادا کرتا ہے حالانکہ اس سے متعلق ایسا نہیں سوچا جاتا مگر یہی حقیقت ہے۔

محکمہ ماحولیات کے ڈائریکٹر انوائرمنٹ پروٹیکشن ڈاکٹر عامر فاروق کا کہنا ہے کہ جو فارمولا ہم استعمال کرتےہیں وہ یونیورسل فارمولا ہے امریکا سے ایشیا تک ہر جگہ یہی فارمولا استعمال ہوتا ہے۔

ماہر زراعت ڈاکٹر احمد سلیم اختر کا کہنا ہے کہ پہلے زراعت کے طریقہ کار مختلف تھے جن علاقوں میں چاول اگتا تھا وہاں گندم کم ہوتی تھی یا جس جگہ گندم ہوتی تھی وہاں لوگ چاول کم یا ایک آدھ فصل حاصل کرتے تھے مگر اب طریقہ کار بدلنے اور زراعت میں جدت آنے سے لوگ چاول کی فصل کاشت کرنے کے فوراً بعد گندم کی بوائی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کیلئے فصلوں کی باقیات کو جلا دیا جاتا ہے جو کہ فضائی آلودگی اور سموگ کا باعث بنتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ یہ طریقہ بھارتی پنجاب سے شروع ہوا ہے اور اب پاکستانی پنجاب میں بھی اس طریقے کے ساتھ کاشتکاری کی جاتی ہے جو کہ غلط ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ماحولیات ملک امین اسلم نے بتایا کہ چاول کی فصل میں رہ جانے والے تنے کو تلف کرنے کیلئے ایک مشین تیار کی گئی ہے جس کو ہیپی سیڈر کر نام دیا گیا ہے۔ فی الحال 500 مشینیں تیار کر کے کسانوں کو دی گئی ہیں جو کہ آنے والے وقت میں 5000 کے قریب بنانے کا ارادہ ہے یہ مشینیں سبسڈی پر کسانوں کو فراہم کی جائیں گی۔

معاون خصوصی ملک امین اسلم نے کہا کہ اس مشین کی مدد سے چاول کی باقیات کو جلانے سے روکا جا سکتا ہے۔ اس مشین کا فائدہ یہ ہے کہ یہ اس تنے کو دوبارہ زمین میں بو دیتی ہے جس سے پانی کا خرچہ بھی کم ہو جاتا ہے۔ اس سے آرگینک فرٹیلائزر ملتا ہے جس سے پیداوار یقنی طور پر بڑھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں یورو2 کوالٹی کا فیول درآمد کیا جا رہا تھا جسے اپ ڈیٹ کر کے یورو5 تک لے گئے ہیں اب صرف یہی فیول درآمد کیا جا رہا ہے۔ ملک امین اسلم نے کہا کہ ہماری ریفائنریز ابھی بھی یورو2 بنا رہی ہیں ان سے بھی کہا ہے کہ اپنے آپ کو یورو فائیو پر لے کر جائیں۔

ڈاکٹر شہریار خالد کا اس سے متعلق کہنا ہے کہ سموگ جب بنتی ہے تو لوگ بارش کیلئے دعائیں کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ بارش سے صورتحال بہتر ہو جاتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بارش ہونے سے یہی سموگ پانی کی صورت میں ہمارے پینے کے پانی تک پہنچ جاتی ہے یہی نہیں اس سے ہماری آبی مخلوق بھی متاثر ہو رہی ہے۔

پاکستان کی نوجوان صحافی حنا چودھری نے پاکستان ٹیلی ویژن کیلئے بلین ٹری پراجیکٹ کے ساتھ ساتھ ماحولیات سے متعلق موضوعات پر تفصیلی ڈاکیومنٹری بنانے کا آغاز کیا ہے۔ یہ پاکستان میں پہلی بار ہو رہا ہے حکومت ماحولیاتی تبدیلی پر اس طرح سے فوکس کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی گرین فنانسنگ انوویشنز پر ایک خصوصی تقریب کے دوران قوم کے قدرتی مستقبل کے دفاع کے لیے ایک ارب درخت لگانے کے مقصد کو مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے آئندہ نسلوں کے لیے ماحولیاتی تحفظ کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، عوامی پارکوں کا قیام اور درخت لگانا بہت ضروری ہے۔

وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ مثبت بات ہے کہ لوگوں میں درخت لگانے کے بارے میں شعور بیدار ہونے لگ گیا ہے، اسکول کے بچے بھی اس کوشش میں حصہ لیتے ہیں۔ ہمیں شہروں میں جنگلات لگانے اور اس کا سائز بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مقصد کیلئے چین جیسے طریقہ کار کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ بے شک ہمارا ملک مجموعی طور پر کاربن کا صرف ایک فیصد سے بھی کم پیدا کر رہا ہے مگر یہ بھی گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کے ذریعے ماحول کو متاثر کرنے کیلئے کافی ہے۔
 
Last edited by a moderator: