سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے لاعلم شخص نےنماز عید سے قبل 4 بکرے ذبح کرا دیے

Geek

Chief Minister (5k+ posts)
img_1596272402.jpg


کراچی کے علاقے گلشن جمال میں سنت ابراہیمی کے فریضے کے شرعی طریقہ کار سے لاعلم شہری نے قصاب کے کہنے پر نماز عید کی ادائیگی کے بجائے نماز فجر کے فوری بعد 4 بکرے ذبح کر ا دیے۔

گلشن جمال کے رہائشی ایک شہری نے علاقے کی مسجد میں نماز عید کی ادائیگی کی اور گھر پہنچ کر قصاب کا انتظار کرنے لگے۔

شہری کے مطابق سالہا سال سے ایک ہی قصاب نماز عید کی ادائیگی کے فوری بعد سب سے پہلے ان کے ہاں قربانی کرنے آتا رہا ہے مگر اس عید پر وہ طے شدہ وقت پر نہیں پہنچا اور اس کے موبائل فون پر کال اٹینڈ نہیں ہو رہی تھی۔

شہری کا کہنا تھا کہ ان کے ہاں قصاب صبح ساڑھے 8 بجے پہنچا تو اس کے حلیے سے لگ رہا تھا کہ وہ پہلے کہیں قربانی کر کے آیا ہے، استفسار پر قصاب نے بتایا کہ اسے صبح سویرے ہی اس محلے میں خرم نامی شہری کے گھر پر 4 بکرے ذبح کرنے کا کام مل گیا تھا جو اس نے نماز فجر کے فوری بعد ذبح کر دیے اور جلدی جلدی گوشت بنا کر ابھی فارغ ہوا ہے۔


نماز عید کی ادائیگی سے قبل ہی بکرے ذبح کرانے والے شہری سے استفسار کیا گیا تو انہیں سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے شرعی طریقے کا پتہ ہی نہیں تھا۔

انہوں نے اپنے پڑوس کے گزشتہ سالوں کے کئی حوالے دیے کہ لوگ نماز فجر سے قبل بھی قربانی کرتے دیکھے گئے ہیں جو صبح سویرے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں۔

جب شہری کو یہ بتایا گیا کہ وہ دوسرے یا تیسرے دن کی قربانی ہوتی ہے جو طلوع آفتاب سے قبل کی جاسکتی ہے مگر پہلے دن قربانی کرنے کے لیے قربانی دینے والے کا نماز عید پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔

سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے لاعلمی پر 4 بکرے ذبح کرنے والی شہری کو قربانی کے لیے دوبارہ بکرے خریدنے پڑے۔

 

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
جس نے بھی نماز عید سے قبل قربانی ذبح کر لی یا پھر تیرہ ذوالحجہ کو غروب شمس کے بعد کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اس کی یہ قربانی صحیح نہیں ہوگی ۔

جیسے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ( جس نے نماز [عید ]سے قبل ذبح کر لیا وہ صرف گوشت ہے جو وہ اپنے اہل عیال کو پیش کر رہا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں ) ۔

اور جندب بن سفیان بَجَلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ حاضر تھا تو آپ نے فرمایا : ( جس نے نماز عید سے قبل ذبح کر لیا وہ اس کے بدلے میں دوسرا جانور ذبح کرے ) ۔

 

kadhoo

New Member
چلو اس شخص نے لا علمی کی وجہ سے قربانی کا سمجھ کر ذبحہ کرواۓ لیکن چھتر پریڈ تو قصائی کی ہونی چاہیے کہ وہ عرصے یہ کام کررہا اسنے کیوں نہیں بتایا کہ اسطرح قربانی نہیں ہوگی۔
 

samkhan

Chief Minister (5k+ posts)
کوئی فرق نہیں پڑتا. سعودی عرب میں ایک دن پہلے حج ہوچکا تھا پاکستان میں بھی کے پی کے میں لاکھوں لوگوں نے ایک دن پہلے عید اور قربانی کر لی تھی. مفتی منیب کی دو نمبری کی وجہ سے اس شخص نے اصل میں عید کہ دوسرے دن قربانی کی ہے جو کہ فجر کہ بعد ہوسکتی ہے
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
کوئی فرق نہیں پڑتا. سعودی عرب میں ایک دن پہلے حج ہوچکا تھا پاکستان میں بھی کے پی کے میں لاکھوں لوگوں نے ایک دن پہلے عید اور قربانی کر لی تھی. مفتی منیب کی دو نمبری کی وجہ سے اس شخص نے اصل میں عید کہ دوسرے دن قربانی کی ہے جو کہ فجر کہ بعد ہوسکتی ہے

اجتہاد تو کچھ تک ٹھیک ہے لیکن اس بندے کا اگر عید کا پہلا دن ہے پھر مسلہ ہے لیکن اسکا دوسرا دن ہوتا پھر ٹھیک تھا۔۔

ویسے کے-پی بھی عید ہفتے کو تھی۔۔
 

ali-raj

Chief Minister (5k+ posts)
کوئی فرق نہیں پڑتا. سعودی عرب میں ایک دن پہلے حج ہوچکا تھا پاکستان میں بھی کے پی کے میں لاکھوں لوگوں نے ایک دن پہلے عید اور قربانی کر لی تھی. مفتی منیب کی دو نمبری کی وجہ سے اس شخص نے اصل میں عید کہ دوسرے دن قربانی کی ہے جو کہ فجر کہ بعد ہوسکتی ہے
I disagree. Fawad ch fazool mein science ko islam mein ghusanay ki koshish kar raha hai.
Unless someone sees the moon from it's own eyes (bionculars etc ok, not via satellite) , Chand nhi hota. yeh shariah hai.
 

HSiddiqui

Chief Minister (5k+ posts)
img_1596272402.jpg


کراچی کے علاقے گلشن جمال میں سنت ابراہیمی کے فریضے کے شرعی طریقہ کار سے لاعلم شہری نے قصاب کے کہنے پر نماز عید کی ادائیگی کے بجائے نماز فجر کے فوری بعد 4 بکرے ذبح کر ا دیے۔

گلشن جمال کے رہائشی ایک شہری نے علاقے کی مسجد میں نماز عید کی ادائیگی کی اور گھر پہنچ کر قصاب کا انتظار کرنے لگے۔

شہری کے مطابق سالہا سال سے ایک ہی قصاب نماز عید کی ادائیگی کے فوری بعد سب سے پہلے ان کے ہاں قربانی کرنے آتا رہا ہے مگر اس عید پر وہ طے شدہ وقت پر نہیں پہنچا اور اس کے موبائل فون پر کال اٹینڈ نہیں ہو رہی تھی۔

شہری کا کہنا تھا کہ ان کے ہاں قصاب صبح ساڑھے 8 بجے پہنچا تو اس کے حلیے سے لگ رہا تھا کہ وہ پہلے کہیں قربانی کر کے آیا ہے، استفسار پر قصاب نے بتایا کہ اسے صبح سویرے ہی اس محلے میں خرم نامی شہری کے گھر پر 4 بکرے ذبح کرنے کا کام مل گیا تھا جو اس نے نماز فجر کے فوری بعد ذبح کر دیے اور جلدی جلدی گوشت بنا کر ابھی فارغ ہوا ہے۔


نماز عید کی ادائیگی سے قبل ہی بکرے ذبح کرانے والے شہری سے استفسار کیا گیا تو انہیں سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے شرعی طریقے کا پتہ ہی نہیں تھا۔

انہوں نے اپنے پڑوس کے گزشتہ سالوں کے کئی حوالے دیے کہ لوگ نماز فجر سے قبل بھی قربانی کرتے دیکھے گئے ہیں جو صبح سویرے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں۔

جب شہری کو یہ بتایا گیا کہ وہ دوسرے یا تیسرے دن کی قربانی ہوتی ہے جو طلوع آفتاب سے قبل کی جاسکتی ہے مگر پہلے دن قربانی کرنے کے لیے قربانی دینے والے کا نماز عید پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔

سنت ابراہیمی کی ادائیگی سے لاعلمی پر 4 بکرے ذبح کرنے والی شہری کو قربانی کے لیے دوبارہ بکرے خریدنے پڑے۔

Allah knows best, what I know is that Allah forgive the biggest sins, and I believe that Allah will not reduce this man's rewards for a mistake. Some times Allah love those a bit more who are struggling to understand but keep practicing and advancing after learning from their mistakes. The person posted this news shouldn't have printed the name of that innocent Muslim, it may cause some humiliation to him.
 
Last edited:

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
کوئی فرق نہیں پڑتا. سعودی عرب میں ایک دن پہلے حج ہوچکا تھا پاکستان میں بھی کے پی کے میں لاکھوں لوگوں نے ایک دن پہلے عید اور قربانی کر لی تھی. مفتی منیب کی دو نمبری کی وجہ سے اس شخص نے اصل میں عید کہ دوسرے دن قربانی کی ہے جو کہ فجر کہ بعد ہوسکتی ہے
جی جناب میں آپ کی راۓ سے متفق ہوں کہ مکہ میں حج ایک دن قبل ہی ہو چکا تھا اور امت مسلمہ ایک قوم ہے اور اس قوم کا ایک بھی قابل اعتماد فرد چاند دیکھنے کی گواہی دے دے وہ تمام امت کے لیے کافی ہے مثال کے طور پر کوئی مسلمان آسٹریلیا سے گواہی دیتا ہے کہ چاند نظر آ گیا ہے تو تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ جیسے ہی ان کے علاقے میں صبح نمودار ہوتی ہے وہ عید کی نماز کا اہتمام کریں
پہلے مواصلاتی نظام ایسا نہ تھا جیسے آج ہے لہذا چھوٹ تھی- مثال کے طور پر پہلے امریکا میں رہنے والی لڑکی کی ٹیلیفونک نکاح پاکستان میں رہنے والے لڑکے سے بیک وقت قائم ہو سکتا ہے اور علماء اسے تسلیم کرتے ہیں، حوالہ، باوجود اسکے کہ پہلے زمانے میں یہ ممکن نہ تھا

درحقیقت اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ انگریز کی کھنچی ہوئی ’’مقدس‘‘ لکیروں کو کسی بھی بنیاد پر مٹانے کی جسارت کر سکیں۔ استعمار نے اس کی اجازت نہیں دے رکھی کہ ان کے ایجنٹ مسلمانوں میں کسی بھی قسم کی وحدت کو پروان چڑھنے دیں۔ اس کا حکم لارڈ کرزن نے خلافت کے انہدام کے بعد اپنی مشہور تقریر میں دیا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’ہمیں ہر اس چیز کو ٹھکانے لگا دینا چاہئے جو مسلمانوں کی نسل کے درمیان کسی بھی قسم کا اسلامی اتحاد پیدا کرتی ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے ہی خلافت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ لہذا ہمیں یہ کوشش کرنا چاہئے کہ مسلمان میں دوبارہ اتحاد پیدا نہ ہو سکے، نہ فکری اتحاد نہ تمدنی اتحاد‘‘۔

آئیے اب نظر ڈالتے ہیں ان دلائل پر جو رمضان اور عید کے چاند کی روئیت کے بارے میں قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں:

۰ حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ

’’اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے رکھو اور اس (چاند) کے دیکھے جانے پر تم سب روزے افطار کر لو، اگر تم پر بادل چھائے ہوں تو ۳۰ دنوں کی گنتی پوری کر لو‘‘ (صحیح بخاری - 1909 islam360)۔

١- حدیث میں صُومُوا، أَفْطِرُوا اور لِرُؤْيَتِهِ کے الفاظ قابل غور ہیں

٢- ’صُومُوا‘‘ اور ’’أَفْطِرُوا‘‘ جمع کے صیغے ہیں جو تمام مسلمانوں کو محیط ہیں۔ یعنی تم سب مسلمان روزہ رکھو اور افطار کرو۔

٣- لفظ ’’لِرُؤْيَتِهِ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’اس کے دیکھے جانے پر‘‘۔ واضح رہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں کو فرداً فرداً چاند دیکھنے کا حکم نہیں دیتی بلکہ کسی اور کے چاند دیکھنے کو کافی قرار دیتی ہے۔

٤- چنانچہ حدیث کا مطلب ہے کہ چاند کے دیکھے جانے پر تمام مسلمان روزے شروع کریں یعنی رمضان شروع کریں اور تمام مسلمان روزہ رکھنا چھوڑ دیں یعنی عید کریں

٥- یہ حدیث رمضان کی شروعات اور اختتام کو چاندکے دیکھے جانے کے ساتھ منسلک کرتی ہے جبکہ اس بات کی کوئی تخصیص نہیں کرتی کہ یہ چاند کون دیکھے۔ وہ شخص اچھا مسلمان ہو یا کافر وغیرہ۔ اس کی تخصیص اگلی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

٦- امام سرخسیؒ نے المبسوط میں ابن عباسؓ سے مروی یہ حدیث بیان کی ہے: ’’مسلمانوں نے صبح روزہ نہ رکھا کیونکہ انہیں چاند نظر نہ آیا۔ پھر ایک بدو پہنچا اور اس بات کی شہادت دی کہ اس نے چاند دیکھا ہے۔ تو رسول اللہ ا نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ بدو نے کہا: ہاں! آپ ا نے فرمایا: اللہ اکبر!تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے۔ پس آپ ا نے روزہ رکھا اور تمام لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ‘‘ ۔ اس حدیث کو ابو داؤدؒ نے بھی ابن عباسؓ سے مختلف الفاظ سے بیان کیا ہے (سنن ابو داؤد حدیث نمبر ۲۳۳۳)۔

٧- آپ ﷺ نے ایک اعرابی کی رویت کو، جسے آپ ﷺ شاید جانتے بھی نہ تھے، قبول کیا جس نے مدینہ کے باہر چاند دیکھا تھا

٨- یہ حدیث اپنے علاقے سے باہر چاند نظر آنے کے حکم کو بیان کرتی ہے کیونکہ وہ بدو مدینہ کے باہر سے آیا تھا

٩- آپ ﷺ نے اس کی رؤیت کو قبول کرنے کی محض ایک شرط لگائی یعنی کہ آیا کہ وہ مسلمان ہے یا نہیں

١٠- مندرجہ بالا دونوں حدیث کو جوڑ کر حکم یہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی بھی مسلمان چاند کے دیکھے جانے کی گواہی دے دے تو اس کی گواہی معتبر سمجھی جائیگی اور تمام مسلمانوں پر فرض ہو جائے گا کہ وہ اس کے مطابق رمضان کی شروعات اور اختتام کریں

١١- رہی بات یہ کہ وہ اگر جھوٹ بول رہا ہو تو گناہ کا وبال اس کے سر ہوگا اور ہم اللہ کے ہاں حکم شرعی پر چلنے کی وجہ سے سرخرو ہوں گے

١٢- اس حدیث میں رسول اللہﷺ کا یہ کہنا کہ ’’تمام مسلمانوں کے لیے ایک شخص (کی گواہی)ہی کافی ہے‘‘ قابل ذکر ہے اور اس سے رو گردانی نہیں کی جانی چاہئے رمضان کے مسئلے کی وضاحت کے بعد عید کے دن کے مسئلے کی وضاحت بھی ضروری ہے : جیسا کہ رمضان کے آغاز کا فیصلہ چاند نظر آنے پر ہوتا ہے اسی طرح عید کاانحصار بھی چاند کے نظر آنے پر ہے۔ اس سے متعلق ابوہریرہؓ نے رسول اللہ ﷺسے یہ حدیث روایت کی ہے : ’’رسول اللہ ﷺنے دو دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے : عیدالاضحیٰ اور عید الفطرکے دن‘ ‘(بخاری و مسلم2672)۔

یہ حدیث درست عید کا دن متعین کرنے کو انتہائی اہم مسئلہ بنا دیتی ہے۔ آئیے اب عید سے متعلق احادیث کا مطالعہ کریں


١٣- رمضان کے آخری دن لوگوں میں ( چاند کی رویت پر ) اختلاف ہو گیا، تو دو اعرابی آئے اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ انہوں نے کل شام میں چاند دیکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو افطار کرنے اور عید گاہ چلنے کا حکم دیا۔‘‘(سنن ابو داؤد ۔2339 islam360)

لہٰذا اگر مسلمانوں کو اپنے خطے میں چاند نظر نہ آئے اور وہ رمضان کو جاری رکھے ہوئے ہوں لیکن بعد میں انہیں یہ پتہ چلے کہ کسی اور خطے میں چاند نظر آ چکا ہے، تو ان پر لازم ہے کہ وہ روزہ توڑ دیں ۔ ان واضح دلائل کی بنیاد پر فقہائے حنفی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ اختلاف مطلع کا کوئی اعتبار نہیں، فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’درمختار‘ میں درج ہے ؛’’مطلع مختلف ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ۔ اگر مغربی ممالک والے چاند دیکھ لیں تو مشرقی ممالک کو اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔‘‘(جلد اول، صفحہ 149)۔ احناف کی دیگر کتابوں جیسے فتاویٰ عالمگیری، فتح القدیر، بحرالرائق، طحاوی، زیلعی وغیرہ میں بھی یہی درج ہے۔ مالکی اور حنبلی فقہ کا بھی اس سے کوئی اختلاف نہیں۔ علامہ شامی لکھتے ہیں کہ ’’اختلاف مطلع کے غیر معتبر ہونے پر ہمارا بھی اعتبار ہے اور مالکیوں اور حنابلہ کا بھی۔‘‘ (شامی جلد4، صفحہ 105)۔ امام مالکؒ فرماتے ہیں: اگر لوگ رمضان سمجھ کر عید الفطر کے دن روزہ رکھ رہے ہوں اور پھر ان تک قطعی ثبوت پہنچ جائے کہ رمضان کا نیا چاند ان کے رمضان شروع کرنے ایک دن پہلے دیکھ لیا گیا تھا اور اب وہ (درحقیقت) اکتیسویں )۳۱) دن میں ہیں، تو انہیں اس دن کا روزہ توڑ لینا چاہئے، چاہے جس وقت بھی ان تک یہ خبر پہنچے۔‘‘ (موطا، کتاب ۱۸، نمبر ۴۔۱۔۱۸) جہاں تک شافعیوں کا تعلق ہے تو وہ ایک رائے پر متفق نہیں جیسا کہ علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں کہ: ’’ ہمارے بعض اصحاب نے کہا ہے کہ کسی ایک جگہ چاند کا نظر آنا تمام روئے زمین کو شامل ہے۔‘‘(شرح صحیح مسلم، جلد اول، صفحہ 348) ابن تیمیہ ؒ الفتاویٰ جلد پنجم صفحہ ۱۱۱ پر لکھتے ہیں: ’’ایک شخص جس کو کہیں چاند کے دیکھنے کا علم بروقت ہو جائے تو وہ روزہ رکھے اور ضرور رکھے، اسلام کی نص اور سلف صالحین کا عمل اسی پر ہے۔ اس طرح چاند کی شہادت کو کسی خاص فاصلے میں یا کسی مخصوص ملک میں محدود کر دینا عقل کے بھی خلاف ہے اور اسلامی شریعت کے بھی‘‘۔
(والله أعلم)
---مزید پڑھئے

 
Last edited:

Sean

Politcal Worker (100+ posts)
قربانی کے ثواب کا معاملہ تو بندے اور اللہ تعالی کے درمیان یوم حساب کو ہو گا۔ مگر اس چار بکرے والے کی چھترول سیاست ڈاٹ پی کے پر ابھی ہمارے سیاسی مولویوں سے ہو گی۔