سندھ پولیس کے چند سینئر افسران کی گروی رکھی ہوئی غیرت کس کے اشارے پر جاگی

Amatuka

MPA (400+ posts)
What does this prove, that goons are ruling Sindh, who have no respect for Quaid and law. Plus senior police officers are their puppets.
×
 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
Pakistan is with one, who managed to get this culprit called Safder arrested...whether Police, rangers, establishment etc....Safder (husband of Maryum Safder) broke the law and he needed to be punished accordingly...let the heavens fall...enough is enough This corrupt mafia must get eliminated, no matter on what cost...


 

Syaed

MPA (400+ posts)
آئین آئین کی رٹ صرف آپ کے لیے ہے

ہم سب نے وہ مناظر دیکھے کہ جب قائد اعظم کے مزار پہ ایک بندہ بندر کی طرح ناچ ناچ کے نعرے لگا رہا تھا اور وہاں آئے ہوئے کچھ لو گوں سے بھی نعرے لگوا رہا تھا۔معاملہ یہاں تک پہنچنا ہی ایک بہت ہی جاہلانہ اور بھونڈے پن کا مظاہرہ تھا مگر باہر جاکے اوراحاطے میں نانی اماں کے کچھ تنخواہ دار لوگوں نے فوج اور فوجی سربراہان کو ننگی ننگی گالیاں بھی دیں۔اب حزب اختلاف والےنورے کی بونگیوں سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ درویش کی طرف سے اڑان بھری گئی۔اور نانی اماں کو گویا پھر سے کسی “شکور” نے کہنی مار دی۔پٹواریوں کی نانی کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ اتنی بڑی بونگی کے بعد وہ کوئی نہ کوئی ایکشن کا مؤجب ضرور بنیں گی۔بڑے عرصے سے آئرن لیڈی اور راشد الخیری کے ناولز کی مظلوم ہیروئن کا رول بیک وقت کرنے والی کائیاں پٹوارن کو پتہ تھا کہ درویش کو اندر ہونا ہی ہونا ہے۔اس لیے جیسے ہی پولیس آئی تو پٹوارن نے درویش سے کنڈی لگوائی اور پولیس کو تب تک چکمہ دینےکی کو شش شروع کردی جب تک کہ سیاسی ڈرامے کا سیٹ نہیں بن جاتا۔مگر پولیس والوں نے تنگ آکے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیےتھا جس کے نتیجے میں درویش گرفتار ہوگیا اور سیاسی ڈرامے کے سیٹ پہ راشدالخیری کی مظلوم اور سگھڑ ہیروئن بن کے پٹوارن پہنچ گئی اور درویش کے نام پہ ایک طوفان برپا ہوگیا۔بے چارے درویش کی تو گھگھی بندھ گئی ہوگی کہ میری بھی عزت ہے؟

ویسے آئی جی سے بندہ پوچھے کہ کیا آئین کی پاسداری صرف فوج اور مرکزی حکومت کے لیے ہی لازم ہے اور حزب اختلاف پہ آئین کیکسی شق کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا؟جب جب بد عنوان سیاستدان یا ان کی حرام کی پلی اولادیں کسی کیس میں پھنس جائیں اورگلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو فوج کو گالیاں دینا حکومت کو معطون کرنا اور بغیر ثبوت کے ہر طرح کے الزامات لگا کےانتشار پھیلانا اور اداروں پہ دباؤ ڈال کے غیر یقینی کو فروغ دینا ان کا حق بن جاتا ہے درآنحالیکہ آئین کسی قسم کی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتا جس سے عام لوگوں کو کاروبار زندگی چلانے میں مشکلات پیش آنے لگ جائیں بلکہ یہ آئین پاکستان کی رو سےایک جرم ہے۔مگر اس بد قسمت ملک میں آئین کی پاسداری صرف حکومت وقت اور فوج کی زمہ داری ہے۔اگر پولیس اتنی ہی ایمانداراور فرض شناس تھی تو پھر دباؤ کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرتی(اگر ایسا کرنا غیر قانونی تھا تو)مگر پولیس تو یہ تسلیم کررہی ہے کہ ایف آئی آر قانون کے مطابق درج کی گئی۔اگر ایک قانونی کام کروانے کے لیے بھی زرداری کے ان دلالوں کو دباؤ ڈالنا پڑے توسمجھ جائیں کہ سندھ کی پولیس کیا ہے اور کس طرح سے کام کرتی ہے۔

اس پورے واقعے کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ نعرے لگانے والے کا نام صفدر مریم نہیں بلکہ اللہ ڈینو یا پھر شنبے تھا اور اس کے ساتھ چالیس پچاس موالی ٹائپ کے لوگ بھی اسی طرح کی موالیانہ حرکتیں کرتے پائے جاتے تو پھرسندھ پولیس کا ردعمل کیسا ہوتا؟یقینی طور پہ پولیس سب کو گرفتار کرلیتی ان کی خوب مہمان نوازی ہوتی،جی بھر کے تشدد کیاجاتا،مہینوں حوالات میں بند رہتے،عدالت سے بھی سزا ہوجاتی اور سزا کی مدت پوری ہونے پہ کسی اور جرم میں سزا ہوجاتی۔الغرض عام لوگوں کے لیے انصاف کا پیمانہ یہ ہوتا کہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ازیت میں گزر جاتا ۔اس دوران نہ تو کوئی میر حامد ٹوئیٹ کرتا،نہ ہی بلو رانی کی غیرت جاگتی اور نہ ہی وہ لٹی ہوئی سہاگن کی طرح یہ دہائی دیتا/دیتی کہ “میں کسی کو منہ دکھانے کےقابل نہیں رہا”۔نہ ٹی وی چینلز پہ زمین آسمان ایک کیا جاتا اور نہ ہی کوئی پولیس افسران غیرت جاگنے کی ناگہانی بیماری کا شکارہوتے۔مگر درویش بہرحال خوش قسمت ہے کہ گھر میں عزت نہ سہی مگر پرائے دیس میں اس کی بدولت چائے کی پیالی میں طوفان ضرور آگیا ہے جس کے نتیجے میں بلاول کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔



ہم عام پاکستانیوں کا حزب اختلاف کی بدعنوان اشرافیہ سے تو کوئی تعلق ہے ہی نہیں اسی لیے ہمارے گلے شکوے اور تجاویز صرف حکومت کے لیے ہی ہیں کیونکہ اللہ نہ کرے اگر یہ بد معاش پھر سے آگئے تو یہ ملک ان بدمعاشوں اور ان کے رسہ گیروں کی بدولت اتنا متعفن ہوجائے گا کہ یہاں سانس لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ کیا آئین کی پاسداری صرف عوام حکومت اور فوج کے لیے ہے؟کیا ہلڑبازی دنگا فساد کی منصوبہ بندی آئین کی رو سے جرم نہیں ہے؟کیا کسی بھی ادارے کے خلاف منظم سازش اور اس سازش میں معاونت کرنا غداری نہیں کہلاتا؟کیا اسمبلی کے اندر ہلڑ بازی اور بد تمیز ی فوج کرواتی ہے؟کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو اربوں روپے صرف سیٹیاں بجانے کے لیے دیے جاتے ہیں؟کیا عوام صرف ان ٹھگوں اور ان کی حرام کی گاڑیوں کے نیچے کچلی جانے اور ان کی منحوس جانوں پہ صدقہ ہونے کے لیے ہی ہے؟کیا ایگزیکیو ٹو کے سب سے بڑےنمائندے کی حیثیت سے وزیراعظم کی سرعام تضحیک آئین کی رو سے جرم نہیں ہے؟کیا بھوک یا لالچ کے مارے لوگوں کو بریانی کھلاکے یا رشوت دے کے اکٹھا کرنا اور اپنے بین الاقوامی آقاؤں کو خوش کرنا جرم نہیں ہے؟

جناب وزیراعظم اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو پھر رعایت کیسی اور کب تک؟کراچی نے انہیں حرام زادوں سے تنگ آکے آپکو ۲۰۱۳ اور پھر ۲۰۱۸ کے انتخابات میں فقید المثال کامیابی دلوائی اب آپ پہ فرض ہے کہ کراچی کو زرداری کے چنگل سے نجات دلائیںاور یہاں کی پولیس کی اصلاح کرکے کراچی کے شہریوں کو عزت سے جینے کا موقع فراہم کریں۔یہ لوگ بنگلہ دیش کی بہت مثالیں دیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ وہاں استحکام آیا ہی اسی لیے ہے کہ سارے حکومتی مخالف جیلوں میں ہیں یا پھانسی چڑھادیے گئے ہیں۔آپ ویسا بے شک نہ کریں مگر ان بے غیرتوں کے احتساب کو تو منطقی انجام تک پہنچائیں اور انہیں آئین کا پابند بنائیں۔آئین اگر فوج کو اجازت نہیں دیتا تو سیاستدان جج یا وکیل بھی اسی طرح آئین کی پاسداری کے پابند ہیں۔

خدارا ان بدمعاشوں سے قوم کی جان چھڑوا ہیں ورنہ یہ ملک اتنا متعفن ہوجائے گا کہ یہاں غریب اور عام لوگ سانس بھی نہیں لےسکیں گے۔

 

A.jokhio

Minister (2k+ posts)
آئین آئین کی رٹ صرف آپ کے لیے ہے

ہم سب نے وہ مناظر دیکھے کہ جب قائد اعظم کے مزار پہ ایک بندہ بندر کی طرح ناچ ناچ کے نعرے لگا رہا تھا اور وہاں آئے ہوئے کچھ لو گوں سے بھی نعرے لگوا رہا تھا۔معاملہ یہاں تک پہنچنا ہی ایک بہت ہی جاہلانہ اور بھونڈے پن کا مظاہرہ تھا مگر باہر جاکے اوراحاطے میں نانی اماں کے کچھ تنخواہ دار لوگوں نے فوج اور فوجی سربراہان کو ننگی ننگی گالیاں بھی دیں۔اب حزب اختلاف والےنورے کی بونگیوں سے سنبھلے بھی نہیں تھے کہ درویش کی طرف سے اڑان بھری گئی۔اور نانی اماں کو گویا پھر سے کسی “شکور” نے کہنی مار دی۔پٹواریوں کی نانی کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ اتنی بڑی بونگی کے بعد وہ کوئی نہ کوئی ایکشن کا مؤجب ضرور بنیں گی۔بڑے عرصے سے آئرن لیڈی اور راشد الخیری کے ناولز کی مظلوم ہیروئن کا رول بیک وقت کرنے والی کائیاں پٹوارن کو پتہ تھا کہ درویش کو اندر ہونا ہی ہونا ہے۔اس لیے جیسے ہی پولیس آئی تو پٹوارن نے درویش سے کنڈی لگوائی اور پولیس کو تب تک چکمہ دینےکی کو شش شروع کردی جب تک کہ سیاسی ڈرامے کا سیٹ نہیں بن جاتا۔مگر پولیس والوں نے تنگ آکے وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیےتھا جس کے نتیجے میں درویش گرفتار ہوگیا اور سیاسی ڈرامے کے سیٹ پہ راشدالخیری کی مظلوم اور سگھڑ ہیروئن بن کے پٹوارن پہنچ گئی اور درویش کے نام پہ ایک طوفان برپا ہوگیا۔بے چارے درویش کی تو گھگھی بندھ گئی ہوگی کہ میری بھی عزت ہے؟

ویسے آئی جی سے بندہ پوچھے کہ کیا آئین کی پاسداری صرف فوج اور مرکزی حکومت کے لیے ہی لازم ہے اور حزب اختلاف پہ آئین کیکسی شق کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا؟جب جب بد عنوان سیاستدان یا ان کی حرام کی پلی اولادیں کسی کیس میں پھنس جائیں اورگلو خلاصی کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو فوج کو گالیاں دینا حکومت کو معطون کرنا اور بغیر ثبوت کے ہر طرح کے الزامات لگا کےانتشار پھیلانا اور اداروں پہ دباؤ ڈال کے غیر یقینی کو فروغ دینا ان کا حق بن جاتا ہے درآنحالیکہ آئین کسی قسم کی ایسی سرگرمی کی اجازت نہیں دیتا جس سے عام لوگوں کو کاروبار زندگی چلانے میں مشکلات پیش آنے لگ جائیں بلکہ یہ آئین پاکستان کی رو سےایک جرم ہے۔مگر اس بد قسمت ملک میں آئین کی پاسداری صرف حکومت وقت اور فوج کی زمہ داری ہے۔اگر پولیس اتنی ہی ایمانداراور فرض شناس تھی تو پھر دباؤ کے باوجود ایف آئی آر درج نہ کرتی(اگر ایسا کرنا غیر قانونی تھا تو)مگر پولیس تو یہ تسلیم کررہی ہے کہ ایف آئی آر قانون کے مطابق درج کی گئی۔اگر ایک قانونی کام کروانے کے لیے بھی زرداری کے ان دلالوں کو دباؤ ڈالنا پڑے توسمجھ جائیں کہ سندھ کی پولیس کیا ہے اور کس طرح سے کام کرتی ہے۔

اس پورے واقعے کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ تھوڑی دیر کے لیے فرض کرلیں کہ نعرے لگانے والے کا نام صفدر مریم نہیں بلکہ اللہ ڈینو یا پھر شنبے تھا اور اس کے ساتھ چالیس پچاس موالی ٹائپ کے لوگ بھی اسی طرح کی موالیانہ حرکتیں کرتے پائے جاتے تو پھرسندھ پولیس کا ردعمل کیسا ہوتا؟یقینی طور پہ پولیس سب کو گرفتار کرلیتی ان کی خوب مہمان نوازی ہوتی،جی بھر کے تشدد کیاجاتا،مہینوں حوالات میں بند رہتے،عدالت سے بھی سزا ہوجاتی اور سزا کی مدت پوری ہونے پہ کسی اور جرم میں سزا ہوجاتی۔الغرض عام لوگوں کے لیے انصاف کا پیمانہ یہ ہوتا کہ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ازیت میں گزر جاتا ۔اس دوران نہ تو کوئی میر حامد ٹوئیٹ کرتا،نہ ہی بلو رانی کی غیرت جاگتی اور نہ ہی وہ لٹی ہوئی سہاگن کی طرح یہ دہائی دیتا/دیتی کہ “میں کسی کو منہ دکھانے کےقابل نہیں رہا”۔نہ ٹی وی چینلز پہ زمین آسمان ایک کیا جاتا اور نہ ہی کوئی پولیس افسران غیرت جاگنے کی ناگہانی بیماری کا شکارہوتے۔مگر درویش بہرحال خوش قسمت ہے کہ گھر میں عزت نہ سہی مگر پرائے دیس میں اس کی بدولت چائے کی پیالی میں طوفان ضرور آگیا ہے جس کے نتیجے میں بلاول کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔



ہم عام پاکستانیوں کا حزب اختلاف کی بدعنوان اشرافیہ سے تو کوئی تعلق ہے ہی نہیں اسی لیے ہمارے گلے شکوے اور تجاویز صرف حکومت کے لیے ہی ہیں کیونکہ اللہ نہ کرے اگر یہ بد معاش پھر سے آگئے تو یہ ملک ان بدمعاشوں اور ان کے رسہ گیروں کی بدولت اتنا متعفن ہوجائے گا کہ یہاں سانس لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔ہمارا حکومت سے سوال ہے کہ کیا آئین کی پاسداری صرف عوام حکومت اور فوج کے لیے ہے؟کیا ہلڑبازی دنگا فساد کی منصوبہ بندی آئین کی رو سے جرم نہیں ہے؟کیا کسی بھی ادارے کے خلاف منظم سازش اور اس سازش میں معاونت کرنا غداری نہیں کہلاتا؟کیا اسمبلی کے اندر ہلڑ بازی اور بد تمیز ی فوج کرواتی ہے؟کیا قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کو اربوں روپے صرف سیٹیاں بجانے کے لیے دیے جاتے ہیں؟کیا عوام صرف ان ٹھگوں اور ان کی حرام کی گاڑیوں کے نیچے کچلی جانے اور ان کی منحوس جانوں پہ صدقہ ہونے کے لیے ہی ہے؟کیا ایگزیکیو ٹو کے سب سے بڑےنمائندے کی حیثیت سے وزیراعظم کی سرعام تضحیک آئین کی رو سے جرم نہیں ہے؟کیا بھوک یا لالچ کے مارے لوگوں کو بریانی کھلاکے یا رشوت دے کے اکٹھا کرنا اور اپنے بین الاقوامی آقاؤں کو خوش کرنا جرم نہیں ہے؟

جناب وزیراعظم اگر ان سب سوالوں کا جواب ہاں میں ہے تو پھر رعایت کیسی اور کب تک؟کراچی نے انہیں حرام زادوں سے تنگ آکے آپکو ۲۰۱۳ اور پھر ۲۰۱۸ کے انتخابات میں فقید المثال کامیابی دلوائی اب آپ پہ فرض ہے کہ کراچی کو زرداری کے چنگل سے نجات دلائیںاور یہاں کی پولیس کی اصلاح کرکے کراچی کے شہریوں کو عزت سے جینے کا موقع فراہم کریں۔یہ لوگ بنگلہ دیش کی بہت مثالیں دیتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ وہاں استحکام آیا ہی اسی لیے ہے کہ سارے حکومتی مخالف جیلوں میں ہیں یا پھانسی چڑھادیے گئے ہیں۔آپ ویسا بے شک نہ کریں مگر ان بے غیرتوں کے احتساب کو تو منطقی انجام تک پہنچائیں اور انہیں آئین کا پابند بنائیں۔آئین اگر فوج کو اجازت نہیں دیتا تو سیاستدان جج یا وکیل بھی اسی طرح آئین کی پاسداری کے پابند ہیں۔

خدارا ان بدمعاشوں سے قوم کی جان چھڑوا ہیں ورنہ یہ ملک اتنا متعفن ہوجائے گا کہ یہاں غریب اور عام لوگ سانس بھی نہیں لےسکیں گے۔

where were the ghairat of these officers when a police officer Ali Hassan Solangi chopped off his both hands and legs and poured acid on, when he stopped rigging by PPP member in 2008 election, in Hyderabad poling station. https://arynews.tv/en/police-constable-ali-hasan-story/ https://blog.siasat.pk/the-forgotten-brutalised-cop-ali-hassan-solangi/
 

Gujjar1

Minister (2k+ posts)
×

چھٹی کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔لیکن عدالتیں فورا اپنا فوری انصاف کا ترازو لے کر پہنچ جائیں گی ۔اوپر سے بلیک میلر دلال میڈیا اپنے نوٹ کھرے کرنے کا سنہری موقع ضائع نہیں کرے گا۔ ۔
سارے گالیاں وزیراعظم کو پڑتی ھیں ۔
کسی کے پالتو ججز۔ اور بیوروکریسی۔اور ان کا پالتو تاجر مافیا اس حکومت کے راستے میں رکاوٹیں ڈال کر اس کو بار بار فیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کام میں بیوقوف چوتیا پبلک ایندھن کے طور پر استعمال ھو رہی ہے۔
i agree with you judgoo ko army danda de, werna kab tak ye topi drama chaley ga tabdeeli ka, IK must understand ye Pakistan hai yahan ungli terrhi kerney sey hi ghee nikley ga ye khanzeer latoo k bhoot hain batoo se nahi maney gay.