سوئس لیکس اسکینڈل میں کن پاکستانی شخصیات کے نام سامنے آئے؟

2suusiessectrpakitano.jpg


سوئس لیکس اسکینڈل میں ایک شادی شدہ جوڑے کا بھی ذکر ہے جس پر کراچی اور اس کے گردونواح میں اسکیم چلانے کا الزام تھا، ان کو پلی بارگین کے نتیجے میں نیب نے آزادی دی تھی۔

دی نیوز کے مطابق ان ملزم میاں بیوی میں سے خاتون کے پاس سوئس ودیگر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس کے خفیہ کوڈ تھےاس کا خیال تھا کہ وہ خود قربانی دے دیں مگر ان بینکوں میں موجود رقم سے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر لیں گے مگر ان کو ہار ماننا پڑی۔

ان ملزم میاں بیوی نے 2003میں نیب سے پلی بارگین کرتے ہوئے 1.8 ملین ڈالر ادا کیے جو ان کے مطابق غیر ملکی بینکوں میں چھپائی گئی رقم کا 80فیصد تھا، اس کے بعد دونوں کو آزادی مل گئی مگر اب سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس اکاؤنٹ میں2003 میں 20 لاکھ سوئس فرانک تھے۔

یہ اکاؤنٹ 1987 میں اس وقت کھولا گیا تھا جب کراچی میں چلنے والی اسکیم عروج پر تھی۔ لیکس کے مطابق کئی ایسے افراد ہیں جنہوں نے نیب تحقیقات کے دوران یا پھر اس کے بعد کریڈٹ سوئیز میں اکائونٹ کھولا۔ ایسے افراد میں پاکستان کا ایک ایسا بینکر بھی شامل ہے جو مشرق وسطیٰ میں کام کرتا ہے جس کے سوئس اکائونٹ میں 700 ملین سوئس فرانک تھے۔


یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سابق سینیٹر سیف اللہ دوسرے امیر ترین پاکستانی اکاؤنٹ ہولڈر ہیں۔ 2009 میں ان کے اکاؤنٹ میں 105 ملین سوئس فرانک تھے۔ نیب کی جانب سے بینک فراڈ کے الزام کے تحت ان کیخلاف ریفرنس دائر کرنے سے ایک سال قبل تک ان کے2 بیٹے اس کیس میں شریک ملزمان تھے۔

ان کی جانب سے اکاؤنٹ 2008 میں نیب کی تحقیقات کے دوران کھولا گیا اور 2011 میں بند کیا گیا۔ نیب کو بظاہر اس اکاؤنٹ کا پتہ نہیں تھا۔ نیب کیس زیر التوا ہے اور اس کا فیملی پر شاید ہی کوئی اثر ہوا ہو، یہ فیملی بینک میں بڑی شیئر ہولڈر ہے اور اس بینک کے مالک ایک اہم وفاقی وزیر ہیں۔

عمر چیمہ کے مطابق سابق سینیٹر وقار کی فیملی کا بھی سوئس اکاؤنٹ سامنے آیا ہے۔ 2000 کی دہائی میں وہ اور ان کے والد اور بھائی سینیٹرز تھے۔ اُس وقت انہوں نے سوئس اکاؤنٹ کھولا جس میں 2008 تک 9.8 ملین فرانک تھے۔ الیکشن کمیشن میں ان تینوں میں سے کسی نے بھی اثاثے ڈکلیئر نہیں کیے۔

یہ اکاؤنٹ 2013 میں بند کر دیا گیا ،ایسی جائیدادیں سامنے آئیں جو رہن رکھی گئی تھیں تاہم پاکستان میں ٹیکس حکام کو ان جائیدادوں سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کے مطابق پنجاب کے ایک وزیر اور ان کے بھائی کے بھی بینک میں اکاؤنٹ تھے۔ یہ اکاؤنٹ مارچ 2011 میں کھولا گیا اور فروری 2012 میں بند کر دیا گیا۔

اس اکاؤنٹ میں 2.76ملین سوئس فرانک تھے، نیب نے 2018 میں پنجاب کی اس فیملی کیخلاف انکوائری شروع کی اور بتایا کہ ان کے اثاثوں میں اُس وقت اربوں کا اضافہ ہوا جب ان کے بھائی پہلی مرتبہ وفاقی وزیر بنے تھے۔ اس انکوائری میں بتایا گیا تھا کہ 2011 سے 2018 کے درمیان فیملی کو ملنے والے غیر ملکی زر مبادلہ کی مالیت 708 ملین ڈالرز رہی ہے۔

جنگ گروپ کے مطابق ایف بی آر نے حکام کو خط لکھا جن میں سے صرف ایک نے جواب دیا اور کہا کہ جس کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے اس نام کی کمپنی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے تمام معاملہ مشکوک ہوگیا۔

کریڈٹ سوئیز بینک کے نئے لیک ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا مذکورہ بالا میاں اور اہلیہ کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ ہے، اس جوڑے کے دو اکاؤنٹس تھے۔ 2012 تک مذکورہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں 18.5 ملین فرانک تھے۔

فیملی کی جانب سے ایف بی آر کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق کمپنی کو 2010 کے آخر میں 20 ملین ڈالرز کا قرضہ ملا تھا جبکہ اس اکاؤنٹ میں دو سال بعد اتنی ہی رقم کے قریب قریب ایک اور رقم جمع ہوئی تھی۔

یہ غیر واضح ہے کہ فنانسنگ اسی کمپنی کے ذریعے ہوئی تھی یا یہ محض ایک نام ہے۔ لیکس میں فیملی کا بھی نام ہے،ان کے اہل خانہ کے انفرادی اور مشترکہ اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جو 2004 سے 2010 تک فعال رہے۔

یہ اس وقت کے فوراً بعد کی بات ہے جب ان کا نیب کے ساتھ قرضہ کی سیٹلمنٹ کا معاہدہ طے پایا تھا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان اکاؤنٹس میں 60 ملین سوئس فرانک تھے۔ خاندان کا چھوٹا بینک تھا، فیملی کے دو اکاؤنٹس تھے۔ پہلا 2001 میں اُس وقت کھولا گیا جب قرضہ ڈیفالٹ کیس میں نیب اس فیملی کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ جب کہ دوسرا اکاؤنٹ 2010 سے 2015 تک فعال رہا۔
 

RajaRawal111

Prime Minister (20k+ posts)
2suusiessectrpakitano.jpg


سوئس لیکس اسکینڈل میں ایک شادی شدہ جوڑے کا بھی ذکر ہے جس پر کراچی اور اس کے گردونواح میں اسکیم چلانے کا الزام تھا، ان کو پلی بارگین کے نتیجے میں نیب نے آزادی دی تھی۔

دی نیوز کے مطابق ان ملزم میاں بیوی میں سے خاتون کے پاس سوئس ودیگر غیر ملکی بینک اکاؤنٹس کے خفیہ کوڈ تھےاس کا خیال تھا کہ وہ خود قربانی دے دیں مگر ان بینکوں میں موجود رقم سے اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر لیں گے مگر ان کو ہار ماننا پڑی۔

ان ملزم میاں بیوی نے 2003میں نیب سے پلی بارگین کرتے ہوئے 1.8 ملین ڈالر ادا کیے جو ان کے مطابق غیر ملکی بینکوں میں چھپائی گئی رقم کا 80فیصد تھا، اس کے بعد دونوں کو آزادی مل گئی مگر اب سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق اس اکاؤنٹ میں2003 میں 20 لاکھ سوئس فرانک تھے۔

یہ اکاؤنٹ 1987 میں اس وقت کھولا گیا تھا جب کراچی میں چلنے والی اسکیم عروج پر تھی۔ لیکس کے مطابق کئی ایسے افراد ہیں جنہوں نے نیب تحقیقات کے دوران یا پھر اس کے بعد کریڈٹ سوئیز میں اکائونٹ کھولا۔ ایسے افراد میں پاکستان کا ایک ایسا بینکر بھی شامل ہے جو مشرق وسطیٰ میں کام کرتا ہے جس کے سوئس اکائونٹ میں 700 ملین سوئس فرانک تھے۔


یہ بھی پتہ چلا ہے کہ سابق سینیٹر سیف اللہ دوسرے امیر ترین پاکستانی اکاؤنٹ ہولڈر ہیں۔ 2009 میں ان کے اکاؤنٹ میں 105 ملین سوئس فرانک تھے۔ نیب کی جانب سے بینک فراڈ کے الزام کے تحت ان کیخلاف ریفرنس دائر کرنے سے ایک سال قبل تک ان کے2 بیٹے اس کیس میں شریک ملزمان تھے۔

ان کی جانب سے اکاؤنٹ 2008 میں نیب کی تحقیقات کے دوران کھولا گیا اور 2011 میں بند کیا گیا۔ نیب کو بظاہر اس اکاؤنٹ کا پتہ نہیں تھا۔ نیب کیس زیر التوا ہے اور اس کا فیملی پر شاید ہی کوئی اثر ہوا ہو، یہ فیملی بینک میں بڑی شیئر ہولڈر ہے اور اس بینک کے مالک ایک اہم وفاقی وزیر ہیں۔

عمر چیمہ کے مطابق سابق سینیٹر وقار کی فیملی کا بھی سوئس اکاؤنٹ سامنے آیا ہے۔ 2000 کی دہائی میں وہ اور ان کے والد اور بھائی سینیٹرز تھے۔ اُس وقت انہوں نے سوئس اکاؤنٹ کھولا جس میں 2008 تک 9.8 ملین فرانک تھے۔ الیکشن کمیشن میں ان تینوں میں سے کسی نے بھی اثاثے ڈکلیئر نہیں کیے۔

یہ اکاؤنٹ 2013 میں بند کر دیا گیا ،ایسی جائیدادیں سامنے آئیں جو رہن رکھی گئی تھیں تاہم پاکستان میں ٹیکس حکام کو ان جائیدادوں سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔ ایف بی آر کے مطابق پنجاب کے ایک وزیر اور ان کے بھائی کے بھی بینک میں اکاؤنٹ تھے۔ یہ اکاؤنٹ مارچ 2011 میں کھولا گیا اور فروری 2012 میں بند کر دیا گیا۔

اس اکاؤنٹ میں 2.76ملین سوئس فرانک تھے، نیب نے 2018 میں پنجاب کی اس فیملی کیخلاف انکوائری شروع کی اور بتایا کہ ان کے اثاثوں میں اُس وقت اربوں کا اضافہ ہوا جب ان کے بھائی پہلی مرتبہ وفاقی وزیر بنے تھے۔ اس انکوائری میں بتایا گیا تھا کہ 2011 سے 2018 کے درمیان فیملی کو ملنے والے غیر ملکی زر مبادلہ کی مالیت 708 ملین ڈالرز رہی ہے۔

جنگ گروپ کے مطابق ایف بی آر نے حکام کو خط لکھا جن میں سے صرف ایک نے جواب دیا اور کہا کہ جس کمپنی کا ذکر کیا گیا ہے اس نام کی کمپنی کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اس صورتحال کی وجہ سے تمام معاملہ مشکوک ہوگیا۔

کریڈٹ سوئیز بینک کے نئے لیک ہونے والے ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا مذکورہ بالا میاں اور اہلیہ کے ساتھ جوائنٹ اکاؤنٹ ہے، اس جوڑے کے دو اکاؤنٹس تھے۔ 2012 تک مذکورہ کمپنی کے اکاؤنٹ میں 18.5 ملین فرانک تھے۔

فیملی کی جانب سے ایف بی آر کو فراہم کردہ معلومات کے مطابق کمپنی کو 2010 کے آخر میں 20 ملین ڈالرز کا قرضہ ملا تھا جبکہ اس اکاؤنٹ میں دو سال بعد اتنی ہی رقم کے قریب قریب ایک اور رقم جمع ہوئی تھی۔

یہ غیر واضح ہے کہ فنانسنگ اسی کمپنی کے ذریعے ہوئی تھی یا یہ محض ایک نام ہے۔ لیکس میں فیملی کا بھی نام ہے،ان کے اہل خانہ کے انفرادی اور مشترکہ اکاؤنٹس سامنے آئے ہیں جو 2004 سے 2010 تک فعال رہے۔

یہ اس وقت کے فوراً بعد کی بات ہے جب ان کا نیب کے ساتھ قرضہ کی سیٹلمنٹ کا معاہدہ طے پایا تھا۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان اکاؤنٹس میں 60 ملین سوئس فرانک تھے۔ خاندان کا چھوٹا بینک تھا، فیملی کے دو اکاؤنٹس تھے۔ پہلا 2001 میں اُس وقت کھولا گیا جب قرضہ ڈیفالٹ کیس میں نیب اس فیملی کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ جب کہ دوسرا اکاؤنٹ 2010 سے 2015 تک فعال رہا۔
رانڑے یار جنرل صاحب کا کھاتا بھی لکھو نا یار
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
Other than Shareefs and Zardaris, it's unlikely to find honest and truthful people from Pakistan.
Masha Allah both families are spreading Deen e Islam outside Pakistan.
تیرے خندق دماغ میں صرف نواز شریف ہی پاکستان میں کرپٹ ہے باقی سارے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں ۔ تعصب ذھن بونے ۔​