سوات کے عوام کا شدت پسند گروہوں کے خلاف مظاہرہ، امن چاہیے کے نعرے

1swat%20protest.jpg

خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ کی سڑکیں ہمیں امن چاہیے کے نعروں سے گونج اٹھیں، جہاں عوام کی بڑی تعداد نے سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں بھی شدت پسند گروہوں کی کارروائیاں ہونے کے خلاف احتجاج کیا۔

ہزاروں کی تعداد میں بزرگ، نوجوان اور سیاسی کارکنان خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ کے گھر کے پاس مٹہ چوک پر جمع ہوئے اور ریاست سے امن کا مطالبہ کیا۔ یہ ریلی دہشت گردی، انٹرنیٹ کی بندش اور رات میں نامعلوم افراد کی جانب سے گھروں پر پتھر پھینکنے کے خلاف نکالی گئی تھی۔

https://twitter.com/x/status/1576149886906482688
پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ، پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے رہنما مختیار یوسف زئی، عوامی نیشنل پارٹی کے ایوب، پاکستان پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر امجد اور دیگر لوگوں نے ریلی سے خطاب کیا۔

شرکا نے کہا سوات میں سیکیورٹی فورسز کی نمایاں تعداد میں موجودگی کے باوجود عسکریت پسندوں کی واپسی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے امن کیلئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں اسے یونہی سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔

ریلی میں شامل سیاسی رہنماؤں نے وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا کہ وہ پولیس کو اختیارات اور سپورٹ دیں تاکہ وہ ان شدت پسند گروہوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔ واضح رہے کہ مختلف علاقوں میں پہاڑی چوٹیوں پر کیمپ قائم کرنے والے عسکریت پسند گروہوں کی واپسی کے خلاف سوات بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا جا رہا ہے۔

سوات میں اگست میں عسکریت پسند اچانک نمودار ہوئے اور انہوں نے پولیس کے ایک ڈی ایس پی کو بھی اغوا کر لیا جو عسکریت پسندوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے پہاڑوں پر گئے تھے۔ ڈی ایس پی کو بعد میں عسکریت پسندوں نے تین دیگر افراد کے ساتھ رہا کیا اور انہوں نے اپنے یرغمالیوں کی ایک ویڈیو بھی جاری کی۔

اب رات کے وقت مقامی باشندوں نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنے اپنے گاؤں کی حفاظت شروع کردی ہے کیونکہ پولیس کو رات کے وقت تھانے سے باہر نہ جانے کو کہا گیا ہے۔ ایک مقامی موبائل کمپنی کے کم از کم سات ملازمین کو بھی عسکریت پسندوں نے تاوان کے لیے اغوا کیا تھا لیکن بعد میں ان سب کو رہا کر دیا گیا۔

مقامی ایم پی اے اور ایم این اے کو بھی عسکریت پسندوں کی طرف سے بھتہ کی ادائیگی کیلئے مسلسل کالز موصول ہو رہی ہیں۔ لاقانونیت کی وجہ سے تاجر اور مالدار مقامی لوگوں نے صوبے کے دوسرے حصوں میں منتقل ہونا شروع کر دیا ہے۔

ایک مقامی رہائشی نے کہا، "آپ کو پاسپورٹ آفس میں سینکڑوں لوگ ملیں گے کیونکہ وہ ضلع میں مکمل لاقانونیت کی گرفت سے پہلے بیرون ملک جانے کی کوشش کر رہے ہیں،" انہوں نے مزید کہا کہ سیاحوں کا علاقے کی طرف رجحان بھی کافی حد تک کم ہو گیا ہے۔