سورۃ نور۔۔ زنا ، پردے اور ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے سے متعلق احکام

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
موضوع اور مباحث :


منافقین مسلمانوں کو اس میدان میں شکست دینا چاہتے تھے جو ان کے تفوق کا اصل میدان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ، بجائے اس کے کہ وہاں کے اخلاقی حملوں پر ایک غضبناک تقریر فرماتا، یا مسلمانوں کو جوابی حملے کرنے پر اکساتا، تمام تر توجہ مسلمانوں کو یہ تعلیم دیتے پر صرف فرمائی کہ تمہارے اخلاقی محاذ میں جہاں جہاں رخنے موجود ہیں ان کو بھرو اور اس محاذ کو اور زیادہ مضبوط کر لو۔ ابھی آپ دیکھ چکے ہیں کہ نکاح زینبؓ کے موقع پر منافقین اور کفار نے کیا طوفان اٹھایا تھا۔ اب ذرا سورہ احزاب نکال کر پڑھیے ، وہاں آپ دیکھیں گے کہ ٹھیک اسی طوفان کا زمانہ تھا جب کہ معاشرتی اصلاح کے متعلق حسب ذیل ہدایات دی گئیں :
1 ۔ ازواج مطہرات کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھو، بناؤ سنگھار کر کے باہر نہ نکلو، اور غیر مردوں سے گفتگو کرنے کا اتفاق ہو تو دبی زبان سے بات نہ کرو کہ کوئی شخص بے جا توقعات قائم کرے (آیات 32۔ 33 )
2 ۔ حضور کے گھروں میں غیر مردوں کے بلا اجازت داخل ہو جانے کو روک دیا گیا، اور ہدایت کی گئی کہ ازواج مطہرات سے کوئی چیز مانگنی ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو۔ (آیت 53 )۔

3 ۔ غیر محرم مردوں اور محرم رشتہ داروں کے درمیان فرق قائم کیا گیا اور حکم دیا گیا کہ ازواج مہرات کے صرف محرم رشتہ دار ہی آزادی کے ساتھ آپ کے گھروں میں آ جا سکتے ہیں۔ (آیت 55)۔
4 ۔ مسلمانوں کو بتایاگیاکہ نبی کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور ٹھیک اسی طرح ایک مسلمان کے لیے ابداً حرام ہیں جس طرح اس کی حقیقی ماں ہوتی ہے۔ اس لیے ان کے بارے میں ہر مسلمان اپنی نیت کو بالکل پاک رکھے۔ (آیت 53۔ 54 )۔
5 ۔ مسلمانوں کو متنبہ کر دیا گیا کہ نبیؐ کو اذیت دینا دنیا اور آخرت میں خدا کی لعنت اور رسوا کن عذاب کا موجب ہے ، اور اسی طرح کسی مسلمان کی عزت پر حملہ کرنا اور اس پر ناحق الزام لگانا بھی سخت گناہ ہے (آیت 57۔ 58 )
6 ۔ تمام مسلمان عورتوں کو حکم دے دیا گیا کہ جب باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو چادروں سے اپنے آپ کو اچھی طرح ڈھانک کر اور گھونگھٹ ڈال کر نکلا کریں (آیت 59)۔

پھر جب واقعہ اِفک سے مدینے کے معاشرے میں ایک ہلچل برپا ہوئی تو یہ سورہ نور اخلاق، معاشرت اور قانون کے ایسے احکام و ہدایات کے ساتھ نازل فرمائی گئی جن کا مقصد یہ تھ کہ اول تو مسلم معاشرے کو برائیوں کی پیدا وار اور ان کے پھیلاؤ سے محفوظ رکھا جائے ، اور اگر وہ پیدا ہو ہی جائیں تو پھر ان کا پورا پورا تدارک کیا جائے۔ ان احکام و ہدایات کو ہم اسی ترتیب کے ساتھ یہاں خلاصۃً درج کرتے ہیں جس کے ساتھ وہ اس سورے میں نازل ہوئے ہیں۔ تاکہ پڑھنے والے اندازہ کر سکیں کہ قرآن ٹھیک نفسیاتی موقع پر انسانی زندگی کی اصلاح و تعمیر کے لیے کس طرح قانونی، اخلاقی، اور معاشرتی تدبیر بیک وقت تجویز کرتا ہے :

1) ۔ زنا، جسے معاشرتی جرم پہلے ہی قرار دیا جا چکا تھا (سورہ نساء، آیات 15۔ 16 )، اب اس کو فوجداری جرم قرار دے کر اس کی سزا سو 100 کوڑے مقرر کر دی گئی۔
2 ) ۔ بد کار مردوں اور عورتوں سے معاشرتی مقاطعے کا حکم دیا گیا اور ان کے ساتھ رشتہ مناکحت جوڑنے سے اہل ایمان کو منع کر دیا گیا۔

3 ) ۔ جو شخص دوسرے پر زنا کا الزام لگائے اور پھر ثبوت میں چار گواہ نہ پیش کر سکے ،اس کے لیے 80 کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی۔
4) ۔ شوہر اگر بیوی پر تہمت لگائے تو اس کے لیے لِعان کا قاعدہ مقرر کیا گیا۔
5) ۔ حضرت عائشہ پر منافقین کے جھوٹے الزام کی تردید کرتے ہوئے یہ ہدایت کی گئی کہ آنکھیں بند کر کے ہر شریف آدمی کے خلاف ہر قسم کی تہمتیں قبول نہ کر لیا کرو، اور نہ ان کو پھیلاتے پھرو۔ اس طرح کی افواہیں ا گر اڑ رہی ہوں تو انہیں دبانا اور ان کا سد باب کرنا چاہیے ، نہ یہ ایک منہ سے لے کر دوسرا منہ اسے آگے پھونکنا شروع کر دے۔ اسی سلسلے میں یہ بات ایک اصولی حقیقت کے طور پر سمجھائی گئی کہ طیب آدمی کا جوڑ طیب عورت سے ہی لگ سکتا ہے ، خبیث عورت کے اطوار سے اس کا مزاج چند روز بھی موافقت نہیں کر سکتا۔ اور ایسا ہی حال طیب عورت کا بھی ہوتا ہے کہ اس کی روح طیب مرد ہی سے موافقت کر سکتی ہے نہ کہ خبیث سے۔ اب اگر رسولؐ کو تم جانتے ہو کہ وہ ایک طیب ، بلکہ اطیب انسان ہیں تو کس طرح یہ بات تمہاری عقل میں سما گئی کہ ایک خبیث عورت ان کی محبوب ترین رفیقہ حیات بن سکتی تھی۔ جو عورت عملاً زنا تک کر گزرے اس کے عام اطوار کب ایسے ہو سکتے ہیں کہ رسولؐ جیسا پاکیزہ انسان اس کے ساتھ یوں نباہ کرے۔ پس صرف یہ بات کہ ایک کمینہ آدمی نے ایک بیہودہ الزام کسی پر لگا دیا ہے ، اسے قابل قبول کیا معنی قابل توجہ اور ممکن الوقوع سمجھ لینے کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو کہ الزام لگانے والا ہے کون اور الزام لگا کس پر رہا ہے۔

6) ۔ جو لوگ بے ہودہ خبریں اور بری افواہیں پھیلائیں اور مسلم معاشرے میں فحش اور فواحش کو رواج دینے کی کوشش کریں ، ان کے متعلق بتایا گیا کہ وہ ہمت افزائی کے نہیں بلکہ سزا کے مستحق ہیں۔
7) ۔ یہ قاعدہ کلیہ مقرر کیا گیا کہ مسلم معاشرے میں اجتماعی تعلقات کی بنیاد باہمی حسن ظن پر ہونی چاہیے۔ ہر شخص بے گناہ سمجھا جائے جب تک کہ اس کے گنہگار ہونے کا ثبوت نہ ملے۔ نہ یہکہ ہر شخص گناہ گار سمجھا جائے جب تک کہ اس کا بے گناہ ہونا ثابت نہ ہو جائے۔

8) ۔ لوگوں کو عام ہدایت کی گئی کہ ایک دوسرے کے گھروں میں بے تکلف نہ گھس جایا کریں بلکہ اجازت لے کر جائیں۔
9) عورتوں اور مردوں کو غضِّ بصر کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے کو گھورنے یا جھانک تاک کرنے سے منع کر دیا گیا۔
10) ۔ عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنے گھروں میں سر اور سینہ ڈھانک کر رکھیں۔
11 ) عورتوں کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ اپنے محرم رشتہ داروں اور گھر کے خادموں کے سوا کسی کے سامنے بن سنور کر نہ آئیں۔
12) ۔ ان کو یہ بھی حکم دیا گیا کہ باہر نکلیں تو نہ صرف یہ کہ اپنے بناؤ سنگھار کو چھپا کر نکلیں ، بلکہ بجنے والے زیور بھی پہن کر نہ نکلیں۔

13 ) معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے بن بیاہے بیٹھے رہنے کا طریقہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کیے جائیں ، حتّیٰٰ کہ لونڈیوں ور غلاموں کو بھی بن بیاہا نہ رہنے دیا جائے۔ اس لیے کہ تجرد فحش آفریں بھی ہوتا ہے اور فحش پذیر بھی۔ مجرد لوگ اور کچھ نہیں تو بری خبریں سننے اور پھیلانے ہی میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔
14 ) ۔ لونڈیوں ور غلاموں کی آزادی کے لیے مکاتَبت کی راہ نکال دی گئی اور مالکوں کے علاوہ دوسروں کو بھی حکم دیا گیا کہ مُکاتب غلاموں اور لونڈیوں کی مالی مدد کریں۔
15) ۔ لونڈیوں سے کسب کرانا ممنوع قرار دیا گیا۔ عرب میں یہ پیشہ لونڈیوں ہی سے کرانے کا رواج تھا،اس لیے اس کی ممانعت دراصل قحبہ گری کی قانونی بندش تھی۔

16) گھریلو معاشرت میں خانگی ملازموں اور نابالغ بچوں کے لیے یہ قاعدہ مقرر کیا گیا کہ وہ خلوت کے اوقات میں (یعنی صبح ، دوپہر اور رات کے وقت ) گھر کے کسی مرد یا عورت کے کمرے میں اچانک نہ گھس جایا کریں۔ اولاد تک کو اجازت لے کر آنے کی عادت ڈالی جائے۔
17) ۔ بوڑھی عورتوں کو یہ رعایت دی گئی کہ اگر وہ اپنے گھر میں سر سے اوڑھیر اتار کر رکھ دیں تو مضائقہ نہیں ، مگر حکم دیا گیا کہ تَبَرُّج (جن ٹھن کر اپنے آپ کو دکھانے ) سے بچیں۔ نیز انہیں نصیحت کی گئی ہ بڑھاپے میں بھی اگر وہ اوڑھنیاں اپنے اوپر ڈالے ہی رہیں تو بہتر ہے۔
18) اندھے ، لنگڑے ، لولے ، اور بیمار کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ کھانے کی کوئی چیز کسی کے ہاں سے بلا اجازت کھا لے تو اس کا شمار چوری اور خیانت میں نہ ہو گا۔ اس پر کوئی گرفت نہ کی جائے۔
19) ۔ قریبی عزیزوں اور بے تکلف دوستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ ایک دوسرے کے ہاں بلا اجازت بھی کھا سکتے ہیں ، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنے گھر میں کھا سکتے ہیں۔ اس طرح معاشرے کے افراد کو ایک دوسرے سے قریب تر کر دیا گیا ور ان کے درمیان سے بیگانگی کے پردے ہٹا دیے گئے تاکہ آپس کی محبت بڑھے اور باہمی اخلاص کے رابطے ان رخنوں کو بند کر دیں جن سے کوئی فتنہ پرواز پھوٹ ڈال سکتا ہوَ

ان ہدایات کے ساتھ ساتھ منافقین اور مومنین اور مومنین کی وہ کھُلی کھُلی علامتیں بیان کر دی گئیں جن سے ہر مسلمان یہ جان سکے کہ معاشرے میں مخلص اہل ایمان کون لوگ ہیں اور منافق کون۔ دوسری طرف مسلمانوں کے جماعتی نظم و ضبط کو اور کس دیا گیا اور اس کے لیے چند مزید ضابطے بنا دیے گئے تاکہ وہ طاقت اور زیادہ مضبوط ہو جائے جس سے غیظ کاا کر کفار و منافقین فساد انگیزیاں کر رہے تھے۔
اس تمام بحث میں نمایاں چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ پوری سورہ نور اس تلخی سے خالی ہے جو شرمناک اور بیہودہ حملوں کے جواب میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ ایک طرف ان حالات کو دیکھیے جن میں یہ سورت نازل ہوئی ہے۔ اور دوسری طرف سورت کے مضامین اور انداز کلام کو دیکھیے۔ اس قدر اشتعال انگیز صورت حال میں کیسے ٹھنڈے طریقے سے قانون سازی کی جا رہی ہے ، مصلحانہ احکام دیے جا رہے ہیں ، حکیمانہ ہدایات دی جا رہی ہیں ، اور تعلیم و نصیحت کا حق ادا کیا جا رہا ہے۔ اس سے صرف یہی سبق نہیں ملتا کہ ہم کو فتنوں کے مقابلے میں سخت سے سخت اشتعال کے مواقع پربھی کس طرح ٹنڈدے تدبّر اور عالی ظرفی اور حکمت سے کام لینا چاہیے ، بلکہ اس سے اس امر کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ یہ کلام محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا اپنا تصنیف کردہ نہیں ہے ، کسی ایسی ہستی کا نازل کیا ہوا ہے جو بہت بلند مقام سے انسانی حالات اور معاملات کا مشاہدہ کر رہی ہے اور اپنی ذات میں ان حالات و معاملات سے غیر متاثر رہ کر خالص ہدایت و رہنمائی کا منصب اد کر رہی ہے۔ اگر یہ آنحضرتؐ کا اپنا کلام ہوتا تو آپ کی انتہائی بلند نظری کے باوجود اس میں اس فطری تلخی کا کچھ نہ کچھ اثر تو ضرور پایا جاتا جو خود اپنی عزت و ناموس پر کمینہ حملوں کو سن کر ایک شریف آدمی کے جذبات میں لازماً پیدا ہو جایا کرتی ہے۔


Part 1
سورۃ نُور ۔۔ اُم المومنین زینب سے نکاح اور عائشہ پر لگنے والے تہمت کا قصہ

Part 2
سورۃ نور ، ام المومنین عائشہ رض فرماتی ہیں


Dr Adam
 
Last edited:

ranaji

President (40k+ posts)
ٹو سٹار چکلے کی پیداوار نطفہ حرام کالیا زبیر عمر کالا خنزیر لعنتی زانی بے غیرت بے شرم ٹی وی اینکرز کے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کی عمر کی لڑکیوں کو نوکری کا جھانسہ دے کر ان کے ساتھ زنا کرنے والے خنزیر النسل زبیر عمر مثلی میراثی اور کنجر نے یا اس کو رس گلے کھلانے والوں نے یہُ نہیں پڑھا شاید
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
میں یہی کہنے والا تھا ۔۔ مگر سستی یا مصروفیت کی وجہ سے رہ گیا۔۔اور آپ بازی لے گئے۔۔ جزاک اللہ۔۔

منکرین حدیث سے پوچھیں تو کہیں گے ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں۔۔ اور جب قرآن کے احکام کا پوچھو تو کوئی پتہ نہیں انہیں۔۔ اور اگر کہیں سے ترجمہ پڑھ بھی لیں تو اس قدر سخت دل بن گئے ہیں کہ اس کا بھی مزاق اڑاتے ہیں کہ یہ ترجمہ ایسا نہیں بلکہ ہماری مرضی کا ہونا چاہیئے۔

پورا قرآن ماضی حال مستقبل سے متعلق ہے۔۔ یعنی ماضی کی قوموں نے کیا کیا۔۔ اور ان سے کیا سبق لینا ہے۔۔ اور حال میں کیسے رہنا ہے۔۔ اور مستقبل میں کیا آنے والا ہے۔۔ یعنی جنت و جہنم روز حساب کے بعد۔۔اسکی تیاری کیسی کرنی ہے

صرف اس ایک سورہ میں اخلاقیات کا وہ قانون بنا کر دیا گیا ہے۔۔کہ جسے اہل مغرب نے بھی سیکھا اور دروازے پر ناک کرنا شروع کیا۔۔ وغیرہ۔​


Jazak Allah Khair

Islam is a complete code of life. We are the one who don’t follow Islam in our lives. May Allah give all of us Hidayat and keep us on right path Aameen
 
Last edited:

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Aurtain koi bhains ya bakri nahi hai ke hum ko apni marzi ke mutabiq kabhi haveli mein baand dein ya kheto mein ghaas charane chord de.
چلو میں کھل کر بتاتا ہوں۔۔
آپ چاہو تو اپنی عورتوں کو بے پردہ رکھو۔۔

یا جیسے جی میں آئے
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
ان کے خیال میں قرآن میں جو احکام آئے ہیں وہ بس اسی وقت کے لیئے تھے۔۔ شاباشے۔۔

ابھی اوپر پوسٹ نمبر تین میں یہی کہا کہ قرآن کو ماننے کا احسان تو کرتے ہو مگر اس شرط پر کہ ترجمہ تمہاری مرضی کا ہو​
 

Citizen X

President (40k+ posts)
چلو میں کھل کر بتاتا ہوں۔۔
آپ چاہو تو اپنی عورتوں کو بے پردہ رکھو۔۔

یا جیسے جی میں آئے
Once again, no such thing as "meri aurtain""teri aurtain""aap ki ayrtain""hamari aurtain" Aurtain kissi ki jaageer nahi hain jin ko x, y ya z tareeqay se rakha jaye.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Once again, no such thing as "meri aurtain""teri aurtain""aap ki ayrtain""hamari aurtain" Aurtain kissi ki jaageer nahi hain jin ko x, y ya z tareeqay se rakha jaye.
قرآن کو ماننے کا دعوہ کرتے ہو اور اتنا بھی نہیں پتہ کہ قرآن میں ہی کئی بار فرمایا گیا تمہاری عورتیں۔
اسی لیئے تو بولا ہے کہ قرآن ایک بار ترجمے کے ساتھ پڑھ لو شاید تمہارا دل نرم ہو۔۔۔ اور دماغ آزاد

سورۃ نسا کو ہی پڑھ لو۔۔ جو عورت سے متعلق ہے
 

Citizen X

President (40k+ posts)
ان کے خیال میں قرآن میں جو احکام آئے ہیں وہ بس اسی وقت کے لیئے تھے۔
Surat Ahzab ayat mein complete mardo aur aurton ka complete dress code bayan ker diya gaya hai. Surah Noor mein ek waqakya ka zikr ho raha hai. Nothing really too difficult to understand in this.
 

Citizen X

President (40k+ posts)
قرآن کو ماننے کا دعوہ کرتے ہو اور اتنا بھی نہیں پتہ کہ قرآن میں ہی کئی بار فرمایا گیا تمہاری عورتیں۔
اسی لیئے تو بولا ہے کہ قرآن ایک بار ترجمے کے ساتھ پڑھ لو شاید تمہارا دل نرم ہو۔۔۔ اور دماغ آزاد
Woh Allah s.w.t ka farman hai aur apni makhlooq se mukhatib hai, unko haq hai. Main ya tum koun hain?
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Woh Allah s.w.t ka farman hai aur apni makhlooq se mukhatib hai, unko haq hai. Main ya tum koun hain?​
Yes when out of logical arguments, start your infantile ad hominem attacks.​

جب اللہ انہیں تمہاری عورت کہتا ہے تو تم کون ہوتے ہو ہمیں روکنے والے کہ اپنی عورت کو ہماری عورت نہ کہیں۔۔
اسی طرح وہ ہمیں ہمارے مرد کہہ سکتی ہیں۔۔

لگتا ہے تمہیں تو زبان کا بھی مسٗلہ ہے۔۔ جس کے تم چیمپئین بنتے ہو۔۔​