سپن بولدک پر قبضے کے بعد طالبان کا پاکستانی تاجروں سے ٹیکس وصولی کاآغاز

London Bridge

Senator (1k+ posts)
_91632855_4cd7b7e6-2286-4c63-a17d-069146740944.jpg

سپن بولدک اور ویش منڈی پر قبضے کے بعد افغان طالبان کا پاکستانی تاجروں کے لیے محصولات کی وصولی کا ٹیرف جاری

افغان طالبان نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے سرحدی شہر چمن کے ساتھ جڑے افغانستان کے شہر سپن بولدک کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وصولی کا ٹیرف جاری کر دیا ہے۔
مقامی ذرائع کے مطابق یہ فہرست پاکستانی تاجروں کو موصول ہو گئی ہے جس کے مطابق افغان طالبان تقریباً 376 اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیز وصول کرنا چاہتے ہیں۔
اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے پاکستان افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر عمران خان کاکڑ نے کہا کہ دوہرے ٹیکس کی وجہ سے پاکستانی تاجروں کو نقصان ضرور ہوگا لیکن کسی بڑے اور ناقابل تلافی نقصان سے بچنے کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
جب بی بی سی نے متعلقہ حکام سے اس معاملے پر سرکاری ردعمل لینے کی کوشش کی تو بین الاقوامی تجارت کے امور کی نگرانی کرنے والی وفاقی وزارتِ تجارت کے ترجمان نے اس معاملے کو اپنی وزارت کے اختیار سے باہر قرار دیا۔
پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے بھی اس معاملے پر مؤقف جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم ان کے ترجمان کے جانب سے تاحال کوئی جواب نہیں آیا۔

_119658213_mediaitem119658212.jpg

طالبان کی جانب سے جاری ہونے والی ٹیرف لسٹ 19 صفحات پر مشتمل ہے​

دوہرے ٹیکس اور ڈیوٹیز کی ادائیگی سے پاکستانی تاجروں کا نقصان

عمران خان کاکڑ نے بتایا کہ اب تاجروں کو سپن بولدک میں طالبان کو ٹیکس اور ڈیوٹیز دینی ہوں گی جبکہ اس سے آگے قندہار میں اشرف غنی حکومت کو بھی ادائیگی کرنی پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ قندھار کسٹم میں اسکوڈا (ASYCUDA) سسٹم کے تحت افغان حکومت کو دوبارہ ڈیوٹی اور ٹیکس دینا ہوگا اور صرف اسی صورت میں پاکستان سے افغانستان میں جانے والا مال قانونی قرار دیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ افغان طالبان کی جانب سے عائد کردہ ڈیوٹیز کم ہیں لیکن پاکستانی تاجروں کو نقصان ضرور ہوگا۔ ’پاکستانی تاجر پہلے ایک ٹیکس اور ڈیوٹی دیتے تھے لیکن اب ان کو دو جگہ یہ دینے ہوں گے۔'
ان کا کہنا تھا کہ اس نقصان کو برداشت کرنے کے سوا پاکستانی تاجروں کے پاس کوئی اورچارہ نہیں کیونکہ اگر ایک تاجر کا 80 لاکھ یا ایک کروڑ روپے کا سامان ہوگا تو اسے ایک بہت بڑے نقصان سے بچنے کے لیے مجبوراً چھوٹا نقصان برداشت کرنا پڑے گا۔
'وہاں حالات غیر یقینی ہیں۔ ہر فرد باالخصوص پاکستان کی تاجر برادری افغانستان میں اچھے وقت کا انتظار کررہا ہے۔
'

یہ فہرست پاکستانی تاجروں کو کیسے موصول ہوئی؟


عمران کاکڑ نے بتایا کہ افغان طالبان نے جن اشیا کی فہرست دی ہے وہ 19 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں اندازاً 376 اشیا شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کا پاکستانی تاجروں سے براہ راست سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔
'انھوں نے یہ فہرست ہمیں افغان تاجروں کے ذریعے بھجوائی ہے اور یہ کہا ہے کہ وہ ان ان اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹیز کی وصولی کریں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ افغان اور پاکستانی تاجروں کا مشترکہ چیمبر آف کامرس ہے اس لیے جو بھی رابطہ ہوتا ہے یا معلومات ہوتی ہیں وہ افغانستان میں کسی بھی فریق کی جانب سے افغان تاجر برادری کے ذریعے پاکستانی تاجروں کو فراہم کی جاتی ہیں۔

پاکستان کو افغان طالبان کی اس فہرست پر کوئی اعتراض تو نہیں؟


اس سوال پرکہ کیا افغان طالبان کی جانب سے ٹیرف کی فہرست پر حکومت پاکستان کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا، تاجر رہنما نے کہا کہ پاکستان حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ یہ افغانستان کا اندورنی معاملہ ہے۔
_119658785_gettyimages-1233969766.jpg

ویش منڈی بنیادی طور پر چمن کے ساتھ افغان علاقے سپن بولدک میں ایک سرحدی منڈی ہے جس میں طالبان رواں ماہ کے وسط میں آئے تھے جس کے بعد انھوں نے سپن بولدک کا کنٹرول بھی حاصل کیا تھا۔
سیاسی تجزیہ نگار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ویش منڈی افغانستان کے اہم صوبے اور دوسرے بڑے شہر قندہارکا گیٹ وے ہے۔
شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ بلوچستان سے افغانستان کے جنوب مغربی صوبوں اور وسط ایشائی ریاستوں کے درمیان ویش منڈی طورخم کی طرح اہم گزرگاہ ہے۔
ادھر طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کسٹم کے باقاعدہ نظام کی غیر موجودگی کی وجہ سے ہر اشیا پر الگ ٹیکس کی وصولی نہیں کی جا رہی بلکہ فی حال اشیا پر مجموعی ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔
مثلاً ہر سبزی کا ٹرک جو سپن بولدک سے آگے کسی شہر میں جائے گا اس سے فی ٹرک چالیس ہزار روپے وصول کیے جا رہے ہیں جبکہ اگر وہ ٹرک ان علاقوں میں خالی ہوتا ہے جس پر طالبان کا کنڑول ہے جیسا کہ سپین بولدک یا باڈر کے قریب واقع ویش منڈی تو سبزی کے فی ٹرک سے سات ہزار روپے بطور ٹیکس وصول کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح دھاتی کباڑ لانے والے پر ٹرک سے چار لاکھ روپے ٹیکس کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔
طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ کیونکہ اس وقت سپین بولد کے قریب واقع ہیڈ کوارٹر پر اب بھی افغان حکومت کا کنڑول موجود ہے اس لیے سپین بولدک سے آگے جانے والے سامان پر افغان حکومت کی جانب سے علیحدہ ٹیکس وصول کیا جاتا۔


SOURCE



 

Truthstands

Minister (2k+ posts)
بی بی سی امریکن پروپیگنڈا کے طور پر کام کر رہا ہے۔
افغانستان میں امپورٹ ڈیوٹی وصول کرنا انکا حق ہے۔
یہ پاکستانی تاجر نہیں بلکہ امپورٹ کرنے والا ادا کرتا ہے۔

کیا بی بی سی کوین کے لگائے گئے ٹیکسوں پر بھی اطرز کر سکتا ہے؟
بی بی سی خود عوام کی بھیک اور ٹیکس سے چلتا ہے۔
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Very good move, they should do the same all over Afghanistan. Millions of small and medium size business in Pakistan have never heard the word tax. They all go home with full pockets of cash every evening but no tax !!!!!!!!!!!
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Pakistani mentality is, every occasion government must come to help but expenses involved should be paid by America, IMF, World bank, or Deuthche Bank.
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
ڈالروں پر پلنے والوں کے کمنٹس پڑھ کر فرق کرنا مشکل رہا
جب پاکستان کا وزیر اعظم کہتا ہے کہ پاکستان کسی کی ہائیرڈ گن نہیں ہیں تو جماعت اسلامی کو اس بات سے اختلاف ہوتا ہے
وجہ
جن کے بڑے بزرگوں کا گزر بسر ہی امریکی ڈالر پر ہوتا تھا بند ہونے سے تکلیف تو ہو رہی ہے
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
there is no undisputed sarkar in Afghanistan, sarkar hoti to ye msle na hote, sabhi jage hen
ریاست کے اندر ریاست
یہی کام طالبان نے سوات میں بھی کیا تھا
پھر کیا ہوا پاکستانی فوج اور عوام سے چھتر بھی کھائے اور دم دبا کر واپس افغانستان بھی بھاگے
ٹیکس لینے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو پہلے حکومت بنا لیں پھر ٹیکس سے اپنی جیبیں بھی بھرتے رہیں
کسے پرواہ
 

CANSUK

Chief Minister (5k+ posts)
۰ریاست کے اندر ریاست
یہی کام طالبان نے سوات میں بھی کیا تھا
پھر کیا ہوا پاکستانی فوج اور عوام سے چھتر بھی کھائے اور دم دبا کر واپس افغانستان بھی بھاگے
ٹیکس لینے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو پہلے حکومت بنا لیں پھر ٹیکس سے اپنی جیبیں بھی بھرتے رہیں
کسے پرواہ
آپ ٹی ٹی پی اور طالبان ميں فرق نہيں کر پا رہے ، ٹی ٹی پی کرائے کے ٹٹو غائب ہيں اور ايک سُپر پاور ۲۰ سال بعد طالبان سے مذاکرات کرتی ہے اور يہ بھی کہتی ہے کے طالبان پچاس فيصد سے زائد افغانستان پر قابض ہيں پر افغانی ٹٹو گورنمنٹ کو بھی سپورٹ کرتی ہے، اب فضول ہی نام نہاد افغانی فوج طالبان سے مار کہائے گی اور وزير اعظم امريکہ فرار ہو جائيں گے۔​
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
ریاست کے اندر ریاست
یہی کام طالبان نے سوات میں بھی کیا تھا
پھر کیا ہوا پاکستانی فوج اور عوام سے چھتر بھی کھائے اور دم دبا کر واپس افغانستان بھی بھاگے
ٹیکس لینے کا اگر اتنا ہی شوق ہے تو پہلے حکومت بنا لیں پھر ٹیکس سے اپنی جیبیں بھی بھرتے رہیں
کسے پرواہ
پاکستان کو چاہیئے ایرانی اشیاء پر ٹیکس بڑھا دے
 

karachiwala

Prime Minister (20k+ posts)
آپ ٹی ٹی پی اور طالبان ميں فرق نہيں کر پا رہے ، ٹی ٹی پی کرائے کے ٹٹو غائب ہيں اور ايک سُپر پاور ۲۰ سال بعد طالبان سے مذاکرات کرتی ہے اور يہ بھی کہتی ہے کے طالبان پچاس فيصد سے زائد افغانستان پر قابض ہيں پر افغانی ٹٹو گورنمنٹ کو بھی سپورٹ کرتی ہے، اب فضول ہی نام نہاد افغانی فوج طالبان سے مار کہائے گی اور وزير اعظم امريکہ فرار ہو جائيں گے۔​
اس نکے کو سب پتہ ہے۔ یہ تو یہاں دل کا غبار نکال رہا ہے
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
آپ ٹی ٹی پی اور طالبان ميں فرق نہيں کر پا رہے ، ٹی ٹی پی کرائے کے ٹٹو غائب ہيں اور ايک سُپر پاور ۲۰ سال بعد طالبان سے مذاکرات کرتی ہے اور يہ بھی کہتی ہے کے طالبان پچاس فيصد سے زائد افغانستان پر قابض ہيں پر افغانی ٹٹو گورنمنٹ کو بھی سپورٹ کرتی ہے، اب فضول ہی نام نہاد افغانی فوج طالبان سے مار کہائے گی اور وزير اعظم امريکہ فرار ہو جائيں گے۔​
ٹی ٹی پی کو طالبان کی سپورٹ حاصل تھی، اور باقی بچی کھچی ٹی ٹی پی پاکستان سے بھاگی تو طالبان نے ہی ا نہیں پناہ دی
طالبان ان کی حمایت کرنے پر معافی مانگ لیں اور آئندہ سے سپورٹ نہ کرنے کا اعلان کر دیں تو ہمیں بھی افغانی طالبان سے کوئی مسئلہ نہیں
 

چھومنتر

Minister (2k+ posts)
پاکستان کو چاہیئے ایرانی اشیاء پر ٹیکس بڑھا دے
آئی ڈی تمہاری کراچی والی ہے مگر نظریات طالبانی ہیں
ایرانی اشیا پر ٹیکس بڑھاو یا بند کرو کسے پرواہ، پاکستان کا دشمن ایران ہو یا طالبان دونوں میرے لیے قابل نفرت ہیں