انسانی جان بڑی قیمتی ہے- اسمیں کسی کو کویی شک نہیں ہونا چاہیے اور نا حق خون پوری انسانیت کو ماردینے کے مترادف ہے۔ یہ اس ذات کا فرمان ہے جو کہ اس کاینات کی خالق ہے۔ تو پھر شک کہاں ہے ۔ ظلم ہوا مچھ میں ، مداوا ہونا بھی ضروری ہے اور اگر نہ ہو تو گلہ بھی سرآنکھوں پر۔ عمران خان کو یہ مسلہ حل کرنا ہے اور جلد حل کرنا ہے۔ اس چیز کا احساس عمران خان سے زیادہ کس کو ہو گا۔ ۔۔
ویسے جو شخص اس دنیا سے رخصت ہو جایے تو اسکا حق ہے کہ اسکی تدفین جتنی جلدی ہو جاے اتنا ہی اچحا ہے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایسا بروقت نہ کیا جاے تو تین جانور بہت جلد مردے کو گھیر لیتے ہیں اور وہ ہیں گدھ ، کوے اور کتے۔ اب آگے آپ لوگ خود سمجھدار ہیں کہ وزیراعظم یہ کیوں درخواست کر رہے ہیں کہ اپنے پیاروں کو جلد سے جلد دفن کردو تو یہ سارے جانور ہٹ جاییں گے اور میں آپکے پاس اسی وقت آجاوں گا۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کویی ان لوگوں سے کوی پوچھے کہ دشمن نے تو انہیں جان سے مار ہی دیا اب تم انکی تدفین میں تاخیر کرکے اور سزا کیوں دے رہے ہو۔ کیا حق صرف جینے والوں کا ہی ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس۔
ہزارہ کمیونٹی کا چیرمین خالق ہزارہ دنیا ٹی وی پر کہہ چکا کہ انکے مطالبات مان لیے گیے تھے اور وہ تدفین کے لیے تیار تھے تو پھر اچانک کیا ہوا۔ دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی لگ رہی ہے۔ جب قتل ہونے والوں کا درد مریم اور بلاول کے پیٹ میں ہونے لگےاور جب ان پر ظلم کی آہیں ہمارے اعلی پاے کے صحافیوں کے منہ سے نکلنے لگیں اور وہ یہ کہتے پایے جاییں کہ عمران خان ظالم ہے ، بے حس ہے ، معاملہ فہم نہیں، الفاظ کے چناو کا پتہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تو سوچنا تو پڑے گا کہ عمران خان کیسا ظالم شخص ہے جو کہ ان درد مندوں کی آہ و بکا ہی نہیں سن رہا۔
وہ شخص جس نے اپنی ساری زندگی اس مشن میں لگا دی کہ پاکستان کے ٰغریب کو اسکا صحیح حق ملے۔ وہ کیڑوں کی طرح نہیں غیرت مند انسان کی طرح زندگی گزار سکے اسے انصاف ملے ہر طرح کا انصاف معاشی، معاشرتی اور قانونی انصاف ۔ جس شخص نے اپنی ماں کے درد کو محسوس کیا اور اس درد سے سب کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کے لیے اپنی انتھک کوششوں سے دنیا کا عمدہ ترین ہسپتال بنانے والے سے زیادہ ظالم شخص کون ہو گا۔ غریب لوگ جو مزدوریاں کرتے ہیں ، جنکے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں کھانے کے لیے روٹی نہیں۔ انکے لیے پناہ گاہوں کو بنانے والے کو تو ہٹلر سمجھنا چاہیے، کرونا میں جب یہ سارے رحمدل لوگ یہ کہہ رہے تھے سب کچھ بند کردو تو یہ وحشی انسان یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ملک کے غریب کا کیا بنے گا۔ وہ کرونا سے مرے نہ مرے بھوک سے ضرور مر جاے گا۔ جب یہ انسانیت کا درد رکھنے والے اپنے علاچ کے لیے ملک سے باہر جانے کی استدعاییں کر رہے تھے تو یہ پتھردل ملک کے غریبوں کے لیے ہیلتھ کارڈ کا سوچ رہا تھا تاکہ اس ملک کے ہر غریب آدمی کو مفت اور بہترین علاچ کی سہولتیں مل سکیں۔ ایسے شخص کو ستم گر ہی سمجھنا چاہیے جو فلاحی ریاست کا خواب دیکھتا ہے۔
لیکن کویی مجھے یہ بتاے کے ایسا کون سا زم زم مچھ میں اچانک نکل آیا ہے کہ یہ سب گندگی سے لتھڑے وہاں پر جا کر دھلے دھلے اجلے اجلے لگنے لگے اور ان ساروں کی گندگی عمران پہ آن پڑی۔ مجھے آج افسوس ہو رہا ہے کہ ماڈل ٹاون کی ۱۴لاشیں کیوں جلدی دفن کردی گیں انہیں بھی ساتھ اسلام آباد کیوں نہ لے جایا گیا اور اس وقت کے وزیراعظم سے اس ظلم کے حساب دینے کو کیوں نہ کہا گیا۔ کاش کہ یہ آییڈیا طاہرالقادری کے ذہن میں بھی آجاتا۔
آج میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گیی ہے۔ اب مریم اور بلاول کو فضل الرحمان سے زیادہ ان لاشوں پہ یقین ہو گا کہ یہ انہیں این آر او لینے میں ضرور مدد کرسکیں گی۔
مجھے شاید اس واقعے میں عمران خان کے اقدام سے کچھ گلہ ہو بھی سکتا تھا لیکن جب میں نے طلعت حسین ، غریدہ فاروقی، منصور، فہد حسین، نسیم زہرہ، عاصمہ شیرازی وغیرہ وغیرہ کی چیخیں اور واویلا سنا تو سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں کسی گناہ کا مرتکب تو نہیں ہونے والا۔ کیونکہ جس بات کو یہ برا کہہ رہےہیں وہ حقیقت میں کیسے بری ہو سکتی ہے ۔
اب خان کا جانا تو مرحوموں کی تدفین کے بعد ہی بنتا ہے ۔ باقی اسکی مرضی ۔ جس اللہ نے اسے اختیار دیا ہے وہ اسکو راہ بھی دکھاے گا اور اسکی مدد بھی کرے گا۔
ویسے جو شخص اس دنیا سے رخصت ہو جایے تو اسکا حق ہے کہ اسکی تدفین جتنی جلدی ہو جاے اتنا ہی اچحا ہے۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر ایسا بروقت نہ کیا جاے تو تین جانور بہت جلد مردے کو گھیر لیتے ہیں اور وہ ہیں گدھ ، کوے اور کتے۔ اب آگے آپ لوگ خود سمجھدار ہیں کہ وزیراعظم یہ کیوں درخواست کر رہے ہیں کہ اپنے پیاروں کو جلد سے جلد دفن کردو تو یہ سارے جانور ہٹ جاییں گے اور میں آپکے پاس اسی وقت آجاوں گا۔
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ کویی ان لوگوں سے کوی پوچھے کہ دشمن نے تو انہیں جان سے مار ہی دیا اب تم انکی تدفین میں تاخیر کرکے اور سزا کیوں دے رہے ہو۔ کیا حق صرف جینے والوں کا ہی ہوتا ہے۔ افسوس صد افسوس۔
ہزارہ کمیونٹی کا چیرمین خالق ہزارہ دنیا ٹی وی پر کہہ چکا کہ انکے مطالبات مان لیے گیے تھے اور وہ تدفین کے لیے تیار تھے تو پھر اچانک کیا ہوا۔ دال میں کچھ کالا نہیں دال ہی کالی لگ رہی ہے۔ جب قتل ہونے والوں کا درد مریم اور بلاول کے پیٹ میں ہونے لگےاور جب ان پر ظلم کی آہیں ہمارے اعلی پاے کے صحافیوں کے منہ سے نکلنے لگیں اور وہ یہ کہتے پایے جاییں کہ عمران خان ظالم ہے ، بے حس ہے ، معاملہ فہم نہیں، الفاظ کے چناو کا پتہ نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ تو سوچنا تو پڑے گا کہ عمران خان کیسا ظالم شخص ہے جو کہ ان درد مندوں کی آہ و بکا ہی نہیں سن رہا۔
وہ شخص جس نے اپنی ساری زندگی اس مشن میں لگا دی کہ پاکستان کے ٰغریب کو اسکا صحیح حق ملے۔ وہ کیڑوں کی طرح نہیں غیرت مند انسان کی طرح زندگی گزار سکے اسے انصاف ملے ہر طرح کا انصاف معاشی، معاشرتی اور قانونی انصاف ۔ جس شخص نے اپنی ماں کے درد کو محسوس کیا اور اس درد سے سب کو کینسر جیسے موذی مرض سے بچانے کے لیے اپنی انتھک کوششوں سے دنیا کا عمدہ ترین ہسپتال بنانے والے سے زیادہ ظالم شخص کون ہو گا۔ غریب لوگ جو مزدوریاں کرتے ہیں ، جنکے پاس رہنے کے لیے چھت نہیں کھانے کے لیے روٹی نہیں۔ انکے لیے پناہ گاہوں کو بنانے والے کو تو ہٹلر سمجھنا چاہیے، کرونا میں جب یہ سارے رحمدل لوگ یہ کہہ رہے تھے سب کچھ بند کردو تو یہ وحشی انسان یہ سوچ رہا تھا کہ میرے ملک کے غریب کا کیا بنے گا۔ وہ کرونا سے مرے نہ مرے بھوک سے ضرور مر جاے گا۔ جب یہ انسانیت کا درد رکھنے والے اپنے علاچ کے لیے ملک سے باہر جانے کی استدعاییں کر رہے تھے تو یہ پتھردل ملک کے غریبوں کے لیے ہیلتھ کارڈ کا سوچ رہا تھا تاکہ اس ملک کے ہر غریب آدمی کو مفت اور بہترین علاچ کی سہولتیں مل سکیں۔ ایسے شخص کو ستم گر ہی سمجھنا چاہیے جو فلاحی ریاست کا خواب دیکھتا ہے۔
لیکن کویی مجھے یہ بتاے کے ایسا کون سا زم زم مچھ میں اچانک نکل آیا ہے کہ یہ سب گندگی سے لتھڑے وہاں پر جا کر دھلے دھلے اجلے اجلے لگنے لگے اور ان ساروں کی گندگی عمران پہ آن پڑی۔ مجھے آج افسوس ہو رہا ہے کہ ماڈل ٹاون کی ۱۴لاشیں کیوں جلدی دفن کردی گیں انہیں بھی ساتھ اسلام آباد کیوں نہ لے جایا گیا اور اس وقت کے وزیراعظم سے اس ظلم کے حساب دینے کو کیوں نہ کہا گیا۔ کاش کہ یہ آییڈیا طاہرالقادری کے ذہن میں بھی آجاتا۔
آج میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پی ڈی ایم ختم ہو گیی ہے۔ اب مریم اور بلاول کو فضل الرحمان سے زیادہ ان لاشوں پہ یقین ہو گا کہ یہ انہیں این آر او لینے میں ضرور مدد کرسکیں گی۔
مجھے شاید اس واقعے میں عمران خان کے اقدام سے کچھ گلہ ہو بھی سکتا تھا لیکن جب میں نے طلعت حسین ، غریدہ فاروقی، منصور، فہد حسین، نسیم زہرہ، عاصمہ شیرازی وغیرہ وغیرہ کی چیخیں اور واویلا سنا تو سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ کہیں کسی گناہ کا مرتکب تو نہیں ہونے والا۔ کیونکہ جس بات کو یہ برا کہہ رہےہیں وہ حقیقت میں کیسے بری ہو سکتی ہے ۔
اب خان کا جانا تو مرحوموں کی تدفین کے بعد ہی بنتا ہے ۔ باقی اسکی مرضی ۔ جس اللہ نے اسے اختیار دیا ہے وہ اسکو راہ بھی دکھاے گا اور اسکی مدد بھی کرے گا۔