دیسی لبرلز اور سیکولرز نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ سیکولر نظام امن پسندی کا علمبردار ہے۔یہی ایک نظام ہے جس سے سکھ و اطمینان ممکن ہے۔سیکولرزم نے ہمیشہ انسانیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے،صرف یہی نہیں بلکہ اسی نظام نے آزادی اظہار رائے جیسے بنیادی حق سے اپنے رعایا کو فیض یاب کرایا ہے۔اسی طرح کئی دعوؤں کو بنیاد بناکر انکے آلہ کار یہ باور کرانے کی بار بار کوشش کرتے رہے ہیں کہ اگر دنیا کو شدت پسندی سے نکال کر امن پسندی کی جانب دھکیلنا ہے تو اسی نظام کو بطور مشعل راہ قائم رکھنا ہوگا۔
تو آئیے زیادہ دور نہیں بلکہ حال ہی میں پچھلے دو واقعات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ انکے اس امن پسندی کے دعووں میں کس حد تک حقیقت موجود ہے اور وہ کس حد تک اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں؟
حال ہی میں امریکہ کے اندر ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ دستوری لحاظ سے امریکہ ایک سیکولر سٹیٹ ہے یعنی امن پسندی کا سب سے بڑا علمبردار اور پیروکار۔ہوا یوں کہ رواں سال پچیس مئی کو George Floyd نامی امیریکن شہری کو ایک چھوٹے الزام کے تحت Minneapolis پولیس نے گرفتار کیا۔اب امن پسندی کے دعووں کو مدنظر رکھتے ہوئے بندے کے دل ودماغ پر یہ تصور کٹھکتا ہے کہ اگلا قدم پولیس آفیسرز کی جانب سے یہ ہوگا کہ ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ دائر کیا جائے گا،قانون کے تحت اسے سزا دی جائے گی۔مگر ہمارے خیال پر پانی اس وقت پھر جاتا ہے جب انہی تین پولیس آفیسرز کی جانب سے اسکو بیچ سڑک میں مار دیا جاتا ہے۔کوئی بھی شخص جو اپنے اندر انسانی ہمدردی کا احساس لئے پھرتا ہے اس پر یہ منظر کانٹے کی طرح لگتی ہے جب بیچارہ بلیک 47 سالہ جارج فلائیڈ چیختا رہا چلاتا رہا،مگر اسے تب چھوڑ دیا گیا جب اس کی جان لی گئی۔اسی طرح ایک سیکولر ریاست نے امن پسندی کی عظیم مثال قائم کردی۔
اسی قتل کے پیچھے متحدہ ہائے امریکہ کے اندر ایک مردہ تحریک جو سالوں سے بے جان پڑی ہوئی تھی۔ "Black lives Matter" دوبارہ سر اٹھانے لگی۔حالانکہ ظلم وستم کا سلسلہ ان میں ابتدا سے چلا آرہا ہے جو Martin Luther King اور نیلسن منڈیلا کی بصورت ہمارے سامنے عیاں ہے۔مگر 2013 کی یہ تحریک ازسرنو زور پکڑنے لگی اور ملک کے حالات کشیدہ تر ہوگئے۔
تو آپ ہی بتایئے کیا کسی معصوم شہری کو بیچ چوراہے میں قتل کرنا امن پسندی ہے ؟
بلاواسطہ ایک تحریک کو ہوا دے کر ملک میں سول وار کا سماں پیدا کرنا،امن پسندی ہے؟ ایک ہی ملک کے اقلیت و اکثریت کو ایک دوسرے کے جان کے درپے کرنا،امن پسندی ہے ؟
دوسرا واقعہ فرانس میں پیش آیا جب فرانس نے سرکاری سطح پر گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا۔جب کوئی اکیلا بندہ اسلام کے شعائر کا مزاق اڑاتا ہے تو اس پر criminal لاء کا اطلاق ہوتا ہے جس کو نافذ کرنا افراد کا کام نہیں بلکہ ریاست کا کام ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی ریاست گستاخی رسول کا مرتکب ہوجاتا ہے یا کسی گستاخی کی سرکاری سطح پر حمایت کا اعلان کرتا ہے تو اس پر law of war کا اطلاق ہوتا ہے یعنی مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ۔
اسی واقعے پر امہ کی جانب سے شدید رد عمل بھی سامنے آیا لیکن یہاں ہمارا موضوع وہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ فرانس بھی تو ایک سیکولر سٹیٹ ہے اور ظاہر ہے یہ بھی امن پسندی کا سب سے بڑا پیرو ہوگا۔
تو آپ ہی بتایئے کیا دوسرے مزاہب کے شعائر کا مزاق اڑانا امن پسندی ہے ؟ انکا مزاق اڑاکر کروڑوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا امن پسندی ہے؟
خطے کے حالات کو سنگین بنانا امن پسندی ہے ؟
اب فیصلہ آپ پر ہے۔
میں تو یہی سمجھا ہوں کہ ان دو واقعات سے سیکولرزم اور انکی جعلی امن پسندی کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔
اب فقط جنازہ پڑھنے کی دیر ہے۔
تو آئیے زیادہ دور نہیں بلکہ حال ہی میں پچھلے دو واقعات سے اندازہ لگاتے ہیں کہ انکے اس امن پسندی کے دعووں میں کس حد تک حقیقت موجود ہے اور وہ کس حد تک اس پر عمل پیرا نظر آتے ہیں؟
حال ہی میں امریکہ کے اندر ایک دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ہم سب یہ بخوبی جانتے ہیں کہ دستوری لحاظ سے امریکہ ایک سیکولر سٹیٹ ہے یعنی امن پسندی کا سب سے بڑا علمبردار اور پیروکار۔ہوا یوں کہ رواں سال پچیس مئی کو George Floyd نامی امیریکن شہری کو ایک چھوٹے الزام کے تحت Minneapolis پولیس نے گرفتار کیا۔اب امن پسندی کے دعووں کو مدنظر رکھتے ہوئے بندے کے دل ودماغ پر یہ تصور کٹھکتا ہے کہ اگلا قدم پولیس آفیسرز کی جانب سے یہ ہوگا کہ ملزم کو گرفتار کرکے مقدمہ دائر کیا جائے گا،قانون کے تحت اسے سزا دی جائے گی۔مگر ہمارے خیال پر پانی اس وقت پھر جاتا ہے جب انہی تین پولیس آفیسرز کی جانب سے اسکو بیچ سڑک میں مار دیا جاتا ہے۔کوئی بھی شخص جو اپنے اندر انسانی ہمدردی کا احساس لئے پھرتا ہے اس پر یہ منظر کانٹے کی طرح لگتی ہے جب بیچارہ بلیک 47 سالہ جارج فلائیڈ چیختا رہا چلاتا رہا،مگر اسے تب چھوڑ دیا گیا جب اس کی جان لی گئی۔اسی طرح ایک سیکولر ریاست نے امن پسندی کی عظیم مثال قائم کردی۔
اسی قتل کے پیچھے متحدہ ہائے امریکہ کے اندر ایک مردہ تحریک جو سالوں سے بے جان پڑی ہوئی تھی۔ "Black lives Matter" دوبارہ سر اٹھانے لگی۔حالانکہ ظلم وستم کا سلسلہ ان میں ابتدا سے چلا آرہا ہے جو Martin Luther King اور نیلسن منڈیلا کی بصورت ہمارے سامنے عیاں ہے۔مگر 2013 کی یہ تحریک ازسرنو زور پکڑنے لگی اور ملک کے حالات کشیدہ تر ہوگئے۔
تو آپ ہی بتایئے کیا کسی معصوم شہری کو بیچ چوراہے میں قتل کرنا امن پسندی ہے ؟
بلاواسطہ ایک تحریک کو ہوا دے کر ملک میں سول وار کا سماں پیدا کرنا،امن پسندی ہے؟ ایک ہی ملک کے اقلیت و اکثریت کو ایک دوسرے کے جان کے درپے کرنا،امن پسندی ہے ؟
دوسرا واقعہ فرانس میں پیش آیا جب فرانس نے سرکاری سطح پر گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارتکاب کیا۔جب کوئی اکیلا بندہ اسلام کے شعائر کا مزاق اڑاتا ہے تو اس پر criminal لاء کا اطلاق ہوتا ہے جس کو نافذ کرنا افراد کا کام نہیں بلکہ ریاست کا کام ہوتا ہے۔اسی طرح اگر کوئی ریاست گستاخی رسول کا مرتکب ہوجاتا ہے یا کسی گستاخی کی سرکاری سطح پر حمایت کا اعلان کرتا ہے تو اس پر law of war کا اطلاق ہوتا ہے یعنی مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ۔
اسی واقعے پر امہ کی جانب سے شدید رد عمل بھی سامنے آیا لیکن یہاں ہمارا موضوع وہ نہیں بلکہ یہ ہے کہ فرانس بھی تو ایک سیکولر سٹیٹ ہے اور ظاہر ہے یہ بھی امن پسندی کا سب سے بڑا پیرو ہوگا۔
تو آپ ہی بتایئے کیا دوسرے مزاہب کے شعائر کا مزاق اڑانا امن پسندی ہے ؟ انکا مزاق اڑاکر کروڑوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا امن پسندی ہے؟
خطے کے حالات کو سنگین بنانا امن پسندی ہے ؟
اب فیصلہ آپ پر ہے۔
میں تو یہی سمجھا ہوں کہ ان دو واقعات سے سیکولرزم اور انکی جعلی امن پسندی کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی گئی ہے۔
اب فقط جنازہ پڑھنے کی دیر ہے۔