شاہ محمود قریشی کا بیان اور سعودیہ رویہ
----------------------------------------------
وزیرخارجہ محمود قریشی نے کشمیر ڈے پر بیان کیا داغا، جیو پالیٹکس اور اسٹرٹیجک اسڈیڈیز کے مقامی ماہرین نے نقشے بچھا اور کیلکولیٹر ہاتھ میں تھام لیے اور جمع تفریق کرکے قوم کو احساس دلانے لگے کہ سعودیہ پاکستان سے کسی قدر مفادات کشید کررہا ہے اور بدلے میں پاکستان کو کیا مل رہا ہے- سوشل میڈیا مجاہدین نے پاکستان کے سعودیہ پر وہ بےکراں احسانات گنواۓ جو شاید ریاستی بزرجمہروں کے خواب وخیال میں بھی نہ تھے- عرب حکمرانوں کو احسان فراموش، خودغرض، سنگدل ایسے القابات سے نوازا گیا- اس کے برعکس ایک صاحب تو جذبات کی رو میں اس قدر بہہ گۓ کہ عربی میں ٹوئٹس کرکے سعودیوں کو اپنی تابعداری اور غیرمشروط محبت کا یقین دلاتے رہے- ایسے ناداں دوستوں کے ہوتے ہوۓ قوم کو بیرونی دشمن کی کیا ضرورت ہے
اس سارے قضیے میں یہ جاننا اہم ہے کہ وزیرخارجہ کے بیان میں اسٹیبلشمنٹ کی کس قدر رضامندی شامل تھی؟ اگر یہ بات فی البدیہیہ تھی جسے اگرچہ بعد میں کوراپ بیانات سے مداوا کرنے کی کوشش کی گئی تو بھی یہ بات قابل غور ہے کہ قومی حلقوں میں سعودی عرب کی ہندوستان جانبداری پر تشویش پائی جاتی ہے- سعودیہ-بھارت تعلقات کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ نرمی پاکستان سے تعلقات کی قیمت پر ہے- پاکستان جو سعودی عرب کو درپیش ہرایشو پرغیرمشروط حمایت دلاتا رہا ہے، بدلے میں سعودیہ اس کے کشمیرپر اصولی موقف میں وہ گرم جوشی نہیں دیکھاتا- ریاست پاکستان نے اس مایوس کن رویے پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوۓ اپنی پالیسی میں نظرثانی کا اشارہ دیا ہے- اب دیکھیے سعودی حکمران اس اشارے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں
لیکن ان تعلقات میں دراڑ کیوں اور کیسے پڑ رہی ہے، یہ تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے
سعودی عرب کے موجودہ مسائل کی اگر ایک بنیادی وجہ دیکھی جاۓ تو وہ نوجوان قیادت، یعنی ولی عہد محمد بن سلمان ہے جس کی حرصِ اقتدار، اناپرستی، امورسیاست میں عدم تجربہ مملکت سعودیہ کو مسلسل مسائل کی دلدل میں دھکیل رہا ہے- سرزمین حرمین جس کا کردار عالم اسلام کو متحد کرنے اور قیادت فراہم کرنا تھی، اب اقتداری رساکشی اور محلاتی سازشوں میں گھری نظرآتی ہے- کوتاہ نظر شہزادے نے اپنے عزائم سے مملکت کو داخلی وخارجی محازوں پر ایسے مسائل سے دوچار کردیا ہے جس سے ریاست میں ہرگزرتے دن کے ساتھ غیریقیینت اور انتشار بڑھتا دیکھائی دے رہا ہے
( جاری ہے)
----------------------------------------------
وزیرخارجہ محمود قریشی نے کشمیر ڈے پر بیان کیا داغا، جیو پالیٹکس اور اسٹرٹیجک اسڈیڈیز کے مقامی ماہرین نے نقشے بچھا اور کیلکولیٹر ہاتھ میں تھام لیے اور جمع تفریق کرکے قوم کو احساس دلانے لگے کہ سعودیہ پاکستان سے کسی قدر مفادات کشید کررہا ہے اور بدلے میں پاکستان کو کیا مل رہا ہے- سوشل میڈیا مجاہدین نے پاکستان کے سعودیہ پر وہ بےکراں احسانات گنواۓ جو شاید ریاستی بزرجمہروں کے خواب وخیال میں بھی نہ تھے- عرب حکمرانوں کو احسان فراموش، خودغرض، سنگدل ایسے القابات سے نوازا گیا- اس کے برعکس ایک صاحب تو جذبات کی رو میں اس قدر بہہ گۓ کہ عربی میں ٹوئٹس کرکے سعودیوں کو اپنی تابعداری اور غیرمشروط محبت کا یقین دلاتے رہے- ایسے ناداں دوستوں کے ہوتے ہوۓ قوم کو بیرونی دشمن کی کیا ضرورت ہے
اس سارے قضیے میں یہ جاننا اہم ہے کہ وزیرخارجہ کے بیان میں اسٹیبلشمنٹ کی کس قدر رضامندی شامل تھی؟ اگر یہ بات فی البدیہیہ تھی جسے اگرچہ بعد میں کوراپ بیانات سے مداوا کرنے کی کوشش کی گئی تو بھی یہ بات قابل غور ہے کہ قومی حلقوں میں سعودی عرب کی ہندوستان جانبداری پر تشویش پائی جاتی ہے- سعودیہ-بھارت تعلقات کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ یہ نرمی پاکستان سے تعلقات کی قیمت پر ہے- پاکستان جو سعودی عرب کو درپیش ہرایشو پرغیرمشروط حمایت دلاتا رہا ہے، بدلے میں سعودیہ اس کے کشمیرپر اصولی موقف میں وہ گرم جوشی نہیں دیکھاتا- ریاست پاکستان نے اس مایوس کن رویے پر جھنجھلاہٹ کا اظہار کرتے ہوۓ اپنی پالیسی میں نظرثانی کا اشارہ دیا ہے- اب دیکھیے سعودی حکمران اس اشارے کو کس قدر سنجیدگی سے لیتے ہیں
لیکن ان تعلقات میں دراڑ کیوں اور کیسے پڑ رہی ہے، یہ تفصیلی تجزیے کا متقاضی ہے
سعودی عرب کے موجودہ مسائل کی اگر ایک بنیادی وجہ دیکھی جاۓ تو وہ نوجوان قیادت، یعنی ولی عہد محمد بن سلمان ہے جس کی حرصِ اقتدار، اناپرستی، امورسیاست میں عدم تجربہ مملکت سعودیہ کو مسلسل مسائل کی دلدل میں دھکیل رہا ہے- سرزمین حرمین جس کا کردار عالم اسلام کو متحد کرنے اور قیادت فراہم کرنا تھی، اب اقتداری رساکشی اور محلاتی سازشوں میں گھری نظرآتی ہے- کوتاہ نظر شہزادے نے اپنے عزائم سے مملکت کو داخلی وخارجی محازوں پر ایسے مسائل سے دوچار کردیا ہے جس سے ریاست میں ہرگزرتے دن کے ساتھ غیریقیینت اور انتشار بڑھتا دیکھائی دے رہا ہے
( جاری ہے)