شجاع نواز کی کتاب میں نوازشریف بارے انکشافات

Hunain Khalid

Chief Minister (5k+ posts)
LiCadGx.jpg



سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی شجاع پاشا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر انتظام 2008 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
"Cross Swords Pakistan, its army and the war within"
میں اپنے بھائی جنرل آصف نواز کا بیان کردہ قصہ کچھ یوں لکھتے ہیں :

" نواز شریف کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اور نئے آرمی چیف زیادہ تر معاملات پر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کاروباری گھرانے میں پرورش پانے کے باعث، شریف کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔

ذاتی تعلقات ان کے اور ان کے والد (المشہور ابا جی) کے لیے بے حد اہمیت کے حامل تھے۔

شریف خاندان نے آغاز ہی میں نئے آرمی چیف کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں میاں شریف اپنے دونوں بیٹوں (نواز، شہباز) کے ساتھ آ کر بیٹھے اور پنجابی زبان میں آرمی چیف سے بولے :


" یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں۔ اگر یہ کوئی بد تمیزی کریں تو مجھے بتانا۔ میں انہیں ٹھیک کروں گا"

جنرل اس غیر رسمی رویے کے عادی نہیں تھے اور شاید انہیں تھوڑا برا محسوس ہوا ہو۔ بعد میں وزیراعظم کی جانب اہتمام کردہ ناشتوں پر بھی وہ خاموشی اختیار کیے رکھتے اور یہ دعوتیں بھی ان کے درمیان اعتماد سازی میں ناکام رہیں۔

شریف نے دوسرے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی اور قبائلی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے فوج میں دوسرے جرنیلوں سے روابط بڑھا کر انہیں تیار کرنا شروع کر دیا۔

ایک موقع پر انہوں نے لاہور کور کمانڈر کے بھائی کو صنعتی یونٹ کا منافع بخش لائسنس بھی عنایت کیا۔

اس پر نئے چیف کی جانب سے ان کور کمانڈر کو بلا کر دانٹ بھی پلائی گئی۔" (صفحہ 449)

مطلب یہ کہ نواز شریف نے صرف آرمی چیف نہیں بلکہ فوج کے سینیئر اہلکاروں کو بھی رشوت دینے کی کوشش کی۔

شجاع نواز مزید لکھتے ہیں :

" آرمی چیف کو یہ رپورٹیں بھی ملیں کہ وزیراعظم نے کچھ جرنیلوں کو بی ایم ڈبلیو کے تحائف دیئے۔

یہ سب جنرل آصف نواز کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا۔


ایک دن شہباز شریف بی ایم ڈبلیو کی چابی تھامے ان کے پاس آئے اور بولے : " یہ ابا جی نے آپ کے لیے بطورِ تحفہ بھیجی ہے"

جنرل نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔

بعد ازاں جب وہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے مری گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ بی ایم ڈبلیو سے متعلق گردش کرتی خبریں درست تھیں۔

جب وہ واپس جانے لگے تو وزیراعظم بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی تک ان کے ساتھ آئے۔

"آپ کون سی گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟" شریف نے پوچھا۔

"ٹویوٹا کراؤن،" جنرل نواز نے اپنی گاڑی کے پرانے ماڈل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔

" یہ گاڑی آپ کے شایانِ شان نہیں،" شریف نے پنجابی میں کہتے ہوئے ایک ساتھی کو اشارہ کیا جو دوڑتا ہوا گیا اور اسی لمحے کے انتظار میں کھڑی ایک نئی بی ایم ڈبلیو سیڈان چلاتے ہوئے واپس آ گیا۔ شریف نے گاڑی کی چابی جنرل کو پیش کرتے ہوئے کہا "آپ اس گاڑی کے حقدار ہیں"

جنرل آصف یہ بات یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کی اس جسارت پر ایک لمحے کے لیے جم گئے۔ انہوں نے تیزی سے چابی وزیراعظم کو واپس تھمائی اور "بہت شکریہ جناب۔ میرے پاس جو ہے، میں اس پر بہت خوش ہوں" کہتے ہوئے سلوٹ کیا اور گاڑی چلاتے ہوئے واپس چلے گئے۔

وزیراعظم کو جو بات دوستانہ تعلقات کا ایک بہانہ لگ رہی اسے آرمی چیف کسی اور نظر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ ان کے عہدے کی توہین اور رشوت کی ایک بے ہودہ کوشش تھی۔
(صفحہ 450)



 
Last edited by a moderator:

ranaji

President (40k+ posts)
اب اگر موجودہ جرنیلوں میں بھی کوئی یا کچھ اگر اس نواز شریف بٹ کا این آر او چاہتے ہوں تو ان کی انکوائیری کی ضرورت ہوگی کہ کوئی بی ایم ڈبلیو ملٹی پلائی بائی ہینڈرڈ قیمت وصول کی یا اس کس یا انکا کوئی جج۔ والا پورنو کلپ ہے ورنہ کمُ از کم کوئی بغیر بکے یا بغیر بلیک میل ہوئے ملک دشمنی اور غداری کر کے اور اپنے باپ کا پیسہ سمجھ کر کسی چور حرامُخور فراڈئیے کعنتی لٹیرے کو کیوں بلا وجہ معاف کرکے عوام کے سامنے ذلیل ہوگا اپنی کسی کتے والی کراکے عوام سے گالیاں سنے گا اپنی ماں بہین ایک کرائیے گا بلا وجہ اور بغیر قیمت غداری بھی نہیں ہوتی اور امرتسری دلے ہاراں والے کا چور فراز ڈیا منی لانڈر ٹبر تو خانہ کعبہ میں جاکر ججوں سے سودا بازی کرتا ہے انکو خریدتا ہے اور اسی طرح اگر کوئی جرنیل انکو این آ ر او دینا چاہتا ہے تو وہ اس غداری کے بدلے میں ملک دشمنی اور کرپشن کا دلا بن کر کتنے میں بکا وہ معلوم کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا
 

bj_008

Politcal Worker (100+ posts)
جنرل آصف نواز کا رویہ قابلِ تحسین، اور قابلِ تقلید ہے۔ اگر آپ گاڑی کو ایک سواری کے طور پہ دیکھتے ہیں تو ٹویوٹا کراؤن آپ کے استعمال کے لئے کافی ہے۔ اور آپ کی عزتِ نفس مرسیڈیز سے بھی مہنگی ہے۔ جنرل نے اپنی عزتِ نفس کو مجروح ہونے سے بھی بچایا اور اپنا نام تاریخ میں سنہرے حروف میں بھی لکھوایا۔ ویل ڈن اینڈ سلیوٹ ٹو یور بیہویر۔
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
اگر نواز اور زرداری جیسے خبیث اور سیاہ دبے پاکستانی سیاست میں نہ آئے ہوتے تو آج پاکستان بہت آگے جا چکا ہوتا۔
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
LiCadGx.jpg



سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی شجاع پاشا آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زیر انتظام 2008 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب
"Cross Swords Pakistan, its army and the war within"
میں اپنے بھائی جنرل آصف نواز کا بیان کردہ قصہ کچھ یوں لکھتے ہیں :

" نواز شریف کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اور نئے آرمی چیف زیادہ تر معاملات پر مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ کاروباری گھرانے میں پرورش پانے کے باعث، شریف کچھ لو کچھ دو کی پالیسی پر یقین رکھتے تھے۔

ذاتی تعلقات ان کے اور ان کے والد (المشہور ابا جی) کے لیے بے حد اہمیت کے حامل تھے۔

شریف خاندان نے آغاز ہی میں نئے آرمی چیف کے لیے ایک دعوت کا اہتمام کیا جس میں میاں شریف اپنے دونوں بیٹوں (نواز، شہباز) کے ساتھ آ کر بیٹھے اور پنجابی زبان میں آرمی چیف سے بولے :


" یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں۔ اگر یہ کوئی بد تمیزی کریں تو مجھے بتانا۔ میں انہیں ٹھیک کروں گا"

جنرل اس غیر رسمی رویے کے عادی نہیں تھے اور شاید انہیں تھوڑا برا محسوس ہوا ہو۔ بعد میں وزیراعظم کی جانب اہتمام کردہ ناشتوں پر بھی وہ خاموشی اختیار کیے رکھتے اور یہ دعوتیں بھی ان کے درمیان اعتماد سازی میں ناکام رہیں۔

شریف نے دوسرے ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ اپنے خاندانی اور قبائلی تعلقات کا استعمال کرتے ہوئے فوج میں دوسرے جرنیلوں سے روابط بڑھا کر انہیں تیار کرنا شروع کر دیا۔

ایک موقع پر انہوں نے لاہور کور کمانڈر کے بھائی کو صنعتی یونٹ کا منافع بخش لائسنس بھی عنایت کیا۔

اس پر نئے چیف کی جانب سے ان کور کمانڈر کو بلا کر دانٹ بھی پلائی گئی۔" (صفحہ 449)

مطلب یہ کہ نواز شریف نے صرف آرمی چیف نہیں بلکہ فوج کے سینیئر اہلکاروں کو بھی رشوت دینے کی کوشش کی۔

شجاع نواز مزید لکھتے ہیں :

" آرمی چیف کو یہ رپورٹیں بھی ملیں کہ وزیراعظم نے کچھ جرنیلوں کو بی ایم ڈبلیو کے تحائف دیئے۔

یہ سب جنرل آصف نواز کے لیے خطرے کی گھنٹی کے مترادف تھا۔


ایک دن شہباز شریف بی ایم ڈبلیو کی چابی تھامے ان کے پاس آئے اور بولے : " یہ ابا جی نے آپ کے لیے بطورِ تحفہ بھیجی ہے"

جنرل نے شکریہ کے ساتھ انکار کر دیا۔

بعد ازاں جب وہ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے مری گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ بی ایم ڈبلیو سے متعلق گردش کرتی خبریں درست تھیں۔

جب وہ واپس جانے لگے تو وزیراعظم بھی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گاڑی تک ان کے ساتھ آئے۔

"آپ کون سی گاڑی استعمال کر رہے ہیں؟" شریف نے پوچھا۔

"ٹویوٹا کراؤن،" جنرل نواز نے اپنی گاڑی کے پرانے ماڈل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔

" یہ گاڑی آپ کے شایانِ شان نہیں،" شریف نے پنجابی میں کہتے ہوئے ایک ساتھی کو اشارہ کیا جو دوڑتا ہوا گیا اور اسی لمحے کے انتظار میں کھڑی ایک نئی بی ایم ڈبلیو سیڈان چلاتے ہوئے واپس آ گیا۔ شریف نے گاڑی کی چابی جنرل کو پیش کرتے ہوئے کہا "آپ اس گاڑی کے حقدار ہیں"

جنرل آصف یہ بات یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ وزیراعظم کی اس جسارت پر ایک لمحے کے لیے جم گئے۔ انہوں نے تیزی سے چابی وزیراعظم کو واپس تھمائی اور "بہت شکریہ جناب۔ میرے پاس جو ہے، میں اس پر بہت خوش ہوں" کہتے ہوئے سلوٹ کیا اور گاڑی چلاتے ہوئے واپس چلے گئے۔

وزیراعظم کو جو بات دوستانہ تعلقات کا ایک بہانہ لگ رہی اسے آرمی چیف کسی اور نظر سے دیکھ رہے تھے۔ ان کے نزدیک یہ ان کے عہدے کی توہین اور رشوت کی ایک بے ہودہ کوشش تھی۔
(صفحہ 450)



پاکستان کی فوج میں بہترین بہترین غیرتِ مند خودار دیانتدار جنرل رھے ھیں عوام ان جرنیلز کو سلوٹ کرتی ھے ۔ ان میں سے یقینا جرنیل آصف بھی تھے۔ اللّٰہ سبحان وتعالی جرنیل آصف اور باقی تمام جرنیل جو غیرتِ مند خودار دیانتدار تھے ان کے داراجات بلند فرما اور مومنین بلند فرما اور آخرت میں مومنین کے داراجات میں شامل فرما۔ آمین ثم آمین۔
 

peaceandjustice

Chief Minister (5k+ posts)
اگر نواز اور زرداری جیسے خبیث اور سیاہ دبے پاکستانی سیاست میں نہ آئے ہوتے تو آج پاکستان بہت آگے جا چکا ہوتا۔
واقعی ان دونوں خبیثوں سے سے بدتر حکمران پاکستان کی تاریخ میں نہیں گزرے خاص کر نواز شریف انتہائی درجے کا گھٹیا، بیغرت بیشرم اور اداروں کو آپنا غلام بنانے کے بدترین گر استعمال کرتا تھا لوگوں کو خریدنے کے گھٹیا سے گھٹیا طریقے استعمال کرتا تھا پھر ان کی ویڈیوز تک بنوا کر آج تک لوگوں کو آپنی بیٹی کے زریعے بلیک میل کر رہا ھے اس نواز شریف سے گھٹیا اور کمینا شخص پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملے گا اور آج اس کی جھوٹی مکار بیٹی اپنے باپ کے حرام خورکرتوتوں گی ویڈیوز لے کر آگے بڑھ رہی ھے۔ بیشرم بیغرت خاندان کوئی شرم وحیاء نہیں ھے اس خاندان میں اس مکار فراڈان 420 نانی اماں جو کہ جھوٹوں کی سردارنی کا ایوارڈ رکھتی ھے اپنی سیاست دفن کرنے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکی ھے