شوہر کے تھپڑ پر بیوی کا جوابی تھپڑ موضوع بحث،سیاسی شخصیات بھی میدان میں

2.jpg

ہم ٹی وی کے ڈرامہ سیریل "لاپتہ" کی 12ویں قسط ٹی وی پر نشر ہوئی تو اس کے ایک سین نے ناظرین کو شش وپنج میں مبتلا کر دیا کیونکہ اب تک فلموں ڈراموں میں دکھایا جانے والا کانٹینٹ اور ہی شکل پیش کر رہا تھا جبکہ اس ڈرامے نے اس پرانے ٹرینڈ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

ڈرامہ سیریل لاپتہ کی بارہویں قسط میں میاں بیوی کے درمیان کسی بات پر جھگڑا ہوتا ہے تو شوہر دانیال اپنی بیوی فلک کے منہ پر تھپڑ مار دیتا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے بیوی فلک اپنے شوہر کے منہ پر جوابی تھپڑ رسید کرتی ہے اور اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔

اس ڈرامے میں دانیال کا کردار معروف اداکار مرزا گوہر رشید جبکہ فلک کا کردار خوبصورت اور معروف اداکارہ سارہ خان نبھا رہی ہیں۔ اس قسط کے نشر ہونے کے بعد اداکار گوہر رشید نے انسٹاگرام پر کہا کہ مجھے ٹی وی پر تشدد دیکھنا پسند نہیں۔ اس لیے میں کم از کم اپنے کرداروں میں اس طرح کی عکاسی نہیں کرتا۔

https://twitter.com/x/status/1436276223315828739
اداکار نے مزید کہا کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے لیکن ٹی وی پر تشدد دکھانا ہمارے معاشرے کا عام حصہ بن چکا ہے۔ عورت سے نفرت آمیز رویہ ٹھیک سمجھا جاتا ہے اور اس ہی کی آڑ میں عورت کو تھپڑ مارنا کوئی بری بات نہیں سمجھا جاتا، جس طرح لاپتہ کی گزشتہ قسط میں دانیال نے کیا۔ مرزا گوہر رشید نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی کمزور شخص آپ پر اپنی طاقت کا رُعب دکھاتا ہے تو آپ بھی وہی کریں جو فلک نے کیا۔

https://twitter.com/x/status/1436278415829598212
مرزا گوہر رشید کی اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ گھروں میں جبر برداشت کرنا خواتین کی مرضی نہیں بلکہ ان کی مجبوری ہوتا ہے۔ ہزاروں عورتیں اس طرح کے جبر اور ظلم کا شکار ہوتی ہیں۔ یہ وہ مرضی سے نہیں کرتیں بلکہ ان کی مجبوری ہوتی ہے۔

رہنما پی پی نے مزید کہا کہ ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کا جوابی وار نہیں کر سکتیں یا اپنے شوہر کا گھر نہیں چھوڑ سکتیں۔ انہوں نے کہا کہ بالجبر زیادتی، گھریلو تشدد، تیزاب گردی اور کم عمری کی شادیاں ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں۔ یہ سب وہ برائیاں ہیں جو پھیل چکی ہیں۔

704b434b-5736-456a-8ba0-7f8c7deb6cf2.jpg


انہوں نے یہ بھی کہا کہ متاثرہ خواتین جسمانی اور مالی طور پر بے بس ہوتی ہیں، وہ خاموشی سے سب برداشت کرتی ہیں اور جو ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہیں ان کو یا تو ویسے خاموش کرا دیا جاتا ہے یا پھر طلاق اور قتل جیسی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے جسے دیکھتے ہوئے ان کے پاس کوئی راہ نہیں بچتی۔ متاثرہ خاتون پر الزام تراشی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔
 
Last edited: