جی ہاں بلکل ! آپ نے بارہا پوچھا ہے اور میں نے ہر بار جواب دیا ہے لیکن شاید آپ نے پڑھنے کی زحمت نہیں کی
خیر ! میں ایک بار پھر جواب دے دیتا ہوں
ضیاء کے دور سے پہلے ہمارے تمام جلوس مارکیٹوں ، راستوں اور بازاروں سے انتہائی امن و امان سے گزرتے تھے اس وقت میں نہ تو ٹریفک رکتی تھی اور نہ ہی کسی کو زحمت ہوتی تھی
ضیاء دور کے بعد دہشت گردوں کی طرف سے ان جلوسوں کے خلاف کاروائیاں کی گئیں نتیجہ یہ کہ اب حکومت کو سیکورٹی دینا پڑتی ہے اور راستے بند کرنا پڑتے ہیں
لہٰذا قصور وار دہشت گرد ہوئے ، ہم نہیں
جلسے جلوسوں ضیاء کے دور میں ہؤا میں اڑتے تھے؟ کیا اسوقت جلوسوں کی وجہ سڑکیں بلا نہیں ہوتی تھی؟
اور اسوقت سیکیورٹی کی سیچویشن یہ نہیں تھی۔۔ اجکل صرف سڑکیں بند نہیں ہوتیں، بلکہ موبائل سروسز بھی بند ہوتی ہیں اور کرونا الگ مسلہ۔۔
لیکن تم لوگوں کو کسی چیز کا خیال نہیں سوائے اپنے مسلک و فرقے کے۔۔۔
اگر آج حضرت علی علیہ السلام زندہ ہوتے انہوں نے ان حرکتوں پہ تمام مولویوں کے سر اڑا دینے تھے ۔۔ لیکن اسکا پتا قیامت کے دن چلے گا کہ محبت اہل بیعت کے چکر اور اپنے فرقے کی حفاظت میں تم لوگوں نے عوام کو کیا کیا تکالیف دی ہیں۔۔۔؟
کیا دہشتگردوں تم لوگوں کو کہتے ہیں کہ جلوس نکالو۔۔؟
آپ تو ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ اگر کرونا سے لوگ مر جائے تو قصور کرونا کا ہوا، تم لوگوں کا نہیں۔۔
اور قاتل یہ کہے کہ قصور تو بندوق و گولی بنانے والے کا ہوا اسکا نہیں۔۔۔
معاف کرنا بڑی۔ بھونڈی منطق پیش کر رہے ہو۔۔