شاید یہ اچھا ہوا۔ فوج نے ہمیشہ حکومت میں ٹانگ اڑائی اور ہم اسکی محبت میں نغمے گاتے رہے، جو اسکے خلاف بولا اس پہ چڑھ دوڑے۔ فوج کے ساتھ ہیں اور رہیں گے۔ مگر یہ جو اسے چھوٹا خدا بنایا ہوا تھا کہ شان میں گستاخی نہ ہو، سرحدوں پہ اسکی کارکردگی کے باعث ملک کے اندر کی کارکردگیوں سے آنکھیں چرا لیتے تھے، افسروں اور قیادت کو فوجی جوانوں کی قربانیوں کا کریڈٹ دے دیتے تھے، انکے سٹیٹ ود ان سٹیٹ علاقوں، زونز، سہولیات وغیرہ کو نظر انداز کر دیتے تھے، ان کو فنڈز کی، سپورٹ کی اور سب سے بڑھ کے عزت کی کمی کبھی ہونے نہ دی، یہ سوچ کر کہ یہ ہماری سائیڈ پہ ہیں۔
باقی ممالک میں فوج جس مقام پہ ہے اس کی اپنی عزت ہوتی ہے۔ اور دائرہ بھی۔ کبھی کسی ملک کی فوج براہ راست کسی ملک کے حکمرانوں سے رابطے نہیں کرتی۔ کیا بھارتی فوج کا سربراہ اکیلا واشنگٹن کے دورے کرتا ہے، بنگلہ دیشی فوج کا چیف دوبئی کے حکمران کی تعزیت کے لئے اکیلا گیا؟ ساوتھ کوریا تقریبا 80 سال سے حالت جنگ میں ہے اسکی فوج کے سربراہ نے کبھی اپنے اتحادی ممالک کے سیاستدانوں سفیروں سے اکیلے باہمی مفادات کیلئے ملاقاتیں کیں؟ خیر ان سب ممالک میں طاقتور فوج کے باوجود نہ کبھی مارشل لا لگے نہ کبھی فوج نے امور ریاست میں ٹانگ اڑائی۔ فیصلہ سازی تو بہت دور کی بات ہے۔
یہ عزت مآب ہیں، قوم ان سے محبت کرتی ہے، ڈرتی نہیں۔ آخر یہ باقی قومی اداروں کی طرح اپنی تنخواہ ہمارے ٹیکس کے پیسے سے لیتے ہیں یعنی پبلک سرونٹس ہیں۔ جب عمران خان حکومت کے تعلقات ان سے اچھے بھی تھے تو ایک خلش تھی کہ عمران اس مسئلے کو نہیں چھیڑتا، کیا کبھی نہیں چھیڑے گا اور قوم اسی طرح ان کے آپس میں تعلقات اچھے رہنے کی دعا کرتی رہے گی اور انکی احسانمند رہے گی انہوں نے اس باد حکومت چلنے دی۔ نواز شریف کسی کے ساتھ نہیں چل سکتا صرف آگے چل سکتا ہے کیونکہ اس خاندان کو یہ نہیں سکھایا گیا کہ مہذب معاشروں میں انگلی کو اپنے مخاطب کے چہرے سے ذرا دور رکھا جاتا ہے۔ بے ایمانی تو ہے ہی، رعونت خوب بھری ہے۔ اس نے اپنی مرضیاں چلائیں اور بھگتا۔
خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ فوج نے عورتوں بچوں کو شیلنگ سے نہیں بچایا بلکہ رینجر بھیجی کوئی بات نہیں، کوئی دائرہ کار کا مسئلہ ہو گا۔ مگر فوج کو بحیثیت ادارہ کان ہو جانے چاھئیں کہ آئیندہ ریاستی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ مارشل لا کی کئی اقسام ہیں، سب پر پابندی ہونی چاہئے۔ مگر یہ کیسے اور کب ہو گا؟ شاید اب ہو جائے۔ پاکستانی قوم نے فوج کو طاق سے اتار لیا ہے، غلاف اتارا جا رہا ہے۔
باقی ممالک میں فوج جس مقام پہ ہے اس کی اپنی عزت ہوتی ہے۔ اور دائرہ بھی۔ کبھی کسی ملک کی فوج براہ راست کسی ملک کے حکمرانوں سے رابطے نہیں کرتی۔ کیا بھارتی فوج کا سربراہ اکیلا واشنگٹن کے دورے کرتا ہے، بنگلہ دیشی فوج کا چیف دوبئی کے حکمران کی تعزیت کے لئے اکیلا گیا؟ ساوتھ کوریا تقریبا 80 سال سے حالت جنگ میں ہے اسکی فوج کے سربراہ نے کبھی اپنے اتحادی ممالک کے سیاستدانوں سفیروں سے اکیلے باہمی مفادات کیلئے ملاقاتیں کیں؟ خیر ان سب ممالک میں طاقتور فوج کے باوجود نہ کبھی مارشل لا لگے نہ کبھی فوج نے امور ریاست میں ٹانگ اڑائی۔ فیصلہ سازی تو بہت دور کی بات ہے۔
یہ عزت مآب ہیں، قوم ان سے محبت کرتی ہے، ڈرتی نہیں۔ آخر یہ باقی قومی اداروں کی طرح اپنی تنخواہ ہمارے ٹیکس کے پیسے سے لیتے ہیں یعنی پبلک سرونٹس ہیں۔ جب عمران خان حکومت کے تعلقات ان سے اچھے بھی تھے تو ایک خلش تھی کہ عمران اس مسئلے کو نہیں چھیڑتا، کیا کبھی نہیں چھیڑے گا اور قوم اسی طرح ان کے آپس میں تعلقات اچھے رہنے کی دعا کرتی رہے گی اور انکی احسانمند رہے گی انہوں نے اس باد حکومت چلنے دی۔ نواز شریف کسی کے ساتھ نہیں چل سکتا صرف آگے چل سکتا ہے کیونکہ اس خاندان کو یہ نہیں سکھایا گیا کہ مہذب معاشروں میں انگلی کو اپنے مخاطب کے چہرے سے ذرا دور رکھا جاتا ہے۔ بے ایمانی تو ہے ہی، رعونت خوب بھری ہے۔ اس نے اپنی مرضیاں چلائیں اور بھگتا۔
خیر بات یہ ہو رہی تھی کہ فوج نے عورتوں بچوں کو شیلنگ سے نہیں بچایا بلکہ رینجر بھیجی کوئی بات نہیں، کوئی دائرہ کار کا مسئلہ ہو گا۔ مگر فوج کو بحیثیت ادارہ کان ہو جانے چاھئیں کہ آئیندہ ریاستی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ مارشل لا کی کئی اقسام ہیں، سب پر پابندی ہونی چاہئے۔ مگر یہ کیسے اور کب ہو گا؟ شاید اب ہو جائے۔ پاکستانی قوم نے فوج کو طاق سے اتار لیا ہے، غلاف اتارا جا رہا ہے۔