شیخ روحیل اصغر - کیا گالی کے ساتھ بدمعاشی بھی پنجاب کے کلچر کا حصہ ہے ؟

Syed Haider Imam

Chief Minister (5k+ posts)

شیخ روحیل اصغر - کیا گالی کے ساتھ بدمعاشی بھی پنجاب کے کلچر کا حصہ ہے ؟

Logo.png


نارووال کے معروف ارسطو احسن اقبال کا کہنا ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو پاکستان کے حلقوں کی سیاست کا پتا نہیں ہے . ٹورنٹو میں بیٹھ کر آپکو بتاؤں گا کہ باغبانپورہ – شالیمار باغ (لاہور )کے ان حلقوں کی سیاست جہاں بدمعاشی اپنے عروج پر ہوتی ہے . واقعی اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ پر سیاست سیاست کھیلنے والوں، اخلاقیات کا الم اٹھانے والے فیک آئی ڈیز کے منافقین اور موجودہ نوجوان نسل کو زمینی حقائق اور لاہور میں بدمعاشوں کی تاریخ کا قطعی کوئی علم نہیں ہے . پاکستان سیاست میں غنڈوں ، بدمعاشوں اور قاتلوں کی ایک گہری چھاپ ہے جس سے تبدیلی کے خواہاں مکمل نا بلد نظر اتے ہیں . انٹرنیٹ کے زومبیز کو علم ہی نہیں کہ عمران خان بیک وقت کتنی عفریتوں سےمقابلہ کر رہے ہیں

شیخ روحیل اصغر عملی سیاست میں چار دہایوں سے سرگرم عمل ہیں مگرپہلے وہ لو پروفائل رکھتے تھے . شیخ روحیل اصغر کے بارے میں ہر انسان اپنے علم اور تجربہ کی بنیاد پر اپنا ذاتی تاثر قائم کر سکتا ہے . میری نظر میں وہ کم از کم منافق نہیں ہیں اور اپنے علاقے میں غریب طبقے کا خیال بھی رکھتے ہیں . عمران خان کی حکومت نے اتے ہی قبضوں گروپوں ، بجلی اور گیس چوروں کے خلاف جب بھر پور مہم چلائی تو اسکا شکار شیخ روحیل اصغر بھی ہوے . شیخ روحیل اصغر کا موجودہ اور اصلی روپ کا تعلق عمران خان کے حالیہ آپریشن سے وابستہ ہے جسے میڈیا والے سمجھا نہیں سکتے تھے اور سوشل میڈیا پرحالیہ واقعات کے محرکات کا کسی کے وہم گمان میں بھی نہیں ہے


شیخ روحیل اصغر نے کسطرح میڈیا اور سوشل میڈیا کی توجہ حاصل کی ؟

شیخ روحیل اصغر نے یہ تو ضرور کہا کے گالی پنجاب کا کلچر کا حصہ ہے مگر ابھی انھیں یہ بتانا باقی ہے ...کیا بدمعاشی بھی
پنجاب کا کلچر ہے ؟

پہلے شیخ روحیل اصغر پارلیمنٹ سے باہر عام لوگوں کے ننگی گالیوں کے ساتھ لڑتے بھڑتے پائے گئے . اسکے بعد ایک مختصر کلپ میں موصوف نے فرمایا " گالی پنجاب کا کلچر ہے
شیخ روحیل اصغر ایک ٹالک شو میں اجمل جامی کے ساتھ بھی سینگ اڑا بیٹھے اور انھیں " لکھنو "والا کہہ ڈالا . شیخ روحیل اصغر نے سکھوں کے خلاف بھی نا مناسب الفاظ استعمال کئے . اس دوران کھوچلسینئر صحافی مجیب الرحمان شامی چپ چاپ تماشہ دیکھتے رہے . قومی اسمبلی کے اجلاس( بجٹ اجلاس جون ٢٠٢١ ) میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کے دوران معاون خصوصی علی نواز اعوان اور ن لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جو بڑھ کر گالی گلوچ تک پہنچ گئی۔ دونوں جانب سے ایک دوسرے پر بجٹ کاپیاں پھینکی گئیں، ایوان کا ماحول خراب ہونے پر اسپیکر نے اجلاس 20 منٹ کیلئے ملتوی کردیا تھا
آخر پورے ایوان میں علی نواز اعوان اور شیخ روحیل اصغر کے درمیان ہی تلخ کلامی اور گالی گلوچ کیوں ہوئی تھی ؟


ماجھا سکھ اور شیخ اصغر گروپوں کی طویل تاریخی لڑائی

صحافی واصف ناگی کے مطابق ، میاں معراج دین المعروف ماجھا سکھ برطانیہ سے پڑھ کر آیا تھا .ماجھا سکھ نے حساب میں ایم ایس سی کی ہوئی تھی . خاندان میں ایک قتل کی وجہ سے وہ دشمن دار بن گیا تھا۔ اس ایک واقعے نے اِس کو بدمعاش بنا دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی قبرستان میں میاں معراج دین نے زمین ہموار کر کے قبضہ کر لیا تھا جسکی وجہ سے لوگ اسے ماجھا سکھ کہنے لگے . ماجھا سکھ جو اخلاق گڈو کا باپ تھا، وکیل تھا۔ چونکہ یہ قبضہ گروپ کے کیس وغیرہ لیتا تھا، اس لیے اس کے تعلقات ان لوگوں کے ساتھ ہو گئے تھے۔ چنانچہ ان کے ساتھ مل کر یہ بھی لوگوں پر ظلم کرتا، اس وجہ سے بھی میاں معراج دین کا نام ماجھا سکھ پڑ گیا تھا۔ شیخ اصغر نیا نیا لاہور میں کاروبار شروع کر چکا تھا، چنانچہ قبضہ اور بھتہ کے حوالے سے ان کے ساتھ ماجھا سکھ کی دشمنی شروع ہوگئی۔ شیخ روحیل اصغر کے والد شیخ اصغر اور بھائی شیخ شکیل ارشد شادمان چوک لاہور میں اس دشمنی کے نظر ہو گئے تھے . جبکہ شیخ روحیل اصغر جیل چلے گئے اور جیل سے ہی انہوں نے ایم پی اے کا الیکشن لڑا تھا. حلقہ ١٢٤ سے شیخ روحیل اصغر مسلم لیگ نون کی طرف سے بہت واضح اکثریت سے اس حلقہ سے الیکشن جیت کر اسمبلی میں جاتے ہیں

شیخ روحیل اور اخلاق گڈو کی دشمنی عروج پر تھی۔ شیخ روحیل اصغر کا باپ اور بھائی اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا. شیخ روحیل اصغر نے بدنام زمانہ بدمعاش اچھو اور چھیدی کو ساتھ ملا کر والد اور بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے سرگرم تھے۔


ملک ارشد اعوان عرف اچھو باڑلا اور ملک رشید اعوان عرف چھیدی باڑلا


لاہور اور اس کے گرد و نواح کو ستّر کی دہائی کے درمیان سے لے کر اسّی کی دہائی کے اواخر تک دو بھائیوں نے اپنی دہشت کی لپیٹ میں لیے رکھا۔ کم و بیش 35 قتل اور 45 کے قریب اقدام قتل کے مقدمات میں ملوث ان دونوں بھائیوں نے لاہور پر راج کیا اور 90ء کی دہائی میں فروغ پانے والے لاہور انڈر ورلڈ کے خدوخال مرتب کیے۔ یوں تو لاہور میں بہت سے نامی گرامی بدمعاش آتے جاتے رہے، لیکن یہ دونوں اس لحاظ سے انفرادیت کے حامل تھے کہ انہوں نے جسے چاہا مارڈالا، اور جسے چاہا اغوا کرکے تاوان وصول کیا۔ اس کے علاوہ جس بڑی سے بڑی شخصیت کو بھتے کا پیغام بھجوایا، اس نے بلاچوں و چرا ان کو بھتہ دے دیا۔ ستّر کی دہائی کے آخر میں یہ دونوں بھائی میاں شریف سے بھی بھتہ وصول کرتے رہے، جسے ادا کرنے کے لیے شریف برادران میں سے کسی ایک کو جانا پڑتا تھا۔ دونوں بھائی بارہا پولیس کے سامنے مختلف مقدمات میں پیش ہوتے رہے، لیکن ان کے خلاف گواہی دینے کی کسی کو جرأت نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ چھوٹ جاتے۔ یہ دونوں بھائی اچھو باڑلا (ملک اشرف اعوان) اور چھیدی باڑلا (ملک رشید اعوان) کے نام سے شہرت رکھتے تھے۔

بتایا جاتا ہے کہ ماجھا سکھ کو شادمان مارکیٹ کے قریب اس کے گن مینوں سمیت قتل کیا گیا جن کے قتل کا الزام شیخ اصغر گروپ پر لگا. ماجھا سکھ کے قتل کے بعد گڈو اور اس کے چچا نے دشمنی آگے بڑھائی۔ماجھا سکھ کے بھائی کا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا،جسے اچھو، چھیدی اور تائو گاڈی نے بھرے بازار میں قتل کر دیا تھا۔ یہ اس قدر بہمیانہ قتل تھا کہ ماجھا سکھ کا خاندان ہل گیا۔ ماجھا سکھ کے بھائی کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، لیکن اس کا اکلوتا بیٹا اس دشمنی کی بھینٹ چڑھ گیا تھا۔ چنانچہ اس نے اخلاق گڈو جو اس کا بھتیجا تھا، اس کے لیے پیسوں کی بوریوں کے منہ کھول دیئے تھے اور کہا تھا کہ جتنا پیسہ چاہے خرچ کرو، لیکن اچھو اور چھیدی باڑلا کو کسی طرح ٹھکانے لگوا دو۔ اچھو اور چھیدی نے اس کے بیٹے کے ساتھ ساتھ دو اور لوگ بھی ماجھا سکھ گروپ کے قتل کئے تھے۔ اس لیے اب ضروری تھا کہ ان کا بندوبست کیا جاتا۔ اسی دوران الیکشن بھی سر پر آگیا۔ اچھو اور چھیدی چھلاوے کی طرح غائب ہوگئے۔ ایک طرف اخلاق گڈوکے لوگ جدید اسلحہ لے کر دونوں کو ڈھونڈرہے تھے تو دوسری جانب صفدر ڈیال ایم پی اے کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ اس کا مقابلہ بٹ نامی امیدوار سے تھا۔ صفدر ڈیال نے اچھو اور چھیدی سے کہا کہ الیکشن ہر حالت میں جیتنا ہے۔ چنانچہ اچھو اور چھیدی نے بٹ کو پیغام بھجوایا کہ الیکشن کے دن تم نے بی آر بی نہر کے پار نہیں آنا، ورنہ تمہاری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔ چنانچہ اس روز بٹ پورا دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا اور باڑلا گروپ نے دھڑا دھڑ صفدر ڈیال کو ووٹ ڈلوا کر جتوا دیا تھا۔ جب صفدر کی جیت کا اعلان ہوا تو باڑلا گروپ بٹ کے ڈیرے پر جا پہنچا اور وہاں جاکر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے بٹ کے گھر پر بھی فائر کردیئے۔ چنانچہ ایک جانب ماجھا گروپ اور دوسری طرف بٹ کے لوگ ان دونوں بھائیوں کے پیچھے تھے۔ گڈو کو چچا سے جو پیسہ مل رہا تھا، وہ اسے پانی کی طرح بہا رہا تھا۔ اس نے پولیس اور دیگر اشتہاریوں کو لاکھوں روپے دیئے کہ کسی طرح اچھو اور چھیدی کو قتل کر دیں۔ لیکن باڑلا گروپ کے یہ دونوں لیڈر اتنے طاقتور تھے کہ کسی کو ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہ ہوتی۔

میاں اخلاق احمد گڈو پر ٢٠٠٢ میں ٧-١٠ افراد نے کلاشن کوو اور گرنیڈ سے ایک زبردست قاتلانہ حملہ کیا تھا . اخلاق گڈو کے ڈرائیور اور راہگیر رکشہ ڈرائیور مارے گئے تھے اور اخلاق گڈو شدید زخمی ہوا تھا . جیسا کہ ایک ضرب المثل مشہور ہے ، دشمن کا دشمن دوست . میاں اخلاق گڈو نے جولائی ٢٠١٨ میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی تھی . انہوں نے 2002 میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کی نشست اور 2008 میں قومی اسمبلی
کی نشست پر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا۔

کرونا وباء کی وجہ سے میاں اخلاق گڈو کا انتقال جون ٢٠٢٠ میں ہوا ، اسطرح اس علاقے سے بدمعاشی کا ایک عھد ختم ہوا
کہا جاتا ہے کہ ماجھا سکھ اور شیخ اصغر گروپوں کے درمیان شہر کی سب سے بڑی ’’جنگ‘‘ تھی. 80 کی دہائی میں شیخ اصغر اور معراجدین عرف ماجھا سکھ کے درمیان لاہور کی اس تاریخ ساز دشمنی میں دونوں اطراف سے 50 سے 60 افراد قتل ہو چکے ہیں اور 30 کے قریب زخمی ہوئے ۔ ماجھا سکھ اور شیخ اصغر گروپوں کے کرتا دھرتا جب قتل ہو گئے تو ان گروپوں کے بچ جانے والے اور جیلوں میں بند شیخ روحیل اصغر اور میاں اخلاق گڈو نے صلح کر لی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک اور کردار نورا کشمیری نے دونوں گروپوں کی دشمنی پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا وہ کبھی ایک گروپ اور کبھی دوسرے گروپ سے مل جاتا تھا

روحیل اصغر کیلئے جہاں ایک طرف اچھو اور چھیدی ایک عضو معطل بن گئے تھے وہاں ان کے خاندانی ذرائع کے مطابق وہ اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ روحیل اصغر کے لیے بھی مشکلات پیدا کرنے لگے تھے . چھیدی دو بار جیل سے ہوکر آیا تھا۔ اب اس پر مقدمات ختم ہوچکے تھے۔ اب نمبر اچھو کا تھا، وہ اچھو جو کسی کے سامنے نہیں آتا تھا، لیکن ہر قتل میں نام اسی کا لیا جاتا۔ اس کی سمجھداری اور جرائم کو مینج کرنے کی خوبی نے اسے ایک چھلاوہ بنا دیا تھا۔ اچھو کو ایک ایس ایس پی عابدی، ڈی ایس پی اور پولیس کی گارد اعوان ڈھائیوالا میں گرفتار کر کے پولیس مقابلوں میں پار کیا
 
Last edited:

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
بہت معلومات اکھٹی کرتے رہے ہو پنجابی کلچر کے بارے میں ۔ لگتا ہے بازاری پکوڑوں کو کھا کھا کر جوان ہوئے ہو ۔ دلی بغض بڑھاپے میں سرچڑھ کے بول رہا ہے ۔ تمہاری اس گھن بھری تحریر سے اچھائ کا پہلو تلاش کرنا بے سود ہے ۔​
 

disgusted

Chief Minister (5k+ posts)
If we start discussing the culture and morality of the glorious Punjab and the adjoining Rajputana, then we will be hanging our heads in shame more times than in lifting our chests in pride. Unfortunately most of our history and culture is pure imagination. Aside from Maharaja Ranjit Singh we cannot own a single leader who has crossed his sword with an alien. We have produced in multitudes those who will proclaim allegiance to the 'Royal' dynasties whether from seven seas abroad or the local ones. The day we start accepting the truth and nothing but the truth will see us becoming a great nation
 

Worldtronic

Senator (1k+ posts)
بہت معلومات اکھٹی کرتے رہے ہو پنجابی کلچر کے بارے میں ۔ لگتا ہے بازاری پکوڑوں کو کھا کھا کر جوان ہوئے ہو ۔ دلی بغض بڑھاپے میں سرچڑھ کے بول رہا ہے ۔ تمہاری اس گھن بھری تحریر سے اچھائ کا پہلو تلاش کرنا بے سود ہے ۔​

Pakooray nahi Marijuana.
 

Siberite

Chief Minister (5k+ posts)
Pakooray nahi Marijuana.

پکوڑے اس لیے کہ جن اخباری ردی کاغذ میں وہ بیچے جاتے ہیں ، ان کے طویل مطالعے نے اس کی ذھنی نشو نما میں کلیدی کردار ادا کیا ہے ، جو موصوف کی تحریروں میں جھلکتا نظر آتا ہے ۔ کسی بھی کلچر پر تنقیدی جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ قلم کار اس کلچر کا حصہ ہو ، وگرنہ تعصب کا عنصر واضح ہے ، موصوف پاکستان سے بھاگ کر کناڈا میں پیش امام کا کردار ادا کررہے ہیں اور پھر ذاتی بغض سے بھرے کالم اس ویب سائٹ پر چھاپے چلے جارہے ہیں ۔ فوج پر بھی تنقید جنرلوں کی نالائقی سے بڑھ کر صرف اس وجہ سے ہے کہ پنجابی اسی فوج کے برے کاموں کے نتیجے میں ھر الزام کا نشانہ بنتا آیا ہے ۔ موصوف سے معلوم کیا جائے کہ یہ خود کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ پنجابی ھرگز نہیں ہوسکتے ۔ ھر کلچر میں اچھے اور برے لوگوں کی کمی نہیں ۔ کوئ بھی کلچر محض کسی کی ذاتی عناد کے باعث بے بنیاد پروپیگنڈے کا حصہ نہیں بننا چاھیے ۔​