صحافیوں کو ہراساں کرنے کا معاملہ،سپریم کورٹ نےتفصیلی رپورٹ طلب کر لی

5.jpg

سپریم کورٹ نے صحافیوں کو ہراساں کرنے کے کیس میں ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی ) فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے )، چیئرمین پیمرا اورآئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل تین رکنی بینچ نے صحافیوں کو ہراساں کئے جانے سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت کی۔

دوران سماعت ڈی جی ایف آئی اے ثنا اللہ عباسی اور چیئرمین پیمرا سلیم بیگ اور آئی جی اسلام آباد پولیس قاضی جمیل الرحمان عدالت میں پیش ہوئے۔


عدالت نے صحافیوں کو ہراساں کرنے سے متعلق ازخود نوٹس پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی جبکہ چیئرمین پیمرا سے چینلز کیخلاف کارروائی کے اختیار سے متعلق بھی جواب طلب کرلیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے سلیم بیگ سے استفسار کیا کہ کیا پیمرا نے صحافیوں یا چینلز کے خلاف کارروائیوں کے ایس اوپیز مرتب کئے؟پیمرا کو آئین میں کارروائی کا طریقہ کارنہیں دیا گیا اس کے لئے ایس اوپیز بتانا ضروری ہیں، سپریم کورٹ ملک کے اعلیٰ ادارے کے طور پر صحافتی آزادی کا تحفظ کرے گا، حدود ہر چیز کی مقرر ہیں،یہ واضح ہونا چاہئے کہ آپ کی حدود کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے۔جائزہ لیں گے کہ الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی آرٹیکل 19سے متصادم تو نہیں ہے، گائیڈ لائنز جاری کریں گے جس پر حکومت اورتمام ادارے عمل کریں گے۔

عدالت نے اگلی سماعت پر ڈی جی ایف آئی اے، چئیرمین پیمرا اور آئی جی اسلام آباد کو ذاتی حثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیےملتوی کردی۔

واضح رہے کہ صحافیوں کو ہراساں کرنے خلاف درخواست پریس ایسوسی ایشن آف ‏سپریم کورٹ کی جانب سےدائرکی گئی۔

20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں کی درخواست پر صحافیوں کو ہراساں کرنے پر از خود نوٹس لیا تھا اور رجسٹرار کو کیس 26 اگست کو لگانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے اس ازخودنوٹس کا جائزہ لیتے ہوئے اہم سوال اٹھا دیا کہ ازخودنوٹس کا اختیار کس انداز میں استعمال ہوسکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل، وائس چیئرمین پاکستان بار اور معاونت کیلئے صدر سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس جاری کئے تھے۔