جب اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر مقدم رکھنے والے لوگ قوم کے سروں پر مسلط ہوں، تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمیں کڑسی سے چمڑے ان مفاد پرستوں اور غیرت سے عاری لالچی وزیروں سے گلا نہیں، ہمیں شکوہ خان صاحب سے ہے جو اپنی تقریبا ہرالیکشن تقریر میں کہتے تھے کہ میں جانتا ہوں کہ میرے پیچھے بیٹھا نمائندہ کرپٹ اور نا اہل ہے، مگر آپ نے اسے نہیں دیکھنا مجھے ووٹ دینا ہے۔
طیارہ حادثہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ وزیر موصوف استعفی دے کر گھر جاتے اور ان کے خلاف نا اہلی اورنیگلیجنس کے چارجز لگتے، تحقیقات ہوتیں۔ لیکن کیوں کہ روایت رہی ہے، اس لئے یہی گمان تھا کہ سارا ملبہ شہید ہونے والے پائلٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ مگر اس کا اندازہ نہیں تھا کہ سارے پائلٹوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق، بلکہ توپ چلا دی جائے گی، اور وہ بھی اپنے ہی ادارے کی طرف رخ کر کے۔
سوال یہ ہے کیا کہ ان مبینہ پائلٹوں کے لائسنس طیارہ حادثہ رونما ہونے کے بعد جعلی ہوئے ہیں، یا شروع سے ہی جعلی تھے۔ اور یہ خبریں تو موجودہ حکومت کے نازل ہونے سے پہلے ہی اخباروں کی زینت بن چکی تھیں۔ پھر دو سال ہونے کو آئے ہیں، موجودہ وزیر موصوف نے اس کے خلاف کیا کام کیا؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بین کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ہو سکتا ہے کہ انڈیا نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہو، مگر یہاں ہم یورپی یونین کومعذور سمجھتے ہیں، بلکہ اگر وہ یہ اقدام نہ اٹھاتی، تو اسے بھی تقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ جعلی لائسنسوں کی خبریں بہت عرصے سے گردش میں ہیں اور یورپی یونین کو بھی اس حوالے سے یقینا معلوم ہو گا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہرپسماندہ ملک میں یہی صورت ھال ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش افغانستان وغیرہ جیسے ممالک میں اگر چیک کیا جائے تو بہت سے ایسے پائلٹ مل جائیں گے۔ لیکن اگر ملک کا وزیر ہی اپنے دامن کو بچانے کیلئے اپنے ادارے کے ہاتھ کاٹنے کے درپے ہو تو کسی دشمن سے کیا گلہ۔
جو ہونا تھا سو ہو گیا، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا بھی نقصان ہو رہا ہے، وہ سب اس سے متعلقہ ذمہ داران(موجودہ و سابقہ)سے پورا کیا جائے۔ اب تک دی جانے والی ساری تنخواہ ریکور کی جائے، ان کی جائیدایں نیلام کی جائیں، اگر پھر بھی پورا نہیں ہوتا تو ان کے گردے وغیرہ بیچ دیئے جائیں، تا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ مگر حکومت کی پچھلی ڈھائی سالہ انتہائی مایوس کن کارکردگی کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ :۔
رشوت دے کر جعلی لائسنس بنوانے والے پائلٹوں
رشوت لے کر جعلی لائسنس و ڈگریاں دینے والے محکموں اور ان کے ذمہ داران
وہ وزیر اور مشیر جنہوں نے ان پائلٹوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا
اور وہ لوگ جنہوں نے سفارش یا رشوت قبول کرتے ہوئے،میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا
اور وہ لوگ جن کا کام تھا کہ وہ (کسی وقوعہ سے پہلے)ایسے جعل سازوں کوپکڑیں اور روکیں
وغیرہ وغیرہ کو کچھ بھی نہیں ہو گا، اور سوائے لیپا پوتی والے بیانات اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والے اقدامات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا(نوکری سے فارغ کرنا کوئی سزا نہیں) یہاں تک کہ اگلے ہفتے کوئی نیا سانحہ یا کھڑاگ ہو جائے گا، اور قلیل مدتی حافظہ رکھنے والی قوم(ہجوم) اس واقعے کو رونا پیٹنا شروع کر دے گی۔
طیارہ حادثہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ وزیر موصوف استعفی دے کر گھر جاتے اور ان کے خلاف نا اہلی اورنیگلیجنس کے چارجز لگتے، تحقیقات ہوتیں۔ لیکن کیوں کہ روایت رہی ہے، اس لئے یہی گمان تھا کہ سارا ملبہ شہید ہونے والے پائلٹ پر ڈال دیا جائے گا۔ مگر اس کا اندازہ نہیں تھا کہ سارے پائلٹوں کے کندھے پر رکھ کر بندوق، بلکہ توپ چلا دی جائے گی، اور وہ بھی اپنے ہی ادارے کی طرف رخ کر کے۔
سوال یہ ہے کیا کہ ان مبینہ پائلٹوں کے لائسنس طیارہ حادثہ رونما ہونے کے بعد جعلی ہوئے ہیں، یا شروع سے ہی جعلی تھے۔ اور یہ خبریں تو موجودہ حکومت کے نازل ہونے سے پہلے ہی اخباروں کی زینت بن چکی تھیں۔ پھر دو سال ہونے کو آئے ہیں، موجودہ وزیر موصوف نے اس کے خلاف کیا کام کیا؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس بین کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ہو سکتا ہے کہ انڈیا نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی کوشش کی ہو، مگر یہاں ہم یورپی یونین کومعذور سمجھتے ہیں، بلکہ اگر وہ یہ اقدام نہ اٹھاتی، تو اسے بھی تقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ جیسا کہ پہلے بھی کہا کہ جعلی لائسنسوں کی خبریں بہت عرصے سے گردش میں ہیں اور یورپی یونین کو بھی اس حوالے سے یقینا معلوم ہو گا، بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ہرپسماندہ ملک میں یہی صورت ھال ہے چنانچہ کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا بنگلہ دیش افغانستان وغیرہ جیسے ممالک میں اگر چیک کیا جائے تو بہت سے ایسے پائلٹ مل جائیں گے۔ لیکن اگر ملک کا وزیر ہی اپنے دامن کو بچانے کیلئے اپنے ادارے کے ہاتھ کاٹنے کے درپے ہو تو کسی دشمن سے کیا گلہ۔
جو ہونا تھا سو ہو گیا، اب ہونا تو یہ چاہیے کہ جتنا بھی نقصان ہو رہا ہے، وہ سب اس سے متعلقہ ذمہ داران(موجودہ و سابقہ)سے پورا کیا جائے۔ اب تک دی جانے والی ساری تنخواہ ریکور کی جائے، ان کی جائیدایں نیلام کی جائیں، اگر پھر بھی پورا نہیں ہوتا تو ان کے گردے وغیرہ بیچ دیئے جائیں، تا کہ دوسروں کے لئے عبرت ہو۔ مگر حکومت کی پچھلی ڈھائی سالہ انتہائی مایوس کن کارکردگی کو دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ :۔
رشوت دے کر جعلی لائسنس بنوانے والے پائلٹوں
رشوت لے کر جعلی لائسنس و ڈگریاں دینے والے محکموں اور ان کے ذمہ داران
وہ وزیر اور مشیر جنہوں نے ان پائلٹوں کو سیاسی بنیادوں پر بھرتی کروایا
اور وہ لوگ جنہوں نے سفارش یا رشوت قبول کرتے ہوئے،میرٹ سے ہٹ کر بھرتی کیا
اور وہ لوگ جن کا کام تھا کہ وہ (کسی وقوعہ سے پہلے)ایسے جعل سازوں کوپکڑیں اور روکیں
وغیرہ وغیرہ کو کچھ بھی نہیں ہو گا، اور سوائے لیپا پوتی والے بیانات اور گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے والے اقدامات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہو گا(نوکری سے فارغ کرنا کوئی سزا نہیں) یہاں تک کہ اگلے ہفتے کوئی نیا سانحہ یا کھڑاگ ہو جائے گا، اور قلیل مدتی حافظہ رکھنے والی قوم(ہجوم) اس واقعے کو رونا پیٹنا شروع کر دے گی۔